ویکسین نیشنل ازم۔۔سرمایہ داری کی بیماری

|تحریر: جو اٹارڈ، ترجمہ: یار یوسفزئی|

کورونا وباء اپنے دوسرے سال میں داخل ہو چکی ہے، اور عالمی سرمایہ داری کے تضادات کو مزید گہرا کرتے ہوئے ان کا پردہ تسلسل کے ساتھ چاک کر رہی ہے۔ ویکسین نیشنل ازم کی جنونیت واضح طور پر اس بات کا اظہار کر رہی ہے کہ ایک ایسا نظام جس کی بنیاد نجی ملکیت اور دنیا کو مخالف قومی ریاستوں میں تقسیم کرنے پر کھڑی ہے، ایک ایسے عالم گیر خطرے سے نمٹنے کا اہل نہیں ہے جو سرحدوں، شرحِ منافع اور تنگ نظر قوم پرست مفادات کا لحاظ نہیں کرتا۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

امیر ترین ممالک اپنی آبادیوں کو سب سے پہلے ویکسین فراہم کرنے کی دوڑ میں اس کی ذخیرہ اندوزی کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ تلخ کلامی پر اتر آئے ہیں، اور اس عمل میں بے شمار زندگیاں خطرے میں ڈال کر اپنی معیشتوں پر کھربوں ڈالر کا بوجھ ڈال رہے ہیں۔ اس دوران، غریب ممالک میں وائرس کا پھیلاؤ اور تغیر جاری ہے، اور اس کی نئی اقسام سامنے آنے کا خطرہ موجود ہے جو زیادہ تیزی سے پھیلنے والی اور زیادہ مہلک ہوں گی۔

سب ایک کشتی میں سوار نہیں ہیں

ہمیں بار بار بتایا جاتا ہے کہ وباء ایک عالمی خطرہ ہے، اور ہم سب ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عالمی قائدین اپنے تمام تر وسائل اس کا خاتمہ کرنے پر مرکوز کرتے، اپنے ذاتی اختلافات کو پسِ پشت ڈالتے اور مشترکہ دشمن سے لڑنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہو جاتے۔

جیسا کہ عالمی ادارۂ صحت کے ڈائریکٹر ٹیڈروس اذانوم گریبیسس نے اگست میں خبردار کیا تھا: ”ہمیں ویکسین کے معاملے میں اپنے اپنے ملک کو ترجیح دینے کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔اگرچہ قائدین اپنے لوگوں کو پہلے بچانے کی خواہش رکھتے ہیں، اس وباء کا سامنا مشترکہ طور پر کرنا ہوگا۔“

در حقیقت، جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں، جب ویکسین کو آزمانے کا مرحلہ ابھی ختم بھی نہیں ہوا تھا، ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک نجی دوا ساز کمپنیوں سے معاہدے کرنے کے لیے دوڑے چلے آئے تھے۔

یہ سامراجی قوتیں معیشت کو معمول پر لانے اور عالمی سطح پر اپنے مخالفین سے سبقت لے جانے کے لیے بے تاب ہو رہی تھیں۔ 2020ء کے پورے سال میں متعدد ویکسینوں پر تجربات ہو رہے تھے، چنانچہ مغربی ممالک نے خطرہ مول کر کئی اقسام کی ویکسینیں پہلے سے منگوا لیں، یہ سوچتے ہوئے کہ ان میں سے کوئی نہ کوئی تو با اثر ثابت ہوگی۔

نتیجتاً برطانیہ، امریکی ریاست اور کینیڈا جیسے ممالک؛ اور جرمنی اور فرانس جیسے ممتاز یورپی ممالک، کے پاس کروڑوں کی تعداد میں زائد ویکسینیں موجود ہیں۔ ان میں سے بعض کو ابھی تک استعمال میں اس لیے نہیں لایا جا سکا کیونکہ بعض علاقوں میں ابھی ان کی اجازت ملنا باقی ہے، جیسا کہ امریکی ریاست میں ایسٹرا زینیکا ویکسین۔

مگر بعض ممالک (خصوصاً یورپ) انتظامی نا اہلی اور عوام کے ویکسین کے حوالے سے شکوک و شبہات (جس کی وجہ غلط بیانی، حکومتوں پر عدم اعتماد، اور وباء سے نمٹنے کی نا اہلیت ہے) کی وجہ سے اپنی زائد ویکسینوں کو بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس سارے عمل میں، غریب ممالک، جو بڑی دوا ساز کمپنیوں کے ساتھ براہِ راست معاہدے کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے کو قطار کے آخر میں دھکیل دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا کی مجموعی آبادی کے 16 فیصد حصے کے مالک ممالک نے اتنی ویکسینیں جمع کر لیں جن سے 60 فیصد آبادی کی ضرورت پوری کی جا سکتی ہے۔

ایک طرف ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک موسمِ گرما تک اپنی آبادیوں کو ویکسین لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں، جبکہ دوسری جانب غریب ممالک کے 90 فیصد افراد کے لیے اس سال ویکسین کا ایک ٹیکا بھی دستیاب نہیں ہو سکتا۔

world Image pixabay

غریب ممالک کے 90 فیصد افراد کے لیے اس سال ویکسین کا ایک ٹیکا بھی دستیاب نہیں ہو سکتا۔

فائزر اور موڈیرنا کا ایم آر این اے (mRNA) ٹیکنالوجی پر بنائے جانے والی ویکسین (جو دو ٹیکے لگوانے کے بعد 90 فیصد تک با اثر ثابت ہوئی ہے) کا تقریباً سارا حصہ محض امیر مغربی ممالک کو چلا جائے گا۔ ان کمپنیوں نے عالمی ادارۂ صحت، میڈیسنز سانز فرنٹیئرز (ایم ایس ایف) جیسی این جی اوز، بھارت اور جنوبی افریقہ جیسے عالمی تجارتی ادارے کے ممبران کی ساری گزارشات سے منہ موڑ لیا ہے جو ان کو پیٹنٹ قوانین میں نرمی برتنے یا اپنی ویکسین سب کو مہیا کرنے کا کہہ رہے ہیں، تاکہ عالمی سطح پر سستی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ بے رحمانہ منافع خوری کے سبب، موڈیرنا اور فائزر صرف 2021ء میں 18 ارب اور 15 ارب ڈالر کمائیں گی۔ یہ کسی بھی طرح قتل کے بدلے ملنے والی رقم سے مختلف نہیں ہے۔

