خیبر پختونخوا: سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کے خلاف گرینڈ ہیلتھ الائنس کی ہڑتال جاری

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، پشاور|

سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کے خلاف گرینڈ ہیلتھ الائنس خیبر پختونخوا کی ہڑتال دسویں روز میں داخل ہوچکی ہے اور شعبہ صحت کے تمام ملازمین بشمول ڈاکٹر، نرسز اور پیرا میڈیکس بلند حوصلے کے ساتھ تبدیلی حکومت کے نجکاری کے حملے کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ پشاور ہائیکورٹ سے گرفتار قیادت کی ہڑتال ختم کرنے کی شرط پر رہائی کو گرینڈ ہیلتھ الائنس نے مسترد کردیا ہے اور اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ جب تک نجکاری کا فیصلہ واپس نہیں لیا جاتا ہڑتال جاری رکھی جائے گی۔ ریڈ ورکرز فرنٹ، گرینڈ ہیلتھ الائنس خیبر پختونخوا کے تمام مطالبات کی غیر مشروط حمایت کرتا ہے اور صوبے بھر کے صحت کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔

گرینڈ ہیلتھ الائنس خیبر پختونخوا کی ہڑتال کا آغاز 27ستمبر کو اس وقت ہوا جب صوبائی حکومت نے لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں ہسپتالوں کی نجکاری کے مجوزہ منصوبے کے خلاف جاری ایک پرامن میٹنگ پرپولیس کے ذریعے حملہ کروایا گیا جس دوران پولیس کے بہیمانہ تشدد سے کئی ملازمین شدید زخمی ہوئے اور ان کی خون آلودہ تصویریں سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہیں جس پر خیبر پختونخوا حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس ریاستی جبر اور سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کے خلاف پورے صوبے کے تمام مراکز صحت پر آؤٹ ڈور بند کردئیے گئے جو کہ تاحال جاری ہے۔ ریاستی پروپیگنڈے کے برعکس تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی سروس میں شعبہ صحت کے ملازمین اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ اسی دن ہسپتال وارڈز سے ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکس سٹاف کو گرفتار کو گرفتار کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق 17 لوگ ابھی بھی پولیس کی حراست میں ہے جبکہ 53 لوگوں پر 3MPO کے تحت مقدمے بنا دیے گئے ہیں۔ گرفتار شدگان میں GHA کے صوبائی چئیرمین اور صدر بھی شامل ہیں۔ تاہم اس کے بعد نئی قیادت نے صمہ داری سنبھالی جو اب تک ہڑتال جاری رکھے ہوئے ہے۔ پورے خیبر پختونخواہ میں او پی ڈی سروسز اس وقت تک بند ہیں۔

یہ ہڑتال در اصل DHA/RHA ایکٹ کے خلاف ہے جو آسان الفاظ میں ہسپتالوں کی نجکاری کا عوام دشمن منصوبہ ہے۔ اس ایکٹ کے تحت ہسپتالوں کو سرکاری شعبہ صحت کے ذریعے نہیں بلکہ گورننگ بورڈ کے تحت چلایا جائیگا۔ اس بورڈ میں ایک ٹھیکیدار بھی ہوگا جو حتمی طور پر اپنے منافعے کیلئے ہی ہسپتال کو ٹھیکے پر لے گا۔ مفت علاج کی سہولت ختم ہوجائے گی۔ تمام ڈاکٹرز، پیرامیڈیکس، نرسز اور کلاس فور کے مزدور سرکاری ملازم نہیں رہیں گے اور نہ ہی ان کو پینشن دی جائے گی۔ ہر دفعہ کنٹریکٹ پر ہی ملازمین بھرتی ہونگے اور گورننگ بورڈ کی مرضی کے تابع ہونگے۔

خیبر پختونخواہ حکومت نے اس سے قبل پچھلے دور حکومت میں اصلاحات کے نام پر صوبے کے تمام ٹیچنگ ہسپتالوں میں MTIایکٹ نافذ کیا تھا جس کے بعد سے ان ہسپتالوں کی حالت زار عام عوام بخوبی جانتے ہیں۔ اور اب اس کے دائرہ کار کو ڈسٹرکٹ اور تحصیل کی سطح تک پھیلایا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں GHA نے وزیر اعلیٰ محمود خان سے بھی ملاقات کی جس میں اس نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ وہ بے بس ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آئی ایم ایف کی ہی شرط ہے جس کے تحت صحت جیسے بنیادی شعبے کو ایک بیوپار بنادیا جائیگا۔

