ٹراٹسکی کے نواسے سیووا وولکوف کی وفات پر ایلن ووڈز کے الفاظ

|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: جویریہ ملک|

گزشتہ رات (16 جون 2023ء) پونے ایک بجے، مجھے میکسیکو سے ایک ٹیلی فون کال موصول ہوئی جس کا مجھ پر گہرا اثر ہوا۔ مجھے بتایا گیا کہ میرے پرانے دوست اور کامریڈ ایسٹیبن وولکوف اب ہم میں نہیں رہے۔ اگرچہ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ خبر مکمل طور پر غیر متوقع تھی کیونکہ اس سال مارچ میں ایسٹبن کی عمر 97 سال ہو چکی تھی۔ لیکن اس کے باوجود اس خبر نے مجھے نہ صرف ایک بہت ہی پیارے دوست بلکہ عظیم انقلابی لیون ٹراٹسکی کے آخری خونی رشتہ دار کی موت پر واقعی اداس کر دیا۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں جذباتی آدمی نہیں ہوں اور نہ ہی میں مذہبی یا سیاسی شخصیات پرستی پر یقین رکھتا ہوں۔ یہ کہنے کے بعد، ہمیں ایک حقیقت کو قبول کرنا چاہیے کہ علامتیں عمومی طور پر زندگی میں اور سیاست میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

ایسٹیبن وولکوف ایک انقلابی دور کی زندہ علامت تھے جو تناؤ اور جدوجہد کا دور تھا، فتوحات اور سانحات سے بھرا ہوا، جس نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا اور افراد کی بھی۔ اور یہ حقیقت لیون ٹراٹسکی اور ایسٹبن وولکوف کے خاندان میں واضح ہے۔

میں ایسٹیبن کو تقریباً 34 سال سے جانتا ہوں۔ ہماری پہلی ملاقات 1989ء میں میکسیکو سٹی میں ہوئی تھی، اور وہاں سے ایک گہری اور دیرپا دوستی کا آغاز ہوا جس کی بنیاد نہ صرف ذاتی وابستگیوں پر تھی بلکہ سب سے بڑھ کر ایک بنیادی سیاسی یکجہتی پر تھی۔

ایسٹیبن کے بارے میں میرا پہلا تاثر بہت ہی ملنسار، مہربان اور دوستانہ شخص کا تھا۔ وہ ہر وقت ہنسی مذاق کے لیے تیار ہمیشہ مسکراتا اور ہنستا رہتا تھا۔ لیکن میں نے شروع سے ہی کچھ ایسا محسوس کیا جس نے مجھ پر گہرا اثر ڈالا۔ اس کی آنکھیں نیلی تھیں، جو مجھے روسی خصلت کی یاد دلاتی تھیں۔ لیکن مجھے ان مسکراتی آنکھوں کے پیچھے اداسی اور شدید تکلیف کا گہرا احساس چھایا ہوا نظر آتا تھا، کیونکہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا واضح اظہار ہوتا تھا۔

اس کی وجہ جلد ہی مجھ پر واضح ہو گئی۔ اس نے مجھے 60 سال کی عمر میں کہا اور اس کے بعد کئی بار اس نکتے کو دہرایا: ”میں اپنے خاندان کا وہ فرد ہوں جس نے سب سے زیادہ زندگی گزاری ہے۔“ یہ الفاظ سچے تھے۔ لیکن اس سے پہلے کہ ہم اس سوال پر بات کریں (جس کا میں جسمانی مجبوریوں کی وجہ سے ایک خام خاکہ ہی بنا سکتا ہوں، جس کی وضاحت میں کروں گا) میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس کا نام برونسٹائن یا ٹراٹسکی کے بجائے وولکوف کیوں ہے۔

