فلسطین پر جاری اسرائیلی جارحیت پر عالمی مارکسی رجحان کا اعلامیہ؛ غزہ پر بمباری بند کرو! اسرائیلی قبضہ نامنظور! فلسطینی جدوجہد کی عالمی سطح پر حمایت تیز ہو!

|منجانب: عالمی مارکسی رجحان|

پچھلے کچھ دنوں سے غزہ کے علاقے میں جاری اسرائیلی جارحیت شدت اختیار کرتی جا رہی ہے، جس کے حوالے سے عالمی مارکسی رجحان (آئی ایم ٹی) کی جانب سے مندرجہ ذیل اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔ ہم بمباری اور فلسطین کے اوپر اسرائیلی قبضے کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو ایک آزاد فلسطین، اور مشرقِ وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کے لیے متحرک ہو کر لڑنا پڑے گا۔

انگریزی میں پڑھے کیلئے یہاں کلک کریں

یہ تحریر لکھتے وقت اسرائیلی ڈیفنس فورس (آئی ڈی ایف) کی جانب سے غزہ کے اوپر بمباری میں شدت آ رہی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی سب سے بڑی عسکری قوت دنیا کے سب سے گنجان آباد اور غریب علاقوں میں سے ایک کے اوپر بے رحمی سے ہزاروں کی تعداد میں بم گرا رہی ہے۔ اس دوران، انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے صیہونی آبادکاروں اور فاشسٹ غنڈوں کے ٹولے اسرائیل کے اندر ہی فلسطینی محلّوں پر حملے کر کے گھروں، املاک اور دکانوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں، جو معصوم لوگوں کو محض فلسطینی ہونے کی وجہ سے مار پیٹ کا نشانہ بنا رہے ہیں اور انہیں قتل کر رہے ہیں۔ نسلی دہشت کے یہ واقعات اسرائیل کی ریاستی فورسز کی بالواسطہ یا کھلے عام حمایت کی مدد سے ہو رہے ہیں اور ان کا مقصد ایک منظم نسلی تطہیر کے علاوہ کچھ نہیں۔

غزہ کے لوگوں کے پاس فرار ہونے کا کوئی راستہ نہیں اور وہ بجلی، صاف پانی، بنیادی طبی سامان، حتیٰ کہ خوراک جیسی انتہائی ضروری اشیاء سے محروم ہیں، پہلے ہی معاشی ناکہ بندی کی وجہ سے پچھلے چند مہینوں کے دوران یہاں سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن رہے تھے۔

Israeli Police Image Israel Police

2018 میں نیتن یاہو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کے ساتھ فلسطینیوں کے نسلی قتل عام ادارہ جاتی سطح پر تعصب پر مبنی ایک قانون پاس کرایا۔

مغربی سامراجی قوتوں کی جانب سے، چاہے وہ امریکی ریاست ہو یا ”مہذب“ یورپ، کبھی بھی غزہ، مغربی کنارہ، مشرقی یروشلم اور اسرائیل کے اندر موجود اس فلسطینی آبادی کے لیے ذرہ برابر ہمدردی کا اظہار نہیں کیا گیا جو روازنہ کی بنیاد پر اسرائیلی حکومت کی جارحیت کا نشانہ بن رہی ہے۔ اس عمل میں سعودیہ عرب، متحدہ عرب امارات، اردن اور مصر میں موجود سامراجیت کی چمچہ گیر حکومتوں کی منافقت کا پردہ بھی چاک ہو رہا ہے۔

