بائیڈن سے امیدیں لگائے مزدور دشمن لبرل اور سرمایہ داری کا زوال!

|تحریر: آدم پال|



نئے عہد کی نئی دنیا

امریکہ کے صدارتی انتخابات میں جو بائیڈن کی کامیابی کو دنیا بھر کے لبرلزاپنی شاندار فتح قرار دے رہے ہیں اور ٹرمپ کی شکست کے ساتھ ساتھ اس عمل کی بھی پسپائی کا واویلا کر رہے ہیں جس کی نمائندگی ٹرمپ بطور امریکی صدر کر رہا تھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ یہ کوششیں بھی کی جارہی ہیں کہ ایسے اقدامات کیے جائیں کہ ٹرمپ جیسا شخص دوبارہ کبھی صدر نہ بن سکے۔ امریکی صدارتی انتخابات میں سرمایہ دار طبقے کے بھی ایک بڑے حصے نے جو بائیڈن کی حمایت کی تھی اور ٹرمپ کی نسبت بائیڈن کو زیادہ بڑے پیمانے پر مالی امداد مہیا کی تھی۔ یہ انتخابی مہم امریکہ کی تاریخ کی سب سے مہنگی مہم تھی جس میں 14 ارب ڈالر سے زائد خرچ کیے گئے اور ان میں بائیڈن کی جانب سے خرچ کی گئی رقم ٹرمپ کی نسبت کہیں زیادہ تھی۔اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرمایہ دار طبقے کا بھی ایک بڑا حصہ ٹرمپ کو دوبارہ صدر کے عہدے پر فائز نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ یہی صورتحال میڈیا، سروے کرنے والے اداروں اور دیگر شعبوں کی نظر آتی ہے جہاں پر سرمایہ دار طبقے کے افراد ٹرمپ کی جیت سے خائف نظر آتے تھے۔ دوسری جانب عوام کا ایک بڑا حصہ بھی ٹرمپ سے جان چھڑوانا چاہتا تھا اور اس کی عوام دشمن پالیسیوں سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ لیکن ان تمام تر عوام دشمن پالیسیوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے انہیں کوئی ایسا متبادل نہیں دیا گیا جو عوام دوست پالیسیوں کا وعدہ کرے یا جو سرمایہ دار طبقے کے خلاف لڑائی لڑنے کے لیے تیار ہو۔

برنی سینڈرز نے بھی دوسری دفعہ دھوکہ دیا اور جو بائیڈن کے حق میں دستبردار ہو گیا۔ جس طرح چار سال قبل وہ اسٹیبلشمنٹ کی امیدوار ہیلر ی کلنٹن کے لیے دستبردار ہو گیا تھا۔ اس وقت بھی ہیلری سے نفرت کا ووٹ ٹرمپ کو ڈال دیا گیا تھا جس کے باعث وہ جیتنے میں کامیاب ہوا۔ اس وقت اگر برنی سینڈرز خود آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں اترتا تو وہ انتخابات جیت سکتا تھا۔ اسی طرح اس دفعہ بھی ٹرمپ سے نفرت کا ووٹ بائیڈن کو ڈالا گیا جو درحقیقت عوام دشمن قوتوں کا ہی نمائندہ ہے اور اوباما کے ساتھ آٹھ سال بطور نائب صدر کام کرچکا ہے اور اس دوران ہونے والے تمام عوام دشمن اور سامراجی فیصلوں میں اس کی حمایت شامل ہے۔

لیکن بائیڈن کی حمایت کے دوران اور خاص طور پر انتخابات کے بعد ایک خیال بار بار میڈیا کے ذریعے سامنے آ رہا ہے جس میں اس خواہش کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ کسی طرح ٹرمپ کی صدارت کے دوران کیے جانے والے اقدامات کو واپس کرنے کے ساتھ ساتھ وہ تمام عمل بھی واپس لپیٹ دیا جائے جس کا آغاز ٹرمپ نے کیا تھا۔ اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے حوالے سے بھی بحث مباحثہ دنیا بھر کے اہم ترین اخبارات و رسائل میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور ان امکانات کے حوالے سے گفتگو کی جا رہی ہے کہ ٹرمپ کے تحت شروع ہونے والے عمل سے مکمل جان کیسے چھڑوائی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے اس خدشے کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ 2024ء کے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ یا اس کے گھر سے کوئی فرد دوبارہ صدارتی انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے کامیابی حاصل کر سکتا ہے اور وہ عمل دوبارہ شروع ہو جائے گا جس کا آغاز 2016ء میں ہوا تھا۔ اس کی وجہ ٹرمپ کے ووٹوں میں پچھلے انتخابات کی نسبت ہونے والا اضافہ ہے۔انتخابات سے قبل بہت سے تجزیہ نگار اور مبصرین یہ سمجھ رہے تھے کہ ٹرمپ کو واضح طور پر شکست ہو جائے گی اور یہ تمام تر ہیجان انگیز عمل اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گا۔ لیکن ٹرمپ کو ملنے والے ووٹوں نے سب کو حیران کر دیا ہے۔ ایک وقت پر تو ٹرمپ جیت کے بہت قریب پہنچ گیا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ وہ دوبارہ کامیابی حاصل کر لے گا۔ لیکن جب ڈاک کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو ٹرمپ کی پسپائی کا آغاز ہوا۔ لیکن اس کے باوجود ٹرمپ نے سماج کے تمام حصوں سے لیے گئے اپنے ووٹوں میں اضافہ کیا ہے اور اسی لیے اگلے انتخابات میں وہ ایک مضبوط امیدوار کے طور پر خود کو پیش کر سکتا ہے۔

لیکن یہاں پر یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ جو عمل چار سال قبل امریکہ سمیت پوری دنیا میں سطح پر ابھر کر نظر آنا شروع ہوا تھا کیا وہ صرف ٹرمپ کے صدر بننے کے باعث شروع ہوا تھا اور اس کی صدارت کے خاتمے سے کیا وہ عمل ختم ہو جائے گا اور بائیڈن صدر بننے کے بعداوباما کے زیر صدارت جاری پالیسیاں اور دنیا بھر میں امریکی کردار اور سب سے بڑھ کر سرمایہ د ارانہ نظام کا تسلسل ویسے ہی قائم رکھ پائے گا جیسے چار سال قبل تھا یا ایسا کرنا اب ممکن نہیں۔

چار سال قبل ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کا واقعہ درحقیقت ایک بہت بڑی تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے جو امریکہ کے سماج کے سمیت پوری دنیا میں وقوع پذیر ہو چکی تھی۔ مارکسی نظریہ رکھنے والوں کے لیے یہ بالکل بھی حیران کن نہیں تھا لیکن سرمایہ دارانہ نظریات رکھنے والے دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور اور مبصرین کے ساتھ ساتھ یہ اس نام نہاد بائیں بازو کے لیے بھی حیران کن تھا جو انہی حاوی نظریات کے تحت اپنی سیاست چمکاتے رہتے ہیں۔ 2016ء میں ہونے والے امریکی انتخابات میں ہیلری کلنٹن کی کامیابی کی پیش گوئی انتہائی پر اعتماد انداز میں کی جا رہی تھی اور پاکستان سمیت بہت سے ممالک نے تو ہیلری کو پیشگی مبارکباد دے کر چاپلوسی کا آغاز بھی کر دیا تھا۔ ایک مشہور امریکی میگزین ٹائم نے تو ہیلری کی کامیابی کا ٹائٹل چھپوا کر دنیا بھر میں اپنے ڈسٹری بیوٹرز کو بھی بھجوا دیا تھا تاکہ انتخابات کے اگلے روز ہی ان کا نیا شمارہ خریداری کے لیے دستیاب ہو۔ یہ تمام صورتحال ان دانشوروں کے اندھے اعتماد کا اظہار تھی جو وہ امریکہ میں سٹیٹس کو کے برقرار رکھنے کے حوالے سے رکھتے تھے۔ اس سے قبل برنی سینڈرز نے ہیلری کلنٹن کی کمپئین میں رخنہ ڈالا تھا لیکن ریاستی اداروں کے دباؤاور برنی سینڈرز کے اپنے نظریاتی خصی پن کی وجہ سے اس خطرے سے چھٹکارا حاصل کیا جا چکا تھا۔ لیکن انتخابات کے نتائج نے سب کو حیران کر دیا اور ٹرمپ امریکہ کا صدر بن کر ابھرا۔ یہ نتائج بالکل بھی حادثہ نہیں تھے اور عالمی مارکسی رجحان کی جانب سے اس امکان کا واضح طور پر اظہار کیا گیا تھا کہ 2016ء میں پہلے ہی برطانیہ میں عوام کی جانب سے بریگزٹ جیسا انتہائی غیر معمولی فیصلہ سامنے آ چکا ہے اوراس لیے ٹرمپ کی کامیابی کے امکانات بھی موجود ہیں۔ اس حوالے سے واضح طور پر نظر آیا کہ امریکہ کے اندر اسٹیبلشمنٹ کیخلاف نفرت اور غم و غصے کا تمام تر ووٹ ٹرمپ کو پڑا اور وہ وسکانسن جیسی ریاستوں میں بھی کامیابی حاصل کر گیا جنہیں ہیلری اپنی جیب میں سمجھتی تھی۔ یہ انتخابات امریکی عوام کا ایک شدید رد عمل تھا جس میں انہوں نے انتہائی دائیں بازو سے ایک ایسے شخص کو ووٹ دیا تھا جو سٹیٹس کو، کو تباہ و برباد کر کے رکھ دے۔ عوام کو جب بائیں جانب سے اسٹیبلشمنٹ مخالف برنی سینڈرز کو ووٹ ڈالنے کا موقع نہیں ملا تو انہوں نے ٹرمپ کو ووٹ دے کر اپنا غصہ نکالا۔ اس کے ساتھ ساتھ تقریباً پچاس فیصد ووٹروں نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ ہی نہیں لیا جو اس تمام تر انتخابی عمل پر عدم اعتماد بھی تھا اور امریکہ کی سرمایہ دارانہ جمہوریت سے نفرت کا اظہار بھی جس میں حکمران طبقے کی دو پارٹیوں کے علاوہ کسی کو بھی جیتنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔

US protests update Image Joe Piette Flickr

سیاہ فاموں کی تحریک اوباما دور میں ہی شروع ہو گئی تھی جس میں شدت ٹرمپ کے دور میں آئی۔

