ہانگ کانگ: عوامی تحریک کی پسپائی اور اہم اسباق

|تحریر: ڈینئیل مورلے، ترجمہ: جویریہ ملک|

جون کے مہینے کے اختتام پر، چینی حکومت نے ڈرامائی انداز میں ہانگ کانگ کی عوام کے جمہوری حقوق کو سلب کرتے ہوئے اس خطے پر ایک نیا ’قومی سلامتی کا قانون‘ نافذ کردیا۔ چینی حکمران کسی نہ کسی طرح سے ہانگ کانگ میں ’ایک ملک، دو نظام‘ کے اصول کو ختم کرنے اور ہانگ کانگ اور اس کی آبادی پر وہی کنٹرول حاصل کرنے کے لئے بے چین ہیں جو کہ بیجنگ کو بقیہ ماندہ ملک پر حاصل ہے۔

ہانگ کانگ میں تحریک چین کے لئے ناقابل برداشت ہے، نہ صرف اس وجہ سے کہ وہ چین کے اندر حکمران طبقے کے خلاف جدوجہد کے لئے عمل انگیز بن سکتی ہے، بلکہ اس لئے بھی کہ یہ امریکی سامراجی طاقت کا ذریعہ بن گیا ہے، جو چین کے خلاف اپنی سازشوں میں اسے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کمزوری پر قابو پانے کے اقدام نے ایک بار پھر امریکہ اور برطانیہ کو چین کو نشانہ بنانے کا جواز فراہم کر دیا۔ امریکہ نے بدھ کے روز(یکم جولائی) چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کے بعض عہدیداروں اور ان بینکوں اور تجارتی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرنے کا بل منظور کیاجنہیں امریکہ معاملات میں ملوث گردانتا ہے۔

امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی نے پھر مسکراتے ہوئے اعلان کیا کہ ”تمام ’آزادی پسند‘ لوگوں کو چین کے نافذ کردہ اس خوفناک قانون کی مذمت کرنی چاہیے“۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اور ڈومینک راب نے بھی کم وبیش یہی کچھ دہرایا، اور برطانیہ کی سرحدوں کو ہانگ کانگ کے 30 لاکھ افراد کے لیئے کھول کر پناہ اور قیام کی ’خوشخبری‘ دی۔

اس سلسلے میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے کہ امریکہ اور برطانیہ کسی کو بھی جمہوریت اور آزادی کی بابت بھاشن دینے کا کوئی جواز نہیں رکھتے۔ ان دونوں سامراجی ملکوں کی تاریخ انتہائی بھیانک اور خونی تاریخ ہے۔ برطانیہ کے تبصرے خاص طور پر منافقانہ ہیں، کیوں کہ اس نے کئی دہائیوں تک بغیر کسی جمہوری حقوق کے ایک نو آبادی کے طور پر ہانگ کانگ پر غاصبانہ حکومت کی۔ مثال کے طور پر،انگریزوں نے 1971 میں ’جرائم آرڈیننس‘ کے ذریعے ہانگ کانگ کے افراد پر حکومت مخالف کسی بھی قسم کے مواد رکھنے کے الزام کو قابل دست اندازی پولیس مجرمانہ سرگرمی قرار دیا تھا، جس میں حکام کو کسی ثبوت کے بغیر کاروائی کا اختیار حاصل تھا۔

’قومی سلامتی‘ کا یہ نیا قانون ہانگ کانگ کے شہریوں اور وہاں مقیم افراد کے چینی ریاست کیخلاف احتجاج یا منظم ہونے یا وہاں پناہ حاصل کرنے کے حقوق کو سلب کرنے کی ایک ننگی کوشش ہے۔ یہ حقیقت کہ بل چین کی پیپلز نیشنل کانگریس یا یہ کہنا بہتر ہو گا کہ اس کی قائمہ کمیٹی نے کرونا وبا کے دوران پاس کیا اور جس کو پھر ہانگ کانگ پر مسلط کردیا گیا، اس کی حقیقت کو عیاں کرنے کے لیے کافی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ہانگ کانگ کے قانون سازوں اور ’چیف ایگزیکٹو‘ کیری لیم کو بھی مسودے کی جزیات سے آگاہ کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا۔