دہائیوں سے قائم نام نہاد سامراجی ”امن“ کی وحشت پہلے سے بھی زیادہ شدت اختیار کر چکی ہے، جس کا مقصد خونی تشدد کے ذریعے فلسطینی لوگوں کی مزاحمت کو دبانا ہے۔ اسرائیل کا رجعتی حکمران طبقہ ”امن“ اور جنگ دونوں ادوار میں اپنی زمین واپس حاصل کرنے کا بہانہ بنا کر نسلی تطہیر کو جاری رکھتا ہے۔ ان کا نعرہ ہے ”ہم اپنی زمین ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے“، وہ ”ارضِ اسرائیل“ (خدا کی جانب سے آلِ ابرہیم کو سونپی گئی زمین) کو غیر مناسب فلسطینی آبادی سے صاف کرنا چاہتے ہیں۔ نسلی تطہیر اور منظم تعصب کا یہ منصوبہ یہودی قومی ریاست کے اس نسل پرست قانون کے سرِ ورق میں بھی درج ہے جسے نیتن یاہو نے 2018ء کے موسمِ گرما میں منظور کرایا تھا اور جسے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سراہا تھا۔

ہمیشہ کی طرح، حالیہ جنگ میں بھی سب سے پہلے سچ کا گلا گھونٹا گیا۔ مین سٹریم عالمی میڈیا، جس پر سرمایہ دار قابض ہیں، وہی پرانے گھسے پٹے موقف کا پرچار کر رہے ہیں کہ ”دونوں اطراف سے تشدد کا خاتمہ ہونا چاہئیے“، اور ایسا کرتے ہوئے وہ اسرائیل کے ”اپنا دفاع“ کرنے کی حمایت کر رہے ہیں۔ وہ صورت حال کو اس انداز میں پیش کر رہے ہیں جیسے کہ دونوں فریقین اس میں برابر کے شریک ہوں اور دونوں کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹانا ہو۔ اس طرح کی صورتحال میں ”غیر جانبداری“ مظلوم کے خلاف ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف ہوتی ہے۔

وہ اسے جنگ کا نام دے رہے ہیں، مگر یہ ”جنگ“ نہیں ہے۔ یہ فلسطینی عوام سے ان کی زمین کا حق اور دیگر بنیادی انسانی حقوق مکمل طور پر چھیننے کی یک طرفہ کوشش ہے۔ یہ سامراجی ”امن“ کی اہم خصوصیت ہے کہ فلسطینی محنت کشوں اور نوجوانوں کی جانب سے روزمرہ کے ظلم کے خلاف کسی بھی پُر امن مزاحمت کو جرم قرار دے کر اسے بے رحمانہ اور خونی جبر کا نشانہ بنایا جائے۔

پچھلے چند ہفتوں کے دوران اس قسم کے جبر میں شدت آئی، جب مشرقی یروشلم کے محلے شیخ جراح کے لوگوں کی بے دخلی کے خلاف ابھرنے والی عوامی تحریک کو دبانا شروع کیا گیا۔ اس کے بعد اسرائیلی ریاست نے فلسطینیوں کو اشتعال دلانے کے لیے مسجدِ اقصیٰ میں موجود نمازیوں کے اوپر خون آلود حملہ کر کے وہاں داخل ہونے سے روک دیا۔ یہ مسلمانوں کے اہم ترین مراکز میں سے ایک ہے جہاں یہ حملہ رمضان کے آخری دنوں میں کیا گیا۔

اشتعال انگیزی کی اس کارروائی کا مقصد حماس کے ساتھ جنگ کرنے کا جواز پیدا کرنا تھا۔ یہ نیتن یاہو کی ایک سوچی سمجھی چال تھی، جو اس نے اسرائیل کے طاقتور ترین شخص کے طور پر اپنی حیثیت برقرار رکھنے اور مخلوط حکومت کے قیام، جس میں اسے اقتدار سے باہر کیا جاتا، کے امکانات ختم کرنے کے لیے چلی۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ نیتن یاہو نے فلسطین مخالف نفرت کے جذبات کا استعمال کیا ہے تاکہ اسرائیلی حکمران طبقے، ریاست اور اسرائیل کے اندر یا باہر موجود یہود آبادی کے بیچ حکومت کی جانب سے ”تحفظ“ کے نام پر لیے گئے رجعتی اقدامات کی حمایت حاصل کر سکے۔
یہ سطور رقم کرتے وقت اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 119 فلسطینی مارے جا چکے ہیں (جن میں 31 بچے اور 19 خواتین شامل ہیں)، اس تعداد سے حقیقت کا اظہار ہوتا ہے۔ آئی ڈی ایف کی جانب سے ”صرف حماس کو نشانہ بنانے“ کا دعویٰ سراسر منافقانہ ہے، اور اس نام نہاد جنگ میں دونوں اطراف کے غیر مساوی ہونے اور قوتوں کے عدم توازن کی حقیقت سامنے آئی ہے۔

