شام: سقوطِ حلب اور جنگ کے سائے

|تحریر: حمید علی زادے،  ترجمہ: اسدپتافی|

بالآخر چار سال تک چلنے والی تسلط کی خونریز جنگ کے بعد، جنگ سے پہلے شام کا تجارتی مرکز اورسب سے بڑا شہر، اب اسد حکومت کے مکمل کنٹرول میں واپس آگیا ہے۔ باغیوں اور ان کے غیر ملکی حمایتیوں کے لیے یہ ایک شرمناک شکست ہے جس کے عالمی اور ملکی سطح پر اہم اثرات مرتب ہوں گے۔

ہزاروں انسانوں کی موت، لاکھوں افراد کی جسمانی معذوری اور بے گھر ی کی صورت میں اس جنگ کی قیمت ادا کی گئی ہے۔ حلب کا سقوط دراصل شام میں ہونے والی خونریزی کے انسانی المیے کا انجام ہے۔ یہ ایک قدیم شہر تھا جس کے مکین جدید تھے۔ جو بہت اعلیٰ انسانی اقدار کا نمونہ تھا جسے آگ اور خون کی دلدل میں اتار دیا گیا۔ جس کا خمیازہ آنے والی کئی نسلیں بھگتیں گی۔

To read this article in English, click here

پچھلے اگست سے شہر کا مشرقی حصہ جو باغیوں کے کنٹرول میں تھا اور ان کا مضبوط گڑھ بھی تھا، مسلسل محاصرے میں تھا۔ ایک مہینے سے شامی، ایرانی، لبنانی، عراقی اور فلسطینی ملیشیاؤں کی محتاط پیش قدمی جاری تھی جس کو شامی اور روسی بمبار طیاروں کی امداد بھی میسر تھی۔

بلا شبہ بشار اور پوٹن نے انتہائی بے رحمی اور شدت کا مظاہرہ کیا ہے۔ مسلسل اور اندھادھند بمباری کے ذریعے شہروں کے شہر خالی کرائے گئے، ہسپتالوں، سکولوں، بازاروں اور دوسرے شہری انفراسٹرکچر کو نیست و نابود کر دیا گیا۔ اس ساری کاروائی کے دوران کچھ بھی ایسا نہیں ہے جسے انسانی قراردیا جاسکے۔ یہ محض مفاد کی حامل خونریزی تھی جس کے سامنے انسانی زندگی کی کوئی قدروقیمت نہیں تھی۔ لیکن یہ انسانی خون سِکے کے صرف اس طرف نہیں بلکہ اس کی دوسری طرف بھی خون ہی رِستا نظر آتاہے۔

منافقت اور مظالم کی داستان

اس خونریز جنگ و بربریت کے حوالے سے سچ کھوجنے کیلئے جھوٹ، دھوکے بازی اور سازشوں و منافقتوں کے ایک بلند و بالا پہاڑ کو کھودنا پڑے گا۔ نام نہاد ’’آزد دنیا‘‘ کے مہان قائدین ٹسوے بہاتے نظر آ رہے ہیں اور چیخ و پکار کر رہے ہیں کہ شام اور روس نے یہاں ظلم و بربریت کی انتہا کر دی ہے۔ وہ الزام لگا رہے ہیں کہ بشار اور پوٹن نے بموں اور گولیوں سے انسانوں کا قتل کیا ہے (جنگ میں!)۔ لیکن جن ملیشیاؤں کی یہ مہان قائدین سرپرستی اور پرورش کرتے چلے آرہے ہیں، ان کی طرف ان کا کوئی اشارہ ہے نہ بیان حالانکہ یہ بھی ویسا ہی اور اتنا ہی کرتی آرہی ہیں۔ ان کی انسانیت کشی کسی طوربھی پوٹن کی انسانیت دشمنی سے کم نہیں ہے۔ اس دوران جب میڈیا  میں قریباً پچھلے ایک سال سے ہر ہفتے حلب کے آخری ہسپتال پر بمباری بارے کہانیوں کی بھرمار تھی، تب مغربی حلب یا کردعلاقے کے قریب شیخ مقصودپر مسلسل اور اندھادھند ہونے والی شیلنگ کا کہیں کوئی ذکر نہیں کیا گیا، اس کا بس تصور ہی کیا جاسکتا ہے کہ مخالف ملیشیانے فضائی بمباری سے کیا کیا تباہیاں پھیلائی ہوں گی! مغرب کے حکمرانوں کے نزدیک قتل و غارتگری صرف اور صرف وہی ہوتی ہے جو کہ ان کے مخالفین سے سرزد ہو!