”غریب قطار میں انتظار کرتے ہوئے مر جائے گا“

اس دوران، برطانوی کمپنی ایسٹرا زینیکا، جس نے مغرب کو 2.50 یورو پر ویکسین بیچنے کا وعدہ کیا، نے افریقہ میں سب زیادہ متاثر ہونے والے ملک جنوبی افریقہ کو دگنی قیمت پر ویکسین بیچی۔

اپنی اس حرکت کو صحیح ثابت کرنے کے لیے وضاحت کی گئی کہ زائد آمدنی والے ممالک نے تحقیقاتی اور ترقیاتی شعبوں میں سرمایہ کاری کی ہے، اسی لیے انہیں کم قیمت پر ویکسین بیچی گئی۔ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا گیا کہ جنوبی افریقہ کے 2 ہزار افراد نے 2020ء میں ویکسین کے تجربات میں حصّہ لیا تھا، اور ویکسین کو آزمانے کے لیے اپنے اجسام تک پیش کیے تھے، مگر اب انہیں مہنگے داموں ویکسین خریدنا پڑے گی۔

اقوامِ متحدہ کی مدد سے جاری کیے گئے ’COVAX‘ پروگرام کا مقصد غریب ممالک کو ویکسین فراہم کرنا تھا، مگر اب یہ فنڈ کی کمی اور سابقہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکی ریاست کے انکار کی وجہ سے ناکامی کے شدید خطرے سے دوچار ہے۔

اگرچہ اب صدارت کے عہدے پر جو بائیڈن فائز ہو چکا ہے، اس نے امریکی سپلائی چین کی حفاظت کے لیے ویکسین کی تیاری میں استعمال ہونے والے مواد پر نئی بر آمداتی پابندیاں لگائی ہیں۔ ایسا عالمی ادارۂ صحت کی ان تنبیہات کے باوجود کیا گیا کہ اس وجہ سے ویکسین کی قلت سامنے آ رہی ہے اور ویکسین فراہمی کی مہم متاثر ہو رہی ہے۔

یقیناً، ٹرمپ بھلے چلا گیا ہو مگر، ’سب سے پہلے امریکہ‘ کی پالیسی اب بھی اپنائی جا رہی ہے۔

’COVAX‘ کو 2021ء میں فنڈ کی شدید کمی کا سامنا ہے اور اب 2021ء کے اختتام تک اس نے 2 ارب ویکسینیں جاری کرنے کا معتدل ہدف لیا ہوا ہے، جو کہ اس کے حقیقی ہدف کے مقابلے میں آبادی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ حالیہ عرصے میں اسے ایک اور دھچکا لگا، جب سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا (اس کے سب سے بڑے معاون) نے ملک میں کورونا کے بڑھتے کیسز کے پیشِ نظر ویکسین کی بر آمدات پر مکمل پابندی لگا دی۔

کئی ممالک پر مبنی ’COVAX‘ پروگرام نازک صورتحال سے دوچار ہے، مگر اس کے باوجود مغربی ممالک اپنی زائد ویکسینوں میں سے بعض غریب ممالک کو پیش کرنے کی بجائے اپنے اتحادیوں اور تجارتی شراکت داروں کو بیچ رہے ہیں، جن کو ویکسین کی فراہمی اور اس کی خریداری کے حوالے سے کسی بھی مسئلے کا سامنا نہیں۔ مثال کے طور پر، یورپی یونین نے سنگاپور، سعودی عرب اور ہانگ کانگ 3 کروڑ 40 لاکھ ویکسینیں بر آمد کی ہیں۔

اس کے علاوہ ویکسین کے معاملے میں نیشنل ازم اپنانے کی خصوصی ایذا پسند مثالیں بھی موجود ہیں، جیسا کہ اسرائیل کے معاملے میں، جس نے زائد موڈیرنا ویکسین ان ممالک کو تحفے میں دی جو اپنے سفارت خانے یروشلم منتقل کرنے پر متفق ہو گئے، جیسا کہ ہنگری، چیک جمہوریہ اور ہنڈوراس، مگر مقبوضہ فلسطین کو ایک بھی ویکسین نہیں دی گئی۔

جب اس بارے میں سوال کیا گیا تو اسرائیلی وزیرِ صحت نے حقارت بھرے انداز میں کہا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کو ویکسین لگوانے کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا ہے، اور (اسی ظالمانہ اور بے ڈھنگے انداز میں طنز کرتے ہوئے) پوچھا کہ کیا بحیرۂ روم کی ڈولفنز کی دیکھ بھال فلسطینیوں کی ذمہ داری ہے!

فاطمہ بھٹو (لکھاری، اور قتل کیے گئے پاکستانی وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی نواسی) نے اس صورتحال کو مختصراً دی گارڈین میں یوں بیان کیا:

”یہ بڑے بڑے سرمایہ دار ہی تھے جنہوں نے وباء پھیلائی، ویکسین سے منافعے کمائے، اور اب آرام سے بیٹھ کر اپنا علاج کروائیں گے۔ اور یہ لوگ ویکسین حاصل کرنے کیلئے قطار میں سب سے آگے کھڑے ہیں حتیٰ کہ انہیں اس کی ضرورت تک نہیں ہے۔ وہ غریب جو کھانا حاصل کرنے کی جدوجہد کرتا رہا اور یکے بعد دیگرے کئی لاک ڈاؤنز کا سامنا کیا، قطار میں انتظار کرتا رہے گا اور مر جائے گا۔“

یورپ اور برطانیہ کی جھڑپ

ویکسین فراہم کرنے میں یورپ کی انتہائی سست روی اور تحفظاتی پالیسی اپنا کر برطانیہ اور ایسٹرا زینیکا کے ساتھ لڑائی (جس پر ہم پہلے لکھ چکے ہیں) میں شدت آتی جا رہی ہے۔