حماس کی جانب سے اسرائیل پر مارے گئے سینکڑوں میزائلوں کے نتیجے میں اسرائیلی آبادی کے اندر بھی 7 افراد مارے جا چکے ہیں (بشمول 2 فلسطینیوں کے جن کے محلے میں حفاظتی انتظامات موجود نہیں تھے)۔ اس قسم کے میزائل حملوں سے فلسطینی جدوجہد کو الٹا نقصان پہنچتا ہے اور یہ نیتن یاہو کو مزید تقویت دینے کا باعث بنتے ہیں، جس کی وجہ سے اسرائیلی محنت کش اسرائیلی ریاست کے پیچھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

مارکس وادی اور بین الاقوامیت پسند ہونے کے ناطے ہم اس قسم کے تنازعات میں غیر جانبدار یا کسی ایک طرف کے حامی نہیں ہوتے۔ ہم فلسطینیوں کے زمینی حقوق، جبر کے خلاف مزاحمت اور ہر ممکن طریقے سے اپنی جانوں کا دفاع کرنے کے حقوق کی حمایت کرتے ہیں۔ مظلوموں کی جانب سے کیا جانے والا تشدد کبھی بھی ظالموں کے تشدد کے برابر نہیں ہو سکتا۔

منفرد صورتحال

حالیہ احتجاجوں کی ایک اہم خاصیت یہ ہے کہ ان میں گرین لائن کے اندر موجود فلسطینیوں نے ماضی کی نسبت بہت بڑی تعداد میں حصّہ لیا ہے۔ مطلب یہ کہ اس میں وہ لوگ شامل ہیں جو قانونی طور پر (دوسرے درجے کے) اسرائیلی شہری ہیں۔ اس تحریک کی قیادت نئی نسل کے لڑاکا افراد کر رہے ہیں جو فلسطینی لوگوں کی نام نہاد قیادت، فتح اور حماس دونوں، کی بے کار حکمتِ عملیاں مسترد کر رہے ہیں۔

ماضی سے مختلف ایک اور چیز ان واقعات کا سیاق و سباق ہے۔ پچھلے عرصے کے دوران دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ محنت کشوں اور نوجوانوں، بشمول یہودی محنت کش اور نوجوان، نے اپنے اپنے ممالک کے اندر عوامی تحریکوں کے اوپر ریاستی جبر سے اسباق سیکھے ہیں۔ اپنے تجربات کی بنیاد پر وہ مین سٹریم میڈیا کی جانب سے پھیلائے گئے جھوٹ کی تشخیص کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔ اسرائیل کے اندر فلسطینی لوگوں کی مزاحمتی عوامی تحریک نے دنیا بھر کے کروڑوں افراد کے سامنے اسرائیلی ریاست کے اس جبر کو واضح کیا ہے جس کے ذریعے فلسطینیوں کے جائز حقوق اور زندگیوں کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ اس حقیقت کی گونج سماج کے ہر کونے میں پروان چڑھتے انقلابی رجحان میں سنائی دے رہی ہے۔

دنیا بھر میں غزہ کے اوپر بمباری اور فلسطینیوں کی نسلی تطہیر کے خلاف عوامی مظاہرے منعقد کیے جا رہے ہیں۔ یہ تحریر لکھتے وقت، ہزاروں فلسطینی براستہ اردن اسرائیل داخل ہونے کی پُر امن کوشش کر رہے ہیں تاکہ اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کی جدوجہد میں شامل ہو سکیں۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ عرب حکومتوں کی منافقت اور ان کی نام نہاد ”فلسطینی جدوجہد کی حمایت“ کا پردہ بھی چاک کر رہے ہیں۔