پوری تاریخ میں مغربی سامراج کے جنگی جرائم کسی طور ختم ہی نہیں ہوتے۔ ناگا ساکی اور ہیرو شیما میں لاکھوں انسانوں کا وحشیانہ قتل، دوسری عالمی جنگ میں ڈریسڈن میں شہری آبادی پر بمباری جس دوران چارہزار ٹن بموں کے ذریعے پچیس ہزار سے زائد شہری ہلاک کر دیے گئے تھے، آپریشن رولنگ تھنڈر کے نام پر ویتنام میں ہزاروں لاکھوں انسانوں کو ہلاک کر دیا گیا، لیکن مغربی تاریخ کی کتابوں میں یہ سب سنہری الفاظ سے لکھے جانے والے واقعات ہیں۔

آج کے جدید عہد کے مغربی خواتین و حضرات بھی اپنے پیش روؤں سے کسی طور کم نہیں ہیں۔ 2015ء میں شائع ہونے والی ’’فزیشنز برائے سماجی ذمہ داری‘‘ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ’’جنگ‘‘ سے براہ راست یا بلاواسطہ عراق میں دس لاکھ، افغانستان میں دو لاکھ بائیس ہزار اور پاکستان میں اَسی ہزار انسان مارے جا چکے ہیں۔ لگ بھگ تیرہ لاکھ قتل یا ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ یہ تعداد بیس لاکھ تک بھی ممکن ہو سکتی ہے، ایک اعداد وشمار دس لاکھ سے کم کے ہیں لیکن جو درست نہیں ہیں‘‘۔ اب کوئی بھی پوٹن، بشار الاسد، داعش کی طرف سے ہلاک کیے جانے والوں کو ایک ساتھ جمع بھی کرلیں تو بھی یہ تعداد مغربی سامراج کی ہلاکتوں کا عشر عشیر بھی معلوم نہیں ہوتیں۔

عراق پر مسلط کی جانے والی مجرمانہ جنگ کی تباہ کاریوں کا تو کوئی شمار نہیں ہے کہ جس کے باعث سارا ملک نہ صرف تباہ و برباد کر دیا گیا بلکہ پورے خطے کو آگ اور خون کی دلدل میں دھکیل دیا گیا اور ماضی کی مکروہ وحشی اور اندھی قوتوں کو مسلط ہونے کا موقع مل گیا۔ اس المیے کے اعدادوشمار ناقابلِ بیان ہیں۔

آج بھی یمن میں محاصرے اور سعودی طیاروں کی اندھادھند بمباری (جن کو امریکی اور برطانوی افواج کی مدد حاصل ہے) کے نتیجے میں28ملین انسانوں کو قحط کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ لیکن اس حوالے سے بھی مغربی حکمران اور ان کے میڈیا پر آپ کوئی واویلا نہیں سن سکیں گے۔ وہاں اقوام متحدہ کے ایک امدادی نگران کا کہنا ہے کہ یمن کی جنگ ’’شاید اس وقت دنیا کا سب سے سنجیدہ بحران ہے، لیکن یہ ایک بالکل خاموش بحران ہے، ایک خاموش صورتحال ہے اور ایک فراموش کردہ جنگ ہے‘‘۔ یونیسف یمن کے مطابق’’ یمن میں ہر دس منٹ میں ایک بچہ قابلِ علاج بیماریوں کے ہاتھوں موت کے منہ میں جا رہاہے‘‘۔

اسی طرح سے موصل شہر کے محاصرے اور وہاں جاری بربریت سے ہونے والی شہری ہلاکتوں کا کوئی پوچھنے والا نہیں کہ جس کی آبادی مشرقی حلب سے کہیں زیادہ ہے۔ حلب میں بربریت پر جن لوگوں کی مغرب مذمت کر رہاہے، بدقسمتی سے انہی میں سے کچھ موصل کی تباہی کے ذمہ دارہیں اور انہیں مغرب کی فضائی معاونت بھی حاصل ہے۔

