افغان خواتین کی طالبان مخالف جدوجہد۔۔انگاروں پہ کھلتے پھول!

|تحریر: انعم خان|

امریکی سامراج اور نیٹو افواج کی ذلت آمیز انداز میں واپسی کے عمل کا آغاز ہوتے ہی افغانستان میں ایک بار پھر طالبان نامی درندوں کی طرف سے ملک پر قبضے کا آغاز کر دیا گیا۔ بیس سال اور دو ہزار ارب ڈالر سے زائد رقم خرچ کرنے کے بعد بھی امریکی سامراج کی ایسی خوفناک ہز یمت نے دنیا کے سامنے اس کی سپر پاور حیثیت پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ امریکی سامراج کی اندرونی کمزوریوں اور ناقابل حل تضادات کے اس بیرونی اظہار نے، نہ صرف اس کی سامراجی طاقت بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے سب بڑے نمائندے ہونے کی حیثیت سے بھی خود اس نظام کی ناکامی کا نقارہ بجا یا ہے۔ دنیا کی سب بڑی معاشی اور عسکری طاقت کا دنیا کی پسماندہ ترین سوچ رکھنے والوں کے ہاتھوں یوں شکست کا شکار ہونا کم ازکم ہم مارکس وادیوں کے لیے کوئی حیرانگی کا باعث نہیں بنا۔ اس جنگ کے آغاز پر ہی ہم نے اس کی شکست کا تناظر پیش کر دیا تھا اوردارالحکومت کابل پر قبضے کے مناظر پر حیران و پریشان ہونے والوں کے برعکس ہم مسلسل یہ لکھتے چلے آ رہے تھے کہ افغان حکومت کوئی حقیقی عوامی نمائندہ حکومت نہیں بلکہ یہ امریکی سامراج کے آسرے پر چلنے والی ”کابل انتظامیہ“ ہے۔ طالبان کی جانب سے مختلف علاقوں پرقبضہ تو افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا لیکن اشرف غنی کے فرار کے بعد طالبان کے قبضے کے خلاف شروع ہونے والے عوامی احتجاجوں نے ہمارے نقطہ نظر پر مہر ثبت کردی کہ افغان عوام امریکی سامراج کی کٹھ پتلی حکومت سے بھی اتنی ہی نفرت کرتے تھے جتنا کہ طالبان سے کرتے ہیں اور انہوں نے سابقہ ’کابل انتظامیہ‘ کے ہوتے ہوئے ان کے حق میں کوئی احتجاج نہیں کیے۔

کابل پر طالبان کے قبضے کے ساتھ ہی افغانستان کے مختلف شہروں میں ان کے خلاف عوام کی جانب سے دلیرانہ احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہوگیا جس میں خاص کر افغان خواتین صفِ اول میں لڑتی نظر آئیں۔ ان احتجاجوں پر طالبان کی جانب سے حملے بھی کیے گئے جس میں مظاہرین کی ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی احتجاج کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں جن میں خواتین تعلیم، روزگار اور دیگر بنیادی آزادیوں کے دفاع میں لڑتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ جس دن طالبان نے کابل پر قبضہ کیا اسی دن ہی ان درندوں کی بندوقوں کے سامنے کھڑے ہوکر تین نہتی نڈرخواتین نے احتجاج کیا جس کے مناظر ساری دنیا نے دیکھے۔ یہ احتجاج ان ظالموں کے خلاف بغاوت کا اعلان تھا جو کہ اب دیگر شہروں میں بھی تیزی سے پھیل رہی ہے۔

