منیاپولس بغاوت: نسل پرستی کو شکست دینے کے لیے سرمایہ داری کا خاتمہ کرو!

|تحریر: اولیویا ریکسن، ترجمہ: لقمان رحمانی|

پیر کے دن پوری دنیا میں ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک پولیس اہلکار جارج فلوئیڈ نامی ایک سیاہ فام شخص کے گلے پر اپنا گھٹنا رکھے بیٹھا ہے اور وہ کراہتے ہوئے کہہ رہا تھا ”میرا دم گھٹ رہا ہے“۔ چند ہی منٹوں کے اندر جارج فلوئیڈ مر گیا۔ یہ واقعہ 2014ء میں ہونے والے اسی قسم کے ایک واقعے کے ساتھ واضح مماثلت رکھتا ہے جب ایریک گارنر کو حراست میں لیتے ہوئے دم گھونٹ کر مارا گیا اور جس کے بعد عالمی سطح پر ”بلیک لائیوز میٹر“ تحریک کو نمایاں حیثیت حاصل ہوئی۔ فلوئیڈ کی موت سے کچھ ہی دن پہلے ایک اور سیاہ فام آدمی احمد آربرے، جو کہ باہر چہل قدمی کرنے نکلا تھا، کو دو سفید فام افراد نے گولی مار کر ہلاک کیا تھا۔

اس قتل کے نتیجے میں منیاپولس، لاس اینجلس اور دیگر امریکی شہروں میں خود رو احتجاجوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا جس میں شریک افراد ”میرا دم گھٹ رہا ہے“ اور ”یہ میں بھی ہو سکتا تھا“ جیسے نعرے لگا رہے ہیں۔

پولیس اہلکاروں کی برطرفی کے باوجود احتجاجوں کا سلسلہ جاری ہے جو کہ لوگوں کا، پولیس اور اس نظام کے جن کے یہ رکھوالے ہیں، کے خلاف شدید غصے اور نفرت کی عکاسی کرتا ہے۔ توقعات کے عین مطابق احتجاجوں کو دبانے کے لیے ریاست آنسو گیس اور مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنانے سمیت ہر قسم کے سفاک حربوں کا استعمال کر رہی ہے۔

مظاہروں کا تسلسل اس بات کا اظہار ہے کہ اس غم وغصے کی بنیاد محض چند نسل پرستانہ قتل نہیں ہیں۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکہ کی 38 ریاستوں میں سیاہ فاموں میں کرونا وائرس سے ہونے والی اموات کی شرح سفید فاموں سے دگنی ہے، واشنگٹن ڈی سی میں یہ شرح چھ گنا ہے۔ یہ مظاہرے واضح طور پر ایک ایسے نظام کے خلاف ہیں جس میں نسلی اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے حوالے سے تضادات پائے جاتے ہیں۔

آج امریکہ کے 14.7 محنت کش بیروزگار ہیں جو 1930ء کی دہائی کی عالمی کساد بازاری کے بعد اب تک کی بدترین شرح ہے۔ اس سے زیادہ تر اقلیتیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں، خصوصاً سیاہ فام محنت کش جو کم اجرتی اور غیر مستقل روزگار سے وابستہ تھے۔ امریکہ میں سیاہ فام لوگوں کو ایک لمبے عرصے سے صحت، رہائش اور نام نہاد عدالتی نظام میں منظم طریقے سے عدم مساوات کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں، سفیس فام محنت کشوں کو بھی اس وباء کا خسارہ بھرنے کے لیے بلی کے بکروں کی طرح مجبور کیا جا رہا ہے تاکہ معیشت کو واپس اپنے ڈگر پر لایا جا سکے۔

امریکی حکمران طبقہ اور میڈیا میں موجود ان کے نمائندوں نے اس بغاوت کی مذمت کرنے اور اسے ”لوٹ مار“ اور دنگافساد کہنے میں دیر نہیں لگائی۔ مگر ان کی منافقت صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ سماج کے اصلی لٹیرے تو وہ دوا ساز کمپنیاں ہیں جو وائرس سے منافعے کمانے کے چکر میں ہیں، وہ مالکان ہیں جو محنت کش طبقے کا خون چوسنے میں مصروف ہیں، وہ ارب پتی ہیں جو ہماری محنت سے بنے ہوئی چیزوں کو واپس ہمیں منافعے کمانے کے لیے بیچتے ہیں۔

یہی وہ لوگ ہیں جن کے مفادات کا تحفظ پولیس کی اولین ترجیح ہے اور عدالتی نظام کے ذریعے انہی کی خدمت کی جاتی ہے۔ سرمایہ داروں کی حکمرانی کو تشدد کے ذریعے قائم رکھا جاتا ہے۔ اس کی وضاحت اینگلز نے کی تھی جس نے پولیس کو ”مسلح جتھے“ قرار دے کر کہا تھا کہ ان کے ذریعے بورژوا ریاست محنت کش طبقے کے اوپر حکمران طبقے کی حاکمیت قائم رکھتی ہے۔

سرمایہ داری کے ساتھ ساتھ رنگ کی بنیاد پر پر نسل پرستی بھی فروغ پاتی گئی، جب حکمران طبقے کے منافعے کے اہم ذرائع نو آبادیات اور غلامی تھی۔ یہ یہی منظم نسل پرستی ہے جو اس نظام میں پروان چڑھی ہے جس کا مطلب ہے کہ نسل پرستی سرمایہ داروں کے ذریعے محنت کشوں کے استحصال کا لازمی جزو ہے۔ سماج کی سب سے پسی ہوئی پرتیں حکمران طبقے کو بے کار اور قابلِ ضیاع نظر آتی ہیں جو محض ان کو استعمال کر کے منافعے کمانے کا خواہش رکھتے ہیں۔

برطانیہ اور عالمی سطح پر اس سفاکانہ قتل کے خلاف محنت کش طبقے نے اس نظام کی سنگدلی کے خلاف مشترک غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ یہی نظام ہے جس کی بنیاد پر برطانیہ میں مہاجرین کو نظر بند رکھا جاتا ہے، جوGrenfellمیں کئی اموات کا سبب بنا، اور جس میں زیادہ تر اقلیتیں کرونا سے متاثر ہو کر مر رہی ہیں۔

جیسا کہ میلکم ایکس کا مشہور قول ہے، ”نسل پرستی سے پاک سرمایہ داری کا وجود ممکن نہیں۔“ سرمایہ داری کے تسلسل کے ساتھ نسل پرستی بھی جاری رہے گی۔ نسل پرستی کی جڑیں اکھاڑنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ تمام محنت کش اس نظام کے خلاف متحد ہو کر لڑیں جو ایسی سفاکیت اور بربریت کو قائم رکھتی ہے۔ صرف سوشلسٹ انقلاب اور سرمایہ داری کے خلاف لڑائی کے ذریعے ہی ہم ایک ایسا معاشرہ تخلیق دے سکتے ہیں جس میں نسل پرستی اور استحصال کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو۔

Comments are closed.