یہ عالمی مزدور تحریک کا فریضہ ہے کہ فلسطینی عوام کی مزاحمت کی حمایت کرے اور تمام سرمایہ دارانہ حکومتوں کے جھوٹوں اور مفادات کو بے نقاب کرے، خاص کر بڑے سامراجی ممالک کے اندر۔ اقوامِ متحدہ یا کسی بھی سامراجی قوت کی جانب سے ”امن“ اور ”مذاکرات“ کی منافقانہ گزارشات سے کبھی بھی فلسطینیوں کے حقوق کا دفاع ممکن نہیں ہو سکے گا۔ در حقیقت، جب تک اس سیارے پر سرمایہ داری اور سامراجیت کا غلبہ رہے گا تب تک موجودہ وحشت کا خاتمہ اور امن کا قیام ممکن نہیں ہو سکتا۔ فلسطینی عوام کے مسائل تب تک مستقل طور پر حل نہیں کیے جا سکتے جب تک دنیا بھر کے اہم سامراجی ممالک کے اندر سرمایہ داری کا تختہ نہیں الٹ دیا جاتا۔

ہمیں اس تحریک کو سرمایہ داری کے خلاف عالمی سطح پر انقلابی جدوجہد کے جُز کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر تحریکوں کی جڑت سے نیتن یاہو کی چال کے الٹے نتائج نکل سکتے ہیں۔ اسرائیلی حکمران طبقہ اور آئی ڈی ایف اسرائیلی علاقوں کے اندر فلسطینیوں کی عوامی تحریک ابھرنے سے خوفزدہ ہیں، اور ان کے بیچ اس حوالے سے مخالفت موجود ہے کہ غزہ کے اوپر حملوں کو جاری رکھا جائے یا اپنے مقاصد حاصل کرنے کا ڈھونگ رچا کر انہیں روک دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ، وہ غزہ کے اندر پیدل فوج بھیجنے کی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں، جیسا کہ انہوں نے 2014ء میں کیا تھا، جب 2300 فلسطینیوں کو قتل کیا گیا تھا۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں، متعصب قتلِ عام میں مزید شدت آئے گی اور اس پر آنے والا ردّ عمل بھی پہلے سے زیادہ شدید ہو گا۔

جنگ اور سامراجی ”امن“ کے زہریلے نتائج

آج جو کچھ ہم فلسطین اور اسرائیل کے اندر ہوتا دیکھ رہے ہیں، یہ سامراجی ”امن“ کے زہریلے نتائج کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس نظام کی جانب سے فلسطینی آبادی پر قبضوں اور ان کے قتلِ عام میں شدت آتی جا رہی ہے جو ان کے ساتھ متعصب رویہ اپنانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس عمل کے دوران، نیتن یاہو انتہائی دائیں بازو کے صیہونیوں پر انحصار کرتا رہا ہے، بشمول اس کے فاشسٹ حصوں پر، جو یہود آباد کاروں سے حمایت حاصل کر رہا ہے۔ اس نے اپنی سیاسی حیثیت کو خطرے میں ڈال کر انہیں رعایتیں دی ہیں، اور یوں ان کی پُر اعتمادی میں اضافے کا باعث بنا ہے۔

