14 اکتوبر: محنت کشوں کا عظیم الشان احتجاج۔۔نتائج واسباق

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، اسلام آباد/راولپنڈی|

14اکتوبر کو آل پاکستان ایمپلائز، پنشنرز و لیبر تحریک کے زیر قیادت پورے ملک سے آنے والے ہزاروں سرکاری ملازمین و محنت کشوں نے ڈی چوک اسلام آباد پر اپنے مطالبات کے حق میں احتجاجی دھرنا دیا۔ مظاہرین میں ایپکا، سرکاری اساتذہ، واپڈا، پی آئی اے، او جی ڈی سی ایل، پاکستان پوسٹ، پی ٹی وی، یوٹیلیٹی سٹورز، پی ٹی سی ایل، ریلوے، اسٹیل ملز، ریڈیو پاکستان، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، میونسپلٹی اور ینگ ڈاکٹرز سمیت دیگر کئی عوامی اداروں اور سرکاری محکموں سے تعلق رکھنے والی یونین قیادتوں اور محنت کشوں نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں لیڈی ہیلتھ ورکرز بھی پہلے سے ڈی چوک پر احتجاج کر رہی تھیں جو اس دھرنے کا حصہ بن گئیں۔ احتجاجی محنت کشوں کے بنیادی مطالبات میں اجرتوں میں اضافہ اور تفریق کا خاتمہ، جبری بر طرفیوں کا خاتمہ اور روز گار کی مستقلی، سروس سٹرکچر کا حصول اور نجکاری، ٹھیکیداری و پنشن ریفارمز سمیت آئی ایم ایف کی طرف سے مسلط کردہ تمام مزدور دشمن پالیسیوں کا خاتمہ شامل تھے۔ عوام دشمن حکومت اور ریاستی اشرافیہ نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح محنت کش اسلام آباد میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس مقصد کے لئے نہ صرف شہر کے داخلی راستوں پر محنت کشوں کے قافلوں کو روکا گیا بلکہ ڈی چوک کو بھی کنٹینرز لگا کر سیل کر دیا گیا۔ مزید برآں ڈی چوک کے پاس پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری بھی تعینات کر دی گئی لیکن یہ سب اوچھے ہتھکنڈے ملازمین و محنت کشوں کے بڑھتے قدم نہ روک پائے اور وہ تما م رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے ڈی چوک پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔

دوپہر سے رات گئے تک جاری رہنے والے اس دھرنے میں شامل محنت کشوں کا جوش وخروش دیدنی تھا اور وہ اپنے مطالبات کے حق میں اور حکومت و آئی ایم ایف کی مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف مسلسل فلک شگاف نعرے لگا تے رہے۔ محنت کشوں کی اس جرات اور جوش خروش سے اعلیٰ ریاستی ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی اور دھرنے کو جلد از جلد ختم کرانے کے لئے انتظامیہ کی دوڑیں لگ گئیں۔ اس مقصد کے لئے کبھی محنت کشوں کو پولیس کی نفری بڑھا کر ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی تو کبھی ڈی چوک کی سٹریٹ لائیٹس بند کر کے، لیکن احتجاجی محنت کشوں نے ان تمام اوچھے ہتھکنڈوں کا جم کر مقابلہ کیا اور ڈی چوک پر ڈٹے رہے۔ اس ساری صورتحال سے مجبور ہو کر آخر کار حکومت نے دھرنے کے قائدین کو مذاکرات کی دعوت دی۔ کئی گھنٹے جاری رہنے والے ان مذاکرات کے نتیجے میں حکومت نے قیادت کو مطالبات پر ہمدردانہ غور کئے جانے کی یقین دہانی کرائی اور اس مقصد کے لئے کئی ایک کمیٹیاں تشکیل دے دی گئیں جس پر قیادت نے دھرنے کے خاتمے کا اعلان کر دیا حالانکہ ڈی چوک پر موجود محنت کش اس امر سے ہرگز مطمئن نہ تھے اور کم از کم تنخواہوں میں اضافے اور چند ایک دیگر بنیادی مطالبات کی منظوری تک دھرنا جاری رکھنا چاہتے تھے۔ مزید برآں لیڈی ہیلتھ ورکرز اور ان کی قیادت نے انتہائی جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کو مسترد کر دیا اور اپنا دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ اس سوال کی اہمیت اپنی جگہ ہے کہ یہ دھرنا اپنے فوری مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو ایا نہیں لیکن اس بھی اہم بات یہ ہے کہ اکتوبر کے پہلے دو ہفتوں میں یہ اسلام آبادمیں حکومت اور عالمی مالیاتی اداروں کی مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف ہونے والا دوسرا بڑا مزدور اکٹھ تھا اور ملک کی مزدور تحریک پر اس کے دوررس اثرات انتہائی مثبت ہوں گے۔ بلکہ یہ کہنا بالکل درست ہو گا کہ 6 اکتوبراور 14 اکتوبر کو ہونے والے یہ دونوں احتجاجی دھرنے مزدور تحریک میں ایک سنگ میل کا درجہ رکھتے ہیں اور سماج میں طبقاتی جدوجہد کی ایک نئی اٹھان کی غمازی کرتے ہیں۔ بلاشبہ ان دونوں دھرنوں کی اصل شان و شوکت ان میں شامل عام ملازمین و محنت کش تھے اور انہی کی جرات وہمت کی بدولت یہ عظیم الشان احتجاج ممکن ہو سکے لیکن احتجاج کو منظم کرنے کے حوالے سے دونوں دھرنوں کی مزدور قیادتوں کا کردار بھی لائق تحسین ہے اگرچہ بہت بہتر ہوتا اگر دونوں دھرنوں کی مزدور قیادتیں اپنے تنگ نظر آپسی اختلافات ایک طرف رکھ کرایک مشترکہ احتجاج کی کال دیتیں۔

