حیدرآباد: ریڈ ورکرز فرنٹ کے زیر اہتمام ”مزدور کنونشن“ کا انعقاد

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، حیدرآباد|

11 نومبر بروز جمعرات، ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے مہنگائی، بے روزگاری، نجکاری، جبری برطرفیوں، اجرتوں میں کمی اور آئی ایم ایف کی گماشتہ ریاست کی مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف، حیدرآباد پریس کلب ہال میں ”مزدور کنونشن“ کا انعقاد کیا گیا۔

کنونشن میں آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن، ریلوے محنت کش یونین، ریلوے لیبر یونین، مہران شوگر مل مزدور یونین، آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن (ساقی) کے رہنماؤں سمیت طلبہ نے بھی شرکت کی۔

کنونشن میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض کامریڈ انصار شام نے سرانجام دیے۔ کنونشن کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے انقلابی گیت گانے کیلئے کامریڈ مرتضی کو دعوت دی گئی۔ اس کے بعد ”مزدور کنونشن“ کے اغراض ومقاصد سمیت عام ہڑتال کی اہمیت پر بات کرنے کیلئے ریڈ ورکرز فرنٹ حیدرآباد کے آرگنائزر کامریڈ علی عیسیٰ کو دعوت دی گئی۔ کامریڈ علی عیسیٰ نے تمام شرکا کو مزدور کنونشن میں شریک ہونے پر خوش آمدید کہہ کر شکریہ ادا کیا، اور کہا کہ حکمران طبقہ ایک بڑے عرصے سے محنت کشوں پر معاشی و سیاسی حملے کرتے آرہا ہے جس پر حکومت بشمول اپوزیشن ایک ہی پیچ پر نظر آتے ہیں۔ اسی طرح مقدس عدلیہ کا کردار بھی کسی سے ڈھکی چھپا نہیں جہاں یک جنبشِ قلم 16000 ملازمین کو نکال دیا جاتا ہے جب کہ ملک ریاض، جہانگیر ترین، نواز شریف اور حکمران طبقے کے دیگر لوگ کھلے عام بدمعاشیاں اور لوٹ مار کرتے نظر آتے ہیں جنہیں کوئی نہیں پوچھتا۔ جب اجرتوں کی بات کی جائے تو سننے میں آتا ہے کہ خزانہ خالی ہے جبکہ اسی مہینے آئی ایم ایف کو قرضوں کی مد میں 450 ارب روپے اور ہر سال کے بجٹ میں دفاع کیلئے بحٹ کا 70 فیصد مختص کیا جاتا ہے جن کی وصولی ہم سے ٹیکسوں اور مہنگائی کی صورت میں کی جاتی ہے جبکہ خرچ ایک روپیہ بھی نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا یہ بات واضح ہے کہ موجودہ نظام میں تمام تر خوشیاں اور مراعات فقط حکمران طبقے کیلئے ہیں۔ اسی لیے ہم محنت کشوں پر فرض بنتا ہے کہ آنے والی نسل اور اپنے طبقے کی بقاء کی خاطر محنت شک طبقے کی ایک بھرپور قوت تخلیق کریں اس کا اظہار صرف ایک ملک گیر عام ہڑتال کے صورت میں ہی کیا جاسکتا ہے۔

اس کے بعد آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن سندھ کے رہنما فقیر محمد چانگ نے اپنے خیالات کا ظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکمران طبقے نے ہم سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے لہٰذا تمام تر مزدور ساتھیوں کو یکجا ہوکر عام ہڑتال کی جانب بڑھنا ہوگا۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔

فقیر محمد صاحب کے بعد ریلوے محنت کش یونین کے مرکزی رہنما نیاز خاصخیلی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکمران ٹکوں کے بھاؤ ریلوے بیچ رہے ہیں کیونکہ یہ خود جہازوں اور کاروں پر سفر کرتے ہیں، لہٰذا عوامی اداروں کو بیچنا ہی ان کے مفاد میں ہے۔ ان حکمرانوں کا بس چلے تو ہمیں چبا کر کھا جائیں۔ اس لیے ان کا مقابلہ فقط طبقاتی اتحاد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ہمیں تمام تر تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر ایک ملک گیر عام ہڑتال کی طرف جانا ہوگا۔

ریلوے محنت کش یونین کے مرکزی رہنما نیاز خاصخیلی کے بعد ریلوے لیبر یونین کے رہنما سلیم خان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کاروباری اشرافیہ فقط منافع خوری کرنے کی غرض سے ہی ہم پر مسلط ہیں۔ ریلوے سے لے کر ہسپتالوں تک تمام تر عوامی ادارے ان کی نظروں میں فیکٹریاں ہیں جن سے یہ منافع بٹور سکیں۔ لہٰذا ہمیں ان کا مقابلہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر کرنا ہوگا۔

