امریکہ: ’’ارب پتی طبقے کے خلاف انقلاب کے لیے‘‘ ایک آزاد سوشلسٹ مہم کی ضرورت

|تحریر: ٹام ٹراٹئیر، ترجمہ، اختر منیر|

2020ء کے صدارتی انتخابات کا آغاز ہو چکا ہے۔ مڈٹرم انتخابات میں ڈیموکریٹس نے ایوان نمائندگان کی چالیس اضافی نشستیں جیت لیں اور ان میں سے بہت سے لوگ ریپبلکنز کو شکست کھاتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ الزبتھ وارن، ایمی کلوبچر، کمالہ ہیرس اور کوری بوکر سمیت بہت سے امیدوار اپنی مہم کا آغاز کرچکے ہیں۔ اب برنی سینڈرز ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی کے لیے دسویں باقاعدہ امیدوار کے طور پر سامنے آیا ہے۔ صرف یہی نہیں ابھی اور بھی بہت سے لوگ سامنے آئیں گے۔

اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ سینڈرز سرمایہ داروں کی دو بڑی پارٹیوں میں سے ایک یعنی ڈیموکریٹک پارٹی کا صدارتی امیدوار بننے کے لیے سرگرداں ہے۔ تقریباً ہر مرتبہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے تمام امیدوار جو نامزدگی حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں، وہ صدارتی انتخابات میں نامزد ہونے والے امیدوار کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ نظام اسی طرح چلتا ہے۔  2016ء میں سینڈرز نے بھی یہی کیا تھا۔ اس بار اس نے دوبارہ یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ 2020ء میں کروڑوں محنت کشوں کو ایک خود مختار نمائندگی دلانے کی کوشش نہیں کرے گا، اس کی بجائے اس نے ان کی امیدوں کا دھارا ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف موڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم اس حکمت عملی سے بالکل اتفاق نہیں کرتے۔

2016 ءکی مہم

پچھلے انتخابات میں برنی سینڈرز نے ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی کے لیے ہیلری کلنٹن کے خلاف کھڑے ہو کر امریکی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس نے کھرب پتی طبقے کے خلاف سیاسی انقلاب کی مہم چلائی اور ہمہ گیر حفظان صحت کی سہولیات، عوامی منصوبوں، مفت اعلیٰ تعلیم، تنخواہ کے ساتھ رخصتِ زچگی اور کم ازکم اجرت میں اضافے کی بات کی۔ اس نے جہاں جہاں بھی تقاریر کیں ایک بڑا مجمع اسے سننے آیا، صرف نیو یارک سٹی اور بوسٹن جیسے علاقوں میں ہی نہیں، بلکہ ہسٹن اور فینکس میں بھی۔ برنی نے 24 کروڑ ڈالر سے زیادہ رقم اکٹھی کی جو ہزاروں لوگوں سے چھوٹے چھوٹے عطیات کی صورت میں اکٹھی ہوئی تھی اور اس نے پرائمری اور کاکس کی سطح پر ایک کروڑ 30 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے۔

2016ء کی الیکشن مہم کے دوران برنی سینڈرز اپنے گرد بننے والی تحریک کو ڈیموکریٹک پارٹی سے علیحدہ ہوتے ہوئے اپنی آزاد سوشلسٹ پارٹی بنا سکتا تھا۔ مگر اس نے ہیلری کی حمایت کا اعلان کردیا

یہ بالکل حیرت کی بات نہیں تھی کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ نے سینڈرز کو ہرانے کے لیے اپنے غیرمنصفانہ قوانین کا استعمال کیا، جن میں نام نہاد ’’سپر ڈیلیگیٹ‘‘ بھی شامل تھے جنہوں نے ہلیری کلنٹن کی نامزدگی کو یقینی بنا دیا۔ برنی ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن میں ایک بڑی حمایت کے ساتھ گیا تھا اور وہ اسی حمایت کو استعمال کرتے ہوئے پارٹی سے علیحدہ ہو سکتا تھا، ایک ایسی پارٹی سے جس کا وہ باقاعدہ ممبر بھی نہیں ہے، اور اپنی خود مختار سوشلسٹ مہم کا آغاز کر سکتا تھا۔ اس طرح محنت کشوں کی ایک بڑی سوشلسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی جا سکتی تھی۔ سینڈرز نومبر 2016ء میں ٹرمپ اور کلنٹن دونوں کو ہرا بھی سکتا تھا۔ اس کی بجائے اس نے ’’کمتر برائی‘‘ کی سیاست کے تحت کلنٹن کی حمایت کی، ٹرمپ منتخب ہو گیا اور کوئی متبادل تعمیر نہ ہو سکا۔