یہ انتخابی نتائج امریکی سماج میں ایک بہت بڑی تبدیلی کا سطح پراظہار تھے جس میں عوام کی حکمران طبقے سے نفرت کا اظہار کھل کر نظر آیا۔ اس سے قبل آکو پائی وال سٹریٹ اور سیاہ فاموں کے حقوق کی عوامی تحریکیں ابھر چکی تھیں جوابھی تک اتار چڑھاؤ کے ساتھ بتدریج پھیلتی جا رہی ہیں۔ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد یہ عمل رکنے کی بجائے مزید شدت اختیار کرتا گیا اور ٹرمپ کی شخصیت میں امریکی سماج سمیت پوری دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی عکاسی ہوتی رہی۔ ٹرمپ نے امریکی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے عوام دشمن کردار کو جس طرح دنیا میں ننگا کیا اس کی مثال ماضی میں کہیں نہیں ملتی۔ اور اسی باعث عوام میں امریکی حکمران طبقے کے خلاف نفرت بھی ٹھنڈی پڑنے کی بجائے مزید مشتعل ہوتی اور پھیلتی رہی۔ ٹرمپ نے اپنے بیانات اور تقریروں میں وہ تمام باتیں کیں جو اس سے پہلے امریکی حکمران صرف بند کمروں یا نجی محفلوں میں کیا کرتے تھے۔ امریکی صدر خواہ دنیا بھر میں کتنے ہی مظالم اور خونریزی، جنگیں اور خانہ جنگیاں برپا کر رہا ہو، کتنی ہی منتخب حکومتوں کا تختہ الٹ کر وہاں خونی آمریتیں مسلط کر رہا ہو وہ یہ سب کرتے ہوئے انتہائی سنجیدہ شکل بنا لیا کرتا تھا اور اپنی تقریروں اور بیانات میں منافقانہ انداز میں اسے عوام کو حقوق دلوانے کے لیے ایک ضروری عمل قرار دیتا تھا۔ اوباما کے آٹھ سالوں میں یہ واضح طور پر نظر آیا جب ایک سیاہ فام شخص کو امریکی صدر کے عہدے پر فائز ہوتا دیکھ کر لاکھوں افراد کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے کہ سیاہ فاموں پر بالخصوص اور سماج کے مظلوم حصوں پر بالعموم ظلم کے دن ختم ہو گئے ہیں۔ لیکن اسی اوباما کے دور میں سیاہ فاموں کی ملک گیر تحریک پوری شدت کے ساتھ ابھری اور ریاستی جبراور معصوم افراد کے پولیس کے ہاتھوں بے دریغ قتل کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں۔ اسی طرح سرمایہ دار طبقے کو حکومت کی جانب سے تاریخ کے سب سے بڑے بیل آؤٹ پیکج دیے گئے جن کی مالیت ہزاروں ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی جبکہ عوام کی اکثریت بیروزگاری اور غربت کی چکی میں پستی رہی۔ انہی مظالم کیخلاف آکوپائی وال سٹریٹ ابھری تھی۔ اسی طرح عراق اور افغانستان میں امریکی سامراج کے مظالم کا سلسلہ بھی شدت اختیار کر گیا جبکہ وینزویلا سمیت مختلف ممالک میں منتخب حکومت کیخلاف سازشیں بھی جاری رہیں۔ اسی دور صدارت میں عرب انقلابات کے دوران عوام دشمن آمریتوں کی حمایت بھی امریکی سامراج اپنا اولین فرض سمجھ کر کرتا رہا۔

لیکن اس دوران اوباما کا عوام دوست چہرہ بنا کر پیش کیا جاتا رہا اور دنیابھر کے ذرائع ابلاغ سے یہ جھوٹا تاثر دیا جاتا رہا کہ امریکی صدر عوام کا غمخوار ہے اور دن رات سرمایہ داروں کے منافعوں کی رکھوالی کرنے کی بجائے عوام کے غم میں سلگتا رہتا ہے۔ ٹرمپ کے بر سر اقتدار آنے سے یہ جھوٹا پردہ پوری طرح فاش ہو گیا اور امریکی حکمران طبقے کا حقیقی چہرہ دنیا بھر کے سامنے آ گیا۔ فلسطین کے عوام پر اسرائیلی مظالم کے لیے امریکی سامراج کی حمایت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بلکہ مشرق وسطیٰ میں اس صیہونی اور سامراجی ریاست کو قائم کرنے سے لے کر اس کو پالنے پوسنے تک امریکی سامراج اس میں براہ راست ملوث رہا ہے۔ لیکن ٹرمپ نے پہلی دفعہ کھل کر اسرائیل کے سامراجی منصوبوں کی حمایت کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ وہ اقدامات جنہیں پہلے ڈھکے چھپے انداز میں مسلط کیا جاتا تھا انہیں کھل کر مسلط کرنا شروع کر دیا جس میں فلسطینیوں سے جبری طور زمینیں چھین کر یہودی بستیاں آباد کرنے کا منصوبہ اوراسرائیل میں امریکی سفارتخانہ یروشلم کے متنازعہ علاقے میں منتقل کرنے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ اسی طرح چین سے کھل کر تجارتی جنگ شروع کرنے سے لے کر وینزویلا میں ایک کُو کروانے کا ناکام منصوبہ بھی ٹرمپ کی کارستانیوں میں شامل ہے۔ شمالی کوریا پر پہلے ایٹمی حملے کی دھمکیاں اور پھر دوستی کا ہاتھ بڑھانا اور پہلی سربراہی ملاقات کرنا بھی ٹرمپ کے زیر قیادت ہی ممکن ہوا۔ اسی طرح ایران کے ساتھ محاذ آرائی میں شدت لانا اور صورتحال کو جنگ کے کنارے تک لا کر پیچھے ہٹنا بھی ٹرمپ کے دور حکومت میں متعدد بار ہوا۔ خاص طور پر ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد صورتحال کافی گمبھیر ہوگئی تھی اور جنگ کے الارم بج اٹھے تھے۔ اسی طرح عالمی معاہدوں اور تنظیموں سے باہر نکلنے کے واقعات بھی پہلی دفعہ رونما ہوئے جن میں عالمی ماحولیاتی معاہدے، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور اقوام متحدہ کے کچھ ذیلی اداروں سے امریکہ کو ٹرمپ نے باہر نکال لیا۔ جبکہ نیٹو جیسے ادارے کو عملی طور پر غیر فعال کر دیا اور اپنے قریب ترین اتحادی جرمنی سے امریکی فوجوں کا انخلا کروایا۔ اسی طرح روس کے ساتھ تعلقات میں بھی اتار چڑھاؤ مسلسل جاری رہا۔

امریکہ کے اندر بھی ٹرمپ نے سرمایہ داروں کو جتنے بڑے پیمانے پر ٹیکسوں میں چھوٹ دی اور انہیں بیل آؤٹ پیکج دیے اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔صرف اس سال کورونا وبا کے آغاز پر دو ہزار ارب ڈالر کا پیکج سرمایہ داروں کو دیا گیا تھا۔ اس کے بعد بھی مزید اتنی ہی مالیت کاایک اور بیل آؤٹ پیکج زیر بحث ہے۔اسی طرح امریکی سرمایہ داروں کو چین کی سستی مصنوعات سے تحفظ دینے کے لیے تجارتی جنگ کا بھی آغاز کر دیا گوکہ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایسا امریکی محنت کشوں کی کھوئی ہوئی نوکریا ں واپس دلانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس عمل سے بہت سے سرمایہ دار خوش نہیں تھے اور بیروزگاری بھی کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھتی رہی۔

اس سارے عرصے کے دوران ٹرمپ کا خواتین کی جانب توہین آمیز رویہ بھی کھل کر سامنے آتا رہا اور اس کیخلاف اس ایشو پر امریکی تاریخ کے سب سے بڑے احتجاج ہوئے۔ جس دن ٹرمپ کی بطور صدر تقریب حلف برداری تھی اس دن پورے ملک میں خواتین کے حقوق کے لیے لاکھوں افراد نے احتجاج کیا اور ٹرمپ سے اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ اسی طرح سیاہ فاموں، لاطینی امریکہ اور مسلم ممالک سے آ ئے تارکین وطن کیخلاف بھی ٹرمپ کی عوام دشمن پالیسیاں جاری رہیں اور اس نے انسانیت سوز واقعات کی ایک نئی تاریخ رقم کی جس میں میکسیکو کی سرحد پر انتہائی جابرانہ اقدامات کرتے ہوئے قید خانے تعمیر کروائے جہاں کئی قیدیوں کی ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ اس دوران سیاہ فاموں کی ابھرنے والی تحریک کیخلاف بھی ٹرمپ نے ظلم اور جبر کی تمام حدود پھلانگ دیں اور مظاہرین کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کا حکم دیا۔ دوسری جانب عوام دشمن مسلح جتھوں کی بھی کھلے عام حوصلہ افزائی کرتا رہا اور ان کے جرائم کی کھل کرحمایت کرتا رہا۔ امریکی حکمران طبقہ گوکہ پہلے بھی اسی قسم کے اقدامات اور حکم نامے جاری کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی ایسے ہی کرے گا لیکن یہ سب کرتے ہوئے وہ عوام کے لیے مگرمچھ کے آنسو بہانا نہیں بھولتے تھے اور ساتھ ہی ریاستی جبر سے قتل ہونے والوں کے لیے منافقانہ ہمدردی کے ڈرامے کارچانا بھی لازمی سمجھاجاتا تھا۔ لیکن ٹرمپ نے ماضی کے یہ تمام نقاب اتار پھینکے اور کھل کر ان خیالات اور جذبات کا اظہار کیا جو حکمران طبقے کے افراد نجی محفلوں میں کیا کرتے تھے۔ اسی لیے امریکہ کا حکمران طبقہ ٹرمپ کے خلاف تھا کہ وہ ان کی حقیقت عوام کے سامنے عیاں کر رہا ہے۔ ٹرمپ کے بیانات سے عوامی نفرت اور غم و غصہ بھی نئی انتہاؤں تک پہنچ گیا اور اس کیخلاف ملک گیر تحریک میں تین کروڑ سے زائد افراد سڑکوں پر باہر نکل آئے جو امریکہ کی تاریخ کی سب سے بڑی تحریک ہے۔ اس دوان بہت سی جگہوں پر ہنگامے شروع ہو گئے اور کچھ شہروں میں تھانے بھی نذر آتش کیے گئے۔ اس کو روکنے کے لیے دو سو سے زائد شہروں میں کرفیوں نافذ کرنا پڑا جبکہ ٹرمپ کھلم کھلا فوج بلانے اور ملک میں مارشل لاء لگانے کی دھمکیاں دینے لگا۔ اس کے جواب میں وائٹ ہاؤس کے باہر بھی احتجاج شروع ہو گئے اور کچھ مظاہرین تمام حدیں پھلانگ کر وائٹ ہاؤس کے اندر گھس گئے تاکہ ٹرمپ کی درگت بنا سکیں۔ اس موقع پر ٹرمپ نے ایک زیر زمین بنکر میں کئی گھنٹے چھپ کر اپنی جان بچائی۔