سلیم خان صاحب کے بعد نوجوانوں اور طلبہ کی ملک گیر تنظیم پروگریسو یوتھ الائنس کے سندھ یونیورسٹی کے صدر کامریڈ مجید پنھور نے مزدور طلبہ یکجہتی پر بات رکھتے ہوئے کہا کہ اس انسان دشمن منافع خور نظام کو فقط محنت کش ہی اکھاڑ کر پھینک سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے محنت کش تحریک کے ساتھ طلبہ کی جڑت کی اہمیت پر بات کی۔

مجید پنھور کے بعد آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن (ساقی) کے مرکزی جنرل سیکرٹری میرل بھرگڑی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکمران طبقہ ہم سے جینے کا حق بھی چھین رہا ہے اور مہنگائی سے لے کر نجکاری تک تمام تر منصوبوں کو عالمی سامراجی ادارہوں جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ایما پر یہ محنت کش عوام پر وار پر وار کیے جارہے ہیں۔ لہٰذا ہم ریڈ ورکرز فرنٹ کے پروگرام کو ہی راہ نجات سمجھتے ہیں یعنی محنت کشوں کی ایک ملک گیر عام ہڑتال ہی پاکستان میں محنت کشوں کی ایک ایسی قوت کو منظم کر سکتی ہے جو مستقبل میں سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکے۔

اختتام پر ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر آفتاب اشرف نے بحث کو سمیٹتے ہوئے سرمائے اور محنت کے تضاد، سرمایہ داری کے بحران، اصلاح پسندی کی ناکامی، روسی انقلاب اور سوشلسٹ انقلاب کی ضرورت و اہمیت پر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکمران طبقے کے غلیظ و عیار کردار سے ہر کوئی واقف ہے کہ یہاں کے حکمران محض اپنی تجوریاں ہی بھرتے ہیں۔ خواہ وہ جرنیل ہوں ملا ہوں یا نام نہاد جمہوریت کے چیمپئین سیاست دان، سب کا مقصد اس نظام کو بچانا ہی ہوتا ہے۔ اس طرح اجرتوں میں کمی سے لے کر تمام تر مزدور دشمن اقدامات فقط منافع بڑھانے کی غرض سے ہی کیے جاتے ہیں۔ اجرتوں میں جتنی کمی ہوتی ہے سرمایہ داروں کے منافعوں میں اتنی ہی بڑھوتری ہوتی ہیں۔ اسی طرح اُفق پر موجود تمام تر پارٹیاں خواں وہ دائیں بازو کی ہوں یا نام نہاد بائیں بازو کی، اس چیز کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سرمایہ دارانہ ریاست کے اندر کسی بھی چھوٹی اصلاح سے محنت کشوں کی زندگی کو بدلا نہیں جاسکتا۔ لہٰذا ایک ملک گیر عام ہڑتال کرتے ہوئے معاشی مطالبات سے آگے بڑھنا ہوگا۔ اور آج سے 104 سال پہلے انقلاب روس میں ٹھیک ایسا ہی ہوا تھا جہاں محنت کشوں نے جب عام ہڑتال کی تو وہ سمجھ گئے کہ اس سماج کو ہم چلاتے ہیں نہ کہ یہ نام نہاد پالیسی میکرز۔ انقلاب روس ان تمام نام نہاد پڑھے لکھے خواتین و حضرات کے منہ پر تمانچہ ہے جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ محنت کش خود کوئی پالیسی نہیں بنا سکتے۔ انقلاب روس کے بعد نا صرف روسی محنت کشوں نے ملک چلایا بلکہ تاریخ ساز ترقی بھی حاصل کی۔ بات کو سمیٹتے ہوئے ڈاکٹر آفتاب اشرف نے کہا کہ اسی تسلسل میں ریڈ ورکرز فرنٹ نے گلگت سے کراچی تک مزدور کنونشنز کا انعقاد کیا ہے جس کو منظم کرتے ہوئے 4 دسمبر 2021ء بروز ہفتہ لاہور میں ایک مرکزی مزدور کنونشن کا انعقاد کیا جائے گا۔ جس میں ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے محنت کشوں کو جوڑتے ہوئے ایک سیاسی پروگرام کا اعلان کیا جائے گا۔ اور تمام شرکاء کو اس کنونشن میں شرکت کی دعوت دی۔

Comments are closed.