محنت کشوں کو اپنی پارٹی کیوں درکار ہے؟

محنت کش طبقہ آبادی کی ایک وسیع اکثریت پر مشتمل ہے اور اگر اندرونی اور بیرونی پالیسیوں کی بات کی جائے تو اس کے طبقاتی مفادات امیر ترین افراد کے مفادات سے متصادم ہوتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی ضرورت ہے کہ محنت کش طبقہ اپنی پارٹی بنائے۔ ٹریڈ یونین رہنماؤں کی وجہ سے یہ کام تاخیر کا شکار ہوتا جا رہا ہے جو زیادہ تر ڈیموکریٹس کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ کام بائیں بازو کی طرف سے بھی تاخیر کا شکار ہوتا جا رہا ہے جو ڈیموکریٹس کی حمایت کرتے آئے ہیں اور اب بھی اپنی اس حکمت عملی کا دفاع کرتے ہیں۔

برنی سینڈرز کی 2016ء کی مہم اس ضرورت کا بگڑی ہوئی شکل میں ایک اظہار تھا جو ساتھ ہی ساتھ ایک نئی پارٹی بننے کے عمل کو روکنے کا باعث بھی بنا۔ محنت کشوں نے روایتی سے زیادہ انقلابی پالیسیوں کی وجہ سے ایک ڈیموکریٹ کے طور پر کھڑے ہونے کے باوجود اس کی حمایت کی، نہ کہ ایک ڈیموکریٹ ہونے کی وجہ سے۔ مگر اس کی ساری حکمت عملی نے اسے ناگزیر علیحدگی کی بجائے ایک بند گلی میں لا کھڑا کیا۔ وہ روایتی سرمایہ دار سیاستدانوں کے بائیں جانب کھڑا تھا مگر اس نے ایک سوشلسٹ پروگرام کے ساتھ میدان میں آ کر سرمایہ داروں کے حق حاکمیت کو نہیں للکارا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو اسے ایک ڈیموکریٹ کے طور پر کھڑے ہونے کی اجازت نہ ملتی۔ نینسی پلوسی نے کہا ہے کہ ڈیموکریٹ ’’سرمایہ داری کے حامی‘‘ ہیں اور اس کی یہ بات سو فیصد درست ہے۔ کسی دور میں برنی ڈیموکریٹس کے خلاف ہوا کرتا تھا، لیکن واشنگٹن ڈی سی کے پُرسکون ماحول میں ڈیموکریٹک رفقاء کے ساتھ کام کر کے اس کے خیالات تبدیل ہو گئے ہیں۔ یا پھر اسے محنت کش طبقہ پر اعتماد ہی نہیں ہے کہ وہ سیاسی طور پر خود بھی کھڑا ہو سکتا ہے۔

برطانیہ میں کوربن کے اسباق

امریکی اور برطانوی سیاست میں بہت فرق ہے، مگر دونوں ملکوں میں ہونے والے واقعات ایک دوسرے پر کافی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ انیسویں صدی کے آخر میں برطانیہ کی لیبر یونینز نے لبرل پارٹی، جو تقریباً ڈیموکریٹ پارٹی کے مترادف تھی، کی حمایت بند کر کے لیبر پارٹی کی بنیاد رکھی۔ لیبر پارٹی کے حجم میں اضافہ ہوا اور وہ ٹوری پارٹی کی سب سے بڑی حریف بن گئی، جبکہ لبرل ایک چھوٹی سی اقلیت میں تبدیل ہو گئے۔

