سپین کے انتخابات: حکمرانوں کے لئے زہر کا پیالا

تحریر:|جارج مارٹن اور آرٹیورو راڈرگیز|
ترجمہ: |یاسر ارشاد|
26 جون کو ہسپانوی انتخابات پولرائزیشن اور توقعات سے بھرپور ماحول میں منعقد ہوئے۔ یہ انتخابات مہینوں پر محیط سیاسی تعطل، جس میں کوئی بھی پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی، کے بعد ہوئے۔ زیادہ تر سروے رپورٹس میں یہ پیش گوئی کی جا رہی تھی کہ ریڈیکل بائیں بازو کا اتحاد UP (Unidos Podemos ) کی کارکردگی بہتر رہے گی اور وہ دوسری بڑی پارٹی بن کر سامنے آئے گی جبکہ اسٹیبلشمنٹ نواز پارٹیوں کو ایک بڑا دھچکا لگے گا۔

To read this article in English, Click here

میریانو راخوٗے، پیپلزپارٹی کا لیڈر

میریانو راخوٗے، پیپلزپارٹی کا لیڈر

تاہم غیر متوقع نتائج سامنے آئے جن میں قدامت پرست پیپلز پارٹی( PP) نے کامیابی حاصل کی اور سینٹر لیفٹ رحجان رکھنے والی سپینش سوشلسٹ ورکرز پارٹی(PSOE) دوسرے نمبر پر رہی اور UP پر اسے معمولی برتری حاصل ہے۔ ان نتائج نے متحرک اور لڑاکا پرتوں میں کچھ مایوسی اور ابہام پیدا کر دیا ہے۔ تاہم جیسا سپائنوزا نے کہا تھا کہ ہمارا کام رونا یا ہنسنا نہیں بلکہ سمجھنا ہے۔
نتائج کچھ یوں رہے:

PP 33.03% – 137 seats (Dec 20, 2015: 28.71% and 123 seats)
PSOE 22.66% – 86 seats (22%, 90 seats)
Unidos Podemos 21.1% – 71 seats (24.49%, 71 seats)
Ciudadanos (centre populists) 13.05% – 32 seats (13.94%, 40 seats)
ERC (centre-left Catalan nationalists) 2.63% – 9 seats
CDC (right-wing Catalan nationalists) 2.01% – 8 seats
PNV (right-wing Basque nationalists) 1.22% – 5 seats
Bildu (left-wing Basque nationalists) 0.78% – 2 seats
Coalicion Canaria (Canary regionalists) 0.31% – 1 seat

Spanish Election results 2016
دسمبر کے انتخابات کی نسبت ووٹوں اور سیٹوں کی شرح میں کوئی بڑا رد وبدل نہیں ہوا۔ UP کے بارے میں جو توقع کی جارہی تھی نتائج ویسے نہیں رہے چونکہ UP کی سیٹیں تو اتنی ہی ہیں لیکن تقریباً دس لاکھ ووٹ کم ہو گیا۔ووٹ ڈالنے والوں کی شرح میں بھی 3.3 فیصد کمی آئی اور تقریباً دسمبر کے انتخابات کے مقابلے میں 12 لاکھ کم ووٹ کاسٹ ہوا۔
جمود کا شکار Unidos Podemos
Unidos Podemos closing rallyمختلف عوامل کے امتزاج کے نتیجے میں UP کی غیر تسلی بخش کارکردگی کی وضاحت ہوتی ہے۔انتخابی مہم کو انتہائی غیرپیشہ وارانہ انداز میں چلایا گیاجس کے دوران صرف چند ایک ریلیاں منعقد کی گئی اور ان کی بھی باقاعدہ تشہیر نہیں کی گئی۔ مہم کے آغاز میں جو سیاسی موقف اپنایا گیا اور جس کے ذریعے PSOE کے ووٹروں اور حمایتیوں کو جیتنے کی کوشش کی گئی وہ PSOE کے پروگرام سے کسی بھی طور پر مختلف نہیں تھا بلکہ پابلو اگلیسئز(Pablo Iglesias) کھلے عام یہ اعلان کرتا رہا کہ وہ ایک نئی سوشل ڈیموکریسی چاہتا ہے۔ انتخابات کے حوالے سے تمام بڑی پارٹیوں کے قائدین کے درمیان ہونے والے واحد ٹی وی مباحثے میں بھی پابلو PSOEکے قائد سانچیز کو اتحاد کی اپیلیں کرتا رہا۔