اس سال کے وسط میں جاری یہ تحریک نیم انقلابی شکل اختیار کر چکی تھی اور تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔ اگر اس وقت منظم محنت کش طبقہ باقاعدہ طور پر اس میں شامل ہوجاتا اور ایک عام ہڑتال کی کال دے دی جاتی تو صورتحال میں ایک معیاری تبدیلی آ سکتی تھی۔ امریکہ کے مغربی ساحل پر بندرگاہوں کے محنت کشوں نے اس حوالے سے قدم بھی اٹھایا اور ایک ہڑتال کا آغاز بھی کیا لیکن یہ ملک گیر ہڑتال نہیں بن سکی اور نہ ہی دوسرے شعبوں کے محنت کش اس میں بڑے پیمانے پر شامل ہو سکے۔ اس کی ایک بڑی وجہ امریکہ کی ٹریڈ یونینز پر کرپٹ اور مزدور دشمن اشرافیہ کا کنٹرول ہے جو ڈیموکریٹ پارٹی کی جھولی میں بیٹھی ہے۔ لیکن آنے والے عرصے میں اس سرمایہ دار دوست قیادت کیخلاف بھی لڑائیوں کا آغاز ہو گا اور مزدور تحریک آگے بڑھے گی۔ دوسری جانب سرمایہ دار طبقہ اس تمام تر صورتحال میں مزید خوفزدہ ہوگیا اور انہیں پورا نظام خطرے میں جاتا ہوا محسوس ہوا۔

اس دوران امریکہ سمیت پوری دنیا میں معاشی بحران کا آغاز بھی ہو چکا تھا جو تاریخ کا سب سے بڑا بحران بن چکا ہے۔ اس بحران کی پیش گوئی پہلے سے کی جا رہی تھی لیکن جب اس کا آغاز ہوا تو یہ سب تخمینوں اور اندازوں سے گہرا اور وسیع بحران ثابت ہوا جس نے پورے نظام کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ امریکہ کے اندر چند ہفتوں میں پانچ کروڑ سے زائد افراد بیروزگار ہوگئے جبکہ لاکھوں چھوٹے اور درمیانے کاروبار دیوالیہ ہوگئے۔ اس کے علاوہ بہت سی اہم صنعتیں اور کاروبار بھی منہدم ہونے کی جانب گئے جن میں ائر لائن انڈسٹری، طیارہ ساز کمپنیاں، ہوٹل اور ریسٹورنٹس کے کاروبار اور سب سے بڑھ کر انشورنس کمپنیاں اور بینک شامل تھے۔ کروڑوں لوگ اپنے مکانوں کے قرضے کی قسط ادا کرنے سے قاصر تھے جبکہ دیگر بہت سے چھوٹے کاروبار مکمل طور پر دیوالیہ ہوگئے۔ یہ صورتحال تقریباً پوری دنیا کی بن گئی تھی اور ابھی تک جاری ہے۔ اگر فوری طور پر اس سے باہر بھی نکل آیا جائے، جو کہ ممکن نہیں، تو بھی آنے والے ایک طویل عرصے تک اس کے ذیلی اثرات سے نہیں نکلا جا سکے گا۔ اس معاشی بحران کے اثرات کا اندازہ امریکی اسٹاک ایکسچینجوں اور بینکوں کی حالت سے لگایا جا سکتا ہے جہاں حصص کی قیمتوں میں تاریخ کی بدترین گراوٹ دیکھنے میں آئی۔ خود امریکی ڈالر تیزی سے کمزور ہو رہا ہے جبکہ امریکی ریاست کے جاری کردہ بانڈز کی قیمتیں بھی تیزی سے کم ہو رہی ہیں۔ یہ بانڈز دنیا کی سب سے محفوظ ترین سرمایہ کاری سمجھی جاتی تھی اور دنیا بھر کے بینک اورریاستی مالیاتی ادارے بھی اس میں سرمایہ کاری کرتے تھے لیکن اب یہ بانڈز بھی غیر محفوظ سمجھے جاتے ہیں۔ امریکی شرح پیداوار بھی اس سال منفی دس فیصد کی کم ترین شرح تک پہنچ چکی ہے اور اتنے بڑے حجم کی گراوٹ اس سے پہلے نہیں دیکھی گئی۔ اس دوران امریکہ میں شرح سود پہلے ہی صفر کے قریب پہنچ چکی تھی اور 2008ء کے مالیاتی بحران کے بعد سے اسے انتہائی کم ترین سطح تک ہی رکھا گیا تھا۔ لیکن اب صفر سے بھی نیچے جانے کا رجحان موجود ہے جو یورپ اور جاپان میں پہلے ہی حاصل ہو چکا ہے۔ یہ تمام صورتحال امریکہ کے حکمران طبقے کو خوفزدہ کرنے کے لیے کافی تھی لیکن اس میں ٹرمپ کی انتہائی جارحانہ پالیسیاں بھی ان کے لیے درد سر بنی ہوئی تھی۔

اس دوران ٹرمپ نے امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی اپنی لڑائی کو جاری رکھا اور اس کے مختلف اداروں کے ساتھ اختلافات اور بعض اوقات واضح تضادات بھی نظر آئے۔ اسی لیے اپنے پورے دور صدارت میں ٹرمپ مختلف عدالتی کیسوں میں بھی پھنسا رہا جس میں مختلف ریاستی ادارے بشمول خفیہ ایجنسیاں اس کے خلاف ثبوت اور گواہ فراہم کرتی رہیں اور اس کے خلاف مواخذے کی کاروائی کر کے اس کو عدالتی حکم نامے کے ذریعے برطرف کروانے کی بھی کوشش کی گئی۔ اس محاذ پر بھی ٹرمپ روایتی ہٹ دھرمی سے اپنے مخالفین پر سر عام حملے کرتا رہا اور امریکی ریاستی اداروں میں جو لڑائیاں پہلے خفیہ طور پر اور بند کمروں میں ہوتی تھیں وہ سوشل میڈیا، تقریروں اور بیانات کے ذریعے ہوتی رہی۔ سعودی عرب کے موجودہ حکمرانوں کی کھلے عام حمایت پر بھی ٹرمپ کو امریکی اسٹیبلشمنٹ کے اندر سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر امریکہ میں مقیم سعودی صحافی جمال خشقوجی کے قتل کے بعد، لیکن ٹرمپ اپنے مؤقف پر قائم رہا اور امریکی اسٹیبلشمنٹ سے تضادات بناتا رہا۔ اس دوران عدالتوں کے خلاف توہین آمیز بیانات ہوں یا پینٹاگان اور دوسرے ریاستی اداروں یا میڈیا کے جرائم کو بے نقاب کرنا ہو، ٹرمپ نے کبھی بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا اور ریاستی اداروں کی لڑائی کو عوام کے سامنے لے آیا۔ ایک موقع پر اس نے یہ کھلا راز بھی اگل دیا کہ سامراجی جنگیں کروانے کا مقصد امریکی کمپنیوں کا اسلحہ بیچنا ہوتا ہے۔ یہ تمام صورتحال امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لیے انتہائی ناگوار تھی جو اس سے پہلے انتہائی سنجیدہ چہروں اور متانت بھری آوازوں کے ساتھ عوام کی ہمدردی کا راگ الاپتے رہتے تھے۔ اسی لیے نظر آیا کہ بائیڈن کی کامیابی کے لیے نہ صرف سرمایہ داروں نے بڑے پیمانے پر فنڈز مہیا کیے بلکہ ریاستی اداروں کی جانب سے بھی اس کی ہر ممکن مدد کی گئی۔ بائیڈن کی انتخابات میں کامیابی کے بعد تمام سرمایہ دار طبقے اور لبرل حلقوں میں ایک جشن کی کیفیت نظر آئی اور ان کی خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی۔ امریکی مین سٹریم میڈیا اور دانشورجو ہر وقت بظاہر نیوٹرل رہنے کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں وہ مکمل طور پر بائیڈن کی حمایت کر رہے تھے۔ نیویارک ٹائمزاور اکانومسٹ جریدے سمیت کئی اخباروں اور ٹی وی چینلوں نے انتخابات سے پہلے بائیڈن کی کھل کر حمایت کر دی تھی اور نتائج آنے کے بعد باقاعدہ جشن کی سی کیفیت نظر آ رہی تھی۔ عوامی سطح پر جشن منانے والوں میں بہت سے لوگ اس لیے بھی باہر نکلے تھے کہ انہیں ٹرمپ جیسے عوام دشمن اور غلیظ شخص سے نجات حاصل کرنے کی خوشی تھی لیکن حکمران طبقے کی خوشی کی وجہ یہ ہے کہ وہ ٹرمپ سے پہلے والے دورمیں واپس جانے کے خواہشمند ہیں۔

ٹرمپ کے دور سے پہلے والی دنیا کی واپسی ممکن نہیں!