وولکوف اور ایلن ووڈز 2006 میں

اس نے اپنے نامور نانا کا نام اپنے نام کے ساتھ نہیں لگایا۔ لیکن ٹراٹسکی نام کا خود ایک مکمل اتفاقی کردار تھاجو زار حکومت میں ایک جیلر سے ملا تھا اور پھر اس نام کو انڈر گراؤنڈ کام کے لیے تخلص کے طور پر استعمال کیا گیا۔

ٹراٹسکی نے دو شادیاں کی تھیں۔ پہلی شادی سائبیریا میں ہوئی جہاں سے اسے ابتدائی سالوں میں جلاوطن کر دیا گیا تھا۔ اس شادی سے دو بیٹیاں تھیں جن میں سے ایک زینیدا، وولکوف کی والدہ تھی۔ ان کے والد، پلاٹون وولکوف، ایک سرگرم بالشویک انقلابی تھے جنہیں 1920ء کی دہائی میں ٹراٹسکی کی بائیں بازو کی اپوزیشن میں حصہ لینے کی وجہ سے سٹالن نے گرفتار کر لیا تھا۔ وہ سٹالن کے گلاگ میں غائب ہو گئے جہاں بعد میں انہیں قتل کر دیا گیا۔

مجھے ایسٹیبن (جس کا اصل نام ویسیوولوڈ یا سیوا وولکوف تھا) نے بتایا کہ اپنے والد کی کوئی یاداشت اس کے ذہن میں موجود نہیں تھی۔ کئی سال بعد میں نے پلاٹون وولکوف کی ایک پرانی دھندلی تصویر دیکھی جسے کسی نے میکسیکو کے ٹراٹسکی میوزیم میں بھیجا تھا۔ میرے علم کے مطابق، یہ دھندلی تصویر اس کے وجود کا آخری باقی ماندہ ثبوت تھی۔

AW and EV Image Museo Casa Leon Trotsky

اس نے اپنے نامور نانا کا نام اپنے نام کے ساتھ نہیں لگایا۔ لیکن ٹراٹسکی نام کا خود ایک مکمل اتفاقی کردار تھا جو زار حکومت میں ایک جیلر سے ملا تھا اور پھر اس نام کو انڈر گراؤنڈ کام کے لیے تخلص کے طور پر استعمال کیا گیا۔

1927ء میں، سٹالن نے ٹراٹسکی کو روسی کمیونسٹ پارٹی سے نکال دیا اور پہلے قزاقستان کے الماتی اور پھر ترکی جلاوطن کر دیا، جہاں وہ پرنکیپو جزیرے پر رہا۔ جب ایسٹیبن کی والدہ زینیدا نے پرنکیپو میں ٹراٹسکی سے ملنے کی اجازت مانگی تو اسے اجازت دے دی گئی، لیکن سٹالن نے اسے صرف اپنے جوان بیٹے سیوا کو اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت دی اور اپنی چھوٹی بیٹی کو چھوڑ کر جانے کا کہا جو ابھی بچی ہی تھی، جب کہ اس کا شوہر جیل میں تھا۔

لیکن جیسے ہی زینیدا ملک سے گئی تو سٹالن نے حکم دیا کہ اس کی سوویت شہریت منسوخ کر دی جائے۔ یہ ایک ایسے شخص کے لئے جو پہلے ہی شدید ذہنی صدمے کا شکار تھی ایک تباہ کن دھچکا تھا۔ ٹراٹسکی نے اسے نفسیاتی شعبے کے ڈاکٹر سے علاج کے لیے برلن بھیجا۔ لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ وہ ڈپریشن کا شکار ہوگئی اور اس نے خودکشی کر لی۔ اس طرح سیوا ایک غیر ملک میں والدین کے بغیر رہ گیا جو نازی ازم کی لہر کی لپیٹ میں تھا۔ یہ حالات کسی بھی بچے کے لیے خوفناک ہیں۔