کئی مواقعوں پر پابلو نے UP کو ’’مادر وطن، قانون اور ضابطے‘‘ کی پارٹی قرار دیا۔ یہ درست ہے کہ مادروطن پرزور دینے کا مطلب ان لوگوں پر حملہ کرنا تھا جو اس لفظ کی مالا جپتے نہیں تھکتے لیکن اپنی تمام دولت سوئٹزرلینڈ اور پانامہ کے آف شور اکاؤنٹس میں رکھتے ہیں، اسی طرح ’’قانون اور ضابطے‘‘ کی اہمیت اجاگر کرنے کا مطلب بھی ان امیروں پر حملہ کرنا تھا جوقانون توڑتے ہیں اور محنت کشوں کی زندگیوں کو جہنم بناتے ہیں۔ لیکن اس قسم کی لفاظی بائیں بازو کے ووٹرز کو زیادہ متاثر نہیں کر سکی اور یہ ’’اعتدال پسند‘‘ ووٹروں کو جیتنے کے لئے لہجے کو نرم کرنے کی کوشش کا شعوری اظہار تھاجبکہ ضرورت اس کے بالکل الٹ یعنی ریڈیکل ہونے کی تھی۔
اس قسم کے نرم لب ولہجے نے UP کے ووٹروں کی ایک پرت(خاص کر یونائیٹڈ لیفٹ۔IU سے تعلق رکھنے والے ) کو غالباً مایوس کیا۔ سروے رپورٹس کے مطابق گزشتہ سال دسمبر کے انتخابات میں IU کو ووٹ دینے والوں میں سے ایک تہائی لوگ ایسے تھے جو اب UP کو ووٹ دینے کے بارے میں پرجوش نہیں تھے (تقریباًتین لاکھ لوگ)۔ اختتامی دنوں میں منعقد ہونے والی چند ریلیوں میں انتخابی مہم کچھ ریڈیکل ہوگئی تھی خاص کر میڈرڈ میں مہم کی اختتامی ریلی میں پابلو نے ایک شاندار بائیں بازو کے موقف سے بھرپور تقریر کی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس نے جو کچھ کہا وہ ریلی شرکاء تک ہی محدود رہا۔
کیٹالونیا میں UP کی شاخ ECP کامیاب رہی؛ لیکن نتائج توقعات کے برعکس بہت کم تھے؛ اور دسمبر میں حاصل ہونے والی فتح کو 80 ہزار ووٹوں کی کمی کے ساتھ بمشکل برقرار رکھ پائی۔ یہاں، بارسلونا کی میئر عدا کلاؤ( Ada Colau) نے کونسل کے معاملات چلانے کے لئے PSOE کے ساتھ ڈیل کی تھی، جس کی وجہ سے وہ بسوں اور زیر زمین ریلوے کے محنت کشوں کی ہڑتال میں بھی کوئی کردار ادا نہیں کرسکی اور اس کے ساتھ ریڑھی بانوں پر پولیس تشدد کا معاملہ بھی اس کے سر تھا جس کے بہت منفی اثرات پرتب ہوئے۔ دسمبر میںCUP(کیٹالان آزادی کی حمایتی سرمایہ ساری کی مخالف پارٹی) کے حمایتیوں کی ایک بڑی تعداد نے ECPکو ووٹ دیا تھا مگراس بار ایسا نہیں ہوا۔ مزید برآں، الیکشن سے چند روز پہلے ایک سکینڈل میں یہ بات سامنے آئی کہ 2014ء میں وزیر داخلہ نے ایک سینئر پولیس افسر پر نیشنلسٹ پارٹیوں کو جھوٹے ثبوتوں کے ذریعے بدنام کرنے کے لئے دباؤ ڈالا تھا۔ اس واقعہ نے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد کونیشنلسٹ پارٹیوں بالخصوص ERCکے بائیں بازو کے دھڑے کی طرف دھکیل دیا۔