اس وقت پوری دنیا معروضی طور پر ایک نئے عہد میں داخل ہو چکی ہے جہاں سے واپسی کسی بھی صورت میں ممکن نہیں۔ 2016ء میں ٹرمپ جیسے شخص کا برسر اقتدار آنا ہی اس لیے ممکن ہوا تھا کیونکہ عالمی سطح پر اور خود امریکی سماج میں بہت بڑی تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں۔ اسی سال برطانیہ میں بریگزٹ جیسا واقعہ بھی رونما ہوا تھا جو گزشتہ چار سال میں برطانیہ سمیت پورے یورپ کی سیاست پر انتہائی گہرے اثرات مرتب کر چکا ہے اور مزید بڑی تبدیلیوں کا باعث بنا ہے۔ ان تمام تر تبدیلیوں کا معیاری اظہار 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد سے ہونا شروع ہو گیا تھا اور بتدریج ان کی شدت میں اضافہ ہوتا رہا۔ آغاز میں یہ بحران چند امریکی کمپنیوں اور بینکوں کے دیوالیہ پن سے شروع ہوا تھا جن میں لحمین برادرز کا تین سو ارب ڈالر کی مالیت کادنیا کا سب سے بڑا دیوالیہ بھی شامل تھا۔ اس کے بعد اس نے صنعتوں کا رخ کیا اور پھر پوری دنیا پر اثرات مرتب کرتا ہوا کئی ریاستوں کو دیوالیہ کرتا گیا۔ 2011ء کا دھماکہ خیز آغاز تیونس میں ہونے والے انقلابی واقعات سے ہوا جن میں تین دہائی پرانی آمریت کا خاتمہ چند دنوں میں ہوتا نظر آیا۔ اس کے بعد یہ انقلابی صورتحال مصر سمیت تمام عرب ممالک میں پھیل گئی جبکہ اسرائیل میں بھی ملک گیر احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے جن میں عرب انقلابات سے اظہار یکجہتی کیا گیا۔ اس وقت اگر وہاں کوئی انقلابی پارٹی موجود ہوتی تو سوشلسٹ انقلاب کے مواقع بھی موجود تھے۔ لیکن ایسی پارٹی نہ ہونے کے باعث انقلاب پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا اور اس کے بعد ردِ انقلاب حاوی ہوتا نظر آیا اور کئی جگہوں پر خانہ جنگیاں شروع ہو گئیں۔ اسی طرح لیبیا اور یمن جیسی کئی کمزور ریاستیں ختم ہوتے بھی نظر آئیں۔ یہ کیفیت ابھی تک جاری ہے اور اس کی شدت میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ امریکہ کے اندر اسی سال آکو پائی وال سٹریٹ کی تحریک کا آغاز ہوا جو اپنے مقاصد میں تو کامیاب نہ ہو سکی لیکن پورے امریکی سماج کی نئی کروٹ کا اظہار ضرور کر دیا۔ بعد ازاں برنی سینڈرز کا ابھار ہوا اور امریکہ میں DSA کے نام سے کام کرنے والی سوشلسٹ تنظیم کی اب تقریباً ایک لاکھ ممبر شپ ہے۔ اس تمام عرصے میں یونان سے لے کر برازیل تک حکمران طبقات بحرانوں کو حل کرنے کی متعدد کوششیں کرتے رہے اور کئی دفعہ اعلانات بھی ہوئے کہ عالمی معیشت زوال سے باہر نکل آئی ہے لیکن اس کے باوجود استحکام اور پائیداری کہیں بھی نظر نہ آ سکی بلکہ عدم استحکام کی شدت میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد یہ صورتحال زیادہ واضح طور پر دنیا میں نظر آئی اور دیگربہت سے ممالک میں بھی اسی قسم کی شخصیات بر سر اقتدار آتی چلی گئیں۔ برازیل میں بولسنارو کی انتخابات میں کامیابی ہو، برطانیہ میں بورس جانسن کی یا انڈیا میں مودی کا دوسرا چناؤ، ہر طرف سماج میں انتہاپسند قوتیں ہی حاوی ہوتی نظر آئیں اور سٹیٹس کو ٹوٹتا ہوا نظر آیا۔

The World Order That Donald Trump Revealed - The Atlantic

ٹرمپ کی جیت سے پہلے ہی عالمی سطح پر بے شمار تضادات موجود تھے جنہیں ٹرمپ نے مزید شدید کر دیا۔ عالمی صورتحال اب جس سطح پر پہنچ گئی ہے، یہاں سے پرانے دنوں میں واپسی اب ناممکن ہے۔

دائیں بازو کے ان انتہا پسند حکمرانوں کیخلاف عوامی بغاوتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی پوری شدت کے ساتھ جاری رہا اور اس کے حجم اور پھیلاؤ میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے 2019ء کا سال انتہائی اہمیت کا حامل تھا جب دنیا کے درجنوں ممالک میں عوامی تحریکیں بہت تیزی سے آگے بڑھتی نظر آئیں اور کچھ ممالک میں انقلابی صورتحال پیدا ہو گئی۔ اس میں سوڈان میں ابھرنے والی انقلابی تحریک انتہائی اہمیت کی حامل ہے جس نے نہ صرف دہائیوں سے براجمان حکومت کا خاتمہ کیا بلکہ سرمایہ دارارانہ ریاست کے تمام اداروں کو بھی چیلنج کیا۔ ایک وقت میں اقتدار عوام کے درمیان سڑکوں اور گلیوں، بازاروں میں موجود تھا اور سوڈان کی کمیونسٹ پارٹی اور ڈاکٹروں، انجینیروں اور دیگر پروفیشنلز کی ملک گیر تنظیم کے پاس یہ مواقع موجود تھے کے وہ محنت کش طبقے کو ساتھ جوڑتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیتے۔ لیکن انقلابی نظریات اور قیادت نہ ہونے کے باعث ایسا نہ کیا جا سکا۔

اس کے علاوہ جنوبی امریکہ کے ممالک چلی، ایکواڈور، میکسیکو، برازیل، ارجنٹینا اور دیگر ممالک میں عوامی تحریکیں نظر آئیں۔ ہانگ کانگ کی تاریخ کی سب سے بڑی تحریک بھی اسی سال نظر آئی جس پر چین کے حکمرانوں نے تاریخ کا بد ترین جبر کرتے ہوئے اس کو کچل دیا۔ اسی طرح لبنان، عراق، ایران سمیت دنیا کے کئی ممالک میں تحریکیں نظر آئیں۔ اسپین کے علاقے کیٹالونیا میں علیحدگی کی تحریک بھی جاری رہی جبکہ برطانیہ میں جیرمی کاربن کے گرد لاکھوں لوگ عوامی مطالبات کے گرد متحرک ہوئے اور برطانیہ کی سیاست کا نقشہ تبدیل کر کے رکھ دیا۔ فرانس میں پیلی جیکٹ والوں کی تحریک اور گزشتہ دہائیوں کی سب سے بڑی ہڑتالیں بھی اہمیت کی حامل ہیں۔ اس کے علاوہ بھی انڈیا سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں عوامی تحریکیں ابھریں اور عام ہڑتالیں ہوئیں جن کا یہاں تفصیلی ذکر کرنا ممکن نہیں۔

یہ تمام تر صورتحال کورونا وبا سے پہلے کی صورتحال ہے اور اس وقت موجودہ عالمی معاشی بحران کا بھی باقاعدہ آغاز نہیں ہوا تھا گوکہ اس جانب سفر جاری تھا۔ اس تمام صورتحال کی مکمل ذمہ داری ٹرمپ پر عائد نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی ان ممالک کے حکمرانوں کے کسی ایک فیصلے یا حکم نامے کو بنیادی وجہ قرار دیا جاسکتا ہے بلکہ یہ ایک طویل عرصے سے جاری پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ پوری دنیا میں ایک ایسا عمل جاری ہے جو ہر جگہ عوام کو باہر سڑکوں پر نکلنے کے لیے مجبور کر رہا ہے اور لوگ علم بغاوت بلند کرنے پر مجبور ہیں۔ اگراس کی وجہ کسی صدر یا وزیر اعظم کے کسی بیان یا تقریر کو قرار دے دیا جائے یا مہنگائی اور بیروزگاری کے کسی ایک حملے کو تو وہ اس عمل کو واضح نہیں کرے گا۔ یہ درحقیقت اس نظام کے بحران کا عمل ہے جو پوری شدت کے ساتھ دنیا بھر میں ہر جگہ اور ہر شعبے میں جاری ہے۔ یقینا یہ ایک ہی رفتار اور شدت کے ساتھ مسلسل جاری نہیں رہتا اور اس میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں اور کسی جگہ یہ انتہا کی جانب آگے بڑھ رہا ہوتا ہے اور کسی جگہ یہ ابتدائی مراحل میں ہوتا ہے لیکن یہ واضح ہے کہ یہ پوری دنیا میں جاری ہے اور جہاں جہاں سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے اور اس کے تحت سماجی رشتے اور معیشت چلائی جا رہی وہاں یہ عمل پوری طرح موجود ہے۔ سماج میں جاری اسی عمل کے نتیجے میں کہیں ٹرمپ جیسی شخصیات برسر اقتدار آتی ہیں اور کہیں بورس جانسن جیسے مسخرے وزیر اعظم بن جاتے ہیں۔ اس عمل کاا ظہار صرف انتہائی دائیں جانب ہی نہیں ہوتا بلکہ بہت سی جگہوں پر بائیں جانب بھی ابھرتا نظر آتا ہے۔ یونان میں سائریزا کی حکومت، اسپین میں پوڈیموز کا ابھاراور دیگر بہت سے ممالک میں بائیں بازو کی نئی قوتوں کا ابھرنا بھی اسی عمل کا حصہ ہے۔ امریکہ میں برنی سینڈرز کے گرد کروڑوں افرادکا نکلنا بھی کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ اس سماجی-معاشی عمل کے نتیجے میں یہ سب ممکن ہوا۔

لیکن 2020ء کے آغاز پر ہمیں پوری دنیا میں ایک نئے عہد کا آغاز انتہائی واضح انداز میں نظر آیا جس میں کسی شک و شبہے کی گنجائش ہی باقی نہیں بچی۔ عالمی سطح پر سرمایہ داروں کے کاسہ لیس دانشور اور تجزیہ نگار اس کی تمام تر ذمہ داری کورونا وبا پر ڈال رہے ہیں لیکن یہ بالکل غلط تجزیہ ہے۔ اس عہد کی آمد کافی سالوں سے واضح ہو رہی تھی اور مارکسی نظریات کے حامل افراد اس کے حوالے سے پہلے تناظر تخلیق کر چکے تھے۔ کورونا وبا نے اس معیاری تبدیلی میں صرف ایک عمل انگیز کا کردار ادا کیا ہے اور اگر یہ وبا نہ بھی پھیلتی تو بھی یہ عالمی معاشی بحران ناگزیر تھا۔ دوسری جانب کورونا وبا کا آنا اور پوری دنیا کے سائنسدانوں اور حکومتوں کی بے بسی کا عیاں ہونا بھی اس نظام کے بحران کے باعث ہی ممکن ہوا۔ ایک طویل عرصے سے انسانی ضرورت کے لیے کی جانے والی تحقیق کا مسلسل گلا گھونٹا جا رہا تھا اور ادویات ساز کمپنیوں کی اجارہ داری اتنی بڑھ چکی تھی کہ وہ دنیا کی ترقی یافتہ ریاستوں کو بھی اپنے اشاروں پر ناچنے پر مجبور کر چکی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ ممکنہ وباؤں کے حوالے سے کئی دہائیوں سے مناسب تحقیق اس لیے نہیں کی جا رہی تھی کیونکہ یہ منافع بخش نہیں تھی اور اسی لیے اس کے لیے فنڈز مختص نہیں کیے جا رہے تھے جبکہ غیر ضروری ریسرچ جس سے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کیا جا سکے ترجیح بن چکی تھی۔ اسی طرح ہسپتالوں اور علاج کی دیگر سہولیات کے لیے بھی پوری دنیا میں حکومتیں مسلسل کٹوتیاں لگا رہی تھیں او ر 2008ء کے بحران کے بعد یہ عمل مزید تیز کر دیا گیا تھا۔ ان تمام عوامل کے باعث ہی کورونا وبا کے باعث پھیلنے والی تباہی بڑے پیمانے پر ہوئی اور یہ ابھی بھی جاری ہے۔