اس قانون کے تحت ’بغاوت‘، ’بیرونی طاقتوں کے ساتھ ساز باز‘ اور ’حکومت مخالف سرگرمیوں‘ کو قابل تعزیر جرائم قرار دیا گیا ہے جو کے تحت عمر قید تک کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ ایسی کسی کاروائی میں ملوث افراد کے خلاف مقدمہ چین میں چلایا جائے گا۔ مزید برآں، اس قانون کے تحت بیجنگ کو یہ اختیار بھی حاصل ہوگیا ہے کہ جس کو چاہے ہانگ کانگ سے چین کے حوالے کردیا جائے، جس کا وہ ایک لمبے عرصے سے خواہشمند تھا۔ ملزمان کی حوالگی کے حوالے سے اس قانون میں بیجنگ کو حاصل ہونے والے اختیارات 2019ء میں پیش کیے جانے والے ملزمان حوالگی کے بل، جس کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا تھا، سے کہیں زیادہ وسیع ہیں۔ مثال کے طور پر، ان لا محدود اختیارات میں، ہانگ کانگ میں ایک چینی ایجنسی کا قیام بھی شامل ہے جس میں تمام تر عملہ بھی چین سے بھرتی کیا جائے گا:

”یہ ایجنسی شہر میں قومی سلامتی کے امور کی نگران ہو گی اور وسیع تر حکمت عملی مرتب کرنے کے لیے تجاویز پیش کرے گی۔ انٹیلی جنس کے ساتھ ساتھ اس ادارے کو قومی سلامتی سے متعلق معاملات نمٹانے کا بھی کام سونپا گیا ہے۔ اس کے عملے کو مقامی قوانین کی پابندی کرنی ہوگی لیکن وہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران ہانگ کانگ کے دائرہ اختیار میں نہیں آئیں گے۔“ (ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ، 2 جولائی 2020ء)

تلخ اسباق

2019ء کی عوامی تحریک کا تجزیہ کرتے ہوئے گزشتہ مضامین میں یہ واضح کیاگیا تھا کہ،اگر یہ تحریک واضح طبقاتی مانگوں کو پیش نہیں کرتی اور چین کے اندر رہنے والے محنت کشوں سے یکجہتی کی اپیل نہیں کرتی تو اس کا مقدرر شکست ہوگا۔ واضح حکمت عملی، نقطہ نظر یا تنظیم کے بغیر کوئی تحریک بھی ذیادہ عرصہ متحرک نہیں رہ سکتی۔ بلاشبہ کرونا اور اس کے نتیجے میں ہونے والا لاک ڈاؤن قابل پیش گوئی واقعات نہیں تھے لیکن وبا آتی یا نہیں، اس تحریک کی ناکامی تو نوشتۂ دیوار تھی۔

ان تحاریر میں ہم نے واضح کیا تھا کہ جیسے ہی تحریک پسپائی کا شکار ہوگی تو بیجنگ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرگرم کارکنان کو گرفتار اور ہانگ کانگ کی عوام جبراً اطاعت گزاری پر مجبور کرے گا۔ اور اب یہی سب ہو رہا ہے۔ حالیہ قانون منظور ہونے کے خلاف ابھرنے والے احتجاجوں کا حجم اور شدت گزشتہ سال کے مقابلے میں بہت کم تھی۔ حجم کم ہونے کا باعث، ان احتجاجوں پر قابو پانا سہل تھا،370افراد کو گرفتار کر لیا گیا جن میں میں سے 10 کو اس نئے نافذ العمل قانون کی خلاف ورزی کی پاداش میں گرفتار کیا گیا۔ گذشتہ سال کی تحریک کے نمایاں افراد، جوشوا وانگ، ناتھن لاء، اگنیس چاؤ اور جیفری اینگو نے تحریک اور فعالیت سے دست برداری کا اعلان کردیا اور 2014ء کی Umbrellaتحریک کے بعد تشکیل دی جانے والی پارٹی کو بھی تحلیل کردیا۔