دسمبر کے انتخابات کے برخلاف یہ انتخابی مہم اس جدوجہد سے مکمل طو پر کٹی ہوئی تھی جس کے باعث پوڈیموس کا جنم اور ابھار ہوا تھا(15M -کٹوتیوں اور آسٹیریٹی مخالف تحریک، انخلا مخالف تحریک)۔ پوری انتخابی مہم کے دوران بحثوں اور ویڈیو پیغامات میں ان نعروں کا ذکر تک موجود نہیں تھا۔
Unidos Podemos closing rally Madridمختصر یہ کہ انتخابی مہم کے پیغام میں کوئی انقلابی جوش و جذبہ نہیں تھا بلکہ انتخابی پروگرام کو دسمبر کے بعد تبدیل کر کے زیادہ معتدل بنا یا گیا۔ پوڈیموس کی تمام سرگرمیوں کا محور بھی انتخابی اور پارلیمانی سیاست رہی۔ پوڈیموس نے آخری بڑی ریلی جنوری 2015 میں میڈرڈ میں مارچ کی صورت میں منعقد کی تھی۔ اگرچہ آخری چند ریلیوں میں شرکاء نے سرخ اور ریپبلکن کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور موڈبھی انتہائی ریڈیکل تھا لیکن انتخابی مہم کے دوران UP کا عمومی تاثر ایسا نہیں تھا اور یہ موڈ جلسوں کے شرکا سے آگے عوام کی وسیع تر پرتوں تک نہ پھیل سکا۔
دوسرے حادثاتی عناصر کا بھی عمل دخل تھا جیسا کہ انتخابات جون کے آخری ہفتے کے اختتامی ایام میں منعقد ہوئے جب سپین کے زیادہ ترعلاقوں میں چھٹیاں ہوتی ہیں جس کے باعث لوگوں کو متحرک کرنا مشکل ہو گیا تھا خاص کر شہروں کے نوجوانوں کو جہاں UP کی حمایت سب سے زیادہ ہے۔ اسی طرح پوسٹ کے ذریعے موصول ہونے والے ووٹوں کی تعداد میں اضافے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کافی تعداد میں لوگ باہر گئے تھے اور کچھ نے شاید اسی وجہ سے ووٹ ہی نہیں ڈالا۔ واقعہ یہ ہے کہ نوجوان ووٹ کم ہوا ہے جبکہ کی بڑی عمر کے اور رجعتی حصوں کی بڑی تعداد میں شرکت نے ٹرن آؤٹ کو بڑھایا۔ مہینوں کے سیاسی تعطل نے بھی سماج کی کم متحرک اور غیر سیاسی پرتوں کوتھکا دیا تھا۔UP کی قیادت کی یہ خوش فہمی تھی کہ وہ آسانی سے ایک بڑی فتح حاصل کرلیں گے اسی لئے ان کی مہم ڈھیلی ڈھالی سی تھی اور انہوں نے اپنے غیر سرگرم حمایتیوں کو متحرک کرنے کے لئے کوئی زیادہ کوشش نہیں کی۔
ایک کمزور مہم (پوڈیموس کے سابقہ لیڈر مونیڈرو کے الفاظ میں بے ضرر مہم) چلانے کا ہی نتیجہ تھا کہ UP کے خلاف ہونے والے سیاسی پروپیگنڈے نے ووٹروں کی بڑی تعداد کو متاثر کیا۔ پوڈیموس کی قیادت وینزویلا پر اپنا موقف پیش کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھی اور یونان اور سائریزا کی حکومت کے مستقبل پر تبصرہ کرنے سے کتراتی رہی۔ میڈیا کے تابڑ توڑ حملوں کے جواب میں بس یہ کہہ دینا کافی نہیں تھا کہ دائیں بازو کی پارٹیاں وینزویلا کے مسئلے کو ابہام پھیلانے کے لئے استعمال کر رہی ہیں۔ ان کو اس بات کا اہل ہونا چاہیے تھا کہ وہ بولیویرین انقلاب کی حاصلات، ان کا دفاع اور اپوزیشن کی سازشی فطرت کی وضاحت کر سکیں۔ یونان کے حوالے سے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ پوڈیموس کی قیادت کا پروگرام بھی وہی ہے جو جنوری2015ء میں سپراس کا تھا اور جب ان سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اس پروگرام کا ناگزیر نتیجہ پھر یورپی یونین کے آگے گھٹنے ٹیکنے کی صورت میں ہی برآمد ہو گا تو وہ انتہائی کمزور دلیل دیتے ہیں کہ یونان کے مقابلے میں سپین ایک بڑا ملک ہے لہٰذا سپین کے پاس سودے بازی کی زیادہ گنجائش ہے۔
