’’تبدیلی‘‘ حکومت کا مہنگائی بم: عوام بدحال، سرمایہ دار خوشحال!

|تحریر:آفتاب اشرف|

نام نہاد تبدیلی حکومت کے معاشی شعبدہ باز اسد عمر نے 18ستمبر کو قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کرتے ہوئے عوام پر مہنگائی بم گرا دیا۔ توقعات کے عین مطابق سرمایہ دار طبقے کی اس نمائندہ حکومت نے قومی معیشت کی زبوں حالی کا رونا روتے ہوئے نوید سنائی کہ چونکہ ملک کے معاشی حالات بہت خراب ہیں لہٰذا قوم کو قربانی دینا ہو گی۔

ہمیشہ کی طرح لفظ ’قوم‘ کا استعمال محض عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے کیا گیا کیونکہ منی بجٹ کا سرسری مطالعہ بھی یہ واضح کر دیتا ہے کہ اس میں بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش عوام کے کندھوں پر ڈالا گیا ہے جبکہ سرمایہ داروں کو مزید چھوٹ دی گئی ہے۔مثلاً ٹیکس ،کسٹم اور ریگولیٹری ڈیوٹیوں میں اضافہ کرتے ہوئے عوام پر 182ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا گیا ہے۔اس سلسلے میں بینک سے یکمشت پچاس ہزار سے زائد رقم نکلوانے پر عائد ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح 0.4فیصد سے بڑھا کر 0.6فیصد کر دی گئی ہے ۔اس اقدام کا سارا بوجھ بینکوں کے درمیانے کھاتہ داروں یعنی ملازمت پیشہ درمیانے طبقے اور چھوٹے درمیانے تاجروں پر پڑے گا۔ اسی طرح چند لگژری آئیٹمز ،مثلاً 1800سی سی یا اس سے زائد کی گاڑیاں،مہنگے موبائل فون وغیرہ،پر ڈیوٹی بڑھا کر عام استعمال کی سینکڑوں درآمدی اشیا پر ڈیوٹی بڑھانے کا جواز پیدا کیا گیا ہے جس میں صابن،شیمپو،ٹوتھ پیسٹ سے لیکر بچوں کے خشک دودھ جیسی اشیا بھی شامل ہیں۔ ظاہر ہے جس بے رحم حکومت کے نزدیک روزانہ کی ایک روٹی کھانے والا شخص غریب کہلائے جانے کا مستحق نہیں ہے وہاں عوام کا ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنا تو یقیناًعیاشی کے زمرے میں ہی آتاہے۔ لیکن دوسری طرف زیرو ریٹڈ پانچ برآمدی صنعتوں (بشمول ٹیکسٹائل) کے استعمال میں آنے والے 82 درآمدی آئیٹمز پر ڈیوٹیاں کم کر کے صنعتکاروں کو خوش کیا گیا۔اور صرف یہی نہیں بلکہ ان نام نہاد برآمدی صنعتوں کو ملکی برآمدات بڑھانے کا بہانہ بنا کر بجلی اور گیس پر بھی سبسڈی دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ان تما م اقدامات سے ان صنعتوں کے مالکان کو تقریباً 50 ارب روپے کی چھوٹ دی گئی ہے۔ اسی طرح حکومت نے ترقیاتی بجٹ میں کم از کم 250ارب روپے کی کٹوتی کا اعلان کیا ہے۔لیکن اہم بات یہ ہے کہ ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کا سارا ملبہ زیادہ تر ایسے منصوبوں پر گرایا گیا ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے عوامی فلاح سے منسلک تھے(مثلاً نئے ہسپتال ،کھیت سے منڈی تک سڑکوں کی تعمیر وغیرہ) جبکہ سی پیک کے سامراجی منصوبے سمیت حکمرانوں کے لئے بھاری کک بیکس کا باعث بننے والے کسی بھی پراجیکٹ کو نہیں چھیڑا گیا۔ محتاط اندازوں کے مطابق ترقیاتی بجٹ میں یہ کٹوتی رواں مالی سال میں ملکی جی ڈی پی کے شرح اضافہ میں کم از کم 1.2فیصد کمی کا باعث بنے گی۔