جمعرات (25 مارچ 2021ء) کو یورپی یونین کے قائدین نے آن لائن اجلاس کا انعقاد کیا، جس میں ان ممالک کے بر آمدات کرنے پر پابندی لگانے کے حوالے سے بحث کی گئی جن کے پاس پہلے سے ہی ویکسین کی کافی مقدار موجود ہے۔ اپنے افتتاحی خطاب میں کمشنر ارسولا وون دیر لیئین نے نشاندہی کی کہ یورپی یونین نے پہلے سے برطانیہ کو 2 کروڑ 10 لاکھ ویکسینیں بر آمد کی ہیں، اور یورپی سپلائی کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے۔

Europe Image Socialist Appeal

یہ پابندیاں جنوری میں ایسٹرا زینیکا کے پہلے تنازعے کے سامنے آنے کے بعد بنائے گئے اصولوں کی بنیاد پر لگائی گئی ہیں، جس نے اس سے قبل یورپی یونین کو ویکسین کے ان سپلائرز کی بر آمدات روک دینے کی اجازت دی تھی جنہوں نے اپنے معاہدے پورے نہیں کیے تھے۔ اب، اگر اہداف پورے بھی کیے جائیں تو یورپی یونین بر آمدات روک دینے کا اہل ہوگا۔ ظاہر ہے کہ برطانیہ تنقید کا نشانہ بنا ہوا تھا۔

برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن نے اس بات پر زور دیا کہ وہ تحفظاتی پالیسیاں اپنا کر اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دینا چاہتا تھا۔ اور اپنے جانشین پر شدید حملہ کرتے ہوئے سابقہ یورپی یونین کمشنر جان کلاڈ جنکر نے کہا کہ یورپی یونین کو برطانیہ کے ساتھ ”احمقانہ ویکسین جنگ“ سے باز رہنا چاہیے۔ مگر حالات اسی رُخ پر گامزن ہیں، اور دونوں اطراف سے ویکسین نیشنل ازم کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔

یورپی یونین اپنے ویکسین کے اہداف حاصل کرنے کے حوالے سے کافی پیچھے ہے؛ اور اب تک، ایسٹرا زینیکا نے اپنی طے شدہ ویکسینوں میں تین چوتھائی تک کٹوتی کی ہے۔

یورپ کے لیے خصوصاً یہ حقیقت پریشان کن ہے کہ ایسٹرا زینیکا کی صنعت اور اجزاء ہالینڈ اور بیلجیم میں پروان چڑھ کر برطانیہ میں چلے گئے ہیں، جبکہ برطانیہ سے ہونے والی بر آمدات انتہائی کم سطح تک پہنچ چکی ہیں۔ ان یورپی صنعتوں کے اوپر اب بر آمدات کے حوالے سے پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

ایسٹرا زینیکا نے برطانیہ کے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ وہ تب تک ویکسین کو بر آمد نہیں کرے گی جب تک سرکاری شعبۂ صحت کے آرڈر پورے نہیں ہو جاتے، مگر یہ بات واضح ہے کہ اس نے بہت مبالغہ آرائی کے ساتھ یہ وعدہ کیا تھا۔

یہ معاہدہ اگرچہ خفیہ طور پر طے پایا تھا، بہر حال ایسٹرا زینیکا کے برطانیہ کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے پورا نہ کرنے پر اب ”سزا دینے“ کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ اس بات سے وضاحت ہو جاتی ہے کہ یہ برطانیہ میں بنائی گئی ویکسین کو کیوں بر آمد نہیں کرنا چاہتی۔ بہرحال کمپنی نے یورپی یونین کی جانب سے موصول ہونے والے آرڈرز کے ذریعے عوامی پیسوں میں سے اربوں ہڑپ لیے ہیں۔

یورپی یونین کے قائدین اپنی مایوسی چھپانے کی زحمت نہیں کر پا رہے۔ یورپی پارلیمنٹ میں گرین گروپ کی قیادت میں موجود فلپ لیمبرٹز نے دو ٹوک الفاظ میں کہا: ”ایسٹرا زینیکا ہمارے ساتھ آوارہ کتوں جیسا سلوک کرتی ہے۔“

یورپی کمیشن نے گہرے اندیشے کا اظہار کیا کہ ایسٹرا زینیکا یورپ کے اندر ویکسین کے بڑے ذخائر چھپا کر رکھے ہوئے ہے، جنہیں برطانیہ لے جانے کا ارادہ ہے۔

اس سے مضحکہ خیز صورتحال نے جنم لیا جب اطالوی ایجنسی کارابینیری نے یورپی یونین کے احکامات پر روم کے قریب واقع کارخانے پر چھاپہ مارا۔ انہوں نے وہاں پر ایسٹرا زینیکا کی 2 کروڑ 90 لاکھ ویکسینیں تو دریافت کر لیں مگر کمپنی نے دعویٰ کیا کہ ان کے معیار کی جانچ پڑتال ہونا ابھی باقی ہے، جو اس کے بعد یورپی یونین کے ممالک اور ’COVAX‘ منصوبے میں شامل ممالک کو بر آمد کی جانی تھیں۔

ان سارے واقعات سے ایسٹرا زینیکا کو بھی نقصان پہنچنا شروع ہوا ہے، جو ویکسین فراہمی کی مہم میں ”بہادرانہ“ کردار نبھانے کے باوجود، ایک اور بڑی منافع خور دوا ساز کمپنی ہی ہے، جس کے کاروبار کے بارے میں کافی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔

astrazeneca Image Marcho Verch Flickr

یکے بعد دیگرے مسائل کا سامنا کرنے کی وجہ سے ایسٹرا زینیکا کی قیمتوں میں کافی گراوٹ آئی۔