اسرائیل ادارہ جاتی بحران کا شکار ہے، جہاں متواتر تین انتخابات میں کوئی واضح اکثریت حاصل نہیں کی جا سکی ہے۔ ابھی تک، نیتن یاہو مشکلات کا سمندر پار کرنے اور کرپشن سکینڈلز کے الزامات سے بچ کر نکلنے میں کامیاب رہا ہے۔ البتہ اس کی بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جب اس کا اہم حریف جنرل بینی گانتز اس کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل ہوا تو ماضی کے اندر نیتن یاہو کے کرپشن کے خلاف اس کی ساری جدوجہد بے کار چلی گئی۔ ابھی گانتز اپنے حریف سے بھی زیادہ فلسطین مخالف رویہ اپنا رہا ہے، جو سماج میں موجود دائیں بازو کے حمایتیوں کو 2014ء میں غزہ کے اندر ہونے والے قتلِ عام میں اس کی جانب سے ادا کیے گئے کردار کی یاد دہانی کروا رہا ہے۔ سیاسی بحران پر قابو پانے کیلئے نیتن یاہو کو نکال کر یائیر لبید کو تعینات کیا گیا مگر اس سے بھی مسئلہ حل نہ ہوا۔

اسرائیل ایک طاقتور ریاست ہے، مگر اس بات کی واضح علامات سامنے آ رہی ہیں کہ صیہونی ریاست کے اندر بحران پروان چڑھ رہا ہے۔

70 سالہ امریکی خارجہ پالیسی اور ٹرمپ

حتمی تجزیے میں امریکی ریاست نے ہمیشہ اسرائیل کی حمایت کی ہے۔ اس کی تصدیق امریکہ کی جانب سے مہیا کی جانے والی فراخ دلانہ سبسڈیوں کے ذریعے ہوتی ہے، جس کے بغیر اسرائیلی حکمران طبقے کے لیے خطے کے اندر معاشی اور عسکری برتری حاصل کرنا ممکن نہیں ہو پاتا۔ امریکی وزیرِ خارجہ جنرل الیگزینڈر ہیگ نے ایک دفعہ اسرائیل کے بارے میں کہا تھا کہ یہ ”پوری دنیا میں امریکہ کا سب سے بڑا ہتھیار ہے جسے کبھی بھی تباہ نہیں ہونا چاہیے۔“

البتہ، امریکی ریاست نے خطے کے اندر اپنی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے فلسطینی سوال پر کئی دہائیوں تک ’غیر جانبداری‘ کا دکھاوا بھی کیا ہے۔ اس حوالے سے، امریکی سامراجیت نے فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کو فلسطینی قیادت کے ساتھ متعدد ”امن“ معاہدوں کے ذریعے دبائے رکھا، جس میں وہ خطے کے اندر موجود اتحادیوں کی مدد لیتی رہی ہے (یعنی اردن، مصر، سعودی عرب اور گلف ریاستوں میں موجود رجعتی عرب حکومتوں کی مدد)۔ اسی سلسلے میں 1993ء کے اندر اوسلو اور میڈریڈ معاہدے کیے گئے اور فلسطینی نیشنل اتھارٹی قائم کی گئی، جس کی تب مارکس وادیوں نے مخالفت کر کے کہا تھا کہ یہ فلسطینی عوام کی جدوجہد کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔

سابقہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کی غیر منقسم دارالحکومت کے طور پر اور نسل پرست یہودی قومی ریاست کے قانون کو تسلیم کر کے چلتے آرہے اس دکھاوے کا خاتمہ کر ڈالا۔ اس نے خطے کے اندر 70 سالہ امریکی خارجہ پالیسی کو مسمار کر کے فلسطین کے حوالے سے دو ریاستوں کے حل والے خیال کو ڈبو دیا۔ یہ سلسلہ ٹرمپ کے حیرت انگیز ”صدی کا سب سے بڑا سودا“ اور نام نہاد معاہدہ ابرہیم پر اختتام پذیر ہوا۔

اس سے فلسطینیوں کو واضح پیغام ملا کہ: ”اگر وہ اپنی زندگیوں کا دفاع کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی قوتوں کے اوپر انحصار کرنا پڑے گا۔“ اس پیغام کو انہوں نے بخوبی سمجھ لیا۔ پچھلے مہینوں کے اندر جاری مسلسل اشتعال انگیزی کے خلاف غیر متوقع مزاحمت اور جدوجہد میں شدت کی یہی وجہ ہے۔ اور لازم ہے کہ انہی بنیادوں پر سامراجیت، سرمایہ داری اور دنیا بھر کے مظالم کے خلاف عالمی سطح پر نوجوانوں اور محنت کش طبقے کی انقلابی تحریک کو تعمیر کیا جائے۔

سامراجی ”امن“ کے منصوبے نا منظور! فلسطینیوں کی آزادی کیلئے جدوجہد تیز ہو!

