دہشت گردی کا پاگل پن اور سرمایہ داری کی علالت

|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: ولید خان|

22 مئی کی روشن شام کو ہزاروں افراد، جن میں زیادہ تر نو عمر تھے، مانچسٹر ارینا میں ایک پاپ کنسرٹ کیلئے اکٹھے ہوئے۔ لیکن اس خوشیوں بھرے موقع کو ایک خود کش بمبار نے خون میں نہلا دیا جب اس نے پرہجوم دالان میں اکٹھے ہوئے اپنے بچوں کا انتظار کرتے والدین کے درمیان اپنے آپ کو بارود سے اڑا دیا۔
زیادہ تر مرنے والوں اور زخمیوں میں بچے اور نو عمر شامل تھے جن میں سے ایک کی عمر آٹھ سال تھی۔ بہت سارے ابھی بھی مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ مارے جانے والے مظلوم اور کنسرٹ میں جانے والے گمشدہ لوگوں کی دل دہلا دینے والی تصویریں انٹرنیٹ پر پوسٹ کی گئیں۔ مانچسٹر شہر کی تاریخ میں دہشت گردی کا یہ سب سے زیادہ ہولناک واقعہ ہے۔

to read this article in English, click here

پھر 3 جون کو لندن میں ایک نئے دہشت گردی کے واقعے میں سات لوگ قتل اور 48زخمی ہوئے۔ برطانیہ میں پچھلے تین مہینوں میں یہ تیسرا دہشت گردی کا بڑا واقعہ ہے۔ رات تقریباً دس بجے لندن برج پر پیدل چلنے والوں پر ایک وین چڑھا دی گئی۔ جب وین رکی تو تین آدمی باہر آئے اور انہوں نے تھیمس دریا کے جنوب میں بوروہ مارکیٹ کے آس پاس کے علاقے میں مختلف ریستورانوں اور شراب خانوں میں گھس کر لوگوں پر اندھا دھند خنجر چلانے شروع کر دئیے۔ ان تینوں کو، جنہوں نے اس گھناؤنے عمل کا آغاز ’’یہ اللہ کیلئے ہے‘‘ کا نعرہ لگاکر کیا تھا، پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

مانچسٹر اور لندن میں دہشت گردی کے ان خونریز واقعات سے پورے سماج میں صدمے اور نفرت کی لہر دوڑ گئی ہے۔ لیکن ان کے کردار مختلف ہیں۔ لندن میں ہونے والا واقعہ بے ڈھنگا اور بے ہنگم تھا جبکہ مانچسٹر میں ایک جدید بم استعمال کیا گیا جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو قتل کرنا تھا۔

ان دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ داعش نے ذمہ داری قبول کر لی ہے لیکن اس کی تاحال تصدیق نہیں ہو سکی۔ تنظیم کی عمق خبر رساں ایجنسی نے اتوار کے دن دیر گئے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ ’’ کل لندن میں ہونے والے حملے کو داعش کے جنگجوؤں نے سر انجام دیا۔‘‘
نومبر 2015ء میں پیرس میں باٹاکلان دہشت گردی کی طرز پر اس مرتبہ بھی ایک پاپ کنسرٹ کو ٹارگٹ کیا گیا۔ داعش اور القاعدہ سے متاثر ہو کر دہشت گردی کے ان واقعات میں ملوث جہادی دہشت گرد اراداتاً بڑے عوامی مقامات کو چنتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ یہ ’’مغربی اخلاقی پستی‘‘ کے نمونے ہیں لیکن زیادہ اہم وجہ یہ ہے کہ یہ ’’کمزور‘‘ ٹارگٹ ہوتے ہیں جن پر کم سے کم خطرے کے ساتھ حملہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ حقیقت کہ اس طرح کے واقعات میں زیادہ تر مظلوم بچے اور نو عمر ہوتے ہیں، ان وحشیوں کی نظر میں مثبت پہلو ہے۔ اس کے برعکس، اپنی ہولناکی کی وجہ سے یہ عنصر ان کے مسخ شدہ ایجنڈے کو بہت زیادہ تقویت فراہم کرتا ہے۔

کوئی خود کش حملہ آور ایک کنسرٹ میں بچوں اور جوانوں کو کیلوں اور بولٹوں سے لدے بارودی مواد سے نشانہ بنائے تو عوام کی بھاری اکثریت کیلئے یہ مکروہ عمل کسی بیمار پاگل دماغ کا ہی نتیجہ ہو سکتا ہے۔ یہ نتیجہ اخذ کرنا منطقی تو ہو سکتا ہے لیکن اس سے کسی تفصیل کا پتہ نہیں چلتا۔ ہم اتفاق کر سکتے ہیں کہ اس طرح کی اندھا دھند دہشت گردی پاگل پن کا ایک مظہر ہے۔ لیکن یہ بہت ضروری ہے کہ اس پاگل پن کے جنم کی نشاندہی کی جائے۔

مانچسٹر کے 22سالہ برطانوی مسلم قاتل سلمان عابدی کو برطانوی انسداد دہشت گردی فورسز جانتی تھیں۔ مانچسٹر میں پلے بڑھے عابدی کا خاندان لیبیا سے ہے اور وہ اکثر لیبیا آتا جاتا تھا جہاں اس کا باپ ایک جہادی دہشت گرد تنظیم میں سرگرم ہے۔ عابدی کے ایک جاننے والے نے بتایا کہ وہ ’’سر پھرا‘‘ تھاجس کی شہرت بے شمار چھوٹے جرائم میں شمولیت کی وجہ سے تھی۔ جاننے والے کا کہنا تھا کہ ’’کل وہ منشیات فروش تھے ، آج وہ مسلمان ہیں۔‘‘ ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ وہ سمجھتا ہے کہ عابدی انیل خلیل راؤفی، ڈِڈس بری سے داعش کا ایک ریکروٹر جو شام میں مارا گیا، اور عابدی دونوں دوست بھی تھے۔

پولیس کو ابھی تک کسی دہشت گرد سیل کی تھیوری سے متعلق کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے ہیں اور وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ قاتلانہ حملہ ایک ہی دہشت گرد کا کام ہے۔ لیکن، دوسرے عناصر یہ نشاندہی کرتے ہیں کہ اس حملے میں ملوث عابدی نے شاید لیبیا سے تربیت لی ہو۔ وہ حال ہی میں وہاں پر موجود تھا۔ 24 مئی کو اس کے بھائی اور باپ کو طرابلس میں گرفتار کیاگیا۔ ملیشیا کا کہنا ہے کہ اس کا بھائی داعش کا ممبر تھا اور طرابلس پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔

تھریسا مے: ریاکاری کا بھونڈا مذاق

مانچسٹر کے قتل عام کے فوراً بعد انتخابات پر گدھ کی نظر جمائی ہوئی تھیریسا مے نے دہشت گردی کے خطرے کا لیول ’’شدید‘‘ سے ’’دقیق‘‘ کر دیا۔ پہلی مرتبہ برطانیہ کی مرکزی سرزمین کی گلیوں پر فوج کو اتارا گیا۔ ایک بڑا ڈرامائی اور مضحکہ خیز اشارہ تھا! لیکن اس کے کیاٹھوس نتائج برآمد ہوئے؟ کچھ بھی نہیں۔ ایک ڈیڑھ دن سپاہی گلی کوچوں میں عجیب بے ہنگم انداز میں بغیر کسی ارادے کے کھڑے رہے۔ پھر انہیں واپس بیرکوں میں بھیج دیا گیا۔ جن ملزموں کو نہایت پھرتی سے گرفتار کیا گیا تھا انہیں ایک ایک کر کے کسی فرد جرم کے بغیر ہی چھوڑ دیا گیا۔

چند دنوں بعد لندن برج پر ہمیں دہشت گردوں کے پاگل پن کا سامنا کرنا پڑا۔ لندن برج کے حملے کے بعد مے نے ہمیں خبردار کیا کہ:’’بہت ہو گیا۔بس اب اور نہیں‘‘، چیزوں کو اب تبدیل ہونا پڑے گا وغیرہ وغیرہ۔ اگر دہشت گردی کو شکست دینے کیلئے صرف 10 ڈاؤننگ سٹریٹ (برطانوی پرائم منسٹر کی سرکاری رہائش) کی سیڑھیوں سے تقریروں کی ہی ضرورت ہوتی تو داعش، القاعدہ اور طالبان کی قوتیں کب کی اپنے ہتھیار ڈال کر شجر کاری میں مصروف ہو چکی ہوتیں۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ مسز مے کی لفاظی سے رتی برابر بھی فرق نہیں پڑنے لگا۔

22مارچ 2017: برطانوی وزیراعظم تھریسامے ویسٹ منسٹر میں دہشت گرد حملے پر بیان جاری کرتے ہوئے

تھریسا مے 2010ء سے وزیر داخلہ تھی اور اب کافی مہینوں سے وزیر اعظم ہے۔ ایک سوال ذہن میں اٹھتا ہے: ’’بہت ہو گیا‘‘ سات سال پہلے کیوں نہیں ’’بہت ہو گیا‘‘ تھا؟ کیا برطانوی عوام کو ایک انتخابی مہم کا انتظار کرنا پڑے گا جب تک مسز مے اس نتیجے پر پہنچیں گی کہ ’’چیزوں کو اب تبدیل ہونا پڑے گا‘‘؟ ہمیں ایک بات کا یقین ہے۔ ٹوری جو مرضی کر لیں، وہ مستقبل میں بھی دہشت گردی کے مزید واقعات کو رونما ہونے سے نہیں روک سکیں گے جو مشرق وسطیٰ میں ان کی مداخلت اور امریکی سامراج کی پالیسیوں کا مشترکہ نتیجہ ہیں۔ اس عسکری ڈرامے سے برطانوی عوام کو دہشت گردی سے بچانے کے بجائے الٹا اثر پڑا ہے۔

یہ کھلی حقیقت اس وقت مزید آشکارا ہوگئی جب 31 مئی کو کابل میں شدید ہجوم والے وقت میں ایک ٹینکر ٹرک میں چھپایابارودی مواد دھماکے سے پھٹ گیا۔ دھماکے کی وجہ سے میل دور تک کھڑکیاں چکنا چور ہو گئیں اور کالے دھوئیں کے بادلوں نے شہر کو گھیرے میں لے لیا۔ کم از کم 90 لوگوں کی موت ہو چکی تھی اور 460 سے زائد زخمی تھے۔ یہ پچھلے سولہ سالہ خانہ جنگی کے سب سے خطرناک حملوں میں سے تھا۔ یہ بہت سارے قریبی غیر ملکی سفارت خانوں کے پاس ایک نام نہاد ’’محفوظ علاقہ‘‘ تھا۔ کابل کو چیرنے والے بم نے یہ ثابت کر دیا کہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ ناکام ہو چکی ہے۔

جہاں تک پولیس کے ذریعے کوششوں کا تعلق ہے تو ان کا معمولی اثر پڑا ہے۔ برطانوی خفیہ ایجنسی MI5 کے پاس 3000 افراد کی فہرست ہے جنہیں مذہبی جنونی سمجھا جاتا ہے لیکن ان کے پاس ان میں سے صرف چالیس کی چوبیس گھنٹے نگرانی کرنے کیلئے ذرائع موجود ہیں کیونکہ چوبیس گھنٹے کی نگرانی کیلئے 18 افسر چاہیے ہوتے ہیں۔ اور اس کے بھی متعلق قوانین موجود ہیں کہ ایک شخص کی اس طرح کی انتہائی نگرانی کتنے عرصے تک کیلئے کی جا سکتی ہے۔ اور اگر کچھ نہیں تو مسز مے کی کٹوتیوں کی وجہ سے پچھلے سات سالوں میں 20,000 پولیس اہلکاروں کو فارغ کیا جا چکا ہے۔