یورپ میں رونما ہونے والے سرکس کے بعد امریکی ریاست کے ’نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایلرجی اینڈ انفیکشس ڈیزیزز‘ نے بھی ایسٹرا زینیکا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ویکسین کی جانچ پڑتال کے حوالے سے غلط بیانی پر مبنی تجزیہ کرتی ہے، جس کی افادیت شروع میں کیے گئے دعوے کی نسبت کم ہے۔

ان سارے واقعات کا مجموعی نتیجہ یہ نکلا کہ کمپنی کے سٹاک میں پانچ فیصد کمی آئی ہے، اور کمپنی کے سی ای او کے زبردستی استعفیٰ لیے جانے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ یورپ کی جانب سے بر آمدات پر پابندی لگنے کے بعد، کمپنی برطانیہ کے ساتھ معاہدہ ختم کرنے کے حوالے سے شدید دباؤ میں ہے؛ یورپی یونین کے دباؤ ڈالنے کا مقصد بھی بالکل یہی ہے۔

دور اندیشی کا فقدان

یورپی یونین، برطانیہ اور ایسٹرا زینیکا کے مابین یہ جھڑپ اپنی اساس میں سیاسی نوعیت کی ہے۔ یورپ سے علیحدہ ہونے والے برطانیہ کی اپنی نصف بالغ آبادی کو ویکسین کی فراہمی یورپی یونین کے لیے ذلت آمیز ہے، بالخصوص ایسی صورت حال میں جب وہ خود ویکسین کی فراہمی میں انتہائی سست روی کا شکار ہے۔

برطانوی نیشنلسٹ اس وقت یورپ کی حالتِ زار پر پھولے نہیں سما رہے۔ وزیرِ صحت میٹ ہینکاک نے فخریہ انداز میں کہا کہ مستقبل میں دوا ساز کمپنیوں کو چاہئیے کہ وہ اپنے کام کی بنیادیں تحفظاتی پالیسیاں لاگو کرنے والے یورپی یونین کی بجائے برطانیہ میں قائم کریں، کیونکہ ”برطانیہ سے دنیا بھر میں بر آمد کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے؛ اور ہم اس پر کبھی بھی پابندی نہیں لگائیں گے۔“

ہمیشہ کی طرح، ان نفرت انگیز منافقین کے پاس فخر کرنے کی کوئی حقیقی وجہ نہیں ہے، جیسا کہ ٹوری سرکار کی وباء کے حوالے سے مجرمانہ بد نظمی سے ظاہر ہے، جس کے نتیجے میں برطانوی اموات دوسری جنگِ عظیم کے دوران (برطانیہ میں) بمباری سے مارے جانے والے افراد سے تین گنا زیادہ ہیں۔

یورپی یونین کے 17 ممالک کی جانب سے ایسٹرا زینیکا ویکسین پر دو ہفتوں تک بے بنیاد پابندی عائد کرنے کے پیچھے برطانوی حکومت کے مغرور پن سے بیزاری کا عنصر بھی ظاہری طور پر موجود تھا۔ بورس جانسن اور ٹوری سرکار جوابی کارروائی کرتے ہوئے برطانوی ایسٹرا زینیکا ویکسین کا دفاع کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، جو ان کے جاری محب وطن ’ثقافتی جنگ‘ کا حصہ ہے۔

یہ بورژوا سیاستدانوں کے بیچ دور اندیشی کے فقدان کا ثبوت ہے جو اس قسم کے معمولی تنازعات میں مشغول ہیں، جبکہ یورپ کے اندر وائرس کے کیسز میں نئے سرے سے اضافہ ہو رہا ہے، جن میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جن کے اوپر اس سے پہلے وباء کے اتنے برے اثرات مرتب نہیں ہوئے تھے۔

ہنگری، مونٹینیگرو، سلووینیا، بوسنیا ہرزیگوینا، اور بلغاریہ عالمی سطح پر وباء سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دس ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں، جبکہ سلوواکیہ اور پولینڈ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 25 ممالک میں شامل ہیں۔ اس تیسری لہر کی بڑی وجہ وائرس کے کینٹ نامی قسم کا پھیلاؤ ہے، جو برطانیہ میں تغیر پذیر ہو کر موسمِ سرما کے دوران پورے بر اعظم میں پھیل گیا، جب ٹوری حکومت نیا لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار تھی۔

جہاں تک برطانیہ کی بات ہے، وہ عالمی سطح پر سب سے بھیانک شرحِ اموات کا شکار ہے اور ابھی تک اس سے نہیں نکل پا رہا۔ ٹوری حکومت آنے والے موسمِ گرما کے دوران بیرونِ ملک سفر شروع کرنے کے حوالے سے غور و فکر کر رہی ہے، اگر ایسا وائرس کا خاتمہ کیے بغیر کیا گیا تو اس کے شدید نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

حکمران طبقے کے یہ تمام خواتین و حضرات ایک ایسے وقت میں تجارتی سرحدیں قائم کرنے میں لگے ہوئے ہیں جب وسائل، تجربات اور ویکسین کی شراکت داری ایک اہم ضرورت بن چکی ہے۔ دونوں اطراف پر عام محنت کش مر رہے ہیں جبکہ یہ آپسی لڑائیوں میں مشغول ہیں، اور وباء کو بلا کسی ضرورت کے طوالت کا شکار کیا جا رہا ہے۔

منقسم یورپی یونین

برطانیہ اور بیلجیم کے بیچ اختلافات کے علاوہ، ویکسین نیشنلزم کی وجہ سے نام نہاد یورپی برادری اندر سے بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔

وون دیر لیئین اور فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون جیسی شخصیات کی جانب سے بر آمدات پر پابندیاں لگانے کے باوجود، جمعرات (25 مارچ) کو جرمنی، بیلجیم، فن لینڈ، سویڈن اور ہالینڈ کے سیاسی قائدین نے اس کی مخالفت کی۔ یہ تمام ممالک بڑے پیمانے پر ویکسین کی تیاری کے عمل میں شامل ہیں، اور تجارتی پابندیاں لگنے کی صورت میں ان کی معیشتوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔

یورپی یونین ایک متحدہ محاذ نہیں رہا بلکہ اس کے قائدین بری طرح سے منقسم ہو چکے ہیں۔ حالیہ اجلاس سے پہلے ہی یورپی یونین کے ممالک کے بیچ ویکسین تک نا برابر رسائی کے حوالے سے اضطراب پایا جا رہا تھا۔

نیو یارک ٹائمز کی تحقیقات کے مطابق، یورپی کمیشن نے بڑی دوا ساز کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ معاہدہ کر کے یورپی ممالک کی آبادی کے تناسب سے ویکسین مختص کیے تھے۔

کئی یورپی ممالک، خصوصاً زیادہ آبادی والے یا مشکل سے ساری آبادی تک رسائی حاصل کرنے والے، اور کمزور معیشتوں والے، نے کوشش کی کہ ایسٹرا زینیکا ان کے لیے اپنی قیمتیں کم رکھے۔ امیر ممالک نے فائزر اور موڈیرنا کی ایم آر این اے ویکسین کو ترجیح دی۔ اس سے ایک ایسی صورتحال نے جنم لیا جہاں یہ ممالک اپنی ویکسین کا اپنی پسند کی ویکسین کے ساتھ تبادلہ کرنے کی طرف گئے۔

جب یورپی یونین کے ایسٹرا زینیکا کے ساتھ اختلافات ابھرے تو ان ممالک کے لیے بڑا مسئلہ پیدا ہوا جنہوں نے اپنی فائزر اور موڈیرنا ویکسین کا تبادلہ کیا تھا۔ ان کی ذخیرہ اندوزی زیادہ تر امیر ترین ممالک نے کی تھی، جنہوں نے دوا ساز کمپنیوں کے ساتھ الگ سے براہِ راست معاہدے کر کے اپنے لیے مختص شدہ ویکسینوں سے بڑھ کر ویکسینیں حاصل کی تھیں۔

مثال کے طور پر جرمنی نے فائزر اور بائیو این ٹیک (جس کا آدھا حصّہ جرمن ہے) کے ساتھ 2021ء کے لیے مزید 3 کروڑ ویکسینوں کا اضافی معاہدہ کیا تھا۔

اس سے غریب یورپی ممالک کے بیچ غم و غصّہ ابھرنا شروع ہوا اور انہوں نے منافقت کے الزامات لگا کر (صحیح طور پر) نشاندہی کی کہ برلن نے پہلے تو یورپی یونین کی جانب سے مشترکہ معاہدہ کیا، پھر اپنا مالیاتی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنے لیے کروڑوں اضافی ویکسینیں حاصل کیں۔

بیلجیم نے اختلافات کو مٹانے کی کوشش کرتے ہوئے، ان ممالک کے لیے جو وائرس پر قابو پانے کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہیں، فائزر سے خریدی گئی ویکسین میں 30 فیصد تک یعنی ایک کروڑ کا مزید اضافہ کیا، جو فائزر کے لیے ایک منافع بخش پیش رفت تھی۔

یورپی یونین کے شدید مخالف رجعتی آسٹرین چانسلر سیبسٹین کرز نے اعتراض کیا کہ اس کے ملک کو معاہدے میں شامل نہیں کیا گیا۔

یورپی یونین کی اوسط ویکسی نیشن سے آسٹریا کی شرح در اصل تھوڑی سی زیادہ ہے، اور کرز حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بیلجیم کے اوپر اندرونی حملہ کر رہا ہے، جس نے بلغاریہ، چیک جمہوریہ، سلووینیا، کروشیا اور لیٹویا کے قائدین کے ساتھ مل کر اس فیصلے کے خلاف مشترکہ بیانیہ جاری کیا۔ اس عمل سے وہ یورپی یونین کے بلبوتے پر اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہے۔

آزاد تجارت، جمہوریت اور عالمگیریت کے عظیم خیالات غلیظ تحفظاتی مقابلہ بازی میں تبدیل ہو کر رہ گئے ہیں، جبکہ دائیں بازو کے اشتعال انگیز نیشنلسٹ بیلجیم کے حقیر رتبے کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ایک جانب کورونا وباء کا سامنا ہے اور دوسری جانب منقسم یورپی برادری اپنے اپنے ذاتی مفادات سے باہر نہیں دیکھ پا رہی۔

اس ساری صورتحال سے یورپی یونین کی حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے کہ یہ مالکان کی ایک انجمن ہے، جو لا علاج زوال سے گزر رہی ہے، جہاں مشکل گھڑی میں اتحاد جیسی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔

روس اور چین کی سفارتی حکمتِ عملی

جہاں ایک طرف مغربی سامراجی ممالک ویکسین کی نیشنلسٹ جنگ میں مصروف ہیں، وہیں مخالف عالمی قوتیں مختلف طریقے سے کھیل رہی ہیں۔ جب امریکی ریاست اور یورپ اپنی ویکسین کی ذخیرہ اندوزی کرتے ہوئے ان کی حفاظت کے لیے تجارتی پابندیاں لگا رہے تھے، چین اور روس نے اس دوران اپنی سائنو ویک اور سپٹنک وی ویکسین کروڑوں کی تعداد میں لاطینی امریکہ، افریقہ، ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ روانہ کر دیں۔ ان دونوں نے مل کر 41 ممالک کو 80 کروڑ ویکسین فراہم کیے۔

اس کے علاوہ روسی اور چینی کمپنیاں انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات اور ملائشیا کے ساتھ معاہدوں کی خواہش رکھتی ہیں تاکہ وہاں مقامی سطح پر کم قیمت میں جزوی یا مکمل طور پر ویکسین تیار کریں۔ یہ عمل مغربی کمپنیوں کی سوچ سے بالکل مختلف ہے جو حسد سے بھری ہوئی ہیں اور اپنی دانشورانہ ملکیت (Intellectual Property) کا دفاع کر رہے ہیں۔