عالمی مارکسی رجحان فلسطینی عوام کے ساتھ مکمل اظہارِ یکجہتی کرتا ہے، جو اسرائیلی مسلح افواج کی جانب سے ایک دفعہ پھر جارحانہ حملوں کا شکار ہو رہے ہیں اور ان حملوں کو جائز قرار دینے کے لیے نیتن یاہو حکومت کے بنائے گئے سارے بہانے مسترد کر رہے ہیں۔

فلسطینیوں کو اپنی زمین رکھنے کا حق ہے اور جب تک انہیں یہ ان کی اپنی زمین نہیں مل جاتی، یہ تنازعہ جاری رہے گا۔ البتہ، اسرائیل کا صیہونی حکمران طبقہ کبھی بھی حقیقی معنوں میں فلسطینیوں کو یہ حق نہیں دے گا۔ اسی لیے اس کا تختہ الٹنا لازم ہے۔ ایسا کرنے کے لیے اسرائیلی سماج کو طبقاتی بنیادوں پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔

اسرائیل دنیا کے سب سے غیر مساوی سماجوں میں سے ایک ہے۔ وہی حکمران طبقہ جو فلسطینیوں کو جبر کا نشانہ بناتا ہے، اسرائیلی محنت کشوں اور نوجوانوں کے معیارِ زندگی پر بھی حملہ آور ہو رہا ہے۔ پچھلے سال نیتن یاہو کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج دیکھنے کو ملے۔ فلسطینی عوام کے انقلابی تحرک کو دنیا بھر میں محنت کش طبقے کی سامراج مخالف اور سرمایہ دار مخالف تحریک کے ذریعے آگے لے جانا پڑے گا۔

فلسطینی محنت کشوں اور نوجوانوں کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ اسرائیلی ریاست کی پشت پناہی میں صیہونی آباد کاروں کے فاشسٹ ٹولوں کی جانب سے کیے جانے والے حملوں سے اپنا اور اپنے محلّوں کا دفاع کریں۔ یہ عمل حیفا سمیت دیگر شہروں کے اندر ابھی سے سامنے آ رہا ہے جہاں عوامی دفاعی کمیٹیاں قائم کی جا رہی ہیں۔

فلسطینی اور یہودی محنت کشوں اور نوجوانوں کی جانب سے صیہونی ریاست کے خلاف طبقاتی جدوجہد کے کسی بھی اقدام کی حمایت کر کے اس کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف اسی طریقے سے صیہونی ریاست کا خاتمہ اور ایک ایسی ریاست کا قیام ممکن ہو سکے گا جو یہودیوں اور فلسطینیوں، دونوں کو مساوی حقوق دے گی۔

البتہ یہ ایک ایسی ریاست کے ذریعے ممکن ہے جس پر یہودی اور فلسطینی عام محنت کشوں کے مکمل اختیارات ہوں، مطلب ایک سوشلسٹ ریاست جہاں کوئی مراعات یافتہ حکمران اشرافیہ اقتدار میں نہ ہو۔

غزہ کے اوپر بمباری روکنے کے لیے عالمی سطح پر محنت کش طبقے کو متحرک کرو!

فلسطینیوں کی مزاحمت کی حمایت کرو!

کامیابی تک جدوجہد جاری رکھو!

قبضے کا خاتمہ کرو!

مشرقِ وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن کے ذریعے فلسطینیوں اور یہودیوں، دونوں کے زمین رکھنے کے حق کی خاطر جدوجہد تیز ہو!

Tags: × ×

Comments are closed.