UP کے مایوس کن نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے ان نتائج کو اس پس منظرمیں دیکھنا لازمی ہے کہ گزشتہ چالیس سال میں پہلی بار PSOE کی بائیں جانب کسی پارٹی نے 50 لاکھ ووٹ لئے اور 71 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ اس سے پہلے سب سے بڑی کامیابی 1979ء میں کمیونسٹ پارٹی نے 10 فیصد ووٹ اور 21 نشستیں جیت کر حاصل کی تھی۔

PSOE مقابلے میں موجود
تمام تر صورتحال کے باوجود ظاہری طور پر دیکھا جائے تو PSOE کی کارکردگی حیران کن ہے۔ تمام تر تجزیہ نگاروں اور سروے رپورٹس کی یہ رائے تھی کہ PSOE دیگر یورپی سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں کی طرح تیزی سے زوال پذیر ہو گی۔ ایک لاکھ بیس ہزار ووٹ اور پانچ نشستوں کے نقصان کے ساتھ PSOE دوسرے نمبر پر رہی اور اپنے انتخابی مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔PSOE دیہاتوں اور چھوٹے قصبوں میں بڑی عمر کے لوگوں میں اپنی حمایت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی خاص کر اندلس میں جہاں اس نے تین صوبوں میں کامیابی حاصل کی۔ ذرائع ابلاغ میں PSOE کا یہ غلط دعویٰ کہ دسمبر کے انتخابات کے بعد بائیں بازو کی حکومت کی تشکیل کے راستے میں پوڈیموس سب سے بڑی رکاوٹ تھی، بار بار نشر کیا جاتا رہا جس نے اسے اپنی حمایت برقرار رکھنے میں مدد فراہم کی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ مجموعی طور پر اندلس میں قدامت پرست پارٹیPP نے ایک لاکھ بیس ہزار زائد ووٹ لے کر PSOE کو شکست سے دوچار کیا جس کے ووٹوں میں 80 ہزار کی کمی آئی۔PSOE کی اپنے آخری گڑھ میں شکست سے اس کے ریجنل صدر سوزانہ ڈیاز؛ جو پارٹی کے دائیں بازو کا قائد اور جنرل سیکرٹری پیڈرو سانچیز کا مخالف ہے، کی پوزیشن کو کافی نقصان پہنچے گا۔
سپین کے موجودہ سیاسی عمل کی کچھ منفرد خصوصیات ہیں۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران ایک شدید معاشی اور سماجی بحران کے باوجود 2011ء سے 2015ء تک حکمران طبقے کو PP کی صورت میں بھاری اکثریت کی حامل ایک مضبوط حکومت دستیاب تھی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسری پارٹیاں خاص کرPSOE کو فیصلہ کن امتحان کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور غم و غصے کا تمام محور PP کی حکومت کی جانب ہی رہا۔ PSOE کی حکومت کو 2010-11 میں زپاٹرو کے دور اقتدار کے دوران محض ایک سال کے لئے کٹوتیوں کی پالیسی نافذ کرنا پڑی جو یونان میں PASOK کی کیفیت سے مختلف تھی جس نے پہلے خود طویل عرصے تک کٹوتیاں مسلط کیں اور پھر قدامت پرستوں کے ساتھ مخلوط حکومت بنا لی۔