جدید جمہوری ریاست کے قیام اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر افغانستان پر یلغار کرنے والے امریکی آقا اپنا مالیاتی، سیاسی اور جانی نقصان کروانے کے بعد افغان عوام کو اسی درندگی میں واپس چھوڑ کر جا رہے ہیں جس سے نکالنے کا یہ دعویٰ کر کے آئے تھے۔ خود امریکی عوام سمیت دنیا بھر کے عوام اور خاص کر محنت کشوں کی تحریکوں کو روکنے کے لیے دہشت گردی سے ڈرا کر دنیا پر اپنی دھاک بٹھانے کے منصوبے میں تو یہ سامراجی طاقتیں ناکام ہوئی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ جدید معاشرے کی تعمیر کے ان دعوے داروں نے افغان عوام کو غربت اور بھوک مری کی دلدل میں مزید نیچے کی جانب دھکیل دیا۔ یونیسیف کی 2019ء کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان بچے اس وقت غذائی قلت کے حوالے سے خاموش ایمرجنسی کی کیفیت کا شکار ہیں۔ 41 فیصد افغانی بچے شدید غربت کے سبب غذائی قلت کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے ان کی جسمانی اور ذہنی نشونما بطور مکمل انسان نہیں ہو سکے گی۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ اس کا سب سے اہم سبب خود ماؤں کی صحت کی بدترین صورتحال ہے۔ جب وہ خود غذائی قلت کا شکار ہیں تو وہ صحت مند بچوں کو جنم نہیں دے سکتیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہر تین میں سے ایک نو عمر بچی خون کی کمی کا شکارہے۔ اسی طرح غذائی قلت کی شدید انتہاء جسے Wasting کہا جاتا ہے، اس کی شرح بھی افغانی بچوں میں اپنی انتہاؤں کو چھوتے ہوئے 9.5 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پیدا ہونے والوں میں سے صرف آدھے بچے ہی اپنے ابتدائی چھ ماہ تک ہی ماں کا دودھ پی پاتے ہیں اور چھ سے چوبیس ماہ کی عمر کے صرف 12 فیصد افغانی بچوں کو وہ خوراک میسر آپا تی ہے جو اس عرصے میں بنیادی انسانی نشونما کے لیے لازمی ہے۔ اس رپورٹ میں افغان عوام کا یہ کہہ کر تمسخر اڑایا گیا ہے کہ یہ صورتحال ابھی ماضی کی نسبت بہتر ہے! جہاں بنیادی انسانی زندگی کے یہ حالات ہوں وہاں دیگر سماجی عشاریوں کے حالات کا اندازہ لگانا کوئی مشکل عمل نہیں۔ ایک اور امریکی ادارے UNDP کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اس (انخلاء کے) وقت 72 فیصد افغانی عوام خط ِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور سامراجی ممالک کی امداد کی بندش کے نتیجے میں اس میں فوری طور پر 25 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے جو خط ِ غربت کو 97 فیصد تک پہنچا دے گا، یعنی انتہائی مالدار حضرات کے سوا تمام تر آبادی غربت کی اتھا گہرائیوں میں دھکیل دی جائے گی۔ یہ اعداد و شمار سامراجیوں کی جانب سے”ترقی اور جمہوریت“کے دعوؤں پر کھلا طمانچہ ہیں اور یہ وہ مادی حقائق ہیں جن کے سبب افغان عوام نے سامراجیوں کی کٹھ پتلی حکومت کا کسی طور بھی ساتھ نہیں دیا اور طالبان کے خلاف جنگ اورجدوجہد کا آغا ز اپنی بنیادوں پر کیا ہے۔ لیکن امیرترین سامراجی طاقتوں کی دولت نے عوام کا یہ حشر کیا ہے تو طالبان نامی جتھے عوام کا کیا حشر کریں گے یہ سوچنا زیادہ مشکل نہیں۔