ہمارے پیارے قائدین شام کے عوام کی حالتِ زارپر بہت تشویش میں مبتلا نظر آرہے ہیں۔ لیکن ان کے اعمال کوئی اور ہی کہانی سامنے لاتے ہیں۔ ’’دی انٹر سیپٹ‘‘ کے ذریعے لیک ہونے والی اقوامِ متحدہ کی ایک اندرونی رپورٹ کے مطابق شام پر عائد کی جانے والی پابندیاں اپنی نوعیت میں انتہائی ظالمانہ اور ناقابلِ تصور ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے ’’انسانی سطح پر امداد‘‘ بارے مسلط پابندیاں بہت ہی ظالمانہ ہیں۔ اس رپورٹ میں قرار دیا گیا ہے کہ ان پابندیوں کی وجہ سے وہاں انسانی صحت کا معیار زوال پذیر ہوچکاہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ امن اور شانتی کے علمبردار ہمارے مغربی قائدین حلب کے سقوط کے بعد اب وہاں مزید اسلحہ اور پیسہ بھیجنے کے وعدے کر رہے ہیں۔ ہمارے ان سیاسی قائدین کو انگلیوں سے اشارے کرنے میں بہت مہارت حاصل ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ مہارت، ان کو اپنی تباہ کاریوں اور سازشوں کو بھول جانے کی بھی ہے جس کو انہوں نے پورے خطے میں ابھی بھی جاری رکھا ہوا ہے۔

شام

حلب کے معاملے میں ہی، اگر امریکہ ایک مہینہ پہلے شام اور روس کے مابین جنگ بندی کے معاہدے کو تسلیم کر لیتا تو بہت سی تباہی سے بچا جا سکتا تھا۔ یہ معاہدہ تب منہدم ہوا جب امریکی طیاروں کی بمباری کی وجہ سے دیر الزور کے علاقے میں داعش کے خلاف لڑنے والے شام کے ایک سوسے زائد فوجی مار دیے گئے۔

مڈل ایسٹ آئی کے مطابق، امریکی سنٹرل کمانڈ کی ایک حالیہ رپورٹ میں یہ صاف صاف واضح کیا گیا ہے کہ ’’قطر کے العدید ہوائی اڈے پر موجود امریکی فضائیہ کے سینئر افسران جنھوں نے ستمبر میں دیر الزور پر فضائی حملے کا فیصلہ کیا تھا، نے

۔ روس کو دھوکے میں رکھا کہ امریکہ کہاں حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ روس اس بابت خبردار نہ کرسکے کہ اس حملے کا نشانہ شامی افواج ہیں؛
۔ ان اطلاعات اور انٹیلی جنس کے تجزئیے کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا کہ جن میں بتایا گیاتھا کہ جہاں حملہ کیا جانے والا ہے، وہاں داعش نہیں، شامی فوج ہے۔
۔ جان بوجھ کر نارمل ائیر فورس طریق کار کو یکسر پس پشت ڈالتے ہوئے اچانک ہی حملے کا فیصلہ کیا گیا۔ ‘‘

نہ صرف یہ کہ اس کی وجہ سے معاہدہ ٹوٹ گیا بلکہ اس حملے کا شامی فوج پر بہت برا اثر پڑا کہ جو پچھلے دو سالوں سے اس علاقے میں داعش کے محاصرے میں تھی۔

اس سیز فائر معاہدے کے ٹوٹنے کے بعد، حلب پر روس اور شام کی فضائی بمباری تین ہفتوں کے لئے روک دی گئی، جبکہ اس دوران شہریوں اور متحارب ملیشیاؤں کے مشرقی حلب سے انخلا کے آٹھ راستے بھی متعین کئے گئے تاکہ وہ اسد حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں منتقل ہو سکیں جہاں باغیوں کوہتھیار ڈالنے کی صورت میں معافی مل جانی تھی یا اپنے ’’ہلکے ہتھیاروں‘‘ کے ساتھ اِدلب میں باغیوں کہ زیر تسلط علاقے میں چلے جائیں۔ لیکن کیا کیا جائے کہ ہمارے امن کے پیامبر مغربی قائدین کے پیارے ’’معتدل‘‘ دوستوں نے علاقہ چھوڑ کر جانے والے ہر شخص کو اپنی بمباری کا نشانہ بنا کر معاملات ہی پلٹ دیے۔ درحقیقت، مخالف ملیشیاؤں نے پورے مشرقی حلب کو یرغمال بنا لیا اور ان کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔

اب بھی مغربی میڈیا ان ’’معتدل باغیوں‘‘ کو عوام کا نمائندہ قراردے رہا ہے جو بشار حکومت کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ لیکن باغیوں کے یہ معتدل گروپ کون ہیں؟ ان کو کہیں بھی کسی مخصوص نام سے نہیں پکارا جاتاہے۔ لیکن حلب میں موجود گروہوں میں جو مضبوط ترین گروپ سامنے آیا ہے وہ ’جبہت فتح الشام(JFS)‘ ہے جو کہ القاعدہ کی شام کی شاخ ہے جسے اصل میں داعش نے بنایا تھا؛اس کے علاوہ احرارالشام ہے جو جے ایف ایس کے ساتھ مل کر کئی سالوں سے ادلیب پر حکمرانی قائم کئے ہوئے تھی اور چند سال قبل مکمل طور پر جے ایف ایس میں ضم ہوگئی۔ اور سب سے آخر میں نورالدین زنگی گروپ ہے جو کہ ایک اسلامی گروپ ہے کہ جس کے امریکہ سے بہت قریبی تعلقات ہیں اور جسے پچھلی گرمیوں میں ایک چودہ سالہ لڑکے کا سر تن سے جدا کرنے کے واقعے سے’’بڑی شہرت‘‘ ملی تھی۔ ان کی جاری کردہ قتل عام کئی ویڈیوز میں اس گروپ کے لوگ یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ’’ہم داعش سے کہیں زیادہ سفاک ہیں‘‘۔ جی ہاں! یہی وہ مغرب کے پسندیدہ ’’معتدل‘‘ گروپ ہیں مگر کس لحاظ سے معتدل؟

حقیقت یہ ہے کہ شام کے کئی دوسرے شہری علاقوں کی طرح ’’باغی‘‘ کہلانے والوں کو حلب شہر میں کسی طور عوامی حمایت میسر نہیں تھی۔ دیہی علاقے سے کیے جانے والے ایک حملے کے بعد ہی حلب اپوزیشن کے ہتھے چڑھا۔ اگست2012ء میں گارڈین نے لکھا تھا کہ

’’صرف اپوزیشن جنگجو، جن کی تعداد لگ بھگ تین ہزار ہے، ہی وہ لوگ ہیں جو کہ فری سیرین آرمی(Free Syrian Army) کے زیرانتظام علاقے میں گھومتے نظر آتے ہیں۔ غیر جنگجوؤں کی ایک قلیل تعداد ہی ان کی طرف تھوڑی بہت توجہ دیتی ہے۔ چند لوگ ہی ان کو کھلے عام خوش آمدید کہتے ہیں۔
ہاں! یہ بات درست ہے، ایک باغی کمانڈر شیخ توفیق ابو سلیمان نے اپنے چوتھے نئے ہیڈکوارٹر(پچھلے تین بمباری میں تباہ ہوگئے) کے گراؤنڈ فلور پر بیٹھے ہوئے کہا۔ ’ حلب شہر کے70فیصد لوگ حکومت کے ساتھ ہیں۔ شہر شروع سے ایسا ہی ہے۔ دیہات ہمارے ساتھ جبکہ شہر حکومت کے ساتھ ہے۔ لیکن ہم تب تک یہاں رہیں گے کہ جب تک ہم اپنے ہدف نہیں پالیتے اور بشار حکومت کو ختم نہیں کرلیتے۔ اس کے بعد ہم چھوڑدیں گے اور وہ جیسے چاہیں اپنے شہر کو بساتے رہیں‘ ‘‘۔

حقیقت یہ ہے کہ جب تحریک ابتدائی مرحلے میں پسپا ہوتے ہوئے فرقہ وارانہ تصادم میں ٹوٹنے لگی جس میں اسلامی گروہوں کا غلبہ تھا، تو عوام کی اکثریت جو پہلے تحریک سے ہمدردی رکھتی تھی، دوبارہ اسد حکومت کے پیچھے جا کھڑی ہوئی۔