جب مغربی تجزیہ نگار ویکسین کے حوالے سے چین اور روس کی حکمتِ عملی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو مغرب کی شدید منافقت کا پردہ چاک ہو کر رہ جاتا ہے، کیونکہ وہ خود غریب ممالک کے لیے امداد فراہم کرنے کے مخالف ہیں۔ در حقیقت، وہ ماتحت ممالک کے اندر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی بجائے کروڑوں افراد کے مرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بیجنگ یا ماسکو کی جانب سے یہ حکمتِ عملی ان کی انسان دوستی کا ثبوت نہیں ہے۔ ان کی اولین خواہش یہ ہے کہ شعبۂ صحت کے بحران اور وباؤں کے دوران، جس کے امکانات مستقبل میں مزید بھی موجود ہیں، امداد کیلئے دنیا ان کی طرف دیکھا کرے۔

وبائی امراض کی ماہر پروفیسر نجوہ خوری بولوس، جو وباء کے حوالے سے اردن حکومت کی مشیر ہے، نے کہا کہ ”اب کے بعد سے ہم اس بات کا خیر مقدم کریں گے اگر چینی کمپنی آ کر کہے کہ ہمارے پاس ڈپتھیریا یا پولیو یا ہیپاٹائٹس کے لیے اچھی ویکسین موجود ہے۔ ہم شاید خریدی جانے والی چیز کو تبدیل نہ کریں مگر ہم پہلے کی نسبت اسے زیادہ احترام کے ساتھ دیکھیں گے۔“

چین نے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ اینی شی ایٹیو (BRI) میں بھی اپنی ویکسین متعارف کروائی ہے، جو مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ کے اندر شاہراہوں، بندرگاہوں، فائیو جی گرڈز اور ری نیو ایبل انرجی میں سرمایہ کاری کرنے کے ساتھ ساتھ اجلاسوں کے ذریعے رعایتیں کر کے ویکسین کی پیشکش بھی کر رہا ہے، اور چینی سرمایہ داری کے لیے نئے مراکز اور منڈیاں تخلیق کر رہا ہے۔

اس کے پیچھے سیاسی و جغرافیائی ایجنڈا کارفرما ہے۔ چین ان ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے جو فائزر یا ایسٹرا زینیکا جیسی کمپنیوں کی ویکسین حاصل نہیں کر پائے ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر، وہ ویکسین نیشنل ازم میں امریکی ریاست اور طاقتور یورپی ممالک کی چھوڑے ہوئے خلا کو پُر کر رہا ہے۔ چین کے لیے یہ اس تجارتی جنگ میں سبقت لے جانے کا ذریعہ بھی ہے جو امریکی ریاست اور یورپی یونین اس کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

چین نے اپنی ویکسین کی جانچ پڑتال کر کے اس کو امریکی ریاست کے قریب واقع برازیل جیسے ممالک میں بر آمد کرنے کے معاہدے کیے ہیں۔ یہ معاہدے فائزر کی جانب سے برازیل کے لیے متعین کی گئیں انتہائی سخت شرائط کے بعد ہوئے، جس میں سائیڈ ایفیکٹس پڑنے کی صورت میں عدالتی مقدموں کی کارروائیوں کے لیے درکار رقم حاصل کرنے کی خاطر ریاستی اثاثوں کو ہرجانے کے طور پر دینا بھی شامل تھا۔

اس دوران، یورپ میں ایسٹرا زینیکا کی بربادی کو دیکھتے ہوئے روس اپنی سپٹنک وی ویکسین گھسانے کے لیے کوشاں رہا۔

لومبارڈے میں موجود اطالوی سوئس دوا ساز کمپنی ایڈیئن نے جولائی کے مہینے سے اس کی پہلی پیداوار شروع کرنے کا معاہدہ کیا۔ سلوواکیہ میں گہرے سیاسی بحران نے جنم لیا، جہاں پر وزیراعظم ایگور ماتوویچ روس کے ساتھ ویکسین کا خفیہ معاہدہ کرنے کے بعد، جس نے مخلوط حکومت کے لیے ہلچل برپا کر دی ہے، کہہ رہا ہے کہ وہ مستعفی ہونے کے لیے تیار ہے (بعد میں وہ 30 مارچ کو مستعفی ہو گیا)۔

سپٹنک وی ویکسین کی پیداوار کے حوالے سے یورپی یونین کے وسط میں موجود ہسپانوی، فرانسیسی اور جرمن کمپنیوں کے ساتھ معاہدے تکمیل پانے کی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں (جو یورپی یونین سے اجازت ملنے کے انتظار میں ہیں)، تاکہ ایسٹرا زینیکا کے تنازعے سے جنم لینے والی قلت کو پورا کیا جا سکے۔

یہ بطورِ عالمی قوت کے یورپی یونین کی حیثیت کے لیے زبردست دھچکا ثابت ہو سکتا تھا۔ یورپ کی اندرونی منڈی کے کمشنر نے فوراً اس امکان کا راستہ روک لیا، جو یورپی یونین کے ویکسین ٹاسک فورس کا سربراہ ہے، جس نے کہا: ”ہمیں بالکل بھی سپٹنک وی کی ضرورت نہیں۔“

بہرحال، یورپی یونین موجودہ بحران سے پڑنے والے شدید دباؤ میں گھرا ہوا ہے۔ اپنی معیشت بچانے اور سیاسی استحکام برقرار رکھنے کے لیے یورپی یونین کو مزید ویکسینیں درکار ہیں۔ مگر روس سے ویکسین لینے کی صورت میں، جو اس شرط کے ساتھ ملے گی کہ یورپی یونین روس کی جانب اپنے رویے میں نرمی پیدا کرے، یورپی یونین امریکی ریاست کی مخالفت میں چلا جائے گا، جو روس کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کر دینے کے لیے کوشاں ہے۔

جغرافیائی و سیاسی مقابلہ بازی

یورپ اور امریکی ریاست پر وباء کے شدید اثرات مرتب ہونے کی وجہ سے معاشی بحران مزید بگڑنے کی طرف گیا ہے۔ دوسری جانب مثال کے طور پر چین نسبتاً تیز رفتار بحالی میں کامیاب ہوا ہے، اور دوبارہ معاشی بڑھوتری کی جانب گیا ہے۔ اس صورتحال میں چین کے لیے موقع میسر آیا ہے کہ اپنی زائد ویکسینوں میں سے سب کو محض اپنی آبادی کے لیے ذخیرہ اندوز کرنے کی بجائے سفارتی اوزار کے طور پر استعمال کرے۔