دہشت گردوں کو شکست دینے کیلئے عوام اور خاص طور پر مسلم عوام کی فعال حمایت کی ضرورت ہے۔ لیکن لوگوں کو حکومت یا سیاسی اسٹیبلشمنٹ پر اب کوئی اعتماد نہیں رہا۔ زیادہ تر عوام ویسٹ منسٹر سے بیگانہ ہو چکی ہے اور یہ بیگانگی بیروزگاری، غربت، گھٹیا رہائش، نسل پرستی اور امتیازی سلوک کے بے قابوتناسب کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ وہ زرخیز زمین ہے جہاں بیگانہ اور تنگ آئے نوجوانوں کی ایک پرت میں دہشت پسند موڈ پروان چڑھ سکتا ہے۔ صرف ان سماجی مسائل کے حل میں ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فتح حاصل کی جا سکتی ہے۔

مانچسٹر کے گھناؤنے واقع کے بعد تین دن تک تمام سیاسی پارٹیوں نے الیکشن مہم کو موخر کر دیا۔ لیبر کی مہم کو دوبارہ سے شروع کرتے ہوئے جیرمی کوربن نے بے باکی سے مانچسٹر میں خود کش حملے جیسے واقعات کو برطانیہ کی بیرون ملک جنگوں کے ساتھ جوڑا۔ اس نے وجہ بتائی کہ کس طرح ’’وہ جنگیں جن کی ہماری حکومت نے حمایت کی ہے یا دوسرے ملکوں میں لڑی ہیں اور ادھر گھر میں دہشت گردی‘‘ کے درمیان براہ راست تعلق بنتا ہے۔

اس بات کے فوراً بعد توقع کے عین مطابق مے نے فوراً اشتعال انگیز جواب دیتے ہوئے یہ الزام لگایا کہ کوربن ’’دہشت گردی کے واقعات کا برطانیہ کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے‘‘ اور ’’دہشت گردی کی توجیہہ پیش کر رہا ہے۔‘‘ یہ کوربن کے موقف کے برعکس ہے جس میں اس کا اصرار ہے کہ اس کی اس تشخیص سے انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ایجنسیاں متفق ہیں اور ’’اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ جو ہمارے بچوں کو نشانہ بناتے ہیں ان کے جرائم کسی طرح بھی کم ہوتے ہیں۔‘‘اس نے کہا ہے کہ، ’’یہ دہشت گرد ہمیشہ کیلئے قابل نفرت ہیں اور ان کو ان کے جرم کی بھرپور سزا ملنی چاہیئے۔‘‘

اس نے عہد کیا کہ ’’بیرون ملک ہمارا رویہ یقیناًتبدیل ہو گا‘‘ اور ’’دہشت گردی کی وجوہات کی عقلمندانہ سمجھ بوجھ اس کے خلاف لڑنے کی حکمت عملی کا ایک اہم جزو ہے جس سے ہم اپنے لوگوں کی حفاظت کریں، جو دہشت گردی کو ہوا دینے کے بجائے اس کا مقابلہ کرے۔ ہمیں یہ اقرار کرتے ہوئے ڈرنا نہیں چاہیئے کہ ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف جنگ ناکام ہو چکی ہے۔ ہمیں ان ممالک کا مقابلہ کرنے کیلئے چاک و چوبند حکمت عملی چاہیئے جو دہشت گردوں کو پالتے ہیں اور دہشت گردی کے پھیلاؤ کا سبب ہیں۔‘‘

ٹوریوں کے پر جوش احتجاج کے باوجود اس میں کوئی شک نہیں کہ عراق، افغانستان، لیبیا اور شام میں برطانیہ کی مداخلت اور دہشت گردی کا آپس میں ایک تعلق موجود ہے۔ یہ ایک سادہ حقیقت ہے کہ عراق پر فوج کشی سے پہلے جوٹونی بلیئر اور جارج بش کا بربریت زدہ جرم تھا، برطانیہ میں ایک بھی دہشت گردی کا واقعہ پیش نہیں آیا تھا،، ایک بھی۔ اس سے پہلے القاعدہ کی عراق اور شام میں کوئی بنیادیں موجود نہیں تھیں اور داعش کا کوئی وجود نہیں تھا۔ یہ حقائق ہیں اور حقائق بہت ڈھیٹ ہوتے ہیں۔

لیبیا سے تعلق

یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ مانچسٹر کے خود کش حملہ آور سلمان عابدی کا لیبیا سے گہرا تعلق تھا۔ اس کا باپ ایک اسلامی شدت پسند تھا جو قدافی سے بچ کر نکلا اور برطانیہ نے اسے اس دیرینہ اصول کے تحت اپنی حفاظت میں لے لیا کہ: میرے دشمن کا دشمن میرا دوست ہے۔ لیکن سفارت کاری بہت خطرناک دلدل ہے اور آج کے دشمن پلک جھپکنے میں کل کے دوست اور حلیف بن سکتے ہیں۔

عام طور پر یہ حقیقت معلوم نہیں کہ برطانوی حکومت شام جا کر اسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے مسلم نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے۔ ان میں سے بہت سارے نوجوان شام جا کر شدت پسندی کا شکار ہو گئے جہاں انہیں دہشت گرد جہادی گروہوں نے ریکروٹ کیا۔ ان میں سے بہت سارے واپس برطانیہ آ گئے ہیں جہاں وہ حالیہ مانچسٹر اور لندن کی طرز پر مستقبل میں دہشت گردی کے واقعات کا ایک ممکنہ خطرہ بن چکے ہیں۔

برطانوی حکومت نے صرف شام تک ہی دہشت گردی کی ترویج کیلئے فعال کردار ادا نہیں کیا بلکہ لیبیا میں مداخلت تو سب سے زیادہ واضح مثال ہے۔ اس موقع پر یہ برطانیہ اور فرانس تھے جو مداخلت کر کے قدافی کی حکومت کا خاتمہ کرنے کیلئے طبل جنگ بجا رہے تھے (امریکی اس خیال سے بالکل متفق نہیں تھے)۔ اور سب کو نام نہاد ’’آزادی‘‘ دلانے کے بعد بن غازی میں خوشیاں مناتے ایک ہجوم سے ڈیوڈ کیمرون کی تقریر کرنے کا تماشا یاد ہے۔ لیکن اس سب سے کیا حاصل ہوا؟

وہ ’’آزاد‘‘ کرایا ملک مکمل طور پر برباد ہو چکا ہے۔ اس پر اس وقت جہادی دہشت گردوں اور جرائم پیشہ گروہوں کا قبضہ ہے جو کنٹرول کے حصول کیلئے ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں۔ ہمارے سامنے لوگوں کی سمگلنگ کا دھندہ کرنے والوں کا تماشہ لگا ہوا ہے جو انتہائی مہنگے داموں مصیبت زدہ تارکین وطن کو پرہجوم اور ناکارہ کشتیوں اور جہازوں پر چڑھا کر موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ قتل و غارت، عصمت دری، لوٹ مار، افراتفری، مایوسی، لاچاری اور جرائم قدافی کی جگہ لے چکے ہیں۔ اور یہ برطانیہ کی مداخلت کا براہ راست نتیجہ ہے۔

1990ء میں لیبیائی اسلامی فائٹنگ گروپ (LIFG) کے نام سے قدافی کے خلاف ایک اسلامی دہشت گرد گروہ تشکیل دیا گیا جو افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے لیبیائی جہادیوں پر مشتمل تھا ۔ 2004ء میں اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور قدافی کے درمیان نام نہاد ’’صحرا میں معاہدہ‘‘ کے ذریعے برطانوی اور لیبیائی حکومتوں کے درمیان مفاہمت طے پا گئی جس کے بعد برطانیہ میں موجود بہت سارے جلا وطن لیبیائی شہری جن کے LIFG کے ساتھ تعلقات تھے، ان کی آمد ورفت کو کنٹرول کرتے ہوئے ان کی نگرانی کا کام شروع کر دیا گیا۔

برطانوی حکومت کی سرد مہری کا اندازہ ان خفیہ دستاویز سے ہوتا ہے جو قدافی کی 2011ء میں ہلاکت کے بعد لٹے ہوئے لیبیائی انٹیلی جنس کے دفتر سے برآمد ہوئے۔ ان دستاویزات کے مطابق ٹونی بلیئر کی قیادت میں برطانوی حکومت نے قدافی حکومت کے ساتھ گہرے مراسم استوار کئے جن میں دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی آپس میں قریبی معاونت بھی شامل تھی۔ ان دستاویزات کے مطابق برطانوی سیکیورٹی ایجنسیوں نے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے برطانیہ میں موجود لیبیائی باغیوں پر کریک ڈاؤن کرتے ہوئے LIFG کے دو اہم رہنماؤں عبدالحکیم بلہاج اور سامی السعدی کو طرابلس بھجوایا جہاں انہیں ٹارچر کیا گیا۔

ان دستاویزات میں ٹونی بلیئر کی طرف سے قدافی کو اپریل 2007ء لکھا گیا ایک خط بھی موجود ہے جس میں اسے ’’ڈیئر موامّہ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے اور بلیئر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ قدافی کے کچھ مخالفوں کو برطانیہ سے نکال کر واپس نہیں بھیجا جا سکا اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی برطانوی ایجنسیوں کے ساتھ ’’شاندار معاونت‘‘ پر آمر کا شکریہ ادا کرتا ہے۔

ٹونی بلئیر اور معمر قذافی

لیکن بعد میں لندن کا طرابلس کی طرف رویہ مکمل طور پر تبدیل ہو گیا۔ ایک بار پھر قدافی دشمن بن گیا۔ اس کا تختہ الٹنے میں NATO کی بمباری نے کلیدی کردار ادا کیا جس کی قیادت فرانس اور برطانیہ کر رہے تھے۔ برطانوی حکوت اب ’’کھلا دروازہ‘‘ پالیسی کے تحت کام کر رہی تھی جس میں لیبیائی جلا وطن اور لیبیائی نژاد برطانوی شہریوں کو کھل کر 2011ء کی بغاوت میں شمولیت اختیار کرنے کی اجازت تھی جس نے معمر قدافی کا تختہ الٹ دیا حالانکہ ان میں سے کچھ دہشت گرد کنٹرول احکامات کے تحت زیر نگرانی تھے۔

کنٹرول احکامات دہشت گردی کے خلاف جنگ کے قوانین کے تحت متعارف کرائے گئے تھے جن کو 2005ء کے لندن دہشت گردی کے واقعہ کے بعد نافذ کیا گیا۔ برطانیہ میں سیاسی پناہ گزین LIFG کے ایک ممبر زیاد ہاشم کے مطابق اسے بغیر کسی الزام عائد کئے پہلے اٹھارہ مہینے قید میں رکھا گیا اور پھر مزید تین سال کیلئے گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ اس کا خیال ہے کہ اس تمام کاروائی کے حوالے سے لیبیائی انٹیلی جنس نے معلومات برطانیہ کو فراہم کیں۔