لیکن دوسری طرف ٹیکس چور طبقہ امرا کو ہر قسم کا ریلیف دیا جا رہا ہے جس کی ایک اور مثال حالیہ منی بجٹ میں ٹیکس چور اشرافیہ اور اوپری درمیانے طبقے پر ٹیکس ریٹرن جمع کرائے بغیر نئی گاڑیوں اور رئیل اسٹیٹ کی خرید وفروخت پر عائد پابندی اٹھانے سے ملتی ہے۔ یہ پابندی پانچ سالہ نواز حکومت کا واحد بہتر اقدام تھا۔ لیکن تبدیلی کی دعوے دار اس حکومت نے اسے ختم کر ڈالا۔اس پابندی کے خاتمے سے جہاں ایک طرف کالے دھن کی رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گاوہیں قیمتوں کے بلبلے بھی بنیں گے اور رہائش جیسی بنیادی ضرورت کی چیز عام آدمی کی پہنچ سے مزید دور ہو جائے گی۔ اسی طرح حکومت نے بارہ لاکھ تک سالانہ آمدنی رکھنے والے تنخواہ دار درمیانے طبقے کوبجٹ19-2018ء میں دی جانے والی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کا مکمل ہوم ورک کر رکھا تھا لیکن اسے سوشل میڈیا پر ہونے والی بے تحاشہ تنقید کی وجہ سے وقتی طور پر پیچھے ہٹنا پڑا لیکن ہم واضح طور پر بتائے دیتے ہیں کہ حکومت اگلے بجٹ میں (یا شائد اس سے بھی پہلے)یہ ٹیکس چھوٹ واپس لے گی۔

یہ منی بجٹ نام نہاد تبدیلی حکومت کا واحد عوام دشمن قدم نہیں ہے۔ اس سے پہلے موجودہ حکومت حلف اٹھانے سے بھی قبل 200 سرکاری اداروں کی نجکاری کا عندیہ بھی دے چکی ہے۔ اس فہرست میں ریلوے،سٹیل مل، پی آئی اے، واپڈا، ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں سمیت بے شمار سرکاری ادارے شامل ہیں۔ نجکاری کے اس مزدور دشمن منصوبے پر پوری شدومد کے ساتھ کام بھی شروع ہو چکا ہے۔یوٹیلیٹی سٹورز کی بندش، ریڈیو پاکستان کے مرکزی ہیڈ کوارٹر کی بلڈنگ کولیز پر دینے کا حکم اور ریلوے کی قیمتی اراضی کو فروخت یا طویل لیز پر دینے جیسے اعلانات اسی سمت میں اشارہ کرتے ہیں۔ مگر اس منی بجٹ کے گرد ہونے والی بحث میں اسد عمر نے مزید عندیہ دیا کہ ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی سے لگنے والے جھٹکے کے اثرات کو کم کرنے کے لئے حکومت ’’آف بیلنس شیٹ فنانسنگ‘‘ کا راستہ اختیار کرے گی۔ اس ثقیل اصلاح کی تکنیکی موشگافیوں سے قطع نظر، آسان الفاظ میں یہ طریقہ کار سرکاری پراجیکٹس میں نجی سرمایہ کاری اوربھاری منافع خوری کا راستہ کھول دے گا اور چونکہ یہ سب پراجیکٹ کی آفیشل بیلنس شیٹ کا حصہ نہیں ہو گا لہٰذا عوام کو کچھ پتا نہیں چلے گا کہ کس نے کتنی سرمایہ کاری کی اور کتنا منافع بٹورا گیا۔ہے نا پھر آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام والی صورتحال۔ اسی طرح اس منی بجٹ سے پہلے ہی حکومت نے گیس کی قیمتوں میں مجموعی طور پر 143فیصد اضافے کا اعلان کر دیا تھا۔ ابتدا میں اس معاملے میں بھی حکومت کا ارادہ قیمتوں میں اضافے کا زیادہ بوجھ عام صارفین پر ڈالنے کا تھا لیکن پھر سوشل میڈیا پر ہونے والی شدید تنقید اور اقتدار کے پہلے مہینے میں ہی تیزی سے گرتی ہوئی مقبولیت کے خوف نے حکومت کو وقتی طور پر پیچھے ہٹنے اور پرائس سلیب پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں اگر صنعتکاروں کے ان پٹ اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے تو وہ اس کا بوجھ فوراً سے پہلے اپنی صنعتوں کے محنت کشوں اور عام صارفین پر منتقل کر دیتے ہیں۔ مزید براں بے شمار صنعتوں کو ویسے ہی حکومت سے گیس میں سبسڈی مل رہی ہے اور جن کو نہیں مل رہی ان کے لئے حکومتی اہلکاروں کیساتھ مل کر گیس چوری کرنے کا راستہ تو کھلا ہی ہے۔ لہٰذا گیس کی قیمتوں میں نظر ثانی شدہ اضافے کا بوجھ بھی حتمی تجزیے میں عوام پر ہی پڑے گا نہ کہ سرمایہ داروں پر۔ اسی لئے سیمنٹ ،فرٹیلائیزر اور بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو رہا ہے جس سے عوام کی زندگی مزید مشکل ہو چکی ہے۔ یاد رہے کہ فرٹیلائیزر کی قیمتوں میں کھاد ساز کمپنیوں کی اجارہ دارانہ من مانی کے سبب فی بوری 800روپے اور عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت میں اضافے کے سبب فی یونٹ بجلی کی قیمت میں 1.16روپے کا اضافہ پہلے ہی ہو چکا ہے۔ اسی طرح پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری بھی اوگرا کی جانب سے حکومت کو بھجوا دی گئی ہے۔ اضافے کا جواز عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت میں اضافے کو بنایا گیا ہے۔ ماضی کی طرح یہ عوام دشمن حکومت بھی پیٹرولیم مصنوعات پر عائد بالواسطہ ٹیکسوں میں کمی کر کے عوام کو ریلیف دینے کی بجائے عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافے کا سارا بوجھ عوام پر لادنے کا ارادہ رکھتی ہے۔اس سے مہنگائی کے طوفان میں مزید اضافہ ہو گا۔ جبکہ دوسری طرف برطانوی رئیل اسٹیٹ ٹائیکون انیل مسرت اور ملکی رئیل اسٹیٹ کنگز (بشمول فوجی رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز) کو عوام کا نام استعمال کر کے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر جیسے فراڈ پراجیکٹ کی مد میں کھربوں روپے کے سرکاری ٹھیکوں سے نوازنے کا پلان تیار ہو چکا ہے۔یوں لگتا ہے جیسے اندھیر نگری چوپٹ راجہ کا محاورہ ایسی ہی صورتحال کے لئے تخلیق ہوا تھا۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مقتدر اداروں کی اس لاڈلی حکومت کو عوامی غیض وغضب سے بچانے کے لئے بہت سے عوام دشمن اقدامات نگران حکومت کے دور میں ہی کر لئے گئے تھے۔ ان میں ملکی کرنسی میں تیز گراوٹ اور پیٹرولیم مصنوعات میں ہوش ربا اضافے جیسے اقدامات شامل تھے۔ لیکن اس سب کے باوجود عالمی معاشی سست روی سے منسلک ملکی معیشت میں گراوٹ کا بوجھ محنت کش عوام کے کندھوں پر ڈالنے کے لئے موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی عوام پر تابڑ توڑ معاشی حملے کرنا شروع کر دیے جن کا یہ منی بجٹ محض ایک حصہ ہے۔ظاہر ہے کہ یہ عوام دشمن سرمایہ دار حکومت نہ تو بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لئے مختص رقم میں کمی کر سکتی ہے۔نہ فوجی بجٹ میں کٹوتی کر سکتی ہے اور نہ ہی سرمایہ دار طبقے پر ٹیکس لگا سکتی ہے لہٰذا اس کے پاس بچنے والا واحد راستہ عوام کی ہڈیاں نچوڑنا ہی ہے اور یہ وہی کر رہی ہے۔لیکن ان سب اقدامات کے باوجود بہت سے بورژوا ماہرین معیشت حکومت سے خوش نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو بجٹ اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کنٹرول کرنے کے لئے اس سے بھی زیادہ سخت ( یعنی عوام دشمن) اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کاٹھ کے الوؤں کے لئے اطلاع ہے کہ حکومت بالکل ایسا ہی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن اپنی گرتی ہوئی مقبولیت اور شدید عوامی تنقید کے خوف سے تھوڑا سنبھل کر چلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسی لئے یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ تو محض شروعات ہے۔ اس جیسے کئی منی بجٹ اور آئیں گے اور اگر عوامی مزاحمت نے حکومتی حملوں کے سامنے بند نہ باندھا تویہ حکومت اپنے اقتدار کے پہلے سال میں ہی عوام کی معاشی بد حالی میں کئی گنا اضافے کا موجب بنے گی۔