PP کی پانچ سالہ اکثریتی حکومت کے نتیجے میں شعور کی ایک ناہموار اور مشترک ترقی ہوئی۔ شہروں میں رہنے والے نوجوانوں اور محنت کشوں کا ایک بڑا حصہ 2011-14 کے دوران ہونے والی عوامی جدوجہد کی بھٹی میں تپ کر فولاد بن چکا ہے اورانتہائی لڑاکا اور ریڈیکل نتائج اخذ کرتے ہوئے کہ صرف اس سماج کی انقلابی تبدیلی کے ذریعے ہی تمام مسائل کا خاتمہ ممکن ہے، UP کے ساتھ کھڑی ہے۔ تاہم محنت کشوں کی ایک قدامت پرست پرت بھی ہے جو ابھی تک اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ بنیادی مسئلہ PP کی حکومت ہے اور موجودہ صورتحال کا ایک معتدل قسم کا حل PSOE کی صورت میں ممکن ہے ۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کے فیصلے نے بھی ان پرتوں کی قدامت پسندی کو زیادہ ابھار دیاجیسا کہ ہم پہلے ہی اس کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ اس فیصلے سے (مختصر مدت کے لئے ہی سہی)برطانیہ اور یورپ بھر میں رجعتی رحجانا ت کو تقویت ملے گی۔
ان پرتوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں UPکا اعتدال پسندی کی جانب جھکاؤ کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکا۔ بلکہ اس کے برعکس ان کوششوں نے UPکوPSOE کے ووٹروں کی نظر میں متزلزل اور نا قابل بھروسہ بنا دیا اور UPکے سرگرم حمایتیوں کے جوش وجذبے کو پست کرنے کا باعث بنا ۔ دوسری جانب PSOE کا تیز اور مکمل انہدام صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ اقتدار میں آ کر اپنے سیاسی دیوالیہ پن کو آشکار کرے گی جبکہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے اس کے انہدام کا عمل زیادہ ناہموار اور سست رو ہو گا اور UP قیادت کی محتاط نعرے بازی سے اس عمل میں تیزی نہیں لائی جا سکتی۔
کیٹا لونیا کا مسئلہ
کیٹا لونیا میں ان نتائج نے سپین میں تبدیلی اور کیٹالونیا کے حق خود ارادیت کی حمایتی حکومت کے آنے کے تناظر کو پیچھے دھکیل دیا ہے جس سے وہ رجحانات مظبوط ہوں گے جو اس بات کی وکالت کرتے ہیں کہ کیٹالونیا کو باقی سپین کی پرواہ کئے بغیر اکیلے ہی جمہوریہ کے قیام اور سماج کی ریڈیکل تبدیلی کی جدوجہد میں آگے بڑھنا چاہیے چونکہ یہ عمل باقی سپین کی نسبت کیٹا لونیا میں زیادہ تیزی سے مکمل ہو سکتا ہے۔
کیٹالونیا میں بورژوا قوم پرست پارٹی CDC کی حمایت میں واضح کمی اور بائیں بازو کی ریڈیکل قوم پرست جماعت ERC کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے، جبکہ UP کی کیٹا لونی شاخ ECPجو حق خود ارادیت کا دفاع کرتی ہے(اس صورت میں بھی کہ اگر میڈرڈ کے ساتھ کسی معاہدے کے بغیر یکطرفہ طور پر کیٹالونیا اس حق کا استعمال کرتا ہے ) اور کیٹالونیا کی خود مختاری کے حمایتی علاقوں میں مظبوط ہے، وہ ابھی تک کیٹا لونیا کی سب بڑی پارٹی ہے۔ اگر خودمختاری کے حوالے سے کوئی یکطرفہ مطالبہ بھی کیا جا تا ہے تو اس کو ایک بڑی حمایت ملے گی۔ ایک رجعتی شاونسٹ PP حکومت کی موجودگی میں خودمختاری کی جانب کوئی بھی قدم مرکزی حکومت کے ساتھ تصادم کو جنم دے گا۔ ایسی صورت حال میں ECP(پوڈیموس کی کیٹالونیا کی شاخ) کو ERCپر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ بورژوا قوم پرست پارٹیCDC کے ساتھ اپنا حکومتی اتحاد ختم کرے اور کیٹا لونیا میں حق خود ارادیت کی حامی اور کٹوتیوں کے خلاف بائیں بازو کی اکثریتی حکومت تشکیل دے۔ اس قسم کی کیفیات کا نتیجہ واضح نہیں ہے لیکن عمومی طور پر اس سے عدم استحکام اور دائیں اور بائیں کے درمیان تقسیم میں اضافہ ہوگا۔

PP کی فتح اور سٹیزن پارٹی( Ciudadanos) کا زوال
PPکی فتح، جس کی حمایت میں پانچ فیصد اضافہ ہوا اور اس نے 13 لاکھ اضافی ووٹ حاصل کئے جبکہ اس کے مقابلے میں سٹیزن پارٹی( Ciudadanos) کا زوال، جس کی 8نشستیں اور چار لاکھ ووٹ کم ہوئے اس کی آسانی سے وضاحت کی جاسکتی ہے۔ سروے رپورٹوں میں UP کے ابھار کا جو واویلا تھا اس نے قدامت پرست اور سنٹراسٹ ووٹروں کو سپین میں رجعتیوں کی سب سے آزمودہ اور مستقل طاقت PP کی جانب دھکیل دیا۔ سپین میں بائیں بازو کے ساتھ دائیں بازو کا بھی ایک ابھار ہے۔ اپنی بے انتہا بد عنوانی، جو ہر ہفتے کسی سکینڈل کی صورت میں سامنے آتی ہے، کے باوجودPP سماج کی تمام رجعتی قوتوں کو اپنے ساتھ جوڑنے میں کامیاب رہی ہے۔سٹیزن پارٹی( Cuidadanos) نے مکمل رجعتی پارٹی کے طور پر PP کی جگہ لینے کی کوشش کی لیکن وہ سماج کی قدامت پرست پرتوں کے لئے، جن کا اہم مقصد UP کے ابھار کو روکنا تھا، ابھی دائیں بازو کی زیادہ قابل اعتماد پارٹی نہیں ہے۔

آگے کیا ہوگا؟
PP اورCiudadanos کی مخلوط حکومت بننے کے غالب امکانات ہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت نئے انتخابات نہیں چاہتی(نہ ہی عوام) اس لئے مذاکراتی عمل کی تمام پیچیدگی کے باوجود ایک بورژوا حکومت بن ہی جائے گی۔ ان دونوں پارٹیوں کی سیٹوں کی مجموعی تعداد 169 ہے۔PNV اور CC کی حمایت سے ان کو حکومت کی تشکیل کے لئے معمولی اکثریت میسر آ جائے گی۔ اس حکومت کو پہلے دن سے ہی وحشیانہ کٹوتیوں کی پالیسی لاگو کرنی پڑی گی اور اسے جلد ہی عوام کی نفرت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یورپی یونین کا مطالبہ ہے کہ اس سال اور اگلے سال 8ارب یورو کی کٹوتیاں کی جائیں اور اس کے ساتھ خسارے کے حوالے سے طے شدہ ضابطے کی خلاف ورزی کا 2 ارب ڈالر جرمانہ الگ سے ادا کیا جائے۔ راخوئے نے گزشتہ سال کٹوتیوں کی پالیسی کو انتخابات کے نقطہ نظر سے کچھ نرم رکھالیکن اب عالمی معاشی زوال کے شدت اختیار کرنے کی وجہ سے اسے محنت کش طبقے پر زیادہ شدید حملے کرنا پڑیں گے اور کٹوتیوں کی پالیسی کو دوگنا طاقت کے ساتھ لاگو کرنا ہو گا۔ ہسپانوی بورژوازی جشن منا رہی ہے لیکن تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی ریڈیکلائزیشن کی وجہ سے یہ فتح مستقبل قریب میں ان کے لئے ایک زہر کا پیالہ ثابت ہو گا۔