نتالیہ سیدووا سے دوسری شادی سے ٹراٹسکی کے دو بیٹے تھے۔ سب سے چھوٹا سرگئی تھا جس نے سیاسی طور پر فعال نہ ہونے کی وجہ سے خود کو محفوظ سمجھا اور سوویت یونین میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ سٹالن کی انتقامی پیاس نہ صرف اپنے قریبی دشمنوں کے خلاف بلکہ ان کے تمام خاندانوں کے خلاف بھی بھڑک رہی تھی۔ سرگئی کو گرفتار کر کے حراستی کیمپ میں رکھا گیا جہاں بعد میں اسے قتل کر دیا گیا۔

زینیدا کی موت کے وقت، ٹراٹسکی کا بڑا بیٹا لیون سیدوف، برلن میں بائیں بازو کی عالمی اپوزیشن کی قیادت میں سرگرم تھا۔ ہٹلر کی فتح کے بعد، وہ سیوا کو اپنے ساتھ لے کر انٹرنیشنل کا ایک مرکز قائم کرنے کے لیے پیرس چلا گیا۔

ایسٹیبن وولکوف کی جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ اس کا بے باک کردار تھا۔ اس کی نوجوانی کی زندگی کی آزمائشیں اور مصائب کسی بھی بچے کو نفسیاتی طور پر تباہ کرنے کے لیے کافی تھیں۔ لیکن ایسٹیبن وولکوف کے لیے نہیں۔ وہ اکثر مجھے پیرس میں اپنے قیام کی یادیں بڑی خوشی سے سناتا تھا، جہاں وہ دریائے سین کے کنارے آزادی سے گھومتا پھرتا تھا۔ لیکن یہ خوشیاں کسی بھی لمبے عرصے تک قائم رہنے والی نہیں تھیں۔ جی پی یو (سویت یونین کی خفیہ ایجنسی، جو بعد میں ’کے جی بی‘ بنی) کا ہاتھ پیرس اور اس سے بھی آگے تک پہنچ گیا تھا۔ لیون سیدوف کو ہسپتال میں آپریشن کے بعد قتل کر دیا گیا۔ ایک بار پھر، ایسٹیبن وولکوف، یتیم ہوگیا۔

Young EV Image Museo Casa Leon Trotsky

ایسٹیبن وولکوف کی جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ اس کا بے باک کردار تھا۔

ایک اور صدمہ اس وقت شروع ہوا جب لیون سیدوف کی ایک خاتون ساتھی، جو کہ انتہائی غیر متوازن انسان تھی، نے بچے کی تحویل کا دعویٰ کیا اور اس کے نانا کی اسے میکسیکو (وہ واحد ملک جس نے ٹراٹسکی کی سیاسی جلاوطنی برداشت کی) لانے کی کوششوں کا بھرپور مقابلہ کیا۔ آخر میں، ٹراٹسکی مقدمہ جیت گیا اور سیوا وولکوف کو اپنے نانا کے پاس میکسیکو سٹی کے مضافات میں کویوکان جانے کی اجازت دے دی گئی۔

اتفاق سے اس وقت ٹراٹسکی کا سیوا کو لکھا ہوا ایک بہت ہی دل کو چھو لینے والا خط موجود ہے جس میں اس سے درخواست کی تھی کہ وہ روسی زبان کو کبھی نہ بھولے۔ اس کے نانا نے کہا کہ سیوا کی روس میں ایک چھوٹی بہن ہے اور جلد یا بدیر اس کی دوبارہ ملاقات ہو سکتی ہے، اور اس لیے اسے اس کے ساتھ بات چیت کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ در حقیقت، زینیدا کی والدہ الیگزینڈرا سوکولوسکیا، کو سٹالن نے گرفتار کر لیا تھا اور اسے گلاگ بھیج دیا گیا تھا جہاں اس کا انتقال ہوا۔ ایسٹبن کی چھوٹی بہن غائب ہوگئی تھی اور ایک طویل عرصے تک اسے مردہ تصور کیا جاتا تھا۔ تاہم، کئی سال بعد فرانسیسی ٹراٹسکائٹ پیئر برو کی تحقیقات کے بعد پتا چلا کہ وہ ماسکو میں زندہ ہے اور گورباچوف کے دنوں میں ایسٹیبن کی اس سے ملا قات بھی ہوئی۔ لیکن یہ ملاقات دو وجوہات کی بنا پر المناک تھی۔ پہلی وجہ، جیسا کہ ٹراٹسکی نے پیش گوئی کی تھی، وہ ایک دوسرے سے اس زبان میں بات چیت کرنے سے قاصر تھے جسے وہ دونوں سمجھ سکتے۔ اور دوسرا، اس وقت وہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھی اور کچھ ہی عرصے بعد انتقال کر گئی۔