لیکن اس نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ: ’’جب انقلاب کا آغاز ہوا تو برطانیہ میں چیزیں بدل گئیں۔ ان کا میرے ساتھ بات کرنے کا طریقہ اور رویہ بھی تبدیل ہو گیا۔ انہوں نے مجھے مراعات کی پیش کش کی، یہاں تک کہ میں جتنا لمبا عرصہ برطانیہ میں رہنا چاہوں رہ سکتا ہوں یا پھر برطانوی شہریت۔ ‘‘

’’SAS ٹریننگ‘‘

برطانوی انٹیلی جنس اور جہادیوں کے گٹھ جوڑ میں صرف یہی نہیں شامل تھا کہ جو نوجوان لیبیا جا کر قدافی کے خلاف لڑ رہے ہیں ان سے متعلق خاموشی اختیار رکھی جائے بلکہ بہت سارے شواہد موجود ہیں جن کے مطابق برطانوی سپیشل فورسز (SAS) نے ان کی نہ صرف تربیت کی بلکہ ان کو مسلح بھی کیا۔ ایک لیبیائی نژاد برطانوی شہری کو ایک کنٹرول آرڈر کے تحت گھر میں نظر بند کر دیا گیا کیونکہ خوف یہ تھا کہ وہ عراق جا کر جہادی گروہوں میں شمولیت اختیار کر سکتا ہے۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ وہ ’’سکتے میں آ گیا‘‘ جب اسے یہ پتہ چلا کہ وہ 2011ء میں لیبیا جا سکتا تھا:’’مجھے جانے دیا گیا اور مجھ سے کوئی سوال تک نہیں پوچھا گیا۔‘‘ اس کی لندن میں بے شمار لیبیا نژاد برطانویوں سے ملاقات ہوئی جن کے 2011ء میں کنٹرول آرڈر ختم کر دئیے گئے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب قدافی کے خلاف جنگ تیز ہو رہی تھی اور برطانیہ، فرانس اور امریکہ باغیوں کی حمایت میں فضائی بمباری کر رہے تھے اور سپیشل فورسز کے سپاہیوں کو معاونت کیلئے بھیجا جا رہا تھا۔

’’ان کے پاس پاسپورٹ نہیں تھے، وہ یا تو جعلی پاسپورٹ تلاش کر رہے تھے یا پھر کسی طریقے سے سمگل ہو کر (لیبیا) جانے کی کوشش کر رہے تھے۔‘‘ لیکن کچھ ہی دنوں میں تمام کنٹرول احکامات کا خاتمہ کر دیا گیا اور برطانوی حکومت نے ان کے پاسپورٹ واپس لوٹا دئیے۔

’’یہ LIFG کے پرانے گھاگھ تھے، انہیں (برطانوی انٹیلی جنس) اچھی طرح پتہ تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ ‘‘ برطانوی حکومت نے LIFG کو 2005ء میں دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ ایک ’’سخت گیت اسلامی ریاست‘‘ بنانا چاہتے ہیں اور ’’القاعدہ کے زیر اثر وسیع اسلامی انتہا پسند تحریک کا حصہ ہیں۔‘‘

ایک اور برطانوی شہری بلال یونس بتاتا ہے کہ کس طرح اسے 2011ء کے اوائل میں لیبیا سے واپسی پر دہشت گردی کے خلاف قانون ’’شیڈول 7‘‘ کے تحت روک لیا گیا۔ شیڈول 7 کے تحت پولیس اور امیگریشن افسران کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی ائر پورٹ اور بندرگاہ پر سرحد پار کرتے کسی بھی شخص کو زیر حراست لیتے ہوئے اس سے تفتیش کر سکتے ہیں تاکہ تعین کیا جا سکے کہ وہ دہشت گردی میں ملوث ہے کہ نہیں۔

اس کا کہنا ہے کہ بعد میں MI5 (برطانیہ میں اندرون ملک سیکیورٹی کی ذمہ دار ایجنسی) کے ایک انٹیلی جنس افسر نے اس سے پوچھا:’’کیا تم جنگ پر جانے کیلئے رضامند ہو؟‘‘

’’میں جواب تلاش کر ہی رہا تھا کہ اس نے مجھے بتایا کہ جو لوگ قدافی کے خلاف لڑ رہے ہیں، برطانوی حکومت کو ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘

جب وہ مئی 2011ء میں لیبیا واپس جا رہا تھا تو ائر پورٹ کے روانگی لاؤنج میں دو پولیس اہلکار اس کے پاس آئے اور انہوں نے خبردار کیا کہ اگر وہ لڑنے کیلئے جا رہا ہے تو یہ ایک قانونی جرم ہے۔ لیکن جب اس نے MI5 کے افسر کا نام اور فون نمبر دیا اور اس کے ساتھ بات کروائی تو اس کو جانے دیا گیا۔ بلال کا کہنا ہے کہ جب وہ جہاز پر سواری کا انتظار کر رہا تھا تو اسے اسی MI5 کے افسر کا فون آیا اور اس نے کہا کہ اس نے ’’سارا معاملہ سنبھال لیا ہے۔‘‘

’’جو لوگ لیبیا جا رہے تھے، حکومت نے ان کے راستے میں کوئی رکاؤٹ نہیں ڈالی۔برطانیہ سے جانے والوں میں زیادہ تر تعداد کی عمر بیس سے تیس سال کے درمیان تھی۔ کچھ اٹھارہ اور انیس سال کے بھی تھے۔ زیادہ تر تعداد مانچسٹر سے تھی۔ ‘‘
ایک لیبیائی برطانوی نژاد نے بتایا کہ کس طرح وہ اکتوبر 2011ء، جب قدافی کی حکومت کا خاتمہ کر کے اسے قتل کر دیا گیا، سے پہلے باغیوں کیلئے ’’پبلیسٹی کام‘‘ کرتا رہاتھا۔ اس کا کہنا تھا کہ مجھے اس لئے نوکری پر رکھا گیا تاکہ میں ان ویڈیوز کی ایڈیٹنگ کروں جن میں مشرقی شہر بن غازی(وہ شہر جہاں سے قدافی کے خلاف بغاوت کا آغاز کیا گیا) میں لیبیائی باغیوں کی سابقہ برطانوی SAS اور آئرش سپیشل فورسز کے کرائے کے جنگجوؤں کے ذریعے ٹریننگ دکھائی گئی تھی۔

’’یہ کوئی غیر معیاری عربی نشید(مذہبی گانے) کی ویڈیوز نہیں تھیں بلکہ پروفیشنل چاک و چوبند ویڈیوز تھیں جو ہم قطریوں اور اماراتیوں سے ایلیٹ SAS ٹریننگ یافتہ باغیوں کی حمایت لینے کیلئے دکھا رہے تھے۔‘‘ اسے باغی کمانڈروں نے اس ڈیوٹی پر بھی پابند کیا کہ وہ لیبیائی نوجوانوں کو کیمرہ استعمال کرنا سکھائے گا تاکہ وہ انٹرنیشنل میڈیا کیلئے پیکج وغیرہ بنا سکیں۔

کام کے سلسلے میں مسراتا میں ایک سکول میں موجود باغی بیس کیمپ میں اس کی ملاقات تقریباً آٹھ لیبیائی نژاد برطانوی نوجوانوں سے ہوئی۔ ان کے شمالی لہجے کا مذاق اڑانے کے بعد اسے پتہ چلا کہ وہ پہلے کبھی لیبیا نہیں آئے تھے۔ ’’ان کی عمر سترہ یا اٹھارہ سال تھی، شاید سب سے زیادہ عمر والا بیس سال کا تھا۔ ان کے باقاعدہ مانچسٹر شہر کے لہجے تھے،‘‘اس نے کہا۔ ’’وہ وہاں رہ رہے تھے اور لڑ رہے تھے اور جنگ کے تمام لوازمات پورے کر رہے تھے۔‘‘

رجائیت سے افراتفری تک

قدافی کے دھڑن تختے اور قتل کے بعد ایک عرصے تک خوشی اور رجائیت چھائی رہی۔ ستمبر 2011ء میں ملک کے مشرقی شہر بن غازی میں ایک ریلی سے اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ڈیویڈ کیمرون اور فرانسیسی صدر نکولاس سارکوزی نے ایک بہت بڑے ہجوم سے خطاب کیا جو برطانوی اور فرانسیسی جھنڈے لہرا رہا تھا۔ کیمرون نے کہا کہ ’’آزاد بن غازی اور آزاد لیبیا میں اس وقت کھڑے ہو کر بہت اچھا لگ رہا ہے۔‘‘

ڈیوڈ کیمرون، نکولس سرکوزی اور مصطفےٰ عبدالجلیل

اس پر جوش رجائیت کا دورانیہ بہت مختصر تھا اور آج کوئی بھی ڈیوڈ کیمرون کی ’’عظمت‘‘ کے ان لمحات کو یاد رکھنا نہیں چاہتا۔ جیسا کہ عراق میں ہوا، پرانی آمریت کے ختم ہونے کے بعد صرف تباہی، انتشار اور افراتفری تھی۔ کچھ حریفوں کے درمیان 2015ء میں UN کی حمایت سے ایک امن معاہدہ کیا گیا جس سے نہ تو ملک متحد ہوا اور نہ ہی ’’قومی مفاہمتی حکومت‘‘ (GNA) کا قیام عمل میں لایا جا سکا۔ متعدد مسلح گروہ جن میں سے کچھ مشرقی حکومت کے ساتھ اور کچھ مغربی حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں اقتدار کے حصول کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس انتشار میں داعش کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا ہے اور اس نے پانی کی پائپ لائینوں اور پمپ اسٹیشنوں پر حملے کر کے اس انتشار میں اضافہ بھی کیا ہے۔

آمریت کے انہدام کے بعد پیدا ہونے والے خلا میں جہادی بندوق باز اور متحارب جنگجو سرداروں اور بدمعاشوں کے عسکریت پسند امڈ آئے ۔ لیبیا کی قابل رحم عوام جو پہلے ہی ظلم و ستم کے پہاڑ تلے دبی ہوئی تھی اب خانہ جنگی کی آگ میں جلنے لگی۔ اور ان کے برطانوی اور فرانسیسی ’’حلیفوں‘‘ نے فوری طور پر ان کو بے یار و مدد گار چھوڑ دیا۔ لیبیا دہشت گردوں کی جنت اور یورپ، بشمول برطانیہ، کے نووارد جہادیوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ مانچسٹر اور دوسرے شہروں کے نوجوان، بشمول ان کے جو خطرناک شدت پسند تعلقات کے شبہے میں زیر نگرانی تھے، بغیر کسی رکاوٹ کے سکون سے اپنی آمدو رفت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیبیا جا کر لڑ نے اور شدت پسند تنظیموں کے ساتھ تعلقات رکھنے والوں میں ایک عابدی بھی تھا۔

کیا عابدی مانچسٹر کے ان نوجوانوں میں سے تھا جو ’’جنگ کے تمام لوازمات پورے کر رہے تھے‘‘ اور SAS کے ہاتھوں تربیت یافتہ تھے؟شاید اس وقت وہ نوعمر ہو گا۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی تربیت ایسے لوگوں نے کی جو بم بنانے کے خطرناک فن میں یکتا تھے۔ بہرحال، لیبیا میں برطانیہ کی خفیہ اور کھلی عسکری مداخلت اب برطانوی عوام کے گلے پڑ چکی ہے۔