ملکی معیشت کے دیگر میکرو اکنامک انڈیکیٹرز کی صورتحال بھی نہایت تشویشناک ہے۔ مالی سال 19-2018ء میں معیشت کے بیرونی شعبے کی زر مبادلہ کی ضروریات 26 ارب ڈالر سے زائد ہیں۔ اس رقم کا ایک بڑا حصہ(11 ارب ڈالر) پچھلے قرضوں اور سود کی ادائیگیوں کی مد میں خرچ ہونا ہے۔ حتیٰ کہ حکومت کو فوری ادائیگیوں کے لئے بھی آئندہ چند ماہ میں کئی ارب ڈالر کی رقم چاہئے جبکہ سٹیٹ بینک کے زر مبادلہ کے ذخائرچینی بینکوں سے لئے گئے حالیہ دو ارب ڈالر کے قرضے(جس میں سے ایک ارب ڈالر ٹرانسفر ہو چکے ہیں) اور سعودی عرب کے اسلامک ڈویلپمنٹ بینک سے تیل کی خریداری کے لئے ملنے والی 4.5ارب ڈالر کی تین سالہ ٹریڈ کریڈٹ کی سہولت کے باوجود لگ بھگ 9ارب ڈالر تک گر چکے ہیں جو کہ تین ماہ کی درآمدات کے لئے بھی ناکافی ہیں۔ اس سب کے نتیجے میں جہاں ایک طرف روپے کی قدر میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے وہیں پاکستانی معیشت کے سر پر ادائیگیوں کے توازن کا بحران بھی منڈلا رہا ہے۔اس ساری صورتحال سے نکلنے کے لئے مختلف سامراجی طاقتوں کی گماشتہ اور ملکی سرمایہ دار طبقے کی نمائندہ اس ریاست اور حکومت کے پاس واحد نسخہ مزید قرض لینے کا ہے۔ یہ قرضہ چین سے بھی لیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی بھی منتیں کی جا رہی ہیں۔ حکومت انتہائی بلند شرح سود پر عالمی مالیاتی منڈی میں بانڈز فروخت کرنے کی بھی تیاری کر رہی ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس سب کے باوجود ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے بچنے کے لئے حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔آئی ایم ایف کے وفد کا حالیہ دورہ اسی حقیقت کی غمازی کرتا ہے۔

لیکن اس بار واشنگٹن کی ناراضگی کی وجہ سے آئی ایم ایف کی شرائط نہایت ہی سخت ہوں گی۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے دورے پر آنے والے وفد نے حکومت سے ایک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 150تک گرانے کا مطالبہ کیا ہے اور بعض ذرائع کے مطابق حکومت روپے کی قدر 135تک گرانے پر فوری رضامند بھی ہو گئی ہے۔ صرف اس خبر کے لیک ہونے سے ہی کمزور روپیہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں گر کر 128 تک پہنچ چکا ہے۔ اسی طرح 200اداروں کی نجکاری کا پلان بھی آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی خاطر ہی تشکیل دیا گیا ہے۔ اس بار حکومت کا طریقہ واردات یہ ہے کہ قرضہ لینے کے بعد سخت شرائط لاگو کرنے سے پیدا ہونے والے ممکنہ عوامی رد عمل سے بچنے کے لئے قرض لینے سے پہلے ہی یہ سب کر دیا جائے تا کہ نام نہاد ملکی خود محتاری کا بھرم قائم رکھا جا سکے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کی جتنی شرائط پوری کرتی جائے گی،اس کے مطالبے مزید سخت ہوتے جائیں گے۔