جواں آگ!

یہ جواں آگ جو اس شہر میں جاگ اٹھی ہے
تیرگی دیکھ کے اس آگ کو بھاگ اٹھی ہے
کب تلک اس سے بچاؤ گے تم اپنے داماں
یہ جواں آگ جلا دے گی تمہارے ایواں
یہ جواں خون بہایا ہے جو تم نے اکثر
یہ جواں خون نکل آیا ہے بن کر لشکر
گولیوں سے یہ جواں آگ نہ بجھ پائے گی
گیس پھینکو گے تو کچھ اور بھی لہرائے گی
یہ جواں خون سیہ رات نہ رہنے دے گا
دکھ میں ڈوبے ہوئے حالات نہ رہنے دے گا
یہ جواں خون ہے محلوں پہ لپکتا طوفاں
اس کی یلغار سے ہر اہل ستم ہے لرزاں
یہ جواں فکر تمہیں خون نہ پینے دے گی
غاصبو! اب نہ تمہیں چین سے جینے دے گی
قاتلو! راہ سے ہٹ جاؤ کہ ہم آتے ہیں
اپنے ہاتھوں میں لئے سرخ علم آتے ہیں

حبیب جالب

Comments are closed.