سیکرٹری داخلہ ایمبرروڈ نے اعتراف کیا ہے کہ عابدی کے حوالے سے سیکیورٹی ایجنسیوں کو اطلاعات تھیں۔ ایک مقامی کمیونٹی ورکر نے BBC کو بتایا کہ کئی لوگوں نے اس کی اینٹی ٹیررازم ہاٹ لائن پر پولیس کو اطلاعات دیں۔ عابدی کا چھوٹا بھائی اور باپ، دونوں نے لیبیا میں قدافی کی ہلاکت کے بعد رہائش اختیار کر لی ۔ ان دونوں کو داعش کے ساتھ تعلقات کے شک میں گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ داعش نے مانچسٹر حملے کی ذمہ داری بھی قبول کر لی ہے۔

کیا جہاد، فاشزم کی ایک شکل ہے؟

پیٹی بورژوازی سماج کے تمام طبقات میں سب سے زیادہ خصی طبقہ ہے۔ بڑی اجارہ داریوں اور محنت کشوں کے درمیان پستے ہوئے اس طبقے کا تاریخی طور پر تباہ ہونا مقدر ہے۔ لیکن یہ اپنی موت کے خلاف ہیجانی لڑائی کی کوششیں کرتا رہتا ہے۔ وہ بڑے بینکوں اور اجارہ داریوں سے نفرت کرتا ہے جو اس کا کاروبار برباد کر تے ہیں جبکہ محنت کش طبقے سے نفرت کرتا اور خوف کھاتا ہے جس میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ شامل ہونا ان کی معاشی مجبوری بنتا جاتا ہے۔

1930ء کی دہائی میں جرمن پیٹی بورژوازی جو برباد ہوئے چھوٹے کاروباریوں اور دکانداروں پر مشتمل تھی، اسے ہٹلر نے ایک جھوٹے اور اشتعال انگیز پرگرام جس کا نام نہاد ہدف بینک اور بڑا سرمایہ تھے(خاص طور پر مالیاتی سرمایہ) کے ذریعے متحرک کیا۔ حقیقت میں ہٹلر بڑے جرمن کاروباریوں کا محض ایک ایجنٹ تھا۔ اس نے نہایت مہارت کے ساتھ پیٹی بورژوازی کے غصے کو کیپٹل کے ایک حصے کی طرف موڑ دیا جس کی اس نے یہودیوں سے شناخت کرائی۔ اس طرح سے برباد ہوئے چھوٹے دکاندار کی نفرت سرمائے کے بجائے کسی اور جگہ مبذول ہو گئی۔

اپنے تئیں پیٹی بورژوازی کی کوئی اوقات نہیں۔ لیکن اگر وہ متحرک ہو، اسے ایک طاقتور مشترکہ مقصد دیا جائے اور قومی اور نسلی برتری کے نعروں سے آراستہ کیا جائے تو پیٹی بورژوازی اپنے آپ کو ایک قوت محسوس کرنا شروع کر دیتی ہے۔انسانی کچرا ایک قوت بن جاتا ہے۔ پیٹی بورژوازی کے خصی غصے کو ایک وردی پہنا دی گئی اور انتہائی ذلت کے جذبات پر قومی اور نسلی برتری کے جھوٹے احساس کی ملمع کاری کر دی گئی۔ ایک کیچوے کو (کم از کم اپنے ذہن میں) ڈریگن میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس سے جس پاگل پن نے جنم لیا اسے فاشزم کہا جاتا ہے۔ محنت کش طبقے کے خلاف یہ قوت رجعتیت کا ایک طاقتور اظہار بن گئی: محنت کش تحریک کو تتر بتر کرنے کیلئے ایک مضبوط ڈنڈا۔ ایک تحریک جس کا مقصد بڑے کاروباروں پر حملے کرنا تھا اس کو حقیقت میں سرمائے کی اجارہ داری کو جاری رکھنے کیلئے استعمال کیا گیا۔

پیٹی بورژوازی پاگل پن کی حد تک ہٹلر کی دیوانی ہو گئی کیونکہ اس نے جرمن سرمایہ داری کے بحران کا خاتمہ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ منطقی نقطہ نظر سے اس کے خیالات غیر منطقی، پر انتشار اور تضادات کا شکار تھے۔ لیکن ضروری نہیں کہ منطق ہی وہ سب سے طاقتور اوزار ہو جس کے ذریعے عوامی تحرک پیدا کیا جائے۔ فیصلہ کن لمحات میں جذبات زیادہ بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ اور ہٹلر کو اچھی طرح پتہ تھا کہ عوامی جذبات کے ساتھ کیسے کھیلا جاتا ہے، خاص طور پر پیٹی بورژوازی کے جذبات جس کا وہ خود حصہ تھا۔ قومی سوشلزم کے ذریعے ’’نسل‘‘ کو سب سے برتر بنا کر ہر چیز پر حاوی کر دیا گیا۔ ذاتی طور پر خصی جرمن پیٹی بورژوازی اپنے آپ کو ایک کل کا حصہ سمجھنے لگی ’’عوام اور نسل‘‘ جو کہ سب سے زیادہ طاقت ور تھے۔ اس سلسلے میں نسلی برتری کا دھوکہ جرمن سامراج کے ننگے مفادات کیلئے صرف ایک ڈھال ثابت ہوا۔

اس سارے مظہر کا اسلامی انتہا پسندی سے کیا رشتہ بنتا ہے؟ کچھ لوگوں نے بعد الذکر کو اسلامی فاشزم کا نام بھی دیا ہے۔ یہ فارمولہ ہے تو پرکشش لیکن گمراہ کن ہے۔ فاشزم ، سرمایہ داری کے گلنے سڑنے کے عہد میں اجارہ دارانہ سرمایہ داری کا حاصل ہے۔ یہ نسل پرستی کا شدید ترین اظہار ہے جو کہ سامراجیت کا حاصل شدہ عرق ہے۔ ’’کم تر‘‘ قوم پر نسلی برتری کا خیال سامراجی جارحیت کو مفید پردہ فراہم کرتا ہے جس کی آڑ میں ایک قوم دوسری قوم کو غلام بنالیتی ہے۔ اس کے برعکس، جہادی تحریکوں کا ظہور ترقی یافتہ سامراجی قوموں میں نہیں بلکہ مشرق کے سب سے زیاددہ استحصال کا شکار ممالک میں ہوا ہے۔ وہ سابقہ کالونیاں جنہوں نے براہ راست سامراجی حکمرانی سے آزادی تو حاصل کر لی لیکن سرمایہ دارانہ بنیادوں پر وہ اب ایک بند گلی میں پھنس چکے ہیں۔

جدید دور کے جہادی نیشنل سوشلسٹ سے اس لئے مختلف ہیں کیونکہ وہ غریب سابقہ کالونیوں کے خوفناک سماجی تضادات کا اظہار ہیں ،نہ کہ طاقت ور خونخوار سامراجی ریاستوں کے۔ بہرحال، اپنی نفسیات اور طبقاتی ساخت میں ان میں کچھ مشابہت بھی ہے۔ بطور طبقہ پیٹی بواژوازی، جس کا مقدر ہی صفحہ ہستی سے مٹنا ہے، خاص طور پر سرابوں سے دھوکہ کھانے میں ماہر ہے۔ اس کا واضح اظہار ہٹلر کا تخیلاتی اور نیم تاریخی کچرا پروگرام ہے جسے اس نے اپنے رجعتی پیغام میں چھپا کر اس کی حقیقت کو دھندلا کر دیا۔ ہم جہاد کے پر انتشار اور تخیلاتی نظریئے میںیہی مظہر دیکھتے ہیں حالا نکہ اس کا ٹھوس مواد فاشزم سے مختلف ہے اور اس کی بالکل مختلف بنیادیں ہیں۔

جہادی نظریات اور طبقاتی مواد

اسلام کے نام پر سیاست اپنے تئیں ’’شناخت کی سیاست‘‘ کا شدید ترین اظہار ہے جو ایک خاص سماجی گروہ کو،اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ گروہ مغربی سماج میں استحصال، کنارہ کشی اور بے گانگی کا شکار ہے، شناخت فراہم کرتی ہے۔ لیکن ’’شناخت کی سیاست‘‘ کے باقی مظاہر کی طرح یہ مظہر بھی ان لوگوں کو کوئی حل فراہم نہیں کرتا جن کی نمائندگی کا یہ دعویدار ہے۔ نوجوان مسلمانوں کی بے روزگاری کے مسائل کو سرمایہ داری کے خلاف محنت کشوں کی عمومی جدوجہد سے جوڑنے کے بجائے یہ دوسری استحصال زدہ پرتوں کے مسائل سے کاٹ کر رکھ دیتا ہے، حتیٰ کہ ان نوجوانوں کو دوسری پرتوں کے خلاف بھی کر دیتا ہے۔ تقسیم اور نفرت کے بیج بو کر یہ بالکل رد انقلابی اور رجعتی کردار ادا کرتا ہے۔

صرف ایک طرح کی شناختی سیاست حقیقی معنوں میں رجائیت اور انقلابی کردار ادا کر سکتی ہے اور وہ ہے طبقاتی سیاست۔ باقی ہر قسم کی شناخت یا تو سراب ہے اور حقیقی انقلابی جدوجہد کا منقسم متبادل یا پھر خوفناک رجعتی ارادوں کا پوشیدہ علم بردار۔ جہادی سابقہ نو آبادیاتی ممالک کی وسیع تر عوامی پرتوں میں موجود ذلت اور استحصال کے احساسات کو استعمال کرتے ہیں۔ قاہرہ کے بے روزگار نوجوان، کراچی کے مایوس جھگی نشین اور جکارتہ کے برباد دکاندار مضبوط فنڈنگ والی رجعتی تحریکوں کیلئے زرخیز مٹی کا کام دیتے ہیں۔ ان تمام مجبور و مایوس لوگوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے تمام مسائل زوال پذیر عیاش پرست مغربی ثقافت کی وجہ سے ہیں اور واحد حل ’’اصل‘‘ اسلام کی طرف واپسی میں ہے۔

ہم اس ’’اصل‘‘ اسلام کے حقیقی مواد پر پھر کبھی بات کریں گے۔ فی الحال اتنا کہنا کافی ہے کہ تاریخ میں مایوس زدہ عوام کی اکثر تحریکوں میں کسی پچھلے سنہرے دور کی طرف لوٹ جانے کا ایک عنصر موجود ہوتا ہے جو کہ حقیقت میں کبھی بھی نہیں ہوتا لیکن موجودہ نظام کے خلاف زہریلی نفرت اور تضادات سے آزادی کا اظہار ہوتا ہے۔ ایک بہتر دنیا کے اس خواب کا کردار زیادہ تر نیم تخیلاتی اور مذہبی ہوتا ہے۔

جہادی نظریہ سادہ ہے اور اسی وجہ سے پرکشش بھی ہے: ہم مصیبت زدہ اور زیر استحصال ہیں؛ ہماری ثقافت، اقدار اور مذہب سے نفرت کی جاتی ہے۔ ہمیں اپنے ملک کو واپس چھیننا ہے، کافروں کو باہر نکال دینا ہے، تمام اجنبی خیالات ، نظریات، اقدار اور مذاہب کے نشان تک مٹا دینے ہیں، پرانے طور طریقے دوبار ہ سے استوار کرنے ہیں اور سچے ایمان والوں کا ایک سماج تعمیر کرنا ہے۔ پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔

اس نظریئے کے مبہم ہونے میں ہی اس کی قوت اور اس کی کمزوری ہے۔ ایک ایسا سماج جو کہ ظالمانہ طریقے سے امیر اور غریب کے درمیان بٹا ہوا ہے، اس میں یہ ایک ایسی شناخت کا پرچار کرتا ہے جو کہ مبینہ طور پر طبقات سے بلند ہے۔ یہ ایک بڑا طاقتور پیغام ہے۔ سرمایہ داری کی ظالمانہ بیگانگی میں لوگوں کو شناخت ، سماج میں شراکت داری اور مذہبی بھائی چارے کا احساس دیتا ہے۔ تمام مذاہب کی طرح وہ مسئلے کو حل نہیں کرتا لیکن ذہنی سکون دیتا ہے کہ اس جگہ اور اس وقت تو نہیں لیکن اگلے جہان میں سکون ضرور ہو گا۔

’’مسجد میں تمام مسلمان برابر ہیں۔‘‘ یہ ایک حد تک تو ٹھیک ہو گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسجد سے نکلنے کے بعد امیر مسلمان جو زمین یا فیکٹری کے مالک ہیں ، غریب مسلمان محنت کش یا کسان کا استحصال ہی کریں گے۔ غریب ، غریب ہی رہے گا اور اس کو اپنے انعام کا انتظار اگلے جہان تک کرنا پڑے گا جبکہ امیر پہلے کی طرح سماج پر حکمرانی کرتا رہے گا اور کسی تاخیر کے بغیر اسی جہان میں اپنا انعام حاصل کرے گا۔

یہ درست ہے کہ مذہبی منطق کے ساتھ بحث لاحاصل ہے جس کی تعریف ہی یہ ہے کہ وہ منطق کے قوانین کو جوبدہ نہیں ہے۔ سرمایہ داری کے ناقابل برداشت تضادات کے دباؤ میں لوگ کسی بھی حل کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ ایک ڈوبتا ہوا انسان تنکے سے چمٹ جاتا ہے جبکہ منطق یہ بتاتی ہے کہ یہ عمل بیکار ہے۔

جہادی اور سامراجیت

اس بند گلی سے باہر نکلنے کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب ہے۔ یہ ہر طرح سے ممکن تھا۔ عراق، سوڈان، انڈونیشیا، انڈیا اور دیگر ممالک کے محنت کش طبقے نے شاندار بہادری کا مظاہرہ کیا اور کمیونزم کو راہ نجات کے طور پر دیکھا۔ لیکن ان ممالک کی کمیونسٹ پارٹیوں نے ماسکو (اور انڈونیشیا میں بیجنگ) کے زیر اثر ’’مرحلوں‘‘ کی مجرمانہ پالیسی اختیار کیے رکھی جس کے مطابق محنت کشوں کو ہر حال میں اقتدار ’’قومی بورژوازی‘‘ کو منتقل کرنا تھا۔ اس پالیسی کی وجہ سے محنت کش طبقہ مفلوج ہو کر رہ گیا، اپنے کمیونسٹ ہراول دستے سے علیحدہ ہو گیا اور انہیں قربانی کے بکرے کی طرح جلاد کے حوالے کر دیا گیا۔

ایک کے بعد دوسرے ملک میں سٹالنسٹوں کی غداری اور محنت کش تحریک کی تباہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے یہ ممالک آج بربادی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ پیدا ہوئی خلا کو جہادی رجعت نے پر کیا ہے۔ لیکن یہ عمل کبھی بھی سامراجیت کی فعال مداخلت کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا تھا۔

بائیں بازو کے کچھ گروہوں نے اپنے آپ کو جہادیوں کی ’’سامراج مخالف‘‘ لفاظی کی وجہ سے دھوکے میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ لیکن یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیئے کہ ’’سامراج مخالفت‘‘ کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں اور وہ ساری وجوہات ضروری نہیں کہ رجائیت پسند ہوں۔ کمیونسٹ انٹرنیشنل کی دوسری کانگریس میں ’’Theses on National and Colonial Question‘‘ لکھتے ہوئے لینن کا پرجوش اصرار تھا کہ نو آبادیاتی ممالک میں رجعتی، جاگیردارانہ اور مذہبی عناصر کی انتھک شدید مخالفت کی جائے:

’’11۔ زیادہ پسماندہ ریاستوں اور عوام کے حوالے سے جہاں جاگیردارانہ یا پدرانہ اور کسان تعلقات حاوی ہیں، یہ نہایت اہم ہے کہ ہمارے ذہنوں میں یہ بات موجود ہو کہ:

پہلے تو یہ کہ ان ممالک میں تمام کمیونسٹ پارٹیاں بورژوا جمہوری آزادی کی تحریکوں کی معاونت کریں اور سب سے زیادہ فعال معوانت کی ذمہ داری اس ملک کے محنت کشوں کی ہے جس پر پسماندہ عوام نو آبادیاتی یا فنانشل حوالے سے منحصر ہے؛

دوسرا یہ کہ یہ انتہائی اہم ہے کہ پسماندہ ممالک کے ملاؤں اور دوسرے با اثر رجعتی اور قرون وسطیٰ کے عناصر کے خلاف جدوجہد کی جائے؛

تیسرا یہ کہ اتحاد اسلامی اور اس طرح کے دوسرے رجحانات جو یورپی اور امریکی سامراجیت کے خلاف آزادی کی تحریکوں کو خانوں، جاگیر داروں، ملاؤں وغیرہ کی حیثیت کو مضبوط کرنے کیلئے استعمال کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔‘‘

یہ الفاظ واضح ہیں اور رجعتی جہادی رجحانات جو ’’سامراجیت کے خلاف‘‘ جدوجہد کرنے کا ڈھونگ رچاتے ہیں، ان کے حوالے سے ہمارے رویے کا تعین کرنے کیلئے بہت اہم ہیں۔ داعش اور دوسرے جہادی گروہوں کے اندر رجائیت کا شائبہ تک موجود نہیں۔ حقیقت میں وہ سب سے زیادہ وحشی رجعت کے علمبردار ہیں۔ کوئی بھی شخص، جو ان کے بارے میں سرسری معلومات بھی رکھتا ہے یہ جانتا ہے کہ ان کا یہ دعویٰ کہ وہ ’’سامراج کے خلاف لڑ رہے ہیں‘‘ مکمل طور پر جھوٹ ہے۔

سرد جنگ کے سالوں میں اسلامی بنیاد پرستی کو سامراج اور خاص طور پر امریکی سامراج نے خود پروان چڑھایا تاکہ مشرق وسطیٰ میں کمیونزم کا مقابلہ کیا جا سکے۔ افغان انقلاب کے بعد CIA نے جہادی گروہوں کی حمایت کی، ان کی تربیت کی اور ان پر پیسے نچھاور کئے جو بعد میں طالبان بن گئے۔ سعودی عرب پتی کا بیٹا اسامہ بن لادن، اس وقت CIA کا ایجنٹ تھا۔ امریکہ کو اس وقت تک القاعدہ سے کوئی مسئلہ نہیں تھا جب تک وہ روسیوں کو قتل کر رہے تھے۔ لیکن جب افغانستان سے روسی فوجوں کا انخلا ہوا اور جہادیوں نے امریکہ پر حملے کرنے شروع کر دئیے تو وہ ’’آزادی کیلئے لڑنے والوں‘‘ سے ’’دہشت گرد‘‘ بن گئے۔

سعودی عرب کا کردار

قدرتی طور پر جہادی جس ’’اصل‘‘ اسلام کی بات کرتے ہیں وہ سعودی عرب سے در آمد شدہ ہے جہاں کے خونخوار ناسور شہزادے اور شیوخ ناقابل یقین پر تعیش زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ یہ ’’مقدس مقامات کے محافظ‘‘ وسیع و عریض محلات میں رہتے ہیں، مہنگی ترین گاڑیوں کے مالکان ہیں اور ان تمام آسائشوں کے مزے لوٹ رہے ہیں جو کافر مغرب دے سکتا ہے۔ جب وہ اپنے محلات میں مکھیاں نہیں مار رہے ہوتے تو وہ اپنا وقت شراب میں دھت لندن اور پیرس کے چکلوں اور جوا خانوں میں گزار رہے ہوتے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جو ’’اصل‘‘ اسلام کی سب سے زیادہ مکروہ شکل وہابی اسلام کے محافظ ہیں۔ اگر کوئی ان کے وضع کئے گئے سخت گیر اخلاقی اصولوں کو توڑنے کی جرات کرتا ہے یا ان کی حکمرانی پر سوال اٹھاتا ہے تو اس سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جاتا ہے۔ اس وہابی جنت میں کوڑے مارنا، اعضا کا کاٹنا، پتھراؤ کر کے قتل کرنااور گردنیں مارنا اقدار کا حصہ ہے۔

دارالحکومت ریاض میں بیٹھا رجعتی گروہ تیل کے علاوہ زہریلی وہابی انتہا پسندی کی بھی ساری دنیا میں ترسیل جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان کے مغربی سامراج اور اسرائیل (جس کے ساتھ براہ راست فضائی تعلقات حال ہی میں بنائے گئے ہیں) کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں۔ ان کے پاس مال و دولت کا بے پناہ ذخیرہ ہے جس سے وہ ہزاروں فرنٹ تنظیموں کے ذریعے اپنے نظرئیے کا پرچار کرتے ہیں: پاکستان میں مدرسوں سے لے کر شمالی افریقہ میں ’’فلاحی اداروں‘‘ اور عراق، شام اور لیبیا میں جہادی تنظیموں کو مسلح کرنے تک۔

اگر ہم ان تمام تانوں بانوں کی نشاندہی کریں جو کہ مختلف جہادی دہشت گرد گروہوں کو جوڑے ہوئے ہیں تو ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اگر سارے نہیں تو زیادہ تر کے آقا ریاض میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ جن لوگوں نے نیویارک میں 9/11 کی تباہی مچائی ان میں زیادہ تر سعودی تھے۔ان میں اردن کے شہری بھی شامل تھے لیکن ایک بھی عراقی نہیں تھا۔ لیکن سعودی عرب یااردن کے بجائے عراق پر فوج کشی کی گئی۔9/11 کے واقعے کے اگلے دن صدر بش نے حکم صادر کیا کہ امریکی فضاؤں میں کوئی ایک طیارہ نہیں اڑے گا سوائے ان جہازوں کے جو سعودی شہریوں، بشمول اسامہ بن لادن کے خاندان والوں کو امریکہ سے باہر لے کر گئے۔

یہ سامراجیوں کے مفادات میں ہے کہ وہ ریاض میں بیٹھے اپنے دوستوں کی ان حرکتوں کو نظر انداز کرتے ہیں جو نہ صرف ان کے وفادار نوکر ہیں بلکہ شاندار ہتھیاروں کی خریداری کے معاہدے بھی کرتے ہیں جیسا کہ صدر ٹرمپ کے حالیہ دورے میں تقریباً 110 ارب ڈالر کے معاہدے کئے گئے۔ یہ حقیقت کہ ان ہتھیاروں سے یمن کی عوام کا قتل عام کیا جا رہا ہے ان کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔

سعودی ہمارے ’’جمہوریت پسندوں‘‘ کو کس طرح نوازتے ہیں

شاید یہ بات حیران کن لگے اور نہ ہی اس حقیقت کا کبھی کہیں تذکرہ ہوتا ہے کہ سعودی اور ان کے وہابی ایجنٹ شام، افغانستان، عراق اور لیبیا کے جہادی درندوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور برطانیہ، فرانس، بیلجئم اور جرمنی میں دہشت گرد حملوں کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن اس میں کچھ بھی حیران کرنے والا ہے نہیں۔ کئی ممالک میں صحافیوں اور مشیروں کی افواج سعودی آمریت کے پیسوں پر پلتی ہیں جن کا کام ہی یہی ہے کہ اس خونخوار آمریت اور اس کے گھناؤنے جرائم پر کسی قسم کی تنقید کا سدباب کیا جائے۔