برطانیہ میں اصل لڑائی بلئیرائٹس سے لیبر پارٹی کا کنٹرول واپس حاصل کرنا تھا جبکہ امریکہ میں ہمیں نئے سرے سے محنت کشوں کی ایک پارٹی تعمیر کرنا پڑے گے

لیبر پارٹی کا دایاں بازو کافی مضبوط ہے، ماضی میں جس کی قیادت ٹونی بلیئر کرتا تھا۔ بلیئر کی خواہش تھی کہ وہ لیبر پارٹی کو ڈیموکریٹک پارٹی جیسا بنا دے، مگر وہ کامیاب نہ ہو سکا۔ پھر تاریخی ضرورت کا حادثے کی شکل میں اظہار ہوا، بلیئرائٹس نے اپنے زعم میں جیرمی کوربن کو پارٹی لیڈر کے لیے کھڑا ہونے کا راستہ دیا اور اس نے لاکھوں لوگوں کے جوش کو اپنی مہم میں مرتکز کر لیا۔ یہ بات موقع پرست بلیئرائٹس کے علم میں نہیں تھی کہ بہت سے لوگ انقلابی پالیسیوں کی حامل لیبر پارٹی دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ کوربن کی قیادت میں پچھلے عام انتخابات میں لیبر پارٹی کے حجم میں اضافہ ہوا اور اس نے اضافی سیٹیں جیت لیں۔ اب لیبر پارٹی پر کنٹرول حاصل کرنے کی لڑائی جاری ہے اور دائیں بازو کے کچھ افراد ہمت ہار بھی چکے ہیں۔ اگر کوربن اقدار میں آتا ہے تو مزید لوگ نام نہاد  ’سنٹر‘ کا رخ کریں گے۔ برطانیہ میں سرمایہ داروں کے حامی دھڑے کے ہاتھوں سے لیبر پارٹی واپس چھیننے کی لڑائی تھی جو اسے تباہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک انقلابی پالیسیاں رکھنے والی پارٹی کے اقتدار میں آنے کی امید کی بدولت لیبر پارٹی کی رکنیت میں بے پناہ اضافہ ہوا اور اب وہ یورپ کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔

مگر امریکہ میں ہمیں دوسری جانب سے آغاز کرنا پڑے گا۔ ہم ’’اپنی پارٹی‘‘ واپس حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہے، بلکہ نئے سرے سے اپنی پارٹی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عوام کی بڑی تعداد محنت کشوں کی ایک ایسی پارٹی چاہتی ہے جو سرمایہ داروں کے زیر اثر نہ ہو۔ اگر برنی کھرب پتیوں کے اقتدار کے خلاف لڑنا چاہتا تو وہ اپنی مہم کے جوش و ولولے کو استعمال کرتے ہوئے کچھ نیا تعمیر کرسکتا تھا: محنت کشوں کی پارٹی، محنت کشوں کی جانب سے اور محنت کشوں کے لیے۔ اکتوبر 2018ء میں ہونے والی ایک رائے شماری میں یہ سامنے آیا کہ 72 فیصد غیرجانبدار افراد اور 54 فیصد ڈیموکریٹ ایک نئی پارٹی چاہتے ہیں۔ کیا ایک نئی پارٹی بنانے کے لیے اس سے اچھا وقت ہو سکتا تھا؟

صدارتی انتخابات میں کھڑا ہونے والا ایک آزاد سوشلسٹ امیدوار ریپبلکن اور ڈیموکریٹس دونوں کا مقابلہ کرتا اور ایک ایسا پروگرام لے کر آتا جس کے ذریعے 2 فیصد امیر ترین افراد کے ہاتھوں سے دولت چھین کر ایک جمہوری منصوبہ بند معیشت قائم کی جا سکتی ہے۔ ایسا ایک امیدوار یونینز کے کارکنان سے کہتا کہ وہ اپنی کمیٹیاں بنائیں اور اپنے رہنماؤں کو مجبور کریں کہ وہ ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز سے ناتا توڑ کر نئی پارٹی کی حمایت کریں۔ اچھی نوکریوں، زیادہ اجرتوں اور سب کے لیے یونین کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ہمہ گیر حفظان صحت کی سہولیات، تعلیم اور رہائش کے لیے کی جانے والی اس جدوجہد میں کروڑوں لوگ اپنا حصہ ڈالتے۔