پہلے ہی ہسپتالوں میں پریکٹس بیسڈ سروس شروع ہو چکی ہے جسے عام الفاظ میں نیم نجکاری کہا جاسکتا ہے۔ اس منصوبے کے تحت سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کے نجی معائنے شروع ہو چکے ہیں جس میں مریضوں سے بھاری فیسیں لیے جارہے ہیں۔ GHA کے ایک عہدیدار کے مطابق اب پی ٹی آئی کے حکومت میں 3 لوگوں کا اندھا راج چل رہا ہے جن میں عمران خان کے کزن نوشیروان برکی جو کہ امریکہ میں مقیم ہے، ڈین نورالایمان اور ڈاکٹر عامر بلال شامل ہے۔ دراصل ایم ٹی آئی نظام نافذ کرنے والا بھی نوشیروان برکی ہے۔ یہ اس دلال سرمایہ دارانہ حکومت کی حقیقت ہے جس میں غیر منتخب ٹولہ اپنی من مانیاں کر رہا ہے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ اصلاحات کے نام پر نجکاری کے اس عوام دشمن حملے کی شدید مذمت کرتا ہے اور اس جدوجہد میں پختونخوا کے شعبہ صحت کے محنت کشوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ مزید برآں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ نجکاری کے اس حملے کیخلاف نجکاری کی زد میں آئے تمام اداروں کے محنت کشوں کو مل کر لڑائی لڑنی ہوگی۔ اس وقت گرینڈ ہیلتھ الائنس پنجاب کے ڈاکٹر، نرسز اور پیرمیڈیکس بھی MTIایکٹ کے نام پر سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کیخلاف سرپا احتجاج ہیں۔ لیسکو اور فیسکو اور آئیسکو کی نجکاری کیخلاف واپڈا ہائیڈرو یونین کے محنت کش بھی احتجاجی جلسے منعقد کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں ایک مزدور تحریک زور پکڑ رہی ہے اور کوئٹی پریس کلب ملک کا سب سے مصروف ترین پریس کلب بن چکا ہے جہاں کئی اداروں کے محنت کشوں کیااحتجاجی کیمپ لگے ہوئے ہیں۔ سندھ میں بھی پورٹ مزدوروں سے لے کر نرسز اور اساتذہ مسلسل سڑکوں پر ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تما جدوجہدوں کی ایک لڑی میں پرویا جائے اور نجکاری، بیروزگاری، ڈاؤن سائزنگ اور اجرتوں میں کمی کے خلاف ایک ملک گیر عام ہڑتال کی جانب بڑھا جائے۔ یہی وقت کی ضرورت اور آگے بڑھنے کا واحد رستہ ہے۔

اس جڑت کا اظہار س وقت ہوا جب صوبائی حکومت کے ترجمان شوکت یوسفزئی نے کہا کہ ڈاکٹرز پکوڑے بیچتے تھے اور ہم نے ان کو روزگار دیا ہے تو وائی ڈی اے کوہاٹ کی عہدیدار ڈاکٹر جویریہ نے اس عوام دشمن حکومے کے نمائندے کا بھرپور جواب دیا کہ جناب پکوڑے بیچنے والا بھی مزدور ہے اور ہم ڈاکٹرز اس پکوڑے بیچنے والی کی توہین بھی برداشت نہیں کرسکتے کیونکہ ہم ینگ ڈاکٹرز خود مزدور ہیں اور ہمیں اپنے مزدور ہونے پر فخر ہے اور ساتھ ساتھ انہوں نے شوکت یوسفزئی سے یہ مطالبہ کیا کہ ملک بھر کے محنت کشوں سے معافی مانگے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب نجکاری کرنے کیلئے تمام سیاسی پارٹیوں کی پالیسی ایک ہے تو مزدور کیوں تقسیم ہوں؟ محنت کشوں کے اتحاد کے ساتھ ایک ملک گیر عام ہڑتال کے ذریعے ہی اس لڑائی کو جیتا جاسکتا ہے۔

Comments are closed.