امریکی سامراج کی دلالی کرنے والے دیسی و بدیسی لبرل جہاں امریکہ کے جانے پربہت خوفزدہ اور مایوس ہو کر اسے واپس بلا رہے ہیں وہیں اس کے ساتھ ساتھ ہی سامراجی طاقت کی اس شکست کو قبول کرنے سے بھی انکاری ہیں اور طالبان کی واپسی کو ہی سامراجی چال کا حصہ گردانتے نظر آرہے ہیں۔ نام نہاد جمہوریت کے جعلی علمبردار حامد میر بھی اپنا انقلابی چوغا اتار کر کھل کے طالبان کی حمایت اور اِن کی قتل وغارت کا دفاع کررہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ طالبان اب پہلے جیسے نہیں رہے اور انہیں موقع دینا چاہیے۔ خود طالبان کی جانب سے بھی خاص کر ایسا ہی تاثر دینے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم خواتین کی آزادی کی پاسداری کریں گے اور پہلے کی طرح ان کے تعلیم اور روزگار پر بھی پابندی نہیں لگائیں گے۔ لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے آنے والی خبریں ان کے دعوؤں کے کھوکھلے پن کو عیاں کر رہی ہیں۔ قبضے کے عمل کے آغاز کے ساتھ ہی یہ خبر سامنے آئی کہ انہوں نے اپنی خدمت کے لیے 12 سے 40 سال تک کی عمر کی کنواری، بیوہ اور یتیم خواتین کی فہرستیں تیار کرائی ہیں، کیونکہ یہ جانور خواتین کو محض جنسی تسکین کے اوزار کے سوا اور کچھ نہیں سمجھتے! اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مخلوط نظام تعلیم پر بھی پابندی عائد کر دی ہے، ابتدائی طور پر مکمل پردہ اور علیحدہ کلاس رومز میں تعلیم کا آغاز کروا یا گیا لیکن اب اس پر بھی خواتین کی شمولیت پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ 14 ستمبر کو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں افغان شہر مزار شریف کی سڑکوں پر خواتین حجاب کے خلاف احتجاج کرتی دکھائی دیں، وڈیو میں طالبان درندے ان پر کوڑوں سے وار کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح ایک اور اہم شہر قندھار میں طالبان نے سابقہ فوج کا حصہ رہنے والے لوگوں کو شہر سے نکل جانے کا حکم دیا جس پر خواتین کی قیادت میں ہزاروں افراد ان خاندانوں کے دفاع میں احتجاج کررہے ہیں اور یہاں بھی طالبان کی جانب سے ان احتجاجیوں پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ فٹ بال اور کرکٹ کی خواتین کھلاڑیوں کو اپنی جان بچانے کے لیے ملک بدری اختیار کرنی پڑ رہی ہے۔ ان کے ساتھ آرٹ سے منسلک مرد و خواتین بھی تیزی سے ملک چھوڑ کر اپنی زندگیاں بچانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ کابل شہر میں میوزک اکیڈمیوں اور اداروں پر حملے کرکے انہیں تباہ کیا جا رہا ہے۔ ایسے درندے جو خاشہ جیسے بھولے کامیڈین کا مزاح برداشت نہ کر سکے اور اسے قتل کر دیا، بھلا کس طرح خواتین کو تعلیم، روزگار اور دیگر کاموں کی اجازت دے سکتے ہیں۔ اس بھونچال اور افراتفری میں درمیانے اور اوپری طبقے کے افراد تو تیزی سے ملک چھوڑ کر فرار ہورہے ہیں لیکن 97 فیصد وہ آبادی جو تیزی سے خطِ غربت میں دھکیلی جا رہی ہے وہ تو یہ فرار کی عیاشی بھی افورڈ نہیں کر سکتے۔ یہ غریب خاندان زیادہ سے زیادہ اپنی سوکھی روٹیاں جمع کئے پاکستان کی جانب آ رہے ہیں لیکن یہاں سے انہیں ریاست اور انہی کے دم چھلے قوم پرست نسلی تعصب کی بنیاد پر واپس اس دوزخ میں بھیج رہے ہیں۔

 

افغانستان سے غریب خاندان زیادہ سے زیادہ اپنی سوکھی روٹیاں جمع کئے پاکستان کی جانب آ رہے ہیں لیکن یہاں سے انہیں ریاست اور انہی کے دم چھلے قوم پرست نسلی تعصب کی بنیاد پر واپس اس دوزخ میں بھیج رہے ہیں۔

ایک طرف غربت، غذائی قلت اور لاعلاجی اور دوسری جانب طالبان کے ہاتھوں مارے جانے کا خوف افغان عوام کو گھیرے ہوئے ہے۔ لیکن ان کے خلاف اور ان کے حواری پاکستانی حکمرانوں کی مداخلت کے خلاف پنپتا غصہ تیزی سے اپنا اظہار کر رہا ہے کیونکہ سوائے مزاحمت کے اور کوئی راستہ بچاہی نہیں ہے۔