اب اگر دھرنے کے اپنے فوری مقاصد کے حصول میں کامیابی کے حوالے سے بات کی جائے تو بلاشبہ یہ دھرنا بھی کئی گنا بڑے 6 اکتوبر کے دھرنے کی طرح محنت کشوں کو کوئی فوری ریلیف دلوانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ دونوں دھرنوں کا اختتام حکومتی یقین دہانیوں، وعدوں اور کمیٹیوں کی تشکیل پر ہوا ہے۔ کم وبیش ہر محنت کش کو پتا ہے کہ آئی ایم ایف اور ملکی سرمایہ دار طبقے کی گماشتہ یہ حکومت وعدہ خلافیوں اور یو ٹرنز لینے کی ماہر ہے اور محنت کشوں کیساتھ ”کمیٹی کمیٹی“ کھیلنا اس کے دھوکہ دہی کے اسلحہ خانے کا ایک آزمودہ ہتھیار ہے۔ لہٰذا ان کمیٹیوں سے کسی خیر کی توقع رکھنا پرلے درجے کی حماقت ہو گی۔14 اکتوبر کو بننے والی کمیٹی کی پہلی میٹنگ 19 اکتوبر کو ہوئی اور اس کے اگلے ہی روز حکومت نے ریڈیو پاکستان سے 749 کنٹریکٹ ملازمین کو جبری برطرف کر دیا۔ یہ ایک اقدام ہی حکومت کے مذموم ارادوں کو واضح کر دینے کے لئے کافی ہے اور اگر اب بھی کوئی محنت کشوں کو ان کمیٹیوں اور نام نہاد مذاکرات کے حوالے سے جھوٹی آس میں رکھنا چاہتا ہے تو وہ شعوری طور پر مزدور دشمنی کر رہا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محنت کشوں کی تمام تر جرات و شرکت کے باوجود ان دونوں عظیم الشان مزدور احتجاجوں کا اختتام ان بے مصرف کمیٹیوں اور لا یعنی مذاکرات کی صورت میں ہی کیوں ہوا؟ اس حوالے سے مزدور قیادتوں کی کمزوریاں اور کوتاہیاں اپنی جگہ ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان دونوں دھرنوں کی فوری مقاصد کے حصول میں کامیابی نہ ملنا درحقیقت دھرنا دینے کے احتجاجی طریقہ کار کی محدودیت کو عملی طور پر ثابت کرتی ہے اور واضح کرتی ہے کہ مزدور تحریک کے پاس موجودہ مقام سے آگے بڑھنے کا واحد راستہ ایک ملک گیر عام ہڑتال کا ہی ہے۔ محنت کش طبقے کی قوت وجرات پر یقین کھو دینے والے بہت سے کم ہمت و بد حوصلہ عناصر عام ہڑتال کا نام سنتے ہی بدک اٹھتے ہیں اور اس مؤقف کی مخالفت میں طرح طرح کی تاویلیں گھڑنے لگتے ہیں۔ کبھی عام ہڑتال کا ایک انتہائی مجرد اور دانشورانہ تصور پیش کر کے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جب تک ملک کی ہر فیکٹری کا ہر ایک مزدور عام ہڑتال کے لئے تیار نہ ہو جائے تب تک عام ہڑتال کا موقف پیش کرنا”مہم جوئی“ ہے۔ کبھی مزدور تحریک کی پچھلی ایک دہائی سے زائد کی پیش رفت، مسلسل جدوجہد، قربانیوں، اسباق اور خاص کر اس عرصے میں پی آئی اے، شعبہ صحت و تعلیم کے ملازمین، کلرکس، پی ٹی سی ایل، ریلوے ڈرائیورز، پورٹ ورکرز، میونسپلٹی ورکرز اور دیگر بے شمار شعبہ جات کے محنت کشوں کی چھوٹی بڑی ہڑتالوں کو یکسر نظر انداز کر کے موجودہ دھرنوں کو تحریک کے ایک بلند تر مرحلے کی بجائے”ابتدائی پیش رفت“ بتایا جاتا ہے اور یوں عام ہڑتال کا سوال مستقبل بعید کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ہم ان عناصر سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ 14 اکتوبر کے دھرنے میں شامل ریاست، سماج و معیشت کو جام کر کے رکھ دینے کی صلاحیت رکھنے والے بڑے بڑے عوامی اداروں اور سرکاری محکموں کی منتخب سی بی اے یونینز اور ایسوسی ایشنز کی کال پر اگر محنت کش بڑی تعداد میں اپنے گھروں سے سینکڑوں میل دور اسلام آباد دھرنا دینے آ سکتے ہیں تو پھر عام ہڑتال کیوں نہیں کریں گے۔ اور اگر قیادت کو یہ خوف ہے کہ محنت کش ان کی عام ہڑتال کی کال کو فالو نہیں کریں گے تو پھر ان نامی گرامی قیادتوں کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ مزید برآں ان کم ہمت عناصر کی دروغ گوئی کے بالکل برعکس ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ بغیر تیاری کے ایک دن صبح اٹھ کر عام ہڑتال کی کال دے دی جائے لیکن ضروری ہے کہ اس موقف کو پوری قوت کیساتھ مزدور تحریک میں اتارا جائے، اس کی ٹھوس تیاری کی جائے، اس پر بحث مباحثے کا آغاز کیا جائے، مزدور قیادتوں سے کھل کر اس حوالے سے بات کی جائے کیونکہ ملک گیر عام ہڑتال کا نعرہ محض کوئی موضوعی خواہشات کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ مزدور تحریک کی پچھلی ایک دہائی سے زائد کی پیش رفت کا معروضی و منطقی نچوڑ ہے۔ یہ ملک گیر عام ہڑتال ہی ہو گی جو نہ صرف حکمرانوں کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے ان کے مزدور دشمن حملوں کے سامنے بند باندھے گی بلکہ محنت کشوں کو بطور طبقہ اپنی بے پناہ قوت کا ادارک دلاتے ہوئے مزدور تحریک کو طاقتور ترین عنصر کے طور پر سماج کے سیاسی افق پر ابھارے گی۔ ایک ملک گیر عام ہڑتال کی صورت میں بات صرف فوری معاشی مطالبات تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ سماج پر حق حکمرانی کا سوال بھی کھل کر سامنے آئے گا جو محنت کش طبقے کی ایک انقلابی سیاسی پارٹی کی تعمیر میں اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔

Comments are closed.