کراچی: ’’خواتین اور انقلاب‘‘ محنت کش خواتین کے عالمی دن پر تقریب کا انعقاد

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کراچی|

10 مارچ، ہفتہ کے دن پروگریسو یوتھ الائنس اور ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے ’’خواتین اور انقلاب ‘‘ کے عنوان سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں 40سے زائد مرد و خواتین نے شرکت کی جن میں سے نصف تعداد خواتین کی تھی جو کہ خوش آئند امر تھا۔ تقریب میں فارس راج نے سٹیج سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیئے۔

انعم خان

تقریب کی پہلی مقرر ریڈ ورکرز فرنٹ کراچی سے انعم خان نے عورت پر استحصال اور جبر کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ طبقاتی نظاموں کی تاریخ میں عورت کا سب زیادہ استحصال سرمایہ دارانہ نظام ہوتا ہے، کیونکہ عورت کی محنت کا نہ صرف فیکٹری اور گھر میں دوہرا استحصال کیا جاتا ہے بلکہ صنفی جبر بھی سب زیادہ اسی نظام میں ترویج پاتا ہے۔ اس لیے عورت کی آزادی کی لڑائی طبقاتی نظام کے خاتمے کے ساتھ جڑی ہوئی اور یہ صرف طبقاتی جنگ سے ہی ممکن ہے۔

پروگریسو یوتھ الائنس سے عادل راؤنے خواتین کے عالمی دن کی انقلابی تاریخ اور موجودہ عہد میں خواتین کے حالات اور اس کے حل پر روشنی ڈالی۔ کامریڈ نغمہ شیخ نے کہا آج خواتین کی حقیقی جدوجہد طبقاتی ہے نہ کہ صنفی۔ سارا احمد نے قدیم سماج کے مدرسری معاشرے سے پدرسری معاشرے میں تبدیل ہونے کے عمل اور اس کے عوامل کا تفصیلی جائزہ پیش کیا۔ جلال جان نے عورت کی اذیتوں کا دھندہ کرنے والی این جی اوز کے حقیقی کردار پر بات رکھی اورایک نظریے کے طور پر اصلاح پسندی کی ناکامی کی وضاحت کی۔

تقریب کی بہترین مقرر زلیخا لیاقت نے معاشرے میں ماں اور ممتا کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا جس معاشرے میں ماں کی ثقافتی تربیت نہیں ہو سکتی وہاں پرانسانیت کے بہتر مستقبل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ زلیخا کا کہنا تھا کہ یہاں پر ماں کے پیروں تلے جنت بتائی جاتی ہے لیکن جب گھر میں بچے بیمار ہوجائیں تو اس کا الزام بھی ماں پر ڈالا جاتا ہے ، یہاں تک کہ گیس و بجلی کی لوڈشیڈنگ سمیت تمام مسائل کیوجہ بھی ماں کو قرار دیا جاتا ہے، انہوں نے ٹراٹسکی کی بات کی وضاحت کی کہ ماں ہی وہ نقطہ ہے جہاں پر ثقافت اور معیشت کے تمام تانے بانے ایک دوسرے کو قطع کرتے ہیں۔

تقریب کے آخری مقرر کامریڈ پارس نے کہا آج کا یوم خواتین سپین میں ایک انقلابی تحریک کا باعث بن رہا ہے، جو کہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں اور معاشرے کی پچھڑی ہوئی پرت تصور کیے جانے والی خواتین بھی اب سڑکوں پر آ رہی ہیں ۔مزید انہوں نے سرمایہ داری کے اخلاقی مافیا کی جانب سے مارکس وادیوں پر لگائے جانے والے الزامات کا جواب دیتے ہوئے کیمونسٹ مینی فیسٹو کا حالہ دیا جس میں خود مارکس اور اینگلز نے اس مدعے پر بات کی تھی کہ سرمایہ دار عورت کومحض پیداوار کا ذریعہ سمجھتے ہیں، اسی لیے جب ہم کیمونسٹ یہ کہتے ہیں کہ تمام ذرائع پیداوار کو ذاتی ملکیت سے اجتماعی ملکیت میں لے آئیں گے تو ان سرمایہ داروں کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں کہ ہم عورت کوبھی اجتماعی ملکیت میں لانے کی بات کر رہے ہیں۔ پارس نے خواتین کے کام پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی خاتون برقعہ پہنتی ہے تو اس وجہ سے اس پر تنقید کرنے اور رجعتی کہنے کی بجائے ہمیں اسے یہ وضاحت کرنی ہوتی کہ کس طرح سرمایہ دارانہ نظام عورت کا دوہرا استحصال کر رہا ہے، اور اس طرح اسے مارکسزم کے نظریات کی جانب جیتنے کی کوشش کرنا ہوتی ہے۔ تقریب کا اختتام انٹر نیشنل گا کر کیا گیا۔

Comments are closed.