راخوئے نے انتخابی نتائج آنے کے فوری بعد ہیPSOE سے مخلوط حکومت کی تشکیل کے لئے حمایت کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اس صورت میں ہسپانوی حکمران طبقے کو انتہائی مستحکم حکومت میسر آسکتی ہے،سٹیزن پارٹی( Ciudadanos) کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ اتحاد 254 نشستوں پر مشتمل ہو گا جبکہ اکثریتی حکومت بنانے کے لئے صرف 176 نشستیں درکار ہیں۔ PP کے نقطہ نظر سے یہ بہترین صورت ہو گی جس میں وحشیانہ کٹوتیوں کی ذمہ داری میں دیگر جماعتیں بھی شراکت دار ہو ں گی۔ تاہم یہ PSOE کے لئے موت کا پیغام ہو گاجو اتحادی حکومت میں شامل ہونے کی بجائے حکومت سے باہر رہتے ہوئے اور حکومت بنانے کے لئے ہونے والی دوسری ووٹنگ میں غیر جانبدار رہتے ہوئے PP اور سٹیزن پارٹی(Ciudadanos) کی مخلوط حکومت کی تشکیل کے عمل کو ترجیح دے گی۔ ایک بڑا اتحاد اس حوالے سے خطرناک ہو گا کہ UP حزب مخالف کی واحد پارٹی رہ جائے گی جس سے مستقبل میں اس کے اقتدار کی راہ ہموار ہو گی۔
PSOE کی قیادت میں ایک بائیں بازو کی حکومت کے امکانات انتہائی مخدوش ہیں۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہPP-Ciudadanos اتحاد کو PNV کی حمایت نہ مل سکے یا ان کے آپسی مذاکرات ناکام ہو جائیں اور PSOE کو یہ چیلنج قبول کرنا پڑ جائے۔ UP نے بائیں بازو کی حکومت کی تشکیل میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے لیکن ان کی شرائط PSOE کے لئے قابل قبول نہیں ہوں گی۔ سوشلسٹ پارٹی(PSOE) کا لیڈرسانچیز پارٹی کے علاقائی لیڈروں کے سخت کنٹرول میں ہے جو UP کے ساتھ کسی قسم کے اتحاد کے سخت مخالف ہیں اور قدامت پرستوں کی حکومت کے حمایتی ہیں۔ اگر سانچیز حکومت بنانے کی کوشش کرتا ہے تو اسےERC, CDC, PNV اورBildu کی حمایت درکار ہو گی جو بدلے میں کیٹا لونیا کی خودمختاری کا فیصلہ کرنے کے لئے ریفرنڈم کے انعقاد کا مطالبہ کریں گے جو PSOE کے لئے کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہو سکتا
راخوئے کے دوبارہ اقتدار میں آنے اور وحشیانہ کٹوتیاں لاگو کرنے کی وجہ سے دائیں اور بائیں کے درمیان تفریق میں مزید اضافہ ہوگا۔ گلیوں اور فیکٹریوں میں جدوجہد کی نئی لہریں ابھریں گی۔ اس کیفیت میں UP حزب اختلاف میں رہتے ہوئے اگر اس صورتحال کو درست طور پر استعمال کرتی ہے تو یہ تیزی کے ساتھ اقتدار قائم کرنے کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔

بائیں بازو پر اثرات