7 ستمبر کو کابل شہر میں طالبان کے خلاف تین بڑی الگ الگ ریلیاں نکالی گئیں جن کی اکثریت خواتین پر مشتمل تھی اور اس احتجاج کو منتشر کرنے کے لیے طالبان کو ہوائی فائرنگ بھی کرنا پڑی۔ طالبان یہ بات جانتے ہیں کہ یہ وہ دنیا اور وہ افغانستان نہیں جس پر انہوں نے دو دہائی قبل مذہب کے نام پر حکمرانی کی تھی۔ خاص کر میڈیا پر سامنے آنے والے افغان خواتین کے انٹر ویوز میں ان کی دلیرانہ سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔ 18 ستمبر کو Reuters پر شائع ہونے والے انٹر ویو میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سرگرم 23 سالہ پشتانہ درانی نوجوان لڑکی کا کہنا تھا کہ”اگر طالبان سلیبس پر قدغن لگائیں گے تو میں آن لائن لائبریری پر مزید کتابیں اپلوڈ کر دوں گی، اگر یہ انٹر نیٹ پر پابندی لگائیں گے تو میں گھروں تک کتابیں پہنچاؤں گی، اگر یہ اساتذہ پر پابندی عائد کریں گے تو میں (انڈرگراؤنڈ) خفیہ سکول بنا ؤں گی، میں ان کے ہر حربے کا منہ توڑ جواب دوں گی۔“ خدیجہ نامی ایک اور نوجوان خاتون استاد کا کہنا تھا کہ طالبان جان چکے ہیں کہ یہ ہمیں خاموش نہیں کروا سکتے، اگر یہ انٹرنیٹ پر پابندی لگائیں گے تو پانچ منٹ سے پہلے ہی دنیا کو پتہ چل جائے گا، انہیں قبول کرنا ہوگا کہ ہم کیا ہیں اور کیا بن چکی ہیں۔“

چونکہ اب صرف مزاحمت ہی زندگی کی واحدضمانت بن چکی ہے اس لیے لوگ بڑے پیمانے پر احتجاج کرتے نظر آ رہے ہیں، اور یہ احتجاج ہی طالبان کومذہبی مصنوعیت کی حد بندیاں توڑنے پر مجبور کر تے چلے جائیں گے۔ شرعی پردے کے دعوے داروں کے خلاف سوشل میڈیا پر خواتین کی مہم جاری ہے جس میں وہ اس پردے کے برعکس دلکش افغانی ملبوسات میں اپنی تصاویر شائع کرکے احتجاج کر رہی ہیں۔ سعودیہ سے امپورٹ کی گئی مذہبی اقدار شرعیت وجبری ثقافت کے نام پر یہا ں پاکستان میں بھی خواتین کے تحفظ کے نام پر ان پر مسلط کئے جاتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ طالبان کی واپسی ایک ایسے عہد میں ہوئی ہے جب خودمذہب اور خاص کر وہابیت کے سب سے بڑے ٹھیکیدار ملک سعودی عرب میں اندرونی معاشی دباؤ کے سبب معیشت کو تیل سے ٹورازم کی جانب موڑا جا رہا ہے اور حکمرانوں کے معاشی مفادات کے تحت جب وہاں خواتین پر عائد پابندیاں ختم کی جا رہی ہیں، تو یہ طالبان کس طرح سے اس بدلے ہوئے عہدمیں ماضی کو حال اور مستقبل پر مسلط کر پائیں گے۔ جس عہدمیں عوامی مزاحمت روزمرہ کا معمول بن رہی ہے ا ور خودماضی کے مذہب کے عالمی ٹھیکیدار اب اپنے مفادات کے لیے اپنی مذہبی درندگی کا چوغا اتار پھینکنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک نقطہ یہ بھی اہم ہے کہ حقیقت میں یہ خود کوئی مذہبی صاحبان نہیں ہیں، بلکہ پاکستانی ریاست کی طرح مذہب کو اوزار کے طور پر استعمال کرنے والے حضرات کا ٹولہ ہیں۔ ان کا مذہب سے اتنا ہی لینا دینا ہے جتنا چینی حکمرانوں کا کیمونزم سے ہے۔ امریکی سامراج کی نام نہاد جمہوریت و ترقی ہو یا طالبان کی مذہب کے نام پر درندگی، دونوں ہی افغان عوام کے لیے سوائے بربادی کے اور کچھ نہیں لائے۔ دوسرے لفظوں ہم مارکس وادیوں کی یہ بات افغان سرزمین پرعملاً درست ثابت ہوئی کہ لبرل ازم اور ملائیت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور وہ سکہ سرمایہ داری ہے جس کے پاس محنت کش عوام کے لیے سوائے بربادی کے اور کچھ نہیں۔ آپس میں برسرِ پیکار مختلف گروہوں پر مشتمل طالبان حکومت کی جانب سے خواتین کو حکومت کا حصہ بنائے جانے کے اعلان پر طالبان کی تعظیم کرنے والے لبرل و فیمینسٹ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حکومت میں شامل یا اس کی سربراہ بھی اگر کسی خاتون کو بنایا جائے، پھر چاہے وہ ہیلری کلنٹن کی طرح سکرٹ پہنے، بینظیر بھٹو کی طرح سر پر ڈوپٹہ اوڑھے یا پھر خاتون طالبان کے طور پر مکمل پردہ کرے، اس کا کردار حکمران کا ہی رہنا ہے جو سرمایہ دار طبقے کی نمائندہ کے سوا اور کچھ نہیں ہوتی اور بطور حکمران عوام دشمن کردار ہی ادا کرتی ہے۔

