کراچی: فاطمہ گارمنٹس فیکٹری کے محنت کشوں کے ساتھ ناانصافیوں کا سلسلہ جاری!

|رپورٹ: نمائندہ ریڈ ورکرز فرنٹ، کراچی|

کورنگی انڈسٹریل ایریا میں واقع فاطمہ گارمنٹس فیکٹری کے محنت کشوں کے ساتھ مالکان و انتظامیہ کی جانب سے مسلسل ناانصافیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جس میں سب سے اہم مسئلہ سندھ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ کم از کم تنخواہ 25 ہزار روپے پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔ فیکٹری کے محنت کشوں کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے اس طوفان میں ان کے گھروں کے چولہے جلانا ان کے لیے مسلسل کٹھن ہوتا چلا جارہا ہے۔ ہر صبح ہی کسی نہ کسی بنیادی ضرورت کی شے کی قیمتیں بڑھی ہوئی ملتی ہیں جس سے ان کی زندگیاں اجیرن ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ تنخواہوں کے علاوہ بونس و بقایاجات بھی ادا نہیں کئے جاتے۔ اس کے علاوہ قانون کے مطابق خواتین محنت کشوں کو شام سات بجے کے بعد اوور ٹائم کے لیے نہیں روکا جا سکتا۔ لیکن یہاں پر باقی قوانین کی طرح سرمایہ دار اس قانون کی دھجیاں بکھیرتے نظر آتے ہیں۔ محنت کش خواتین سے رات دس بجے تک اوور ٹائم کرایا جاتا ہے جس سے ان کے گھر متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ رات دیر گئے اکیلے سفر کرنے کا عذاب اور شدید پریشانی بھی لاحق ہوتی ہے۔

مالکان اور ان کی انتظامیہ کو بارہا باور کرانے کے باوجود بھی مسائل حل نہیں کیے جارہے، الٹا بات کرنے والے کو دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ تمہیں کام سے نکال دیا جائے گا۔

ان تمام مسائل کے حل کے لیے آج فیکٹری کے محنت کشوں نے دھرنا دینے کی کوشش کی لیکن انتظامیہ کی جانب سے باہر پولیس بلا کر انہیں ہراساں کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام ورکرز کو تالے لگا کر ان کے متعلقہ ڈیپارٹمنٹس میں قید کردیا گیا تاکہ وہ باہر نکل کر احتجاج نہ کر سکیں۔ انہیں کھانا کھانے کے لیے کینٹین تک نہیں جانے دیا گیا۔

ریڈ ورکرز فرنٹ محنت کشوں کے مطالبات کی مکمل حمایت کرتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مطالبات بالکل جائز ہیں۔ اس ملک کے لٹیرے حکمران اقتدار میں حصہ داری کی عیاشی حاصل کرنے کے لیے اگر ملک میں احتجاج کر سکتے ہیں تو اس احتجاج کے حق سے محنت کشوں کو بھی محروم نہیں کیا جا سکتا۔ وہ بھی ایک ایسی کیفیت میں کہ جب تمام تر سیاسی و عسکری پارٹیوں کے دھڑے اور حکمران ان سرمایہ داروں کے حقوق کی حفاظت کا ازل سے ٹھیکہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ میڈیا، پولیس و فوج، عدلیہ سمیت سب اپنے تمام تر اختلافات (مال کی حصہ داری کی لڑائی) کے باوجود ان سرمایہ داروں کی لونڈیوں کا کردار ادا کرتے ہوئے ملک کے مزدوروں کا خون چوس کر آئے روز ان پر مہنگائی کے حملے کیے جارہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں محنت کشوں کے پاس اپنے جینے کے حق کا مطلب مزاحمت اور احتجاج ہی بن جاتا ہے اور احتجاج سے محنت کشوں کو دھمکیوں سے ڈرا کر روکا نہیں جاسکتا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ملک بھر اور خاص کر کراچی میں ٹیکسٹائل و گارمنٹس سیکٹر کے محنت کشوں کے حالات سب سے بدتر ہیں کہ جہاں اپنے حقوق کے لیے یونین سازی اور احتجاج کرنا بھی جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ جبکہ اس سیکٹر میں بغیر سہولیات کے محنت کشوں سے بھیڑ بکریوں کی طرح کام لیا جاتا ہے جو سراسر زیادتی ہے۔ ہم فاطمہ گارمنٹس کے محنت کشوں کے احتجاج کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، اگر انہیں باہر آکر احتجاج نہیں کرنے دیا جارہا تو یہ فیکٹری کے اندر ہی کام چھوڑ ہڑتال کرکے مالکان کو باآسانی بتا سکتے ہیں کہ فیکٹری مالکان کے پیسے سے نہیں بلکہ ان کی محنت سے چلتی ہے اور جب یہ ہاتھ محنت کرنا روک دیں تو یہ رتی بھر منافع بھی حاصل نہیں کرسکتے جس کے بلبوتے پر یہ معاشرے میں نام نہاد عزت دار امیر بنے پھر رہے ہیں۔ جب فیکٹری کے محنت کش کام روک کر ہڑتال کے ذریعے بغیر تالے لگائے تالہ لگا دیں گے تو ان مالکان اور انتظامیہ کے ہوش ٹھکانے لگ جائیں گے۔