اپنی طاقت میں توثیق کرتے ہوئے چین نے صرف ان غیر ملکیوں کے لیے ویزے جاری کرنے شروع کیے ہیں جنہوں نے سائنو ویک کا ٹیکا لگوایا ہے، جس کی وجہ سے مغربی ممالک کا زیادہ تر حصّہ اس زمرے سے باہر ہو گیا ہے، جہاں پر یہ ویکسین ابھی تک منظور نہیں ہوئی۔

یہ چین کی جانب سے شمالی امریکہ اور یورپ پر دباؤ ڈال کر انہیں تعاون کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے، تاکہ اس کی ویکسین کو منظور کیا جائے۔ مگر یورپی یونین اور برطانیہ بھی غیر ملکی سفر کے لیے ویکسین کے تحت پاسپورٹ جاری کرنے پر غور و فکر کر رہے ہیں، جس کو دیکھتے ہوئے مستقبل کے ایک ایسے منظر نامے کے بارے میں سوچنا ممکن ہے جہاں مد مقابل ممالک تحفظاتی لڑائی کے تسلسل میں بیرون ملک سفر کی اجازت اپنی ویکسین کی بنیاد پر دیں گے۔

ظاہر ہے کہ زندگی بچانے والی ویکسین کو جغرافیائی و سیاسی مقابلہ بازی میں استعمال نہیں کرنا چاہئیے۔ یہاں تک کہ کسی ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے متعدد اقسام کی ویکسینیں بھی نہیں ہونی چاہئیں۔ حالیہ واقعات سرمایہ دارانہ نظام کی عدم تعقلی اور ضیاع کی گواہی دے رہے ہیں۔

عالمی سوشلسٹ نظام کے تحت آزاد منڈی کی خرید و فروخت کی اجازت دینے اور مد مقابل سرمایہ دارانہ قوتوں کے مفادات کے لیے استحصال کو جاری رکھنے کی بجائے ایک ہی قسم کی ویکسین پیدا کر کے اسے پوری دنیا کو فراہم کیا جا سکتا تھا۔

ان ممکنات کی ایک جھلک کیوبا میں دیکھی جا سکتی ہے، جس نے بڑی دوا ساز کمپنیوں سے ویکسین خریدنے سے انکار کیا ہے۔ اس کی جگہ وہ مقامی سطح پر بنائی گئی امیدوار ویکسین سوبرانا 2 کو استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جو تیسرے مرحلے کی جانچ پڑتال سے گزاری جا چکی ہے۔

کیوبا پُر اعتماد ہے کہ موسمِ گرما تک وہ اپنی پوری آبادی کے لیے درکار ویکسین تیار کرنے کے ساتھ ساتھ اضافی ویکسین بھی تیار کر چکا ہوگا۔ کیوبا کا کہنا ہے کہ استعمال کے لیے تیار ہونے کے بعد یہ ویکسین سب کے لیے مفت دستیاب ہوگی، بشمول ہوانا ائیرپورٹ پر اترنے والے تمام غیر ملکی زائرین کے۔

یہ سب کچھ تسلسل سے جاری مغربی تجارتی پابندیوں اور ملک میں 1990ء کے بعد آنے والے شدید بحران کا سامنا کرنے کے باوجود ہوا ہے۔ جب شعبۂ صحت کو اس قسم کے بحرانات کا سامنا ہوتا ہے تو مسخ شدہ مزدور ریاست کے اندر بھی سرمایہ دارانہ معیشت کے اوپر منصوبہ بند معیشت کی سبقت کو دیکھا جا سکتا ہے۔

یا سارے محفوظ، یا کوئی نہیں

ہم اس سے پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کی جانب سے ’پہلے میں‘ والی پالیسی ان کے لیے بربادی ثابت ہو رہی ہے۔ وائرس قومی سرحدوں کی پرواہ نہیں کرتا۔ چند امیر ممالک سے وائرس کا خاتمہ کر کے وائرس کے پھیلاؤ، تغیر اور مستقبل میں زیادہ مہلک شکل میں وارد ہونے کے امکانات پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔

جیسا کہ عالمی ادارۂ صحت نے خبردار کیا تھا ”سچ تو یہ ہے کہ جب تک سارے محفوظ نہ ہوں، کوئی محفوظ نہیں رہ سکتا۔“

جب تک عالمی سطح پر وباء کے اوپر قابو نہیں پا لیا جاتا تب تک جاری رہنے والے تباہ کن جانی نقصان کو اگر ایک طرف بھی رکھ دیا جائے تو حتیٰ کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر بھی ویکسین نیشنل ازم کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

آئی سی سی ریسرچ فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق، اگر کورونا ویکسین کی فراہمی غریب ممالک کو یقینی نہیں بنائی گئی تو عالمی معیشت کے لیے 9.2 کھرب ڈالر تک کھونے کا خطرہ موجود ہے۔ اس رقم کے تقریباً نصف حصے سے ترقی یافتہ معیشتیں متاثر ہوں گی۔

ایک اور اندازے کے مطابق اگر ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک ’COVAX‘ منصوبے کے لیے درکار 27.2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں تو اس کا بدلہ انہیں 166 گنا تک ملے گا۔ 27 ارب ڈالر ان کھربوں ڈالر کے مقابلے میں انتہائی کم رقم ہے جو یہ ریاستیں اپنی معیشتوں کو بچانے کے لیے خرچ کر رہی ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ بورژوازی کے گرے ہوئے سیاسی نمائندگان انسانی فلاح کے بارے میں اور حتیٰ کہ سرمایہ دارانہ نظام کی صحت پر پڑنے والے دیر پا اثرات کے حوالے سے بھی نہیں سوچ رہے، بلکہ انہیں اپنے فوری مفادات کی فکر لاحق ہے؛ ان کے کیریئر، اور ان کے پیچھے کھڑے سرمایہ داروں کے قلیل مدتی منافعے۔