ان نتائج کے UP کے اندرونی معاملات پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ گزشتہ ماہ کے دوران یونائیٹڈ لیفٹ(Izquierda Unida) کے ساتھ اتحاد کے معاملے پر پولیٹیکل سیکریٹری انیگو ایرییان اور جنرل سیکریٹری پابلو اگلیسئیز کے درمیان تناؤ رہا ہے۔ لمبے عرصے تک پوڈیموس پر ایرییان کے ان نظریات کا غلبہ رہا ہے کہ ’’دائیں یا بائیں بازو کچھ نہیں ہوتا‘‘اور پوڈیموس کو اپنا پروگرام معتدل رکھنا چاہیے تا کہ لوگوں کو متحد کیا جا سکے۔ ایرییان نے IU کے ساتھ اتحاد کی شدید مخالفت کی لیکن اس کے دھڑے کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جب یونائیٹڈ لیفٹ( IU) کے ساتھ موسم بہار میں اتحاد تشکیل پا گیا۔ گزشتہ رات پابلو نے پریس کانفرنس کرتے ہو ئے اس ابات پر خاص زور دیا کہ اسے یونائیٹڈ لیفٹ( IU) کے ساتھ اتحاد پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے اور وہ اس اتحاد کا دفاع کرے گا۔
دوسری جانب ایرییان کے دھڑے نے پابلو کے اس موقف کے ساتھ اختلاف کرتے ہوئے یونائیٹڈ لیفٹ کے قائد مانیڈرو کے خلاف شدید حملہ کیا ہے جس نے پوڈیموس کی انتخابی مہم کو بے ضرر قرار دیتے یہ شکایت کی کہ پوڈیموس کو عوام کو متحرک کرنے کے لئے دوبارہ گلیوں میں جانے کی ضرورت ہے۔ یونائیٹڈ لیفٹ کے جو لوگ اس اتحاد کی مخالفت کر رہے تھے اس سے ان کو بھی اتحاد کے خلاف بات کرنے کا موقع اور مواد میسر آئے گا۔
مارکسسٹ پوڈیموس اور یونائیٹڈ لیفٹ( IU) کے اتحاد کا دفاع کریں گے جس کا برے انتخابی نتائج کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔در حقیقت اس مہم کے دوران یونائیٹڈ لیفٹ( IU) کا لیڈر البرٹو گارزن، پابلو سے بڑا لیڈر بن کر ابھرا ہے ۔ تقسیم در تقسیم اور فرقہ پرستی جو گزشتہ عرصے میں بائیں بازو کا وطیرہ رہا ہے اس سے ہر حال میں بچنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انتخابات کے خراب نتائج کا بہانہ بنا کر انقلابی پروگرام کو معتدل کرنے کی کوشش کی جائے یہ کہتے ہوئے کہ ہم زیادہ ریڈیکل ہیں۔ اس سےUP کے نظریاتی کارکن مایوس ہوں گے اوروہ لوگ جو UP اور PSOE کے درمیان جھول رہے ہیں ان کی ہچکچاہٹ میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس کے برعکس UP کو اپنی بنیادوں یعنی ایک جانب عوام کی طرف جانا پڑے گا اور دوسری جانب حکومت کی پالیسیوں کی شدید مخالفت کا پروگرام پیش کرنا پڑے گا۔
واقعات اور بحران کے طوفانی اثرات اور PP کی حکومت ایسے حالات پیدا کریں گے جن میں صبر کے ساتھ عوام کو اس حقیقت سے روشناس کراتے ہوئے کہ حکمرانوں کی پارٹیوں کے پاس عوام کے مسائل کا کوئی حل موجود نہیں ہے بلکہ ان مسائل کو اس سماج کی انقلابی تبدیلی کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے، UP تیزی سے آگے بڑھ سکتی ہے۔ مارکسسٹ یہ وضاحت کرتے ہیں کہ اس قسم کے پروگرام پر سرمایہ داری کے ہوتے ہوئے عملدارآمد کرنا ممکن نہیں ہے۔ سپین اور یورپ بھر کے محنت کشوں کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تمام سرمایہ داروں کی دولت کو ضبط کر کے سماج کے تمام وسائل کو سماج کی اکثریت کے جمہوری کنٹرول میں لیا جائے۔

Comments are closed.