اسی صورتحال سے بچنے کے لئے حکومت واشنگٹن کو خوش کرنے کی بھر پور کوششیں کر رہی ہے لیکن اس بار ایسا کرنا آسان نہیں ہو گا۔ داخلی قرضے کی بھی یہی صورتحال ہے۔حد تو یہ ہے کہ حال ہی میں ملک کے نجی بینکوں نے گردشی قرضوں کی ادائیگی کے لئے حکومت کی جانب سے کی گئی پچاس ارب روپے قرضے کی درخواست مسترد کر دی۔ نجی بینکوں کی ایسوسی ایشن کے نمائندے کا کہنا تھا کہ حکومت اپنے اقتدار کے انتہائی مختصر عرصے میں ہی ان سے 600 ارب روپے کا قرضہ اٹھا چکی ہے اور وہ حکومت کو مزید قرض نہیں دے سکتے۔ حکومت کی زبردست منت سماجت کے بعد نجی بینکوں نے اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا وعدہ کیا ہے اور امکان ہے کہ وہ پہلے کی نسبت بلند شرح سود پر یہ قرضہ دینے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ اسی طرح روپے کی گراوٹ کی وجہ سے بڑھتے ہوئے افراط زر کو قابو میں رکھنے کے لئے سٹیٹ بینک نے حال ہی میں بینچ مارک شرح سود کو بڑھا کر 8.5فیصد کر دیا ہے۔ اس سے افراط زر میں تو کوئی خاطر خواہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ روپے کی قدر میں کمی کا باعث بننے والے عوامل مزید شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں لیکن نجی صنعتیں اور کاروبار اور درمیانے طبقے کی قوت خرید مہنگے قرضوں کی وجہ سے ضرور متاثر ہو گی جس کے منفی اثرات لامحالہ طور پر ملکی جی ڈی پی پر پڑیں گے۔اس کے علاوہ اس اقدام سے حکومت کو ملکی بینکوں سے ملنے والے داخلی قرضے بھی مزید مہنگے ہو جائیں گے۔لیکن حکمران طبقے کو اس سب سے کوئی پریشانی نہیں ہے کیونکہ بیرونی قرضے بڑھیں یا داخلی قرضوں میں اضافہ ہو، ان کی واپسی تو عوام کا خون نچوڑ کر (نجکاری اور بالواسطہ ٹیکسوں کی بھر مارسے) ہی کی جاتی ہے۔ یہ سب ’کرے کوئی ،بھرے کوئی‘ کی نہایت ہی شاندار مثال ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کا عالمی بحران مستقبل قریب میں مزید شدت اختیار کرے گا۔ اب تو اس حقیقت کو دنیا کے سنجیدہ ترین بورژوا معیشت دان بھی تسلیم کرتے ہیں۔ ایسی کیفیت میں پاکستان جیسے ملک کی پسماندہ سرمایہ داری سے بہتری کی کوئی بھی امید رکھنا سخت بیوقوفی ہو گی۔ پوری دنیا میں حکمران طبقہ اس بحران کا بوجھ محنت کشوں کے کندھوں پر ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے اور جواب میں محنت کش طبقہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ پاکستان میں بھی یہی سب ہو رہا ہے اور مستقبل میں اس طبقاتی لڑائی میں مزید شدت آئے گی۔ان سب مسائل سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ سوشلسٹ انقلاب کی طرف جاتا ہے۔صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی مزدور ریاست ہی تمام ذرائع پیداوار کو محنت کشوں کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لیتے ہوئے نہ صرف سامراجی مالیاتی شکنجے سے نکل سکتی ہے بلکہ ایک منصوبہ بند معیشت کو استوار کرتے ہوئے سماج کے تمام افراد کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کو یقینی بنا سکتی ہے۔

(نوٹ: یہ آرٹیکل ماہانہ ورکرنامہ کے اکتوبر 2018ء ایڈیشن کے لئے لکھا گیا۔)

Comments are closed.