
عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کا بحران جہاں بہت سی نئی جنگوں، خانہ جنگیوں اور انقلابات کو جنم دے رہا ہے وہاں پرانے عہد کی تمام تر سیاست بھی رد ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور ہر طرف نئی سیاسی پارٹیاں ابھرتی ہوئی اور بہت بڑی عوامی حمایت لیتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں دنیا کے درجنوں ممالک میں ایسی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن حال ہی میں نیو یارک کے مئیر کے الیکشن میں زہران ممدانی کی صورت میں بائیں بازو کے نظریات کا ایک دفعہ پھر ابھار نظر آیا ہے اور اس کی مقبولیت وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ 33 سالہ نوجوان خود کو سوشلسٹ کہتا ہے اور ارب پتیوں کے خلاف عام لوگوں کی ایک جنگ کا آغاز کرنا چاہتا ہے۔ یہ ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف کھل کر تقریریں کر رہا ہے اور اس نے امریکہ میں رہنے والے تارکین وطن کے خلاف ہونے والے حالیہ آپریشن کی شدید مخالفت بھی کی ہے۔ اسی طرح اس نے نیو یارک شہر میں مکانوں کے کرایوں اور اشیائے ضرورت کی کمی لانے کے نعرے بھی لگائے ہیں۔ اسی پروگرام کی بنیاد پر اس کی مقبولیت نیو یارک سمیت پورے امریکہ میں پھیل گئی ہے اور وہ اس وقت مئیر بننے کا سب سے مضبوط امیدوار ہے۔
اسی کے ساتھ برطانیہ میں جیرمی کوربن نے برسر اقتدار لیبر پارٹی کو خیر باد کہتے ہوئے اپنی نئی سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان کیا ہے جس میں اس کے ساتھ لیبر پارٹی کی ہی ممبر پارلیمنٹ زارا سلطانہ بھی قیادت کر رہی ہیں۔ اس پارٹی کو بنانے کا ابھی اعلان ہی ہوا ہے اور 80 ہزار سے زائد افراد نے اس میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ ابھی اس پارٹی کا باقاعدہ سیاسی پروگرام پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کی بنیاد رکھی گئی ہے لیکن اس وقت بھی آزادانہ سروے کے مطابق اس پارٹی کو برطانیہ میں 18 فیصد ووٹرز کی حمایت حاصل ہے جو لیبر پارٹی کی اس وقت کی مقبولیت کے قریب ہے۔ اس سے قبل انتہائی دائیں بازو کی ریفارم پارٹی روایتی دائیں بازو کی ٹوری پارٹی کو پچھاڑ چکی ہے اور اس وقت برطانیہ کی سب سے مقبول پارٹی بن چکی ہے۔ ایسے میں برطانیہ میں ایک صدی کے بعد سیاسی منظر نامہ یکسر تبدیل ہو چکا ہے اور دائیں اور بائیں دونوں جانب نئی پارٹیاں سامنے آ چکی ہیں۔
ایسی ہی صورتحال دنیا کے بیشتر ممالک میں موجود ہے۔ بنگلہ دیش میں گزشتہ سال کی انقلابی تحریک کے بعد جہاں برسر اقتدار عوامی لیگ کا صفایا ہو چکا ہے وہاں تحریک کی قیادت کرنے والے نوجوانوں نے بھی ایک نئی پارٹی کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ سری لنکا میں بد عنوان صدر راجاپکشا کی حکومت کا عوامی تحریک کے ذریعے خاتمہ ہونے کے بعد خود کو مارکسسٹ کہنے والی ماضی کی ایک چھوٹی سی پارٹی اس وقت تاریخی کامیابی حاصل کر کے بر سر اقتدار ہے۔
پاکستان میں بھی صورتحال بہت دلچسپ ہے اور سیاسی افق پر موجود تمام پارٹیاں رد ہو چکی ہیں اور ملک کے طول و عرض میں نئی عوامی تحریکیں اور قیادتیں ابھر کر سامنے آ رہی ہیں جو پہلے سے موجود تمام سیاسی قیادتوں کی متروکیت کا اعلان ہیں۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے لے کر بلوچ، پشتون عوامی تحریکوں تک اور سرکاری ملازمین کی تنظیموں کی ابھرنے والی نئی قیادتوں سے لے کر سندھ میں نہروں کے مسئلے پر ابھرنے والی عوامی تحریک تک ہر طرف نئے چہرے نظر آتے ہیں۔ یہ تمام صورتحال اتفاقی نہیں بلکہ اس نظام کے بحران اور ایک نئے عہد اور نئی سیاست کی ضرورت کا اظہار ہے جو مختلف انداز میں سطح پر نمودار ہو رہا ہے۔