سعودی تیل کے پیسوں سے بنے اس وسیع کرپشن کے جال میں ٹوری حکومت کے سرکاری نمائندے اور ممبر پارلیمنٹ بھی شامل ہیں جن کو انتہائی مہنگے تحائف اور پیسوں سے نوازا گیا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کے شائع کردہ فنانشل مفادات کے رجسٹر میں ٹوری ممبر پارلیمنٹ اور سعودی مالی تعلقات کا واضح ذکر ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جب سے یمن جنگ شروع ہوئی ہے اس وقت سے لے کر اب تک ٹوری ممبران پارلیمنٹ کوتحائف، سفری اخراجات اور ’’مشاوراتی فیسوں‘‘ کی مد میں 99,396پاؤنڈ (128,035ڈالر) سے نوازا جا چکا ہے۔

جب فلپ ہیمونڈ، جو آج کل فنانس چانسلر ہے، سیکرٹری خارجہ تھا، کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جب اس نے سعودی عرب میں بے شمار لوگوں کو پھانسی دینے کا دفاع کیا، جن میں سعودی حکومت کا ایک بے ضرر نکتہ چیں بھی شامل تھا۔ یہی وہ فلپ ہیمونڈ ہے جس نے سعودی سفیر سے 1,950پاؤنڈ (2,514ڈالر)مالیت کی گھڑی تحفے میں قبول کی۔ مشرق وسطیٰ میں خارجہ پالیسی کی پارلیمانی بحث کی صدارت کرنے والی ٹوری ممبر پارلیمنٹ شارلوٹ لیسلی کو سعودی سفارت خانے سے 500پاؤنڈ (644ڈالر) مالیت کا تحفہ دیا گیا جو اگرچہ مالیت میں تو کم تھا لیکن بخوشی قبول کر لیا گیا۔

یمن جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک ٹوری ممبران پارلیمنٹ سعودی حکومت کے خرچے پر اس مقدس سرزمین کے چار دورے کر چکے ہیں۔ رہائش، سفر اور کھانوں کے اخراجات ڈال کر بلوں کی مد میں 2,888پاؤنڈ (3,724ڈالر) سے لے کر 6,722پاؤنڈ (8,668ڈالر )تک ادا کئے گئے ہیں۔ فنانشل مفادات کے رجسٹر کے مطابق کم از کم 18ٹوری ممبران پارلیمنٹ ان دوروں سے مستفید ہو چکے ہیں۔ اس فراغ دلی سے مستفید ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ٹوری ممبر پارلیمنٹ رحمان چشتی کو بطور شاہ فیصل ریسرچ اینڈ اسلامک سٹڈیز سینٹر(سعودی ریاست کا ایک ’’تھنک ٹینک‘‘) کے مشیر 2000پاؤنڈ (2,579ڈالر) ماہانہ ادا کئے گئے۔ یہ ادائیگیاں فروری 2016ء میں شروع ہوئیں۔ یہ تو واضح نہیں کہ وہ ابھی تک ’’سوچ‘‘ رہے ہیں یا نہیں ۔۔لیکن کمائی ضرور کر رہے ہیں۔

اب یہ کوئی نادان ہی ہو سکتا ہے جو یہ نہ مانے کہ اس طرح کے انتہائی فراغ دل تحائف بحر اوقیانوس کے دونوں اطراف اثرو رسوخ بنانے کی کوشش نہیں ہیں۔ دی انٹرسیپٹ نے رپورٹ کیا کہ ’’سعودی حکومت بڑی تیزی کے ساتھ واشنگٹن میں ان مشیروں اور پبلک ریلیشنز ماہرین، جن کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ گہرے مراسم ہیں، کی خدمات حاصل کرتے ہوئے لابنگ میں اپنا اثرو رسوخ بڑھا رہا ہے۔ 2015ء سے لے کر اب تک ان رجسٹرڈ ایجنٹوں کی تعداد جو کہ سعودی حکومت کیلئے کام کر رہے ہیں، 25سے بڑھ کر 145 ہو چکی ہے۔‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ کامیاب دورے سے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ اس کوشش کا خاطر خواہ نتیجہ نکلا ہے۔

ٹوری حکومت کے سعودیوں کے ساتھ تعلقات کو بھی سعودی حکومت نے ایک ریکارڈ ہتھیاروں کے معاہدے سے نوازا ہے۔ یمن میں قتل عام شروع ہونے پر ٹوری حکومت کے ساتھ 3.3ارب پاؤنڈ (4.2ارب پاونڈ) کے جنگی اسلحہ خریدنے کا معاہدہ کیا گیا۔ اس حوالے سے یہ جانے مانے ’انسانی حقوق کے علمبردار‘ خاموش ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح یہ ’’جمہوریت کے علمبردار‘‘ اپنے سعودی دوستوں کے انسانی حقوق کی پامالی پر خاموش رہتے ہیں۔

تھریسا(’’بس اب بہت ہو چکا‘‘)مے اپنے دوست ڈونلڈ ٹرمپ سے پہلے ریاض کا دورہ کر کے آئی اور بہت خوش تھی کیونکہ وہ ایک اور شاندار ہتھیاروں کا معاہدہ کر آئی ہے۔ لندن واپسی پر اس نے فوراً یمن میں سعودی جارحیت کے تمام الزامات کو رد کر دیا۔ یاد رہے کہ اس جارحیت میں برطانوی ریاست کی مکمل معاونت ہے۔ ظاہر ہے کہ پیسہ، پیسہ ہوتا ہے چاہے وہ کسی بھی گٹر سے آ رہا ہو۔

یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اپنے دورے سے پہلے سینٹ تھریسا مے کو برطانوی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے معلومات فراہم کی ہوں۔ یہ بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ MI6 کو سعودی ریاست اور وہابی دہشت گردی کے درمیان تعلقات کا علم بھی ہو گا۔ لیکن مسز مے نے ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح ان درندوں کے سامنے جا کر ناک رگڑی جو مستقل دہشت گرد گروہوں کی شام، عراق اور لیبیا میں معاونت کر رہے ہیں، بشمول اس گروہ کے جس نے مانچسٹر میں تباہی مچائی۔ اب عوام کے سامنے یہ بات آئی ہے کہ تھیریسا مے کی حکومت انتہا پسند گروہوں کی بیرونی مالیاتی معاونت کے حوالے سے رپورٹ کو دبا رہی ہے جس میں سعودیوں کے اسلامی انتہا پسندوں کے ساتھ تعلقات کو ظاہر کیا گیا ہے۔

سعودی عرب اور قطر

سعودی عرب اور اس کی خلیجی گماشتہ ریاستوں نے (عرب امارات اور بحرین) نے قطر کے ساتھ تعلقات منقطع کر دئیے ہیں۔ سعودیوں نے اعلان کیا کہ وہ نہ صرف سفارتی تعلقات منقطع کر رہے ہیں بلکہ تمام فضائی، بری اور بحری راستے بھی بند کر رہے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ قطر کا واحد زمینی تعلق بھی کٹ گیا ہے۔ قطریوں کو ملک سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا ہے اور اب انہیں سعودی عرب میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ یہاں تک کہ سعودیوں نے قطر کی 1000 کی طاقتور فوج بھی یمن کے خلاف بنائے گئے اتحاد سے نکال دی ہے۔

سعودی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ ان تمام اقدامات کی وجہ قطر کی بشمول القاعدہ ’’دہشت گردی کی حمایت ہے۔‘‘ تاریخ میں ریاکاری کی اس سے بڑی مثال شاید ہی کوئی اور ہو۔ یہ سچ ہے کہ قطریوں کے بڑے عزائم ہیں۔ وہ شام اور دیگر مقامات پر دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ کبھی انہی گروہوں کی جن کی سعودی عرب بھی حمایت کرتا ہے اور کبھی دیگر گروہوں کی جن کی سعودی مخالفت کرتے ہیں۔ قطر اخوان المسلمین کی حمایت کرتا ہے جو امارات کے مطابق دہشت گرد ہیں۔ وہ الجزیرہ ٹیلی وژن نیٹ ورک کی حمایت بھی کرتا ہے جو عرب میں سوائے قطر کے، باغی عناصر کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ قطری سعودی اجارہ داری کو ماننے کیلئے تیار نہیں اور اسی وجہ سے وہ خطے میں سعودیوں کیلئے کانٹا بنے ہوئے ہیں۔ ریاض کو خاص طور پر یہ بات چبھتی ہے کہ قطر کے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں(یہ تعلقات کویت اور عمان کے بھی ہیں)۔ ایران کے خلاف سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی جارحیت پر قطر کے امیر تمیم بن حماد الثانی نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

1920ء کے عشرے میں برطانیہ نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت قطریوں کا سعودیوں کے خلاف دفاع کیا تھا۔ قطر نے اسرائیل، ایران، ترکی اور امریکہ کی حمایت حاصل کرنے کیلئے کافی تگ و دو کی ہے۔ لیکن پچھلے کچھ عرصے میں اس کا اتحاد خطرے میں ہے۔ مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا امریکی اڈہ قطر میں ہے جو کہ سعودی سرحد کی جانب جانے والی سڑکپر العدید کے مقام پر واقع ہے، جسے قطری ایک طویل عرصے سے بری حملے کے خلاف ڈھال خیال کرتے رہے ہیں۔ لیکن ریاض میں ڈونلڈ ٹرمپ کے شاہانہ استقبال اور اربوں ڈالر مالیت کے ہتھیاروں کے معاہدے نے ان کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ یہ پھر پہلے سے عدم استحکام کے شکار خطے میں مزید انتشار پھیلانے کی ایک اور وجہ ہے۔

دہشت گردی۔۔جدید اور قدیم

دہشت گردی کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ موجود رہی ہے۔ حقیقت میں یہ سماج میں موجود ناقابل حل تضادات کا اظہار ہوتی ہے۔ لیکن جدید دہشت گردی کے کردار سے بیمار سرمایہ داری کے بحران کی عکاسی ہوتی ہے جو اب بستر مرگ پر ہے۔ دہشت گردی کا پاگل پن ایک ایسی دنیا کی عکاسی کر رہا ہے جو خود پاگل ہو چکی ہے۔ ہیگل کے الفاظ میں: منطق، غیر منطق بن چکی ہے۔

روسی مارکسزم کا جنم بذات خود انفرادی دہشت گردی کے خلاف غیر مصالحانہ جدوجہد کے نتیجے میں ہوا تھا۔ جدید دہشت گردی روسی نرودنایا ولیا (عوامی خواہش ) کی پرانی دہشت گردی سے بہت مختلف ہے۔ روسی دہشت گرد بہادر نوجوان خیال پرست تھے جو خونخوار زار ریاست کے خلاف برسرپیکار تھے۔ اس وقت روسی محنت کش طبقہ اپنے جنم کے اوائل میں تھا۔ کسان جمود کا شکار تھے۔ انقلابی طلبہ نے ان کو ’’عمل کے پروپیگنڈے‘‘یعنی ریاست کی ممتاز شخصیات کو قتل کر کے جگانے کی کوشش کی۔