اسی طرح معاشی بحران، ریاستوں میں بڑھتے داخلی تضادات، سیاسی پارٹیوں کے داخلی بحران اور بالعموم سرمایہ دارانہ ریاست اور جمہوریت کا بحران بھی ایک طویل عرصے سے واضح ہوتا جارہا تھا اور ہر طرف اس میں تیز ترین گراوٹ نظر آ رہی تھی۔ اس سال کے آغاز پر اس میں معیار ی تبدیلیاں سطح پر واضح طور پر نظر آئیں اور اسی طرح ایک نئے عہد کا آغاز بھی پوری دنیا میں ہوتا ہوا سب نے دیکھ لیا۔ انہی معروضی تبدیلیوں کے تحت ٹرمپ اور دیگر حکمران شخصیات بھی ہچکولے کھاتی رہیں اور ایک انتہا سے دوسری انتہا کی جانب لڑھکتی رہی جس میں اس نظام کا بحران عوام پر مزید واضح ہوتا رہا۔

لیکن دوسری جانب مارکسی نظریات کے تحت شخصیات کے انفرادی کردار کو بھی بالکل رد نہیں کیا جا سکتا۔ مخصوص حالات میں کوئی بھی فرد اور اس کی شخصیت اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور وہ حالات کی شدت کو کم یا زیادہ کرنے میں اپنا کردار ضرور ادا کرتی ہے۔ خاص طور پر تاریخ کے اہم ترین موڑ پر فرد کا کردار فیصلہ کن اہمیت کا حامل بھی ہوتاہے۔ یہی کچھ برنی سینڈرز اور ٹرمپ کی شخصیات میں بھی نظر آیا۔ برنی سینڈرز امریکی ریاست کے دباؤ کا مقابلہ نہیں کر سکا اور اپنے مخالفین کے حق میں دستبردار ہو گیا جبکہ ٹرمپ ڈھٹائی کے ساتھ تمام تر دباؤ کے باوجود اپنے مؤقف پر قائم رہا اور انتخابات میں کامیاب ہوا۔ اسی طرح انتخابات میں کامیابی کے بعد اس تمام تر عمل کی شدت کو تیز کرنے کا باعث بھی بنا اور امریکی حکمران طبقے کو عوام کے سامنے ننگا کرنے میں بھی اس کی شخصیت نے کافی تیز ترین انداز میں اثرات مرتب کیے۔ لیکن ٹرمپ کی جگہ کوئی بھی اور صدر ہوتا تو وہ اس بحران کی شدت کو کم نہیں کر سکتا تھا گوکہ تمام تر تضادات کو اس طرح ایکسپوز کرنے میں خواہ کچھ تاخیر ہو جاتی۔ اسی طرح کوئی بھی شخص بطور صدر کورونا وبا کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر قابو نہیں پا سکتا تھا اور نہ ہی عالمی معاشی بحران کو آنے سے روک سکتا تھا۔

بائیڈن اور عہد رفتہ

Biden Image Gage Skidmore

نظام کا بحران بائیڈن کو جلد انتہائی پالیسیاں اپنانے پر مجبور کرے گا جس کے نتیجے میں نہ صرف امریکہ بلکہ عالمی سطح پر تضادات میں مزید شدت آئیگی اور بالخصوص امریکہ میں عوامی نفرت کا لاوا پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ پھٹے گا۔

یہی وہ نکتہ ہے جو ہمیں بائیڈن سے جڑی امیدوں پر پانی پھیرتا دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایسی ہی سطحی تبدیلیاں آتی ہیں تو کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہو گا اور نہ ہی بحران میں کمی واقعہ ہوگی۔ یہ بحران اس نظام کے زوال کا بحران ہے اور جب تک یہ بوسیدہ، فرسودہ اور عوام دشمن نظام موجود ہے یہ اسی طرح بحران زدہ رہے گا اور اس پر قائم ریاستیں، نام نہادجمہوری ادارے، معیشتیں اور سماج ہیجان اور افرا تفری کا شکار رہیں گے۔ بائیڈن سے توقعات وابستہ کرنے والوں کا یہ خیال ہے کہ 78 سال کی عمر میں صدر بننے والا یہ شخص امریکی ریاست کے اسر ار و رموز سے پوری طرح واقف ہے۔ آٹھ سال اوباما کے ساتھ بطور نائب صدر رہنے کے علاوہ اس سے پہلے کئی دہائیوں سے وہ امریکی پارلیمنٹ کا حصہ ہے اور ریاستی امور میں اس کا وسیع ترین تجربہ ہے۔ اس کے بر عکس ٹرمپ پوری زندگی کبھی بھی کسی ریاستی عہدے پر فائز نہیں رہا اور صدر بننے سے قبل اس کومحلے سے لے کر ریاست یا ملکی سطح پر کبھی بھی حکومت میں شامل ہونے کا تجربہ نہیں تھا۔ اسی طرح بائیڈن کے حمایتی یہ بھی سمجھتے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی باہمی لڑائیوں، چپقلشوں اور تضادات سے بھی بخوبی واقف ہے اور انہیں سر عام بیان نہیں کرے گا اور نہ ہی اپنے بیانات اور تقریروں میں ان خیالات کا اظہار کرے گا جو اکثر بند کمروں یا نجی محفلوں میں کیے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے امریکی حکمران طبقے کے جرائم کو قالین کے نیچے چھپانے کا فریضہ بخوبی سر انجام دیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح بائیڈن کے ذریعے عالمی سطح پر موجود ان معاہدوں اور اداروں کو دوبارہ فعال بنایاجا سکتا ہے جنہیں ٹرمپ نے ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔لیکن یہ تمام توقعات وابستہ کرتے وقت یہ بھلا دیا جاتا ہے کہ پوری دنیا جس عہد میں داخل ہوچکی ہے وہ تیزی ترین تبدیلیوں، بحرانوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے بد ترین زوال کا عہد ہے۔

بائیڈن کے پاس بطور صدر موجودہ معاشی بحران کو حل کرنے کا کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے۔ 2008ء کے بحران سے نکلنے کے لیے جن طریقوں کو استعمال کیا گیا تھا وہ اب اپنی افادیت کھو چکے ہیں۔ سب سے پہلا طریقہ جو اوباما کے دور میں استعمال کیا گیا وہ بڑے پیمانے پر سرمایہ داروں کو بیل آؤٹ پیکج دینے اور کرنسی نوٹ چھاپنے کے ایک دیو ہیکل عمل کا طریقہ تھا۔ ایک بیل آؤٹ ٹرمپ پہلے ہی دے چکا ہے اور دوسرا بائیڈن کے آنے کے بعد متوقع طور پر دے دیا جائے گا لیکن اس کے باوجود بہت سے بینکوں اور کمپنیوں کو دیوالیہ ہونے سے نہیں بچایا جا سکے گا۔ اسی طرح نوٹ چھاپنے کا تقریباًایک دہائی کے عرصے پر محیط عمل پہلے ہی انتہاؤں تک پہنچ چکا ہے اور امریکی معیشت کا قرضہ جی ڈی پی کے سو فیصد کے قریب پہنچ گیا ہے۔ اسی طرح افراط زر کا ٹائم بم بھی پھٹنے کے قریب پہنچتا جا رہا ہے۔ ایسے میں بڑے پیمانے پر مزید نوٹ چھاپنے کا عمل معیشت کے لیے جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔ دوسرا طریقہ شرح سود میں کمی کرنے کا تھا جو اب صفر تک پہنچ چکی ہے۔ اس کا مقصد سرمایہ داروں کو سستے قرضے فراہم کرنا تھا تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرتے ہوئے معیشت کو بحران سے نکالیں، گو کہ سرمایہ داروں نے یہ قرضے لے کر اسٹاک ایکسچینج میں جوا کھیلنے کو زیادہ ترجیح دی۔ اس شرح سود میں اگر مزید کمی کرتے ہوئے منفی ہندسوں میں لے جایا بھی جاتا ہے تو بھی سرمایہ دار پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری نہیں کریں گے کیونکہ زائد پیداواری صلاحیت کے بحران میں انہیں پیسہ کاروبار میں لگانے کی صورت میں زیادہ بڑے نقصان کا اندیشہ ہے۔ اس حوالے سے بائیڈن جو بھی اقدامات اٹھائے گا وہ بحران میں کمی نہیں لا سکیں گے۔ دوسری جانب حکومت کی جانب سے کورونا کے دنوں میں اعلان کردہ خصوصی پیکج بھی جلد یا بدیر ختم کرنے پڑیں گے۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ان مراعات کو جاری رکھنا ممکن نہیں ہوگا اور حکومتی اخراجات میں کٹوتی کی تلوار عوام پر ہی گرے گی۔ اس میں ہر شخص کو بارہ سو ڈالر ماہانہ کی ادائیگی بھی شامل ہے جبکہ مکانوں کے قرضوں کی قسطوں کووقتی طورپر مؤخر کرنے کی اجازت بھی دی گئی ہے۔ جیسے ہی عوام کے لیے یہ پیکج ختم ہوں گے بیروزگاری اور مکانوں سے بیدخلی کا ایک طوفان آئے گا جس میں کروڑوں لوگ متاثر ہوں گے اور عوامی تحریکوں کے ایک نئے سلسلے کا آغاز ہوگا۔

اس سارے عمل میں امریکی ریاست کے داخلی تضادات بھی ختم نہیں ہوں گے بلکہ ان میں مزید شدت آئے گی۔ ٹرمپ پہلے ہی اس حوالے سے اپنی تیاری کر رہا ہے اور ریپبلکن پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے تاکہ اقتدار سے باہر رہ کر بھی اپنے مخالف ریاستی اداروں پر حملے جاری رکھ سکے۔ اس دوران امریکی پارلیمنٹ، عدلیہ اور دفاعی و خفیہ اداروں کی لڑائی میں شدت آتی رہے گی جو بائیڈن کی تمام تر خواہشات کے برعکس اس کو انتہائی اقدامات پر مجبور کر سکتی ہے۔