طالبان حکومت ایک طرف تو اندرونی تضادات کا شکار ہوگی کیونکہ مذہبی ملائیت کا دور گزر چکا ہے، اس لیے بھی کہ یہ بظاہر اقتدار کے لیے یکمشت نظر آنے والے ملاں دراصل کوئی مجتمع سیاسی قوت نہیں ہیں، ماضی قریب میں ان کی دھڑے بندیاں اور لڑائیاں سامنے آتی رہی ہیں۔

طالبان حکومت ایک طرف تو اندرونی تضادات کا شکار ہوگی کیونکہ مذہبی ملائیت کا دور گزر چکا ہے، اس لیے بھی کہ یہ بظاہر اقتدار کے لیے یکمشت نظر آنے والے ملاں دراصل کوئی مجتمع سیاسی قوت نہیں ہیں، ماضی قریب میں ان کی دھڑے بندیاں اور لڑائیاں سامنے آتی رہی ہیں۔ موجودہ صورتحال میں معاشی معاملات کو چلانے کے لیے جہاں اُن امریکہ مخالف سامراجی قوتوں کی گود میں بیٹھا جارہا ہے جو کہ امریکی سامراج کی کمزوری کے سبب بڑے بنتے نظر آ رہے ہیں نہ کہ خود اپنی اندورنی طاقت کے بلبوتے پر اور ساتھ ہی فاتحین مفتوحوں سے امداد کے لیے بڑے دل کی اپیلیں کرتے نظر آرہے ہیں۔ معاشی معاملات کا بحران بھی جلد ہی ان کی لین دین کی لڑائیاں سامنے لے آئے گا اور اس کے ساتھ ساتھ عوام اور خاص کر خواتین کی مزاحمتی جدوجہد، یہ عناصر مل کر مستقبل قریب میں انتہائی نحیف اور لڑکھڑاتی افغان حکومت کا پتہ دے رہے ہیں۔

دنیا کا برباد ترین اور پسماندہ ترین سمجھے جانے والا خطہ آج خواتین کی مزاحمت سے لرز رہا ہے۔ بالکل ایسے ہی کچھ عرصہ قبل ایک مذہبی اور انتہائی رجعتی معاشرہ سمجھے جانے والے ملک سوڈان میں عوامی مزاحمت و جدوجہد کی قیادت خواتین کر تی نظر آ ئی تھیں۔ خود پاکستان میں گزشتہ عرصے میں اوپر نیچے ہونے والے اور دل دہلا دینے والے سانحات نے خواتین کے سوال پر معاشرے کی ہر پرت میں بحث کو جنم دیا ہے۔ مذہبی بنیادوں پر رجعتی سمجھے جانے والے ان معاشروں میں خواتین کی آزادی یا خواتین کے قائدانہ کردار میں ابھرنے والی سماجی تحریکوں کا ابھرنا کو ئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ خود پاکستان میں بھی ایسے حالات بن سکتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ یہاں محنت کشوں کی تحریکوں بشمول خواتین محنت کشوں کے اور نوجوانوں کی گاہے بگاہے ابھرتی احتجاجی تحریکیں حالات کا دھارا بدلنے کا اعلان ہیں۔ لیکن ان تحریکوں کا راستہ اور منزل مشترکہ ہے جو کہ سرمایہ داری کے لبرل و رجعتی معذرت خواہان کی تمام تر سر توڑ کاوشوں کے باوجود بھی سرمایہ داری کے خاتمے اور تمام حقیقی اور اجتماعی انسانی آ زادیوں کی سوشلزم کی تکمیل کی صورت پر ہی منتج ہوگا۔ اس راستے اور منزل کی تیاری ہی عہد حاضر کے شعور کا سب بڑا تقاضا ہے جو کہ افغانستان سمیت تمام دنیا سے لبرل و رجعتی سرمایہ دارانہ درندگی کا خاتمہ کرے گا۔

Comments are closed.