2011ء میں یہ دیکھتے ہوئے کہ انقلاب بشار حکومت کو غیر مستحکم کر رہا ہے، مغربی سامرج اور اس کے علاقائی اتحادیوں سعودی عرب، ترکی، اردن اور دیگر خلیجی ریاستوں نے شام کے اندر موجود اسلامی گروپوں کی اربوں ڈالروں میں امداد شروع کردی۔ 2012ء کی پنٹاگان کی ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کی ایک چشم کُشا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ’’اندرونِ خانہ یہ لگتا ہے کہ واقعات فرقہ وارانہ سمت اختیار کر رہے ہیں۔۔۔ سلفی، اخوان المسلمون اور عراقی القاعد ہ( جس کے بطن سے جے ایس ایف اور داعش نے جنم لیا ) ہی وہ اہم قوتیں ہیں جو کہ شام میں سرکشی کو فروغ دے رہی ہیں۔ مغرب، خلیجی ممالک اور ترکی اس اپوزیشن کو سپورٹ کر رہے ہیں جبکہ روس، چین اور ایران بشار حکومت کی حمایت میں ہیں۔۔۔ مشرقی شام(حساکہ اور دیرالزور) کے اندر ایک اعلانیہ یا غیر اعلانیہ سلفی بادشاہت کو مسلط کئے جانے کا امکان ہے اور اپوزیشن کو سپورٹ کرنے والی یہ قوتیں، بشار حکومت کو تنہا کرنے کے لئے یہی کرنا چاہتی ہیں‘‘۔

عدم استحکام

اور یہی وہ اصل وجہ ہے جس کے باعث مغرب اتنا شور مچا رہا ہے۔ اس ملک بارے ان کے سبھی منصوبے خاک میں مل چکے ہیں۔ روس کے وزیر خارجہ سرگی لاوروف، جو کہ ایک جہاندیدہ سفارتکار ہے اور جو ناپ تول کر الفاظ اداکرتاہے نے کہا ہے کہ ’’وہ اپنے امریکی ہم منصبوں کے بار بار کے رونے دھونے سے تنگ آ چکا ہے‘‘۔

حلب کا سقوط مغربی سامراج کیلئے سخت ہزیمت کا باعث بنا ہے۔ کریمیا کا الحاق؛ جو کہ بذات خود امریکی سامراج کی تضحیک ہے؛ تو روس کے ’پڑوس‘ کا واقعہ تھا جبکہ حلب، جہاں امریکہ کو جگ ہنسائی کا سامنا کر پڑ رہا ہے اور جہاں امریکی گماشتوں کو شرمناک شکست ہوئی ہے، اس علاقے کے مرکز میں واقع ہے جس کو امریکہ روایتی طور پر اپنی راجدھانی سمجھتا تھا۔ عراق اور افغانستان کی جنگوں کی طرح امریکی سامراج اس گھمنڈ میں تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں جو چاہے کر سکتا ہے۔ لیکن حلب کے سقوط نے امریکی سامراج کی حدووقیود کو ننگا کر دیاہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ حلب کے حوالے سے سب سے سنجیدہ مذاکرات روس اور ترکی کے مابین ہوئے جس میں امریکی شمولیت نہیں تھی۔

جب پینٹاگان نے اکتوبر میں جنگ بندی کے معاہدے کو سبوتاژ کیا تو یہ امریکہ کی بے نیازی اور روس کی طرف تحقیر آمیزی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ لیکن پھر روس، ایران اور شام نے امریکی گماشتوں کی گردنیں دبوچنے پر زور لگانا شروع کر دیا۔ اور وہ بھی امریکہ اور ترکی کی افواج کے ہوتے ہوئے جو کہ وہاں سے لگ بھگ پچیس تیس میل کے فاصلے پر موجود تھیں۔ اور امریکہ بہادر کسی طور اس قابل نہیں تھا کہ وہ کچھ کرسکے۔ مغرب اور اس کے اتحادی جو کہ سارے مہرے چلا کرتے تھے، حلب کے معاملے میں محض تماشائی بن گئے۔