جدید دہشت گردوں کے مقابلے میں روسی دہشت گرد ولی نظر آتے ہیں جن کے بلند تر اصول اور سخت گیر اخلاقی معیار تھے۔ انہوں نے کبھی بھی عام لوگوں کو نشانہ نہیں بنایا۔ ان کا نشانہ پولیس چیف، بدنام زمانہ تشدد کرنے والے اور رجعتی وزرا تھے۔ زیادہ تر قتل کے واقعات کے بعد وہ اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دیتے تھے جس کے بعد انہیں طویل قید کی سزا دے دی جاتی تھی یا پھر سائبیریا کے منجمد علاقوں میں دربدر کر دیا جاتا تھا۔

’عوامی خواہش‘ کے کارکنوں کی بہادری اور انقلابی عزم سے قطع نظر، ان کا دہشت گرد طریقہ غلط اور نقصان دہ تھا۔ آخر میں وہ زار کو قتل کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ لیکن قابل نفرت بادشاہت کی چوٹی پر بیٹھے شخص کے قتل نے ساتھ ہی اس پارٹی کا بھی قتل کر دیا جس نے اس قتل کی منصوبہ بندی کی۔

’عوامی خواہش‘ کی خیال پرستی جدید دہشت گردوں سے بہت مختلف ہے جن کا لائحہ عمل ہی معصوم عورتوں اور بچوں کا قتل عام ہے۔ ان کے کوئی اعلی معیار اور اصول نہیں بلکہ ان کی رہنمائی اندھی تقلید اور رجعتی نظریات کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کی سوچ کا نرودنایا ولیا کے معصوم خیالی سوشلزم سے کوئی تعلق نہیں۔

حالیہ دہشت گردی کے واقعے کی کچھ لوگوں نے 1996ء میں IRA(آئرش ریپبلیکن آرمی) کی طرف سے کئے گئے بم دھماکے کے ساتھ موازنہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ جدید جہادی دہشت گردی اس دہشت گردی سے بہت مختلف ہے جس کی IRA پیروکار تھی۔ مارکس وادی اس وقت بھی IRA کی اس نام نہاد مسلح جدوجہد کے مخالف تھے جس کی وجہ سے بہت ساری معصوم اموات ہوئیں اور نتیجہ کچھ برآمد نہ ہوا۔ لیکن کم از کم IRA کے پاس ایک واضح پروگرام موجود تھا جو سب کی سمجھ میں آتا تھا: آئرلینڈ کی اکائی کو دوبارہ بحال کرنا۔ کوئی بھی شخص اس سے متفق یا غیر متفق ہو سکتا ہے لیکن کم از کم یہ کوئی مقصد تھا۔ جہادی شدت پسند جس قسم کی دہشت گردی کے پیروکار ہیں اس کے مقاصد مختلف ہیں اور اسی وجہ سے اس کا طریقہ کار بھی مختلف ہے۔

ایک قدامت پسند جریدے۔۔دی اکانومسٹ کے مطابق:

’’بہت سارے لوگوں نے اس حملے کا موازنہ ایک اور مانچسٹر حملے سے کیا ہے جب 1996ء میں IRA نے برطانیہ کی تاریخ کا سب سے بڑا بارودی موادکارپوریشن سٹریٹ میں آرنڈیل شاپنگ سینٹر کے قریب دھماکے سے اڑا دیا۔ اس سے پہلے خبردار کر دیا گیا تھا اور باوجود اس کے کئی سو لوگ زخمی ہوئے، کسی ایک شخص کی بھی موت واقع نہیں ہوئی۔ اس واقعے کے اثرات سے شہر جلد ہی بحال ہو گیا۔ یقیناًاس واقعے کے بعد حکومت نے شاپنگ سنٹر کی تعمیر نو پر جو پیسے خرچ کئے اس کی وجہ سے پورے شہر میں معاشی سرگرمی دوبارہ بحال ہو گئی۔ لیکن IRA کا حملہ شہر کی معیشت پر تھا۔ اس ہفتے ہونے والا دہشت گردی کے واقعے کا ایک ہی مقصد تھا، کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو قتل یا معذور کیا جا سکے، جن میں بہت ساری نوعمر لڑکیاں شامل تھیں۔ یہ انتہائی جذباتی حملہ تھاجس کا مقصد یہ تھا کہ مختلف سماجی گروہوں کو تقسیم کیا جائے اور مانچسٹر کے سماجی تانا بانا تار تار کر دیا جائے۔ یہ نام نہاد داعش کا عمومی مقصد رہا جس نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔‘‘ (دی اکانومسٹ۔ 24 مئی)

مارکسزم ہمیشہ انفرادی دہشت گردی کی مخالفت کرتا رہا ہے جو پیٹی بورژوازی، کسانوں اور لمپن پرولتاریہ کی عمومی جدوجہد کا ایک طریقہ کار ہے، درمیانے طبقے سے نکلے ہوئے دانشور، جرائم پیشہ افراد جو جہادیوں کے ساتھ جیلوں میں تعلقات کی وجہ سے ’’ریڈیکلائز‘‘ ہو گئے اور مایوس نوجوان۔

سماجی خلفشار

پوری انسانی تاریخ میں مذہب ترقی اور تہذیب کا دشمن رہا ہے۔ زہریلی کھمبیوں کی طرح اگتے مختلف مذہبی فرقے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ سرمایہ داری میں انسانی ترقی ایک بند گلی میں پھنس چکی ہے۔

تاریخ کے ایک سنجیدہ طالب کیلئے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس کے برعکس، ہم اس مظہر کو ہر اس سماج میں رونما ہوتا دیکھتے ہیں جہاں موجود سماجی و معاشی نظام اپنی افادیت کھو کر سماجی ترقی میں رکاوٹ بن چکا ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں عام لوگ موجودہ سماجی نظام، اس کی اقداروں اور اس کے مذہب میں اعتماد کھو دیتے ہیں۔ رومن سلطنت کی زوال پذیری کے بعد مشرق سے ہر طرح کے صوفیانہ اور توہم پرست خیالات حاوی ہونا شروع ہو گئے جبکہ پرانے خداؤں کے مندر خالی پڑے رہے کیونکہ لوگ ان پر اپنا اعتماد کھو چکے تھے۔ ہم جاگیرداری کے آخری دنوں میں اسی قسم کی کیفیت دیکھتے ہیں جب لوگ یہ سمجھتے تھے کہ دنیا کا اختتام ہونے والا ہے۔ حقیقت یہ تھی کہ دنیا کا خاتمہ نہیں ہو رہا تھا بلکہ ایک سماجی نظام کا خاتمہ ہو رہا تھا۔

آج کل جب بھی بنیاد پرستی کی بات کی جاتی ہے تو تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ یہ صرف اسلام کا ہی مسئلہ ہے۔ لیکن عیسائی بنیاد پرستی(ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے گرد اکٹھا ریپبلیکن ٹولہ ایک اچھی مثال ہے)، یہودی بنیاد پرستی اور ہندو بنیاد پرستی بھی موجود ہیں۔ یہ تمام بنیاد پرستی سماج کے غیر منطقی رجحانات کا اظہار ہیں جو کہ پھر اس غیر منطقی سماج کا اظہار ہے جس میں آج ہم زندہ ہیں۔

جہادی پروگرام بڑا سادہ ہے: اسلام کے سب سے زیادہ پرتشدد رجحان کے ذریعے ساری دنیا کی تسخیر۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کا طریقہ کار بھی بہت سادہ ہے: جتنے کافروں کو قتل کیا جا سکتا ہے ، کیا جائے اور اس سارے عمل میں جنت کی ٹکٹ بھی کٹوا لی جائے۔

ان مطالبات کو کس طرح سے پورا کیا جائے، یہ واضح نہیں ہے۔ تجربہ تو یہی بتاتا ہے کہ ایک مذہبی جنونی سے مذاکرات نہیں کئے جا سکتے۔ مذہبی جنونیت تمام منطقی بحثوں کو رد کرتی ہے اور اس کی جگہ اندھا ’’عقیدہ‘‘ لے لیتا ہے جو باقی تمام چیزوں پر حاوی ہو جاتا ہے۔ فرد واحد میں یہ ایک طرح کا پاگل پن ہے جس کو بے ضرر سنکی پن کے طور پر نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ لیکن مخصوص حالات میں اس طرح کا پاگل پن کچھ سماجی پرتوں کیلئے پرکشش ہو جاتا ہے۔ جب یہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر لے تو پھر یہ بے ضرر نہیں رہ جاتا۔

دہشت گردی کا خصی پن

گزشتہ عرصے کے واقعات سے عوام یہ نتیجہ اخذ کر سکتی ہے کہ دہشت گرد ہر جگہ موجود ہیں اور وہ کہیں پر بھی خبردار کئے بغیر حملہ کر سکتے ہیں۔ اس ان دیکھے، انجانے دشمن کے سامنے ریاست بانجھ نظر آتی ہے۔ ایک تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یہ ایک انتہائی طاقتور اور ہر جگہ موجود قوت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی طاقت کا نہیں کمزوری کا احساس ہے۔ دہشت گردی ہمیشہ کمزور کا طاقتور کے خلاف ہتھیار رہا ہے۔

یورپ میں دہشت گردی کے واقعات اسلام کا وکٹری مارچ نہیں ہے بلکہ عراق اور شام میں اس کے نزع کی عکاسی ہیں۔ شام میں روس اور ایران کی مداخلت نے تیزی کے ساتھ عسکری صورتحال تبدیل کر دی ہے۔ ان کی مداخلت سے پہلے مغرب نے دہشت گردوں کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا تھا۔ بشار الاسد کی حکومت کو الٹنے کیلئے اپنے تمام تر ذرائع استعمال کرتے ہوئے انہوں نے درحقیقت دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کہ جنہیں سعودی عرب، قطر اور ترکی نے پیسہ اور ہتھیار فراہم کیے۔

حلب کی فتح اس سلسلے میں ایک نیا موڑ ثابت ہوئی۔ کم از کم مستقبل قریب میں اسد کو ہٹانے کے امکانات ختم ہو گئے۔ جہادیوں کو حلب چھوڑ کر کہیں اور جنگ جاری رکھنا پڑی۔ امریکہ اور اس کے حامیوں کو موصل پر فوج کشی کرنی پڑی جو کہ مفتوح ہونے کے قریب ہے۔ داعش کی اپنے تئیں اعلان کردہ ’’خلافت‘‘ کا خاتمہ اب بہت قریب ہے۔

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلامی دہشت گردی کا خاتمہ ہو گیا ہے۔یہ زہر اب دوسرے ممالک میں پھیل چکا ہے: لیبیا، صومالیہ، نائجیریا، انڈونیشیا، یہاں تک کہ فلپائن۔ اور داعش شام اور عراق میں اپنی شکستوں کے بدلے لے رہی ہے۔ وہ یورپ میں اپنے ہمدردوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ ’’صلیبی جنگجوؤں‘‘ کے خلاف تباہی و بربادی کے سیلاب کھول دئیے جائیں، جس کا مطلب یورپ کی عوام ہیں: مرد، خواتین اور بچے۔

ریاست کی عسکری قوتوں کو شکست دینے میں ناکامی کے بعد دہشت گرد انفرادی حملے کر رہے ہیں جن میں ’’آسان‘‘ اہداف منتخب کئے جاتے ہیں۔ ان اہداف کیلئے کوئی بڑی پلاننگ یا قوتوں کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن ان کے عوامی شعور پر گہرے اثرات پڑتے ہیں۔ لیکن خوف و ہراس پھیلانے کے ساتھ ساتھ ریاست پر ان حملوں کا حقیقی اثر نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ حقیقی نتیجہ اس سے بہت مختلف ہوتا ہے جس کی دہشت گرد توقع کر رہے ہوتے ہیں۔ دہشت گردی ہمیشہ سے ریاست اور اس کے جبر کے آلے کی مزید مضبوطی کا باعث بنی ہے۔ ہر حملے کے بعد کہرام مچ جاتا ہے کہ ریاست کی قوتوں کو اور زیادہ بڑھایا جائے جبکہ جمہوری حقوق کو زیادہ سے زیادہ سلب کیا جائے۔ سب سے زیادہ بدنام زمانہ نیویارک میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد ہوم لینڈ ایکٹ اور اسی طرح کے اور رجعتی اور جابر قوانین لاگو کئے گئے۔

دہشت گردی ریاست اور سامراجیت کا مقابلہ کرنے کے بجائے رجعتی قوتوں کو تقویت فراہم کرتی ہے جو حریصانہ بے قراری سے دہشت گردی سے فیض یاب ہوتے ہیں، اسی طرح جس طرح ریاست کے تشدد کے نتیجے میں اور زیادہ مایوس و بیگانہ مسلمان نوجوان دہشت گردی کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ یہ دونوں عفریت جو بظاہر ایک دوسرے کے خلاف بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں حقیقت میں اپنے وجود کیلئے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔

نسل پرستی کے خلاف جنگ! طبقاتی جڑت اور یکجہتی کیلئے!