جو امیدیں بائیڈن سے وابستہ کی جا رہی ہیں ان کا ٹوٹنا سب سے زیادہ ہیجان پیدا کرے گا۔ عوام کے مختلف حصوں میں جو جھوٹی امید جگائی گئی ہے وہ جلد ہی چکنا چور ہوں گی اور دونوں حکمران جماعتوں سے نفرت انتہاؤں کو چھوتی نظر آئے گی جس میں ایک نئی سوشلسٹ پارٹی بننے کے امکانات مزید واضح ہوں گے۔ لیکن سرمایہ دار طبقے کی امیدوں کو سب سے بڑا دھچکا لگے گا۔ خود بائیڈن کے لیے بہت کچھ حیران کن ہوگا جو عمر کا طویل حصہ ایک ایسے عہد میں گزار چکا ہے اور اسی میں حکمرانی کی تربیت حاصل کر چکا ہے جب نسبتاً استحکام اور پائیداری موجود تھی اور امریکی سامراج اور اس کی بنیاد پر موجود سرمایہ دارانہ نظام نسبتاً طاقتور حالت میں تھے۔ ایک نئے عہد کے تضادات کو سمجھنا اور ان سے نپٹنا ایک ایسے شخص کے لیے انتہائی مشکل ہے جس کے تمام تر مشیر اور وزیر اسے یہ سمجھا رہے ہوں کہ اب ہر شے واپس اپنے مقام پر آتی جائے گی اور دنیا پہلے کی طرح ہی رواں دواں ہو گی۔ یہی حالت دیگر معیشت دانوں، سیاستدانوں اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت کے لیے ہوگی۔ یہ تمام لوگ ٹرمپ کی کامیابی پر بھی حیران رہ گئے تھے اور گزشتہ چار سال ٹرمپ کے ہر اقدام پر دانتوں کے نیچے انگلیا ں دبا کر حیرانی سے ان واقعات کو رونما ہوتے دیکھتے رہے۔ آنے والے عرصے میں نظام کا شدید ترین بحران اور زوال ان کے کے لیے نئی حیرانگیاں پیدا کرے گا۔

کچھ سنجیدہ تجزیہ نگار، یونیورسٹیوں کے پروفیسر اور کالم نگار اس بحران کی گہرائی اور وسعت سے کافی حد تک آگاہ ہیں لیکن اس کے باوجود ان میں یہ خواہش شدت کے ساتھ موجود ہے کہ پرانا عہد کسی طرح واپس آجائے اور سب کچھ پہلے کی طرح رواں دواں ہو جائے۔ ان کی سطحی دانش اور نظریات بھی انہیں اس تضادات سے بھرپور عہدکا مکمل ادراک نہیں دے سکیں گے اور وہ ایک انتہا سے دوسری کی جانب ٹھوکریں کھاتے رہیں گے اور بحران مزید گہرا ہوگا۔ اس کے علاوہ پرانے عہد کی جانب واپسی کی کوشش کے لیے بائیڈن جیسے انتہائی سطحی ذہانت اور غلیظ ترین کردار کے حامل شخص سے امید لگانا تو بہت ہی بڑی بیوقوفی ہے۔ ٹرمپ کیخلاف انتخابی مہم میں اس کا کردار اور اس کی سیاسی بصیرت واضح ہو چکی ہے جس میں وہ گالم گلوچ کے علاوہ کوئی سنجیدہ متبادل پیش نہیں کر سکا۔ اسی طرح اس پر خواتین کی توہین اور ہراسگی کے بھی بے شمار الزامات ہیں جو اس شخص کی غلیظ ذہنیت اور کردار کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایسے میں امریکی ریاست اور سیاست میں کسی بھی قسم کا استحکام اور پائیداری دور تک نظر نہیں آتی اور زیادہ مسخرہ پن اور بھونڈی حرکتیں ہی نظر آئیں گی۔ اس دوران صورتحال میں ڈرامائی تبدیلیاں آنا اور مختصر وقت کے لیے صورتحال پر حکمرانوں کا کنٹرول دکھائی دینا ممکن ہے لیکن یہ دورانیہ زیادہ طوالت اختیار نہیں کرے گا۔

امریکی سامراج

Decline of American Imperialism and Rise of A New World Order |

گوکہ ساٹھ کی دہائی میں ویت نام کی جنگ میں امریکہ کو انتہائی ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس وقت امریکہ کے اندر بھی عوامی تحریکیں پوری شدت کے ساتھ موجود تھیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی نسبتاً بہتر صورتحال کے باعث دنیا بھر میں امریکہ کے سامراجی کردار میں کمی نہیں آئی تھی۔ لیکن آج صورتحال بالکل مختلف ہو چکی ہے اور موجودہ عہد امریکی سامراج کے زوال کا بھی عہد ہے۔

سب سے اہم سوال عالمی سطح پر امریکی سامراج کے کردار کو پرانی سطح پر بحال کرنا ہے جس کا کوئی بھی امکان دور دور تک نظر نہیں آتا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد بننے والے ورلڈ آرڈر میں امریکی سامراج کا کردار مرکزی حیثیت میں ابھر کر سامنے آیا تھا۔ اس دوران یورپی ممالک بالخصوص برطانیہ اور فرانس کا کردار بتدریج کم ہوتا چلا گیا اور امریکی سامراج ہی پوری دنیا میں عوام دشمن سرمایہ دارانہ نظام کا مرکزی رکھوالا بن کر سامنے آیا۔ نوے کی دہائی میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد منڈی کی معیشت کے لیے رستے مزید ہموار ہو گئے اور امریکی سامراج کرۂ ارض کی اکلوتی سپر پاور بن کر ابھرا۔ اس تمام عرصے کے دوران عالمی سطح کے اداروں میں بھی امریکی سامراج کا کردار فیصلہ کن اہمیت کا حامل تھا۔ ان میں اقوام متحدہ سے لے کر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی مالیاتی ادارے شامل ہیں جو اسی نظام اور سامراجی اصولوں کے تحت پوری دنیا میں اپنی پالیسیاں مسلط کرتے رہے۔ ترقی یافتہ یورپی ممالک بھی اسی ورلڈ آرڈر کا حصہ تھے اور انہی اداروں اور ڈھانچوں کے تحت ہی اپنا کردار بھی نبھاتے رہے جن کی سربراہی امریکہ کر رہا تھا۔ لیکن گزشتہ عرصے میں امریکہ کا یہ کردار مسلسل محدود ہوتا چلا جا رہا ہے خاص طور پر عراق اور افغانستان میں امریکی سامراج کی ذلت آمیز شکستوں نے اس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ گوکہ ساٹھ کی دہائی میں ویت نام کی جنگ میں امریکہ کو انتہائی ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس وقت امریکہ کے اندر بھی عوامی تحریکیں پوری شدت کے ساتھ موجود تھیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی نسبتاً بہتر صورتحال کے باعث دنیا بھر میں امریکہ کے سامراجی کردار میں کمی نہیں آئی تھی۔ لیکن آج صورتحال بالکل مختلف ہو چکی ہے اور موجودہ عہد امریکی سامراج کے زوال کا بھی عہد ہے۔

United Nations - Wikipedia

بہت سے سنجیدہ ماہرین اور جریدے اقوام متحدہ جیسے ادارے کی تاریخی متروکیت کا بھی اعلان کر چکے ہیں۔

ٹرمپ نے اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا ہے اور عالمی سطح پر موجود مختلف معاہدوں اور اداروں کی متروکیت کو کھل کر بیان کیا ہے۔ عالمی سطح پر موجود اسٹیبلشمنٹ کے افراد کے لیے یہ ناقابل قبول تھا اور وہ اب دوبارہ ان اداروں اور معاہدوں کو فعال بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ گوکہ بہت سے سنجیدہ ماہرین اور جریدے اقوام متحدہ جیسے ادارے کی تاریخی متروکیت کا بھی اعلان کر چکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ اس ادارے کی بڑے پیمانے پر اصلاح کرنے اور از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن موجودہ ڈھانچوں میں رہتے ہوئے یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا اور نہ ہی اس میں کسی بہتری کی کوئی گنجائش موجود ہے۔ ٹرمپ نے تو اس ادارے کے فنڈز میں بھی کٹوتی کی تھی اور ایک وقت میں اس ادارے کے سربراہ کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ اس کے پاس ملازمین کی تنخواہوں کے پیسے ختم ہو رہے ہیں۔ اسی طرح ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ناکامی کورونا وبا میں کھل کر سامنے آ گئی اور پوری دنیا میں اس کا خصی پن عیاں ہوگیا جب وہ وبا پر قابو پانے میں ناکام ہوا۔ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور دیگر ایسے اداروں کی حالت بھی زیادہ مختلف نہیں اور ٹرمپ کا ان کی طرف رویہ بھی تحقیر آمیز ہی تھا۔

News: US proposes tariffs on $11B of EU Imports - Hanhaa

امریکہ اور یورپ کے درمیان جاری تجارتی جنگ کو آنے والے عرصے میں ختم کرنا ممکن نہیں جو بہت سے سیاسی اثرات بھی مرتب کر رہی ہے۔

اسی طرح یورپی یونین کی جانب بھی ٹرمپ کا رویہ توہین آمیز ہی تھا اور مختلف یورپی ممالک سے وہ تجارتی جنگ کا آغاز کر چکاہے۔ آنے والے عرصے میں اس تجارتی جنگ کو ختم کرنا ممکن نہیں جو بہت سے سیاسی اثرات بھی مرتب کر رہی ہے۔ یورپی یونین خود بد ترین بحران سے گزر رہی ہے اور یورپ کا ایک کے بعد دوسرا اہم ملک مالیاتی دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ رہا ہے۔ اٹلی جیسی بڑی معیشت کے دیوالیہ ہونے کے امکانات پر تو سنجیدہ بحث بھی جاری ہے جبکہ اسپین، پرتگال سمیت بہت سے ممالک اسی قسم کی صورتحال سے دوچار ہیں۔ برطانیہ کی معیشت، سیاست اور سماج تو تاریخ کے بد ترین بحران کا شکار ہو چکے ہیں۔ بینک آف انگلینڈ کے گورنر کے مطابق موجودہ بحران گزشتہ تین سو سال کا بد ترین بحران ہے۔ بریگزٹ کے ذریعے مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید بگڑ گیا ہے اور معیشت اس سال منفی آٹھ فیصد سے زیادہ کی شرح سے گر چکی ہے۔ لاکھوں لوگ بیروزگار ہوئے ہیں اور چھوٹے کاروبار دیوالیہ ہونے کی رفتار انتہا تک پہنچ چکی ہے۔ برطانیہ کی سیاست بھی ہیجان انگیز ہو چکی ہے اور ٹوری پارٹی اور لیبر پارٹی دونوں داخلی خانہ جنگی کا شکار ہوکر بد ترین ٹوٹ پھوٹ سے گزر رہی ہیں۔ اس دوران آئرلینڈ اور سکاٹ لینڈ کا قومی مسئلہ بھی پوری شدت کے ساتھ دوبارہ ابھر رہا ہے جو برطانوی ریاست کی ٹوٹ پھوٹ کی جانب بڑھ سکتا ہے۔ ایسے میں برطانیہ یا کسی بھی دوسرے یورپی ملک کے امریکہ سے تعلقات پرانی سطح پر بحال کرنا ناممکن ہے اور تجارتی جنگ کا خاتمہ بھی ممکن نہیں۔ اسی طرح نیٹو اور دیگر دفاعی معاہدوں کا پرانی سطح پر واپس آنا کسی طوربھی ممکن نہیں گو کہ اس حوالے سے کوششیں ضرور کی جا رہی ہیں۔
اس سال امریکہ میں ابھرنے والی سیاہ فاموں کی تحریک نے یورپ پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے اور یہ تحریک پوری شدت کے ساتھ یورپ میں بھی پھیل گئی۔ برطانیہ، فرانس، ہالینڈ، سویڈن سمیت بہت سے ممالک میں اسی طرز پر عوامی مظاہرے ہوئے جبکہ حکمرانوں کی کٹوتیوں کیخلاف بھی تحریکیں ابھر رہی ہیں۔ ایسے میں عوام کی جانب سے پرانی سیاست اور ریاستی جبر کو چیلنج کیا جا رہا ہے جبکہ حکمران دہشت گردی، مذہبی منافرت اور دیگر تعصبات کو مسلط کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں تاکہ محنت کش طبقے کو تقسیم کیا جا سکے۔ اس حوالے سے انتہائی دائیں بازو کی قوتیں تارکین وطن محنت کشوں کیخلاف بھی سرگرم ہیں اور سماج میں دائیں اور بائیں جانب پولرائزیشن بڑھ رہی ہے۔ اس تمام تر صورتحال کو کسی بھی طور پر واپس پہلے والی سطح پر نہیں لے جایا جاسکتا، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب معیشت کا بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے۔