وباء کے شروع سے ہی وہ اسی طرز پر سوچ رہے ہیں، اسی لیے آغاز میں ان میں سے کئی نے بر وقت لاک ڈاؤن لگانے سے انکار کیا تھا، اور انسانی جانوں کی حفاظت پر معیشتوں کو ترجیح دے کر نتیجتاً دونوں کو نہیں بچا پائے۔

مزید برآں، سرمایہ داری قومی ریاست کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے؛ ایک بوسیدہ اور دقیانوسی ادارہ جو عالمی تعاون کے ہر امکان کو ختم کرتے ہوئے انسانی نسل پر بد ترین اثرات مرتب کر رہا ہے۔

vaccine Image Christian Emmer

سرمایہ داری کے اندر اس وبا کو کسی سورت نہیں روکا جا سکتا۔ اس بات کا اعتراف اب سرمایہ دار بھی کر رہے ہیں۔ ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کے ذریعے ہی اس وبا کی مکمل روک تھام کی جا سکتی ہے۔

دواؤں کے ذرائع پیداوار پر نجی کمپنیوں کے مالکان کے منافعے بٹورنے کی حوص غالب ہے، جس کی وجہ سے دنیا بھر کے محنت کش اس بھیانک خواب سے نہیں نکل پا رہے، جبکہ بورژوا قائدین اپنے وسائل اور تجارتی پابندیوں کا دفاع کر رہے ہیں۔

ہم نے اس سے پہلے خبردار کیا ہے کہ بحران سے نپٹنے میں سرمایہ داری کی شرمناک ناکامی کی وجہ سے کورونا وائرس ایک مستقل بیماری بن سکتی ہے۔ بورژوازی کے بعض حصے اس کو نئے معمول کے طور پر تسلیم کر رہے ہیں، جیسا کہ بلومبرگ میں شائع ہونے والے مضمون، جس کا عنوان تھا ’ہمیں مستقل وباء کے لیے منصوبہ بندی شروع کرنے کی ضرورت ہے‘، میں مندرجہ ذیل سطور لکھی گئی تھیں:

”دو مختلف ارتقائی صورتیں سامنے آ سکتی ہیں۔ ایک صورت میں وائرس مزید شدت اختیار کر جائے گا مگر کم سطح پر پھیلے گا۔ اس سے متاثر ہونے والے لوگوں کی شرحِ اموات زیادہ ہوں گی، مگر اس کا پھیلاؤ ہموار طریقے سے ہوگا۔ دوسری صورت میں وائرس کی شدت یہی رہے گی مگر یہ بڑے پیمانے پر پھیلے گا۔ اس سے متاثرین اور اموات میں نا ہموار طریقے سے اضافہ ہوگا۔۔۔“

”اگر کورونا وائرس اسی ارتقائی عمل سے گزرتا رہا تو اس کے بار بار شکلیں تبدیل کر کے دوبارہ پھیلنے، سماجی پابندیوں اور وقتی آزادیوں، لاک ڈاؤن اور دوبارہ کھولنے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہے گا۔ کم از کم امیر ممالک کے اندر، شاید لوگوں کو وائرس کی تازہ قسم کے لیے سال میں دو مرتبہ ویکسین لگوانا پڑے گی، مگر ساری آبادی سے بیک وقت وائرس کا خاتمہ ممکن نہیں ہوگا۔۔۔“

”ہمیں حقیقت پسند بھی ہونا پڑے گا۔ ثابت قدمی کا تقاضا ہے کہ ہم اس نئے منظر نامے کو اپنی منصوبہ بندی میں شامل کریں۔“

اس شدید ناکامی سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ سرمایہ دار صورتحال کو قابو میں کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ مگر مستقل وباء ناگزیر نہیں ہے؛ مناسب اور باہمی تعاون کے ذریعے لاک ڈاؤن کے اقدامات بروئے کار لا کر، محنت کشوں کی معاشی امداد اور ویکسی نیشن کی با اثر منصوبہ بندی کر کے ہم اس تباہی کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔

ہمیں بڑی دوا ساز کمپنیوں کو قومیانا پڑے گا۔ ان کی تحقیقات، جو عوامی پیسوں پر کی جاتی ہیں، عوامی ملکیت میں لینے کی ضرورت ہے۔ تیزی کے ساتھ مطلوبہ ویکسین، ٹیکے اور ذخیرہ کرنے کی سہولیات بنانے کے لیے درکار کارخانوں پر مزدوروں کا قبضہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پیداوار کو تیز کرنا ہوگا اور جلد از جلد ویکسین فراہم کرنے کے لیے عالمی سطح پر باہمی تعاون کا طریقہ کار اختیار کرنا ہوگا۔ مگر ایسا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم وباء سے نپٹنے کے اختیارات سرمایہ داروں اور ان کے سیاسی نمائندگان سے چھین کر اپنے ہاتھوں میں لیں۔ عالمی سوشلسٹ فیڈریشن کے تحت خود مختار محنت کش طبقہ ہی یہ کرنے کا اہل ہے۔

اس وباء سے اور اس پر حکومتوں کے رد عمل سے سرمایہ دارانہ نظام کی محدودیت ظاہر ہوئی ہے۔ جس کا نتیجہ بھیانک اموات اور محرومیوں کی صورت میں نکلا ہے، جہاں امیر ممالک نے غریب ممالک کو مکمل طور پر پس پشت ڈال کر انہیں ان کی قسمت پر چھوڑ دیا ہے، جبکہ عالمی قائدین ذاتی مفادات کی لا پرواہ دوڑ میں مگن ہیں۔

ویکسین نیشنل ازم موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے مجرمانہ کردار کی گواہی ہے۔ ہمیں ایک ایسے معاشرے کی ضرورت ہے جو بین الاقوامیت پسندی، یکجہتی اور انسانی ضروریات کو پورا کرنے پر مبنی ہو۔ ایسا معاشرہ حاصل کرنے کے لیے، لازم ہے کہ سرمایہ داری کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا جائے۔

Comments are closed.