کشمیر: مارچ کے آخر تک منظور شدہ مطالبات پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں اساتذہ کا احتجاج جاری رکھنے کا اعلان

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کشمیر|

گزشتہ پانچ سال سے پاکستان زیر انتظام کشمیر کے اساتذہ سکیل اپ گریڈیشن اور مستقل تعیناتی کے منظور شدہ مطالبات کے نوٹیفیکیشن کے لیے سراپا احتجاج ہیں اور حکومت کی جانب سے کوئی بھی سنجیدہ اقدام نہیں کیا گیا۔

6 جنوری 2021ء کو آزاد کشمیر ٹیچرز آرگنائزیشن کی زیر قیادت احتجاجی مظاہرہ ہوا جس پر ریاست نے حسبِ روایت بدترین تشدد کیا اور متعدد اساتذہ زخمی ہوئے۔ ریاست کے اس ظالمانہ رویے کے خلاف نوجوان اساتذہ میں شدید غم و غصے کی لہر نے جنم لیا اور 16 فروری کو پورے کشمیر کے اساتذہ نے مظفرآباد کی طرف مارچ کی کال دی۔

احتجاج کے لیے پورے کشمیر سے اساتذہ مظفرآبادکی طرف روانہ ہوئے اور مظفرآباد اسمبلی کے سامنے ہزاروں کی تعدادمیں جمع ہو کر احتجاجی ریلی اور جلسے کا انعقاد کیا۔ جلسے میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ جب تک حکومت ہمارے مطالبات کے حق میں نوٹیفیکیشن جاری نہیں کرتی تب تک تعلیمی اداروں میں مکمل تدریسی بائیکاٹ کیا جائے گا جس پر تمام اساتذہ نے اتفاق کیا اور تقریباً دس دن تک بائیکاٹ کا سلسلہ جاری رہا۔حکومت کی طرف سے تدریسی سرگرمی بحال کروانےکے لیےمزاکراتی کارروائی عمل میں لائی گئی اور بہت جلدمنظور شدہ مطالبات کا نوٹیفیکیشن جاری کرنےکی یقین دہانی کروائی گئی جس پر اساتذہ نے مشروط طور پر بائیکاٹ کے خاتمے کا اعلان کیا ہے۔ اساتذہ کی طرف سے واضح کیا گیا کہ اگر مارچ کے آخر تک ان کے مطالبات منظور نہ کیے گئے تو وہ اپنے احتجاجی سلسلے کو دوبارہ شروع کریں گے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ اساتذہ کے مطالبات کی مکمل حمایت کرتا ہے اور اساتذہ پر ہونے والے ریاستی تشدد کی بھرپور مذمت کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنا واضح موقف بھی پیش کرتا ہے کہ کشمیر کے اساتذہ کو پورے ملک میں سرکاری و نجی اداروں کے محنت کشوں کی جاری جدوجہد کے ساتھ جوڑ کر مشترکہ جدوجہد کا رستہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ وقت آگیا ہے کہ پورے ملک کا محنت کش طبقہ ایک ملک گیر عام ہڑتال کی جانب بڑھے۔ اسی صورت میں آج اپنے جائز مطالبات بھی منوائے جا سکتے ہیں اور سرمایہ دارارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کو بھی تیز کیا جا سکتا ہے۔

Comments are closed.