TrotskyandVolkov Image public domain

1927ء میں، سٹالن نے ٹراٹسکی کو روسی کمیونسٹ پارٹی سے نکال دیا اور پہلے قزاقستان کے الماتی اور پھر ترکی جلاوطن کر دیا۔

سیوا نے کویوکان میں کچھ وقت کے لیے پہلی بار گھریلو زندگی کی خوشیاں دیکھیں۔ ”یہ ایک چھوٹے سے خاندان کی طرح تھا“، وہ کہتا تھا۔ اس کے نانا نے اسے پوری توجہ اور محبت دی جس کی اس میں کمی تھی۔ ٹراٹسکی کی مہربانی اور پیار پر اس کی باتیں، ان تمام جھوٹے پراپیگنڈوں کی تردید کرتے ہیں کہ ٹراٹسکی ایک ظالم اور سخت دل آمر تھا۔ میں اس موضوع پر زیادہ نہیں کہوں گا کیونکہ میں اس سے پہلے بھی اس پر بات کر چکا ہوں اور بلا شبہ دوبارہ بھی کروں گا۔

کویوکان میں یہ خوبصورت وقت دو خوفناک طوفانوں کے درمیان ایک پرامن دورتھا۔ اور سب سے خوفناک ابھی آنا باقی تھا۔ جی پی یو نے ٹراٹسکی کے گھر پر دو حملے کئے۔ پہلے میں گولی لگنے سے ایسٹیبن کا پاؤں زخمی ہوا تھا۔ لیکن یہ حملہ اپنے مقصد میں ناکام رہا، جسے چند ماہ بعد اگست 1940ء میں حاصل کر لیا گیا۔ اس وقت ایسٹیبن صرف 14 سال کا تھا۔

میں اس خونریز واقعے کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے اسے نہیں دہراؤں گا۔ خود ایسٹیبن وولکوف نے کئی بار اسے بیان کیا لیکن ہر بار میں نے ایک چیز نوٹ کی: جب ایسٹیبن اس کہانی کو دہراتا تھا تو وہ اس خوفناک دن کے واقعات کو اس طرح بیان کرتا اور محسوس کرتا تھا جیسے وہ کل ہی ہوا ہو۔

Volkov Image Museo Casa Leon Trotsky

مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ جب سٹالن نے کامیاب حملے کی خبر سنی ہوگی تو وہ بے حد خوش ہوا ہو گا۔ اس نے یقیناً یہ نتیجہ اخذ کیا ہوگا کہ ”مشن پورا ہوگیا ہے“۔ تاہم وہ غلط تھا۔ کسی مرد یا عورت کی زندگی کا خاتمہ کوئی مشکل بات نہیں۔ ہم بہت کمزور جانور ہیں اور کوئی بھی چیز ہمیں مار سکتی ہے: چاقو، گولی یا برف توڑنے والا سوا۔ لیکن اس خیال اور نظریے کو ختم کرنا ناممکن ہے جس کا وقت آگیا ہو۔