لیکن احتجاج کے اس سارے عمل کو انتہائی منظم انداز میں آگے بڑھانا ہوگا ورنہ انتظامیہ کی جانب سے واپسی وار کرنا آسان ہو جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ محنت کشوں کو فیکٹری میں منتخب ہڑتالی کمیٹی بنا کر اس کے ذریعے احتجاج منظم کرنے کی ضرورت ہے، یہی ہڑتالی کمیٹی ہی احتجاج سے متعلق تمام فیصلہ جات کرے تاکہ انتظامیہ کو کسی فرد واحد کو ٹارگٹ کر سکنے کا موقع نہ ملے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فیکٹری کے تمام ڈیپارٹمنٹس کی ہڑتالی کمیٹیاں بنا کر ان کے نمائندگان پر مشتمل مرکزی ہڑتالی کمیٹی بنانی چاہیے، اس سے تمام ڈیپارٹمنٹس کے محنت کشوں کے مسائل کی بھرپور نمائندگی بھی ہوسکے گی اور مرکزی کمیٹی ایک حقیقی مزدور نمائندہ کمیٹی مل کر احتجاج کو منظم کرے گی اور تمام محنت کشوں کے مشترکہ مطالبات کو انتظامیہ کے سامنے رکھے گی۔ اس کے علاوہ مطالبات پر عملدرآمد کے لیے بھی مذاکرات کے تمام تر عمل کو مضبوط اور شفاف بنانے کے لیے یہ عمل تمام احتجاجی محنت کشوں کے سامنے ہونا چاہیے۔ درپردہ اور مینیجر و انتظامیہ کے کمروں میں مذاکرات کے عمل کی شدید مخالفت ہونی چاہیے۔ تاکہ ہر بات سب محنت کشوں کے سامنے ہو سکے۔

اس طرز پر کی گئی ایک منظم ہڑتال نہ صرف فاطمہ گارمنٹس بلکہ ٹیکسٹائل سمیت تمام دیگر شعبوں کے محنت کشوں کے مسائل کے حل کا آغاز بن سکتی ہے۔

لیکن ہم محنت کشوں کو یہ بات بھی ذہن نشین کرنی ہوگی کہ یہ مہنگائی کے حملے اب رُکنے والے نہیں ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کی چاکری کرنے والے ہمارے حکمران اور ان کے نظام سرمایہ داری کے مفادات اور منافعے اب صرف ہماری زندگیوں کی قیمت پر ہی پورے ہو رہے ہیں۔ چند ماہ پہلے جب 25 ہزار روپے کا اعلان کیا گیا تھا تب سے اب تک مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے اور یہ سلسلہ ابھی مزید تیز ہونا ہے۔ اس لیے ہم پہ فرض ہے کہ ہم اپنے آج کے ساتھ ساتھ اپنے مستقبل کی لڑائی پر بھی توجہ مرکوز کریں۔ حکمرانوں اور سرمایہ داروں کے حملے روکنے کے ساتھ ساتھ ان عذابوں سے مستقل نجات کے لیے ہمیں اس سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد بھی کرنا ہوگا، ورنہ یہ ہمیں کھا جائے گا۔ اس نظام کا خاتمہ کرکے ایک منصفانہ نظام جسے خود محنت کش طبقہ چلائے، نہ صرف قائم کیا جا سکتا ہے بلکہ آج ہم نے اگر یہ کام نہ کیا تو کل ہماری زندگیوں کو یہ نظام ختم کردے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس فریضے کو محنت کش طبقہ ہی سرانجام دے سکتا ہے۔ کیونکہ پورا نظام آپ ہی کی محنت سے چلتا ہے جسے روک کر بدلنے کی صلاحیت بھی صرف آپ کے پاس ہی ہے۔

Comments are closed.