US, China putting trade war on hold after progress in talks | CGTN America

چین کے سامراجی کردارمیں گزشتہ عرصے میں آنے والا ابھار اور امریکی سامراج سے اس کے ٹکراؤ کی ایک اہم وجہ امریکی سامراج کی کمزوری اور بڑھتی محدودیت بھی تھی۔ اس کی بنیاد میں امریکی معیشت کا بحران ہی کلیدی وجہ تھی جس کے باعث ٹرمپ نے چین کے ساتھ تجارتی جنگ کا آغاز کیا۔ اب اس جنگ کو مکمل طور پر ختم کرنا ممکن نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کو پوری شدت سے کسی منطقی انجام تک لے جایا جا سکتا ہے۔ ٹرمپ کے دور میں بھی مسلسل ہچکچاہٹ، دھمکیاں اور عملی اقدامات کا ملغوبہ دکھائی دیا اور آنے والے عرصے میں بھی یہی کچھ نظر آئے گا۔ جہاں امریکہ اور چین کے سامراجی تضادات موجود ہیں اور معیشتوں کا ٹکراؤ ہے وہاں پر دونوں معیشتیں ایک دوسرے پر انحصار بھی کرتی ہیں۔ دونوں معیشتوں کی بنیاد عالمی سرمایہ دارانہ نظام ہی ہے اور ایک معیشت کی کمزوری اور لاغرپن دوسرے پر ناگزیر طور پر اثر انداز بھی ہوتا ہے۔ چین کا تمام تر مالیاتی نظام امریکی معیشت کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور امریکی سرمایہ داروں کی چین میں بہت بڑی سرمایہ کاری موجود ہے۔ اسی طرح چین میں موجود صنعتیں اور منڈی امریکہ سمیت دنیا بھر کے سرمایہ داروں کے لیے اہمیت کی حامل ہیں جنہیں کسی بھی طور رد نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی فوری طور پر ان کا متبادل پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے جہاں یہ کشیدگی برقرار رہے گی اور سٹریٹجک سطح پر اس کا بار بار اظہار بھی نظر آئے گا وہاں نئے تجارتی معاہدوں کے لیے کوششیں بھی نظر آئیں گی۔

Trump to join Modi in Houston to address 50K Indian-Americans, says White  House | Trump to join Modi in Houston to address 50K Indian-Americans, says  White Houseاس حوالے سے امریکہ کے انڈیا سے تعلقات جنوبی ایشیا کے خطے کے حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں۔ ٹرمپ کے چین کیخلاف جارحانہ اقدامات میں انڈیا کو خطے میں خصوصی اہمیت اور کردار ملتا چلا گیا اور مودی اور ٹرمپ ایک دوسرے کے قریب آتے چلے گئے۔ اس دوران مودی نے ٹرمپ کی آشیر باد سے کشمیر پر ہندوستانی ریاست کا قبضہ بھی فیصلہ کن انداز میں قائم کیا اور چین کے ساتھ سرحدی تناؤ بھی نئی انتہاؤں کو چھونے لگا۔ ٹرمپ کے جانے کے بعد انڈیا کا خطے میں کردار کسی طور پر بھی کم نہیں ہوگا گو کہ شدید معاشی بحران کے باعث مودی کی حالات پر گرفت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ اس دوران امریکہ اور انڈیا کے مابین ہونے والے دفاعی معاہدوں پر عملدرآمد بھی جاری رہے گا اور چین کو پورے جنوبی ایشیا میں محدود کرنے کی پالیسی میں بھی کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں۔ چین بنگلہ دیش، نیپال، برما اور مالدیپ میں دیو ہیکل منصوبے شروع کر چکا ہے اور اپنے اثر و رسوخ میں کئی گنا اضافہ کر چکا ہے جسے اب امریکہ اور انڈیا مل کر کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سری لنکا میں ایک اہم بندرگاہ چین کے کنٹرول میں ہے اور بحر ہند میں چین اپنے پر پھیلا رہا ہے جو امریکہ اور انڈیا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ لیکن اس صورتحال میں ڈرامائی تبدیلیوں کا آنا بھی پوری طرح ممکن ہے اور نئے اتحاد بن اور ٹوٹ سکتے ہیں۔ ابھی امریکہ اور انڈیا، جاپان اور آسٹریلیا کی مدد سے Quad نامی ایک نیا ادارہ تشکیل دے رہے ہیں تاکہ چین کے اثر ورسوخ کو روکا جا سکے لیکن اس کی پیش رفت میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔

سب سے بڑی تبدیلی پاکستان کے کردار میں آئی ہے اور یہ چین اور امریکہ کے درمیان مسلسل لڑکھڑا رہا ہے۔ ماضی میں اس خطے کے زیادہ تر ممالک امریکہ مخالف کیمپ میں تھے جن میں انڈیا اور چین دونوں ہی شامل تھے۔ اس وقت پاکستان، امریکہ کے لیے خطے میں کلیدی اہمیت کا حامل تھا اور پاکستان کے حکمران طبقے نے امریکی سامراج کی کاسہ لیسی میں بھی کوئی کمی نہیں آنے دی۔ افغانستان میں امریکی سامراج کی ہر پالیسی کی اطاعت کرتے ہوئے پورے ملک کو سماجی اور معاشی تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا۔ اس دوران چین کے ساتھ تعلقات بھی آغاز میں ا مریکی آشیر باد سے استوار ہوتے گئے اور اسی کے زیر سرپرستی پروان بھی چڑھے۔ لیکن اب ٹرمپ کی جارحانہ پالیسیوں کے باعث پاکستانی ریاست کشمکش میں مبتلا ہے۔ دوسری جانب چین بھی اس ملک کو مکمل طور پر اپنے دائرہ اثر میں لانا چاہتا ہے اور دنیا کے دیگر ممالک کے لیے اسے اپنے سامراجی عزائم کی ایک مثال بناکر پیش کرنا چاہتا ہے۔ لیکن چین کا اپنا معاشی بحران اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور وہ ابھی تک مالیاتی، دفاعی یا کسی بھی دوسرے شعبے میں امریکی سامراج کا متبادل بننے کی صلاحیت حاصل نہیں کر سکا۔ اس لیے پاکستان کے لیے چین کے کیمپ میں فیصلہ کن انداز میں جانا ممکن نہیں۔ ایران کے لیے یہ فیصلہ کرنا زیادہ آسان تھا کیونکہ وہ پہلے ہی کئی دہائیوں سے ہر قسم کی ناکہ بندی اور پابندیوں کا شکار ہے لیکن پاکستان کسی بھی صورت ایسا نہیں کر سکتا۔ ایسے میں اس خطے میں انڈیا کے مقابلے میں ثانوی کردار تفویض کیے جانا پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرے گا اورحکمرانوں کے لیے اسے قبول کرنا مشکل ہوگا۔ خاص طور پر جنگ کے لیے تیار کیے جانے والے ملک کو تجارتی گزرگاہ کا کردار سونپنا بہت بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے اور یہ اتنا سادہ عمل نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ خطے کی تبدیل ہوتی صورتحال اہم سماجی، معاشی اور جغرافیائی تبدیلیوں کو جنم دے رہی ہے۔ مودی کشمیر کے حوالے سے پہلے ہی بڑے سامراجی فیصلے کر چکا ہے جبکہ خود انڈیا کے اندر شہریت کے نئے قوانین مسلط کر رہا ہے جس کے اثرات انڈیا کے علاوہ پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔ چین اور انڈیا کی مخاصمت اور پھر دونوں کا ایک دوسرے پر انحصار بھی اہمیت کا حامل ہے جس میں دونوں کی باہمی تجارت سو ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ رہی ہے۔ ایسے میں چین کے لیے بھی پاکستان سے زیادہ اہمیت انڈیا کی ہی ہے اور خطے میں تجارت کے لیے نئے راستے کھولنے کی کوششیں کرنا اس کی بھی مجبوری ہے۔ اس صورتحال میں پورا خطہ تاریخ ساز تبدیلیوں کی جانب بڑھ رہا ہے جن کا حجم اور وسعت بیسویں صدی کے دوران اس خطے میں ہونے والے کسی بھی واقعے سے زیادہ ہوگی۔ پہلے ہی کورونا وبا کے دوران انڈیا کے اندر شہروں سے دیہاتوں کی جانب ہونے والی کروڑوں افراد کی ہجرت تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت قرار دی جا چکی ہے۔ لیکن ابھی اس عمل کے ابتدائی مراحل ہیں آنے والے عرصے میں پورا جنوبی ایشیا دیو ہیکل تبدیلیوں سے گزرے گا اور بائیڈن، چینی صدر شی جن پنگ یا کوئی بھی مقامی حکمران اس تمام عمل کو واپس ماضی کے استحکام اور پائیداری کی جانب نہیں لے جا سکے گا۔ صرف معاشی بحران کو ہی دیکھ لیں تو اس سال کی تیسری سہ ماہی میں انڈیا کی معیشت میں تقریباً 24 فیصد تک گراوٹ آئی ہے جبکہ بیروزگاری کورونا سے پہلے ہی چار دہائیوں کی سب سے بڑی حد عبور کر چکی تھی۔ ایسے میں یہ نیا بحران کیا گل کھلائے گا یہ وقت ہی بتائے گا لیکن یہ طے ہے کہ یہ پورا خطہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے جس آرڈر کے تحت چل رہا تھا اب ویسے نہیں چل سکتا اور اس میں اہم تبدیلیاں رونما ہوں گی۔