اس تمام صورتحال میں سیاسی کارکنان اور مسائل کا حل تلاش کرنے کی جدوجہد میں سرگرم افراد کے لیے اہم ہو جاتا ہے کہ ان نئی پارٹیوں کی بنیاد کن نظریات پر رکھی جا سکتی ہے اور کیسے ان پارٹیوں کو ایک ایسا آلہ بنایا جا سکتا ہے جو موجودہ ظلم اور بربریت سے عوام کو نجات دلا سکے۔
بالشویک پارٹی
ایسے میں آج بھی ہمارے سامنے جو پارٹی ایک شاندار مثال بن کر ابھرتی ہے وہ بالشویک پارٹی ہی ہے جس نے 1917ء میں لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں روس میں ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکا تھا اور صدیوں سے جاری طبقاتی نظام کا خاتمہ کیا تھا۔ اس انقلاب کے بعد نہ صرف پہلی عالمی جنگ کا خاتمہ کیا تھا بلکہ دنیا بھر کی سامراجی طاقتوں کو شکست دی تھی اور مزدور طبقے کی حکمرانی قائم کی تھی۔ ہر شخص کو روٹی، کپڑا، مکان، علاج اور تعلیم فراہم کیا تھا اور انسانی تاریخ کی سب سے تیز ترین معاشی اور سماجی ترقی حاصل کی تھی۔ اس انقلاب کی حاصلات کی ایک طویل فہرست ہے جس نے پوری دنیا کو مکمل طور پر تبدیل کر کے رکھ دیا تھا یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دار طبقہ اور سامراجی طاقتیں آج بھی اس پارٹی اور اس کے قائد لینن کے نام سے کانپتے ہیں اور ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ اس پارٹی کی یاد دنیا سے محو ہو جائے یا پھر اسے قابل نفرت انداز میں یاد رکھا جائے۔
لیکن آج پاکستان سمیت دنیا بھر کے انقلابیوں کے لیے آگے بڑھنے کا واحد رستہ یہی ہے کہ انہی بنیادوں پر پارٹی تعمیر کی جائے جن بنیادوں پر لینن نے بالشویک پارٹی تعمیر کی تھی تاکہ ایک صدی سے زائد عرصہ قبل برپا ہونے والے سوشلسٹ انقلاب کو زیادہ بلند پیمانے پر دہرایا جائے اور لینن اور ٹراٹسکی کے اس ادھورے کام کو مکمل کرتے ہوئے پوری دنیا سے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے عالمی سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جائے۔
اس پارٹی کو تعمیر کرنے کے لیے جہاں لینن کی زندگی اور اس پارٹی کی تعمیر کے لیے کی جانے والی دہائیوں پر محیط جدوجہد کا مطالعہ کرنا ضروری ہے وہاں لینن کے میتھڈ کو سمجھنا بھی انتہائی ضروری ہے جسے لینن ازم کہا جاتا ہے۔ اس میتھڈ پر جہاں کمیونسٹ نظریات کے دشمن بہت زیادہ تنقید کرتے ہیں اور اس کے خلاف سرگرم نظر آتے ہیں وہاں لینن کو ماننے والے بہت سے افراد بھی اس کو رد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لینن کے بہت سے نام لیوا اکثر اس کی زندگی کا کوئی ایک پہلو یا ایک حصہ اپنی مرضی سے منتخب کرتے ہیں اور اسی کو ایک حکم کے طور پر صادر کرتے ہوئے سب کو ویسا ہی بننے کی تلقین شروع کر دیتے ہیں اور جو ویسا نہیں کرتے اسے لینن کا پیرو کار ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ایسے افراد میں سے کچھ تو اس خبط کا اتنا زیادہ شکار ہو جاتے ہیں کہ لینن کی طرح دکھنے کی بھی کوشش شروع کر دیتے ہیں اور ویسا ہی بالوں کا سٹائل اور داڑھی بنانی شروع کر دیتے ہیں اور اسی بنیاد پر خود کو لینن کا سچا پیروکار کہلوانا شروع کر دیتے ہیں۔