ٹراٹسکی نے لینن کے ورثے اور اکتوبر انقلاب کے دفاع کے لیے جو جدوجہد شروع کی تھی وہ ٹراٹسکی کے قتل پر ختم نہیں ہوئی۔ یہ آج تک جاری ہے۔ اور اس جدوجہد میں ایک بہت اہم کردار ایسٹیبن وولکوف کا رہا ہے جس نے اپنی پوری زندگی ٹراٹسکی کے نظریات، جسے وہ ”تاریخی یادداشت“ کہتا تھا، کے دفاع کے لیے وقف کر دی تھی۔ اس کا سب سے واضح اظہار کویوکان میں ٹراٹسکی ہاؤس میوزیم کے قیام اور دفاع کے لیے اس کی انتھک محنت تھی، جو عالمی سطح پر ہماری تحریک کے لیے ایک اہم نقطہ ہے۔

میوزیم میں وولکوف کے کام کووفاداری سے گیبریلا پیریز نوریگا نے جاری رکھا ہوا ہے، وہ شخص جس نے سب سے زیادہ ایسٹیبن وولکوف کی دیکھ بھال کی ہے اور اس کی زندگی کے آخری سالوں تک اس کی صحت اور تندرستی کا خیال رکھا۔

ایسٹیبن وولکوف کی موت لیون ٹراٹسکی کے خونی رشتے کے خاتمے کی جھلک ہے۔ لیکن اس کی موت کسی بھی طرح سے اس جدوجہد کے خاتمے کی طرف اشارہ نہیں کرتی جو ٹراٹسکی نے شروع کی اور جس کے تسلسل میں ایسٹیبن وولکوف نے بہت بڑا کردار ادا کیا۔ عالمی مارکسی رجحان کا یہ قابل فخر دعویٰ ہے کہ ہم اس عظیم انقلابی روایت کے وارث ہیں اور ہم ایسٹیبن وولکوف کی وفات پر اس لڑائی کو آخری دم تک جاری رکھنے کا عہد کرتے ہیں۔

بدقسمتی سے یہ افسوسناک خبر مجھ تک اس وقت پہنچی جب میں سپین کے جنوب میں ایک چھوٹے سے گاؤں کے ایک گھر میں چھٹیاں گزار رہا ہوں جہاں میرے پاس کوئی بھی سنجیدہ تحریر لکھنے کے ابتدائی ذرائع موجود نہیں ہیں۔ میرے پاس نہ تو کمپیوٹر ہے اور نہ ہی ایسٹیبن وولکوف کی زندگی اور کام کے بارے میں میرے نوٹس جو لندن میں میرے دفتر میں ایک دراز میں پڑے ہیں۔ میں ایک کامریڈ کی مدد کا شکر گزار ہوں جس نے ٹیلی فون پر میرے الفاظ کو نقل کر کے لکھنے میں صبر اور لگن کا مظاہرہ کیا۔

لیکن میں وعدہ کرتا ہوں کہ لندن واپس جاتے ہی میں کچھ ایسا لکھوں گا جو میرے عزیز دوست اور کامریڈ سیوا وولکوف کی یاد کے ساتھ انصاف کرے گا۔

فی الحال میں اختتام یونانی شاعر کے پر ان الفاظ پر کروں گا جو اس غمگین لمحے میں میرے اپنے الفاظ سے زیادہ میرے جذبات کا مؤثر طریقے سے اظہار کرتے ہیں:

مجھے بتایا گیا، اے ہریکلیتس، کہ تم اب نہیں رہے
مجھے دی گئی یہ زہریلی خبر، اور ترش آنسو
میں زار و قطار رویا اور یاد کرتا رہا کہ کتنی بار
ہم دونوں سورج کو اپنی کہانیوں سے تھکا دیا کرتے تھے


اور اب میرے پرانے مہمان جب تم اور تمہارا فن
مٹھی بھر سرمئی راکھ میں آرام پذیر ہیں
ابھی تک تمہاری شیریں آواز مجھے مسحور کرتی ہے
موت بھلے ہی سب کچھ ختم کر دیتی ہو مگر تمہیں مجھ سے الگ نہیں کر سکتی

(ہیرا کلیتس، از کیلی میخس، ترجمہ: ڈبلیو جے کوری، اردو ترجمہ: پارس جان

 

 

Comments are closed.