صرف یہ نہیں کہ حلب میں ان کی سرمایہ کاری ڈوبی بلکہ شام کے دیگر شہروں میں بھی باغیوں کو پسپائی کیلئے دھکیلا جارہاہے۔ یہاں آنے والے سالوں میں خانہ جنگی سامنے آ سکتی ہے۔ لیکن یہ واضح ہو چکاہے کہ بشار حکومت کو درپیش خطرہ بہت حد تک کمزور پڑ چکاہے۔ باغیوں کے مورال میں مزید کمزوری اس کی حکومت کو مزید مضبوط کر دے گی۔ مداخلت کرنے والی سبھی قوتوں کے سبھی منصوبے خاک میں مل چکے ہیں۔ اس کے انتہائی سنجیدہ اور دور رس اثرات سامنے آئیں گے۔

عوامی سطح پر امریکہ کے خصی پن کا اظہاریہ عیاں کرتا ہے کہ یہ عالمی سطح پر اپنے سے کمزور یا کمتر قوتوں کے دباؤ میں آتا جائے گاجو کہ امریکی سامراج اور امریکہ کے زیر اثر ’’عالمی نظام‘‘ کی قوت کو آزمائیں گی۔ امریکہ کے یہ ’’اتحادی‘‘ اور مخالف اپنی اپنی جگہ اپنے تئیں اپنا ایک کردار سمجھنا شروع کر دیں گے جو کہ امریکہ کے اثرات سے باہر اور اس کے مفادات سے الگ ہوگا۔ اس سے دنیا میں عدم استحکام میں شدت آئے گی۔

ترکی کی بات کریں توحلب کا سقوط اردگان کے لئے بھی سخت دھچکاہے جس کے ایک نئی عثمانی خلافت کے سامراجی منصوبے خاک میں ملتے دکھائی دیتے ہیں، جس سے اس کی شان وشوکت کو شدید نقصان پہنچا ہے اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں کہ جب ترک معیشت ایک سنجیدہ بحران کی زد میں آنے والی ہے اور جس کے باعث وہاں ایک نئی طبقاتی کشمکش ابھر سکتی ہے۔ شام میں ترکی کا کردار محض اتنا تھا کہ اسے روس نے شمالی حلب کے مضافاتی علاقے میں موجود رہنے کی اجازت دی ہوئی تھی، اورآنے والے دنوں میں یہ بھی شدید دباؤ میںآ سکتا ہے۔ حقیقت میں اردگان کے سامراجی عزائم کے لئے شام میں بس یہی بچا ہے کہ وہ اس کے ذریعے روجاوا میں کردمزاحمت کو شکست دینے کے خواب دیکھتا رہے لیکن ایک مرحلے پر یہ خواب ایک بھیانک تضاد کی شکل اختیار کرتے ہوئے ترکی کی ٹوٹ پھوٹ کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

حلب کے سقوط کا سب سے زیادہ صدمہ سعودی عرب کو ہواہے، جو تیزی سے عالمی سطح پر خود کو تنہا اور بے بس ہوتا دیکھ رہاہے۔ رجعتی شاہی خاندان کے پاس اب شام میں کھیلنے کیلئے کوئی چال نہیں بچی ہے۔ ادلیب میں اس کے گماشتہ حواریوں کے پاس طاقت نہ ہونے کے برابر ہے۔ شام اور عراق میں سعودی مداخلت کی ناکامی اور آنے والے دنوں میں یمن میں شکست سے سعودی خلافت اندر سے مزید کھوکھلی ہوگی، جو پہلے ہی کئی سماجی، معاشی اور سیاسی بحرانوں کے جال میں پھنسی ہوئی ہے۔

کیا کِیا جائے؟

بہت سے لوگ درست طور پر حلب کے المیے پر نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو صحیح معنوں میں فکرمند ہیں سوال کرتے ہیں کہ، ’’ ہم کر کیا سکتے ہیں؟ ‘‘ کچھ کا خیال ہے کہ نو فلائی زون قرار دے دیا جائے۔ گویاان کا ماننا ہے کہ طیاروں کے بغیر ہونے والی جنگ بڑی حدتک انسانی ہوتی ہے۔ حقیقی معنوں میں نو فلائی زون کا مطالبہ سامراجیوں کے فضائی حملوں کیلئے راہ ہموار کرتا ہے تاکہ وہ باغیوں کے حق میں اور بشار حکومت کے خلاف کاروائی کر سکیں۔ اخلاقی بنیادوں سے قطع نظر، اس کا مطلب کرۂ ارض پر موجود رجعتی ترین قوتوں کا فضائی دفاع ہوگا۔ جبکہ اس سے شام میں بشار کو مزید عوامی ہمدردی میسر آجائے گی۔