اس سے بہت سے حقائق کی نشاندہی ہوتی ہے۔ نئے قانون کے تحت ہانگ کانگ کے شہریوں کے سیاسی حقوق پر شدید دباؤ آیا ہے۔ ہزاروں نوجوان جنہوں نے اپنے لبرل، سرمایہ داری کے حمایتی رہنماؤں کے باوجود بہادری سے جدوجہد کی، اب وہ شدید خطرے میں ہیں۔بدقسمتی سے ان رہنماؤں نے لا پروائی سے تحریک کو آگے بڑھایا۔ تحریک کو نظریاتی طور پر منظم کرنے، اسے محنت کشوں اور سماجی مانگوں سے جوڑنے اور ہڑتال کے ہتھیار کو استعمال کرنے کی بجائے ڈونلڈ ٹرمپ رجعتی اپیلیں کی گئیں۔ اس سب نیتحریک کو پسپا اور نوجوانوں کو جبر کا نشانہ بننے کے لیے چھوڑ دیا۔

نئے قانون نے چینی مزدوروں کو بھی اور زیادہ خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ کئی دہائیوں سے، مزدور رہنما ظلم و ستم سے بچنے کے لئے ہانگ کانگ فرار ہوتے رہے، اور یہ شہر سرزمین چین میں ہڑتال کرنے والے محنت کشوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کا مرکز بن گیا۔ نئے قانون نے بیجنگ کے لئے یہ دعوی کرناآسان بنا دیا ہے کہ ایسے لوگ دہشت گردی یا بغاوت کے لیئے غیر ملکی مالی اعانت فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں،اور چین کے حوالے کرنا اور منظر سے ہٹانا مناسب ہے۔

ہانگ کانگ کے محنت کشوں اور نوجوانوں بہت تلخ سبق ملا ہے۔ وہ واحد طاقت جو بیجنگ میں سرمایہ دارانہ آمرانہ حکومت کو شکست دینے میں ان کی مدد کر سکتی ہے وہ چین کا مزدور طبقہ ہے۔

گذشتہ بارہ مہینے سے جاری اس تحریک کا ایک اہم سبق یہ ہے کہ مغربی سامراجی حکومتیں ہانگ کانگ میں جمہوری حقوق کی جدوجہد کی دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں۔ ٹرمپ اور بورس جانسن من مرضی سے جس چیز کی چاہیں مخالفت کر سکتے ہیں اور واقعتا یہ سب چین کے ساتھ اپنی تجارتی جنگ کو آگے بڑھانے کے لئے استعمال ہوگا۔ لیکن ایسا کوئی امکان نہیں جس سے ہانگ کانگ کے محنت کشوں کے حالات میں بہتری آئے اور نہ ہی ایسا کرنا ان کا مقصدو منشا ہے۔ بورژوا سفارت کاری کا آزادی اور آفاقی اقدار سے دور کا بھی واسطہ نہیں، اس کی ترجیحات بس اپنے مفادات ہیں۔ چین کی معاشی قامت اتنی مقناطیسی کشش رکھتی ہے کہ وہ دوسرے ممالک اور ان کے مفادات کو اپنے مدار میں کھینچتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں پر ہونے والے وحشیانہ مظالم کے بارے میں مسلم ممالک کے قائدین خاموش ہیں۔ ان لیڈران کی پیسے سے محبت، پرہیز گاری اور تقویٰ پر غالب آجاتی ہے۔ ہانگ کانگ کے محنت کشوں کو پناہ و امداد دینے والے ممالک بھی بالآخر انہیں چین کے ساتھ سودے بازی کے لئے استعمال کریں گے۔

ہانگ کانگ کے محنت کشوں اور نوجوانوں بہت تلخ سبق ملا ہے۔ انہیں یہ نتیجہ لازمی اخذ کرنا چاہیے کہ آزادی کا واحد راستہ چین سے ہو کر گزرتا ہے۔ وہ واحد طاقت جو بیجنگ میں سرمایہ دارانہ آمرانہ حکومت کو شکست دینے میں ان کی مدد کر سکتی ہے وہ چین کا مزدور طبقہ ہے۔ چینی انقلاب کے لیے آگے بڑھو!

Comments are closed.