مشرق وسطیٰ میں ہونے والی تبدیلیاں بھی اہمیت کی حامل ہوں گی جہاں ٹرمپ کے زیر صدارت سعودی عرب اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ نئی انتہاؤں کو پہنچ گیا تھا۔ متحدہ عرب امارات نے تو اسرائیل کو باقاعدہ طور پر تسلیم بھی کر لیا اور تجارت کا آغاز بھی ہو گیا جبکہ بحرین اور اومان کی جانب سے اس اقدام کوخوش آئند کہا گیا ہے۔ سعودی عرب کے حوالے سے بھی ایسے امکانات کا اظہار ہو رہا تھا لیکن ابھی تک اس پر فیصلہ نہیں کیا گیا۔ اسی طرح ٹرمپ نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ذاتی تعلقات استوار کر لیے تھے اور اس میں بہت بڑی رشوت ذاتی طور پر حاصل کرنے کی خبریں بھی گرم ہیں۔ بائیڈن کے آنے سے یہ ذاتی گٹھ جوڑ ٹوٹ سکتا ہے اور سعودی شاہی خاندان کی داخلی لڑائی بھی شدت اختیار کر سکتی ہے۔ تیل کی قیمتوں میں تاریخ کی بد ترین گراوٹ اور کورونا کے بعد سیاحت میں تاریخی کمی کے باعث خلیجی ریاستیں پہلے ہی شدید مالی بحران کا شکار ہیں اور ان بادشاہتوں کا اقتدار لرز رہا ہے اور ان کا تقدس پامال ہو رہا ہے۔ ایسے میں بڑے واقعات صورتحال کو یکسر تبدیل کر سکتے ہیں۔ بائیڈن کی جانب سے ایران کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے اور پرانا جوہری معاہدہ بحال کرنے کے امکانات پر بھی غور کیا جا رہا ہے جو خلیجی ریاستوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہو گی۔ اسی عمل میں خطے میں جاری سامراجی جنگیں، خانہ جنگیاں اور پراکسی وارز میں بھی شدت آئے گی اور عمومی زوال پذیری میں اضافہ ہوگا۔ ایسے میں لاکھوں کی تعداد میں تارکین وطن محنت کشوں کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے جبکہ مقامی محنت کش بھی شدید ابتری کا شکار ہیں۔ یہ سارا عمل کسی طور بھی استحکام اور پائیداری کی جانب بڑھتا دکھائی نہیں دیتا خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب عراق، ایران اور لبنان میں عوامی تحریکیں ابھر رہی ہیں اور پھیلتی جا رہی ہیں۔

Protests across the globe after George Floyd's death – BNR

آنے والے عرصے میں محنت کش طبقے کے شعور پر یہ واقعات انتہائی گہرے اثرات مرتب کریں گے اور وہ تمام خاکے جو ذہنوں میں ایک طویل عرصے کے تحت حالات اور واقعات نے ثبت کیے تھے وہ سبوتاژ ہوں گے اور ان کی کرچیاں ذہن کے ہر کونے میں چبھن اور تکلیف کا باعث بنیں گی۔

ایک جانب جہاں پوری دنیا میں موجود پرانا ورلڈآرڈر تیزی سے ٹوٹ کر بکھر رہا ہے وہاں سب سے اہم سوال محنت کش طبقے کے شعور پر ہونے والے اثرات کا ہے۔ زمین پر موجود ہونے کے ساتھ ساتھ یہ تمام تر ورلڈ آرڈر لوگوں کے ذہنوں میں بھی موجود ہے۔ گو کہ زمین پر یہ ٹوٹ پھوٹ تیزی سے جاری ہے اور حکومتیں گر رہی ہیں، ریاستیں بکھر رہی ہیں اور معیشتیں دیوالیہ ہو رہی ہیں لیکن ذہنوں میں موجود دنیا کا نقشہ زیادہ تبدیل نہیں ہو رہا۔ واقعات کی رفتار انتہائی تیز ہو چکی ہے لیکن عمومی شعور ہمیشہ کی طرح سست روی سے چلتے ہوئے ابھی واقعات سے بہت پیچھے ہے، گوکہ یہ ایک دھماکہ خیز انداز میں حالات کے ساتھ مطابقت میں آئے گا جو انقلابی تبدیلیوں کو جنم دے گا۔ حکمران طبقات کی جانب سے بھی پرانا نقشہ قائم رکھنے کی کوششوں پر ہی زور دیا جا رہا ہے گو کہ ان کے قائم کردہ ادارے زمین بوس ہو رہے ہیں۔ ذہنوں کے اندرقائم اس نقشے کا ٹوٹنا سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے اور اس کا اظہار بھی انتہائی عمل کی شکل میں نظر آتا ہے خواہ وہ کسی بھی سمت میں ہو۔ آنے والے عرصے میں محنت کش طبقے کے شعور پر یہ واقعات انتہائی گہرے اثرات مرتب کریں گے اور وہ تمام خاکے جو ذہنوں میں ایک طویل عرصے کے تحت حالات اور واقعات نے ثبت کیے تھے وہ سبوتاژ ہوں گے اور ان کی کرچیاں ذہن کے ہر کونے میں چبھن اور تکلیف کا باعث بنیں گی۔ اس نظام کی ٹوٹ پھوٹ میں صرف ریاستی اور عالمی سطح کے ادارے ہی نہیں ٹوٹ رہے بلکہ خاندان سے لے کر ہر سماجی رشتہ اور تعلق ٹوٹ کر بکھر رہا ہے گوکہ ابھی تک ان سماجی اداروں اور رشتوں کو کسی بھی طرح بچا کر رکھنے کی خواہش اور کوشش موجود ہے۔ یہ تمام عمل اتنا وسیع و عریض ہے اور اس کا حجم اتنا بڑا ہے کہ اس کے تمام اثرات کا درست اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ لیکن ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اس عمل کا آغاز ہو چکا ہے اور کوئی بھی دانشور، لیڈر، سربراہ مملکت یا معیشت دان اب اس کو روک نہیں سکتا۔

کورونا وبا کے بعد عمومی طور پر سب سے پہلا خیال یہی ابھرا تھا کہ یہ وقتی صورتحال ہے اور جلد ہی پہلے والی کیفیت واپس آ جائے گی اور زندگی پہلے کی ہی طرح رواں دواں ہوگی۔ لیکن اس وبا کے دوران جس معاشی بحران کا آغاز دنیا کے ہر ملک میں ہو چکا ہے اس کے تحت کبھی بھی پہلے والی صورتحال واپس نہیں آئے گی۔ صرف انڈیا میں چالیس کروڑ مزید افراد غربت کی لکیر سے نیچے گر گئے ہیں اور باقی ممالک میں بھی ملتی جلتی صورتحال ہے۔ اسی طرح جس سماجی بربادی کا آغاز ہوا ہے وہ بھی وبا کے بعد ختم نہیں ہو گی۔ بیروزگار ہونے والے محنت کشوں کی بہت بڑی اکثریت کے لیے روزگار اب ایک خواب بن جائے گا اور پہلے والی اجرتیں بھی بہت سی جگہوں پر واپس نہیں آ سکیں گی۔ اسی طرح خواتین کی حالت زار میں جتنی بڑی گراوٹ آئی ہے اور پوری دنیا میں ان پر مظالم میں جو اضافہ ہوا ہے اس میں سماجی بربادی کے باعث اضافے کے ہی امکانات ہیں۔ طلبہ کے لیے تعلیم کے نظام میں ہونے والی تبدیلیاں، آن لائن سسٹم، فیسوں میں اضافہ اور تاریک مستقبل بھی ایک مستقل کیفیت بنتی جائے گی اور پرانا تعلیمی انفرا اسٹرکچر کچھ عرصے بعد ڈھونڈنے سے بھی شاید نہ ملے۔ یہی تمام تر کیفیت سماج کے دیگر شعبوں کی بھی ہے۔ سینما اور تھیٹر کی بندش نے بھی نئے راستے کھولے ہیں جبکہ بہت سے نئے موضوعات بھی آرٹ اور ادب کے لیے ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ گوکہ ہر قسم کے فنون لطیفہ پر سرمایہ داری کے زوال کے اثرات موجود ہیں۔ ہر جانب بد ترین گراوٹ، تعفن اور بدبو ہی دکھائی دیتی ہے لیکن ساتھ ہی نئی عظیم تخلیقات کے حالات بھی موجود ہیں اور حقیقی فنکار اس گراوٹ میں سے امید کی کرنیں تلاش کر کے ضرور سامنے لائیں گے۔

اسی طرح سیاست میں جو تبدیلیاں ہر ملک میں آ چکی ہیں وہ بھی واپس نہیں ہو سکتیں اور ماضی کی سیاسی پارٹیوں کو پہلے کی طرح مسلط کرنے اور پرانے سیاسی توازن کو واپس لانے کی کوششیں بھی بری طرح ناکام ہوں گی۔ عمومی طور پر شعور ان حالات کو قبول کرنے سے انکار کرے گا اور اسے ایک وقتی بے راہ روی قرار دیتے ہوئے ”معمول“ کی جستجو جاری رکھے گا۔ لیکن آنے والے حالات و واقعات کے ہتھوڑے محنت کشوں کو اس نئے معمول کو شعوری طور پر تسلیم کرنے پر مجبور کریں گے اور سماج کی ابتر حالات کی مستقلی واضح ہو گی۔ ترقی یافتہ ممالک کے محنت کشوں کے لیے یہ عمل زیادہ تکلیف دہ ہوگا اور ان کے معیار زندگی میں گراوٹ زیادہ گہری ہو گی۔ اس کیخلاف بغاوت بھی زیادہ شدت سے نظر آئے گی۔ لیکن انقلابی کیفیات دنیا کے کسی بھی خطے میں ابھر سکتی ہیں گو کہ ان کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار دستیاب قیادت کے نظریاتی اور سیاسی کردار پر ہی ہے۔ لیکن یہ عمل چند ہفتوں یا مہینوں پر محیط نہیں ہوگا اور آنے والے کئی سالوں تک یہ عمل اتار چڑھاؤ کے ساتھ جاری وساری رہے گا۔

انسانیت کو در پیش اس اذیت سے نجات کا واحد رستہ اس سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے کا ہی ہے جو صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ آنے والے حالات اس منزل کی جانب انسانیت کو تیزی سے دھکیلیں گے اور کسی ایک بھی ملک سے ابھرنے والا انقلاب تیزی سے پوری دنیا میں پھیلنے کی جانب بڑھے گا۔ یہ نظام اپنے ہی بوجھ تلے دب رہا ہے لیکن اس کے نتیجے میں کروڑوں انسان بلک رہے ہیں، سسکیاں لے رہیں اور بہت بڑی تعداد موت کے منہ میں جا رہی ہے۔ اس لیے جتنی جلدی اس نظام سے چھٹکارا حاصل کیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔

Comments are closed.