برنی سینڈرز ایک مرتبہ پھر ایک اصلاح پسند پروگرام کے ساتھ ڈیموکریٹ کی حیثیت سے کھڑا ہوا ہے۔ ٹریڈ یونین رہنماؤں کا کردار بھی قابل مذمت ہے۔ ان سب وجوہات کی بنا پر محنت کشوں کی پارٹی کا قیام تاخیر کا شکار ضرور ہو گا مگر ہمیشہ کے لیے نہیں۔

2020 ءکی مہم

برنی سینڈرز سوشلسٹ پروگرام کے ساتھ کھڑا نہیں ہو رہا۔ الیزبتھ وارن جیسے ڈیموکریٹک پارٹی کے دوسرے ’’پاپولسٹ‘‘ امیدوار کچھ معاملات میں اس کے بائیں جانب کھڑے ہو کر اس کے کچھ حمایتیوں کو جیت سکتے ہیں۔ وارن نے یہ واضح کہا ہے کہ وہ سرمایہ داری کا دفاع کرتی ہے لیکن وہ محنت کشوں کے لیے حکومت کی طرف سے امیروں پر لگائے گئے ٹیکس کے پیسوں سے سستی ادویات بنانے، امیروں کے ٹیکسوں کے پیسوں سے ڈے کیئر مراکز بنانے اور 5 کروڑ ڈالر سے زائد اثاثوں کے حامل افراد پر دولت کا ٹیکس لگانے کی حمایت کرتی ہے۔ یہ مطالبات ڈیموکریٹک پارٹی کے عمومی پروگرام کے مقابلے میں تو انقلابی لگتے ہیں مگر امیروں پر ٹیکس لگانے سے نظام میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آ سکتی۔

امراء اپنے پیسے کی حفاظت کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیں گے، یا پھر ٹیکسوں کو ’’غیر آئینی‘‘ قرار دے دیا جائے گا۔ آگے بڑھنے کا سوشلسٹ راستہ یہ ہے کہ 500 بڑی کمپنیوں کو قومی تحویل میں لے کر یہ دولت پورے معاشرے کی بھلائی کے لیے استعمال کی جائے۔

بہرحال مارکس وادی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ آج کے سیاسی خلا میں بہت سے لوگ برنی سینڈرز کی مہم کا ساتھ دیں گے۔ جب برنی نے 19 فروری کو انتخابات میں کھڑے ہونے کا اعلان کیا تو پہلے 24 گھنٹے میں ہی اس نے 59 لاکھ ڈالر جمع کر لیے اور چار لاکھ لوگوں نے اس کی حمایت کا وعدہ بھی کیا۔

مارکس وادی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ آج کے سیاسی خلا میں بہت سے لوگ برنی سینڈرز کی مہم کا ساتھ دیں گے

مارکس وادی برنی سینڈرز کے حمایتیوں کے ساتھ دوستانہ بحثیں جاری رکھیں گے اور ان کے جلسوں اور ریلیوں میں بھی شرکت کریں گے۔ ہم نے ان کے ساتھ بہت سے معاملات پر بات کرنی ہے۔ مثال کے طور پر: سوشلسٹ پالیسیاں کیا ہیں اور وہ کس طرح آج محنت کشوں کو درپیش مسائل حل کر سکتی ہیں؟ ہم اس سمت میں اگلا قدم کس طرح اٹھا سکتے ہیں؟ کیا ایک سرمایہ دارانہ پارٹی کے اندر رہتے ہوئے یہ ممکن ہے؟ ہم تحمل کے ساتھ اس بات کی  بھی وضاحت کریں گے کہ اگر برنی سینڈرز ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی جیت بھی لیتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ اس نے ڈیموکریٹک پارٹی پر غلبہ پالیا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ڈیموکریٹک پارٹی نے اسے قابو کر لیا ہے۔ ہم انہیں اس فریب سے بھی آگاہ کریں گے کہ برنی کے حمایتیوں کو کسی بھی جیتنے والے ڈیموکریٹک امیدوار کی حمایت کرنے کو کہا جائے گا اور ’’کمتر برائی‘‘ کا راگ الاپتے ہوئے ٹرمپ کے علاوہ کسی بھی امیدوار کو منتخب کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔

اگر سینڈرز صدر بن بھی جاتا ہے تو اس کے معتدل پروگرام کو مزید نرم کرنے، روکنے اور تہس نہس کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ امریکی اور عالمی سرمایہ داری زوال کا شکار ہے اور اکثریت کو ایک بہتر زندگی دینے سے قاصر ہے۔ یہ بات سکینڈے نیوین ممالک پر بھی صادق آتی ہے جن کی برنی بہت تعریف کرتا ہے۔ وہ ماضی میں کی جانے والی اصلاحات واپس لے رہے ہیں، معیار زندگی گر رہا ہے اور عدم تحفظ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں تارکین وطن کے خلاف مہم سر اٹھا رہی ہے اور اسے کچھ حمایت بھی حاصل ہے۔ کچھ لوگ اس تجربے سے گزر کر سیکھیں گے، مگر کچھ 2016ء کے انتخابات کے بعد سے ہی ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ اپنا ناتا توڑ چکے ہیں۔

امریکہ سوشلسٹ بنے گا!

اپنے حالیہ سٹیٹ آف دی یونین خطاب کے دوران ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ کبھی ایک سوشلسٹ ملک نہیں بنے گا۔ یہ ان بے شمار جھوٹوں میں سے ایک جھوٹ سمجھا جانا چاہیے جو ٹرمپ روزانہ بولتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ماضی میں امریکہ میں موجود بایاں بازو اور سوشلسٹ طاقتیں نہ ہونے کے برابر سمجھے جاتے تھے۔ اب صدر کو یہ ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ سوشلزم پر کھلم کھلا حملہ کیا جائے۔ یہ سوشلسٹ خیالات کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا محض ایک پیمانہ ہے۔

شٹ ڈاؤن کے دوران ٹرمپ کو حکومت دوبارہ چالو کرنے پر مجبور ہونا پڑا کیونکہ ایئر ٹریفک کنٹرولز کی جانب سے چار اہم ہوائی اڈے بند کر دیے گئے تھے۔ اس سے محنت کش طبقے کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ٹرمپ اور سرمایہ داروں کو کام کی جگہوں اور انتخابات میں شکست دی جاسکتی ہے، مگر اس کے لیے محنت کش طبقے کو اپنی ایک پارٹی درکار ہے۔ ایسی پارٹی بنانے کے لیے بڑی عوامی طاقت کی ضرورت ہے، اور کسی موقع پر جاکر یہ ظہور پذیر ہو گی۔ ہم شاید فوری طور پر ایک عوامی پارٹی نہیں بنا سکتے، مگر ہم صبر و تحمل کے ساتھ مارکسی نظریے اور محنت کشوں کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے اس پارٹی کی مستقبل کی انقلابی قیادت تعمیر کر سکتے ہیں۔ ہم مارکس وادی برنی سینڈرز کی مہم کے اندر اور اردگرد موجود لوگوں میں جا کر اپنی قوتوں میں اضافہ کریں گے، ان کے پاس بھی جائیں گے جو ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ اپنا ناتا توڑ چکے ہیں اور ان کے پاس بھی جائیں گے جنہوں نے ابھی یہ ناتا نہیں توڑا۔ اس کے علاوہ آنے والے وقت میں ہم دیگر سیاسی مظاہر میں بھی بھرپور مداخلت کریں گے۔ ہم ٹرمپ کو غلط ثابت کر کے رہیں گے! سرمایہ داری کے بحران کا اور کوئی متبادل نہیں۔

Comments are closed.