مانچسٹر حملے کے بعد یہ بات قابل فہم ہے کہ لوگوں کو رد عمل کا خوف تھا۔ بہت سارے مسلمان بدلے کے خوف میں مبتلا ہیں کہ ان کی کمیونٹی پر عابدی کے خوفناک جرم کا الزام ڈالا جائے گا۔ لیکن ابھی تک اس طرح کے رد عمل کے بہت کم نشانات ملے ہیں۔ انتہائی دائیں بازو کی انگلش ڈیفنس لیگ نے مانچسٹر ارینا (جہاں دھماکہ ہوا) کے قریب آرنڈیل شاپنگ سنٹر میں ایک چھوٹا احتجاج منظم کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ان پر غصے میں بھرے لوگوں نے آوازیں کسیں اور پولیس نے انہیں منتشر کر دیا۔ واقعے کے بعد کی تقریبوں میں لوگوں نے بہت سارے پلے کارڈ اور بینر اٹھائے ۔ ان میں سے ایک پر لکھا ہوا تھا:’’نفرت سے نفرت کا خاتمہ نہیں ہوتا۔‘‘ عوام کی بھاری اکثریت کا یہی خیال ہے۔

اس خوفناک واقعے پر مانچسٹر اور لندن کے محنت کش طبقے کا شاندار رد عمل سامنے آیا ہے۔ خون کے عطیات دینے کیلئے اتنے لوگ اکٹھے ہو گئے کہ چند گھنٹوں بعد ہی لوگوں کو واپس بھیجنا پڑا کیونکہ اسٹاک مکمل طور پر بھر چکا تھا۔ مانچسٹر میں بہت سارے لوگوں نے سوشل میڈیا پر ان لوگوں کو اپنے گھروں میں رات گزارنے کی آفر کی جو دور دراز کے شہروں سے آئے ہوئے تھے اور رات کو واپس نہیں جا سکتے تھے۔

نرسز، ڈاکٹر اور پیرا میڈیکس ہسپتالوں میں اپنی شفٹ ختم ہونے کے ساتھ ہی خود رو انداز میں جائے وقوع پر پہنچ گئے۔ سکھ مفت میں پانی اور کولڈ ڈرنکس فراہم کر رہے تھے۔ سکھ ٹیکسی ڈرائیوروں نے اپنے میٹر بند کر دئیے اور ساری رات پریشان حال لوگوں کو شہر کے مختلف محفوظ مقامات پر پہنچاتے رہے۔ مسلم ایڈ اور احمدیہ کمیونٹی کے لوگ ساری رات جائے وقوعہ پر امداد کیلئے موجود رہے۔ ایک مقامی مسجد سے خواتین بھی امداد کیلئے موجود تھیں۔

محنت کش طبقہ ہی وہ واحد قوت ہے جو دہشت گردی کو شکست دے سکتی ہے اور سرمایہ داری اور سامراجیت کے خلاف سنجیدہ جدوجہد کر سکتی ہے۔ حکمران طبقہ اور دہشت گرد، دونوں محنت کش طبقے کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں لیکن محنت کشوں کی بھاری اکثریت جانتی ہے کہ ان کی اصل قوت ان کا اتحاد ہے۔

سوشلزم یا بربریت!

اکثر لوگ جب اپنے ارد گرد کی دنیا دیکھتے ہیں تو مایوس کن نتائج اخذ کرتے ہیں۔ یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں۔ اکیسویں صدی کی دنیا نہ ختم ہونے آلام و مصائب کی منظر کشی کر رہی ہے: ہر طرف درد، موت، تباہی، نہ ختم ہونے والی جنگوں اور دہشت گردی کے سائے منڈلا رہے ہیں جو اب بے قابو وبا کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

پیداواری قوتیں یا تو جمود کا شکار ہیں یا پھر انحطاط کا۔ اکثریت کا معیار زندگی گرتا جا رہا ہے جبکہ مٹھی بھر لوگ نا قابل یقین مال و دولت کے انباروں پر قبضہ کئے بیٹھے ہیں۔ خود غرضی، لالچ اور انسانی تکلیفوں کی طرف بے حس رویے کو سب سے بڑی اقدار گنا جا رہا ہے۔ سماج بیمار ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس بیماری کا علاج کسی کے پاس موجود نہیں۔

یہ اخذکردہ نتیجہ درست ہے لیکن یکطرفہ ہے۔ جو تباہ و بربادی ہم دیکھ رہے ہیں یہ ایک ایسے سماجی وسیاسی نظام کی دین ہیں جو بہت پہلے اپنی تاریخی افادیت کھو چکا ہے۔ سرمایہ داری قریب المرگ ہے لیکن مرنے سے انکاری ہے۔ اپنی موت کی تکلیف میں یہ پورے انسانی سماج کو برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ صدیوں کی انسانی ترقی، آرٹ، سائنس، ثقافت اور تہذیب کو ایک برباد اور تباہ حال سماجی و معاشی نظام سے خطرہ ہے۔

پرانے سماج کی کوکھ سے ایک نئی دنیا جنم لینے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو وہ تمام وسائل اور حالات موجود ہیں جن سے تمام مسائل کو حل کر لیا جائے۔انسان کے پاس وہ تمام سائنسی اور تکنیکی وسائل موجود ہیں جن کے ذریعے غربت، بیماری، بے روزگاری، بھوک، بے گھری اور ان تمام خباثتوں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے جو نہ ختم ہونے والی تکلیفوں، جنگوں اور لڑائیوں کی وجوہات ہیں۔

اگر یہ نہیں کیا جا رہا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ کیا نہیں جا سکتا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک ایسے معاشی نظام کی حدود تک پہنچ چکے ہیں جو منافع پر مبنی ہے اور اس میں یہ کیا نہیں جا سکتا۔ اس کرہ ارض پر حکمرانی کرنے والے بینکاروں اور سرمایہ داروں کے سنجیدہ حساب کتاب میں انسانی ضروریات کا کوئی عمل دخل نہیں۔ یہ وہ کلیدی سوال ہے جو نسل انسانیت کے مستقبل کا تعین کرے گا۔

اگر ہم مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کو لے لیں جو کہ مل کر اسلامی دنیا بناتے ہیں تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ خطہ جو دریائے فرات سے لے کر بحر اوقیانوس تک پھیلا ہوا ہے، ان تمام وسائل سے مالا مال ہے جن کے ذریعے اس کو جنت بے نظیر بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن سرمایہ داری کی دہائیوں طویل حکمرانی اور سامراجی لوٹ مار نے اس خطے کو کروڑوں انسانوں کیلئے جہنم بنا دیا ہے۔

زمین تلے بے پناہ معدنی قوت، ممکنہ زراعت کیلئے موجود دیو ہیکل زمین، دریاؤں، موسم اور کروڑوں صحت مند مردو اور خواتین جو یہاں رہتے ہیں ایسے دیوہیکل پیداواری ممکنات کے حامل ہیں جو کہ ہمیشہ کیلئے لوگوں کی زندگیاں بدل سکتے ہیں۔ لیکن یہ دیو ہیکل قوت ضائع کر دی گئی ہے۔

کروڑوں نوجوان جن میں بہت سارے ایسے طلبہ شامل ہیں جو ڈاکٹر، انجینئر، اساتذہ اور زراعت کے ماہر ہیں اس وقت بے روزگاری، مایوسی اور مستقبل میں بہتری کی ناامیدی میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں۔ عراق، شام اور لیبیا میں مستقل سامراجی مداخلت نے ان علاقوں کو تباہ و برباد کر دیا ہے اور یہاں کی عوام عہد بربریت میں زندہ رہنے پر مجبور ہے۔ اگر کسی کو دہشت گردی کی وجوہات کو سمجھنا ہے تو اس خطے کے مطالعے سے آگے جانے کی ضرورت نہیں۔

دہشت گردی کی بربریت ان خوفناک حالات کا عکس ہے جن میں کروڑوں لوگ رہنے پر مجبور ہیں۔ اور یہ بربریت اب یورپ کے دروازے پر دستک دے رہی ہے جہاں عوام کے جان و مال کو خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ یہ ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے اور اس کا حل بھی سنجیدہ ہی ہے۔ یہ خیال کہ ’’دہشت گردی کا مقابلہ‘‘ ہتھیاروں سے کیا جا سکتا صرف دھوکہ دہی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک ڈاکٹر کسی مرض کے علاج کیلئے اس کی علامات پر نشتر چلا دے۔ یہ طریقہ کار نہ صرف دردناک ہے بلکہ بے کار بھی ہے۔ یہ کبھی بھی مرض کا علاج نہیں کر پائے گا لیکن مریض کو ہمیشہ کیلئے مسخ ضرور کر دے گا۔

ہسپانوی سوشلسٹ لارگو کاباریلو نے بہت عرصہ پہلے کہا تھا کہ آپ کینسر کا علاج ڈسپرین سے نہیں کر سکتے۔ گھمبیر مسائل کیلئے گھمبیر حل ہی ہو سکتے ہیں۔ یہاں مسائل کی جڑوں تک پہنچنا لازمی ہے۔ اصل مسئلہ بذات خود سرمایہ داری ہے۔ بڑی اجارہ داریوں اور بینکوں کی حکمرانی کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ سماج کا تمام تر کنٹرول اس طبقے کے ہاتھوں میں دینا ہو گا جو سماج کی ساری دولت پیدا کرتا ہے اور وہ واحد طبقہ جو نسل انسانی کے مستقبل کیلئے فکر مند ہے: محنت کش طبقہ۔

ایک منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت جو چند انسانوں کے منافعوں کے بجائے تمام انسانوں کی ضروریات پوری کرنے پر معمور ہو، ہمارے سیارے کے دیو ہیکل وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے پوری نسل انسانی کیلئے مفید ثابت ہو گی۔ ہم اس دنیا میں وہ جنت تعمیر کر سکتے ہیں کہ جس کے بعد دوسری دنیا کی جنت کے خواب دیکھنے کی ضرورت ختم ہو جائے گی۔ یہی نسل انسانی کی امید ہے اور یہی وہ مقصد ہے جس کیلئے جدوجہد کی جا سکتی ہے۔

لندن، 7جون 2017ء

Comments are closed.