مشرق وسطیٰ میں مغربی مداخلت کسی بھی طرح ترقی پسند کردار ادا کرنے کی جانب نہیں بڑھے گی۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ یہی مداخلت آج خطے میں موجود ہر قسم کی بربریت کو جنم دینے کا سبب ہے۔ جیسا کہ مغرب کی مڈاخلتوں کی تاریخ یہ واضح کرتی ہے کہ ان کو کسی طور بھی انسانوں یا انسانیت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، ماسوائے اپنے محدود ومخصوص سامراجی مفادات کے۔ یہ لوگ پوٹن اور بشار کے جرائم پر تو لعنت ملامت کرتے اور حلب میں ہونے والے المیے پر ٹسوے تو بہاتے ہیں لیکن یہی لوگ یمن سمیت باقی علاقوں میں اپنی وحشت و بربریت کو تہذیب کے قالین تلے دبانے سے بھی باز نہیں آتے۔

ان کی یمن، لیبیا، افغانستان اور عراق میں مداخلت، کسی جمہوریت، کسی آزادی کا وسیلہ یا ذریعہ نہیں بنی بلکہ اس کے بالکل برعکس ان ملکوں کی تہذیب وتمدن کو تہس نہس کرنے کا موجب بنی ہے۔ یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ شام میں ’’ مہذب مغربی‘‘ مداخلت کیا کیا بربادیاں پھیلاسکتی ہے!

اگر ہم کچھ کرنا چاہتے ہیں! اگر ہم کسی حقیقی تبدیلی کے خواہشمند ہیں تو اس کیلئے ہمیں سب سے پہلے اپنے اندر کی سرمایہ دار اور سامراجی قوتوں کے خلاف ایک سنجیدہ لڑائی کا آغاز کرنا پڑے گا، ان سب کے خلاف جو مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ کے سب سے گھناؤنے اور مکروہ جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔

لینن نے ایک بار کہا تھا کہ ’’سرمایہ داری ایک نہ ختم ہونے والی وحشت ہے‘‘۔ یہ کوزے میں بند ایک سچا دریا ہے۔ جنگیں اور عدم استحکام، سرمایہ داری کا لاینفک جزو ہیں، یہ ایک ایسا نظام ہے جو کہ انارکی پر مبنی ذاتی مفادات کا حامل، مقابلے اور سبقت کی نفسیات سے مزین اور منافع خوری کی لالچ سے لیس ہے۔

بحران کے دور میں کہ جب طبقاتی کشکمش تیز ہوتی ہے، عالمی معیشت عدم استحکام کا شکار ہوتی ہے، اور مختلف اقوام کے مابین مقابلے بازی میں شدت آتی ہے، ایسے میں اندرونی لڑائیاں اور عمومی عدم ستحکام زوروں پر ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مشرق وسطیٰ میں مصروف عمل سبھی قوتیں وہاں استحکام کی تمنائی ہیں لیکن سب کی اپنی اپنی شرائط اور اپنے اپنے مقاصد ہیں اور جو کہ ایک دوسرے کے مدمقابل اور متصادم ہیں۔ اپنی پوزیشن اور مفادات کے تحفظ کے لئے یہ قوتیں سارے خطے کو خون کے سمندر میں دھکیلنے کے درپے ہیں۔

شام کی جنگ بلاشبہ بہت المناک ہے لیکن یہ اپنی نوعیت کی کوئی آخری جنگ بھی نہیں ہو گی۔ سرمایہ دارانہ نظام اس قسم کی جنگیں مرتب اور منظم کرتاچلاآرہاہے۔ اور یہ تب تک ہوگا کہ جب تک محنت کش عوام اس نظام کو اکھاڑ نہیں پھینکتے ہیں۔ حقیقی معنوں میں جو کام کرنے کا ہے وہ ایک انقلابی قوت کی تعمیر کا ہے جو کرہ ارض کو اس نظام سے نجات دلادے۔

Comments are closed.