لینن ازم کی بنیاد کمیونزم کے انقلابی نظریات ہیں جن پر لینن نے ساری زندگی رتی برابر بھی رعایت نہیں دی اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی ان نظریات کا ڈٹ کر دفاع کیا خواہ اس کے لیے اس کے انتہائی قریبی ساتھی بھی ناراض ہو جائیں اور اس کا ساتھ چھوڑ جائیں۔ یہاں پر ہمیں لینن کا کردار دیگر سیاسی قیادتوں خاص طور پر بائیں بازو کے اصلاح پسند لیڈران سے انتہائی مختلف نظر آتا ہے۔ آج بھی دنیا بھر میں موجود نام نہاد بائیں بازو کے لیڈر ہوں یا دنیا کے بہت سے ملکوں میں موجود برائے نام کمیونسٹ پارٹیاں، ان کی قیادتیں زیادہ سے زیادہ حمایت لینے کے لیے اپنے سیاسی پروگرام اور نظریات سے بہت تیزی سے پیچھے ہٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کے خیال میں اگر وہ وقتی مفادات کے تحت زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑ لیں تو ان کی مقبولیت بڑھے گی اور ان کو اپنی منزل حاصل کرنے میں آسانی ہو گی۔ لیکن ان تمام پارٹیوں کے تجربات اور لینن ازم کا طریقہ کار ہمیں سکھاتا ہے کہ اس طریقہ کار سے منزل پہلے سے بھی زیادہ دور ہو جاتی ہے بلکہ پارٹی اپنا رستہ ہی کھو دیتی ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کی گماشتگی کی راہ پر چل پڑتی ہے۔ لینن نے اپنی تمام تر جدوجہد میں نظریات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی منزل سے کم کسی مقصد کو مدنظر نہیں رکھا خواہ اس کے لیے کتنی ہی مشکلات اٹھانی پڑیں اور خواہ کتنے ہی لوگ ساتھ چھوڑ جائیں۔

لیکن دوسری طرف محنت کش طبقے کی زیادہ سے زیادہ پرتوں کو جیتنے کے لیے لینن نے ہمیشہ لچک دار طریقہ کار کی وکالت کی اور اس حوالے سے ہمیشہ اپنے لائحہ عمل اور کام کے طریقے کو حالات کے مطابق ڈھالتا رہا۔ نظریات پر سختی سے کاربند رہنے کا لینن کے نزدیک کبھی بھی یہ مطلب نہیں رہا کہ پارٹی ایک خول میں بند ہو کر رہ جائے اور محنت کش طبقے کی وسیع پرتوں اور عوامی تحریکوں سے دور ہو جائے۔ بلکہ لینن ہمیشہ کمیونزم کے نظریات کو عوام تک لے جانے کے لیے نئے سے نئے طریقہ کار آزماتا رہا اور اسی کے تحت حالات کے مطابق درست نعرے تشکیل دیتا رہا جو بالآخر اس کی کامیابی پر منتج ہوئے۔ لینن کو پختہ یقین تھا کہ عوام کی وسیع پرتوں کی حمایت جیتے بغیر انقلاب برپا نہیں کیا جا سکتا اور اس کے لیے درست سیاسی پروگرام اور نعرے کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔
لینن کے بہت سے دشمن یہ الزام لگاتے ہیں کہ 1917ء میں برپا ہونے والا سوشلسٹ انقلاب درحقیقت ایک چھوٹے سے گروہ کی سازش تھی یا پھر مسلح افراد کے ایک گروہ نے اقتدار پر قبضہ کر کے اپنی آمریت مسلط کر دی تھی۔ ان الزامات میں کچھ بھی حقیقت نہیں اور 1917ء کے ان تاریخی واقعات کا سرسری سا مطالعہ بھی واضح کر دیتا ہے کہ اس میں پورے ملک کے لاکھوں عوام براہ راست شامل تھے اور انقلاب کے دوران ابھرنے والی کمیٹیوں جنہیں وہاں سوویت کہا جاتا تھا، میں منظم تھے۔
بالشویک پارٹی لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں ان سوویتوں میں اکثریت کی حمایت لے کر ہی برسر اقتدار آئی تھی اور یہ حمایت انہیں ان کے سیاسی پروگرام اور درست نعروں کی وجہ سے ہی ملی تھی۔ برسر اقتدار آنے کے بعد پہلے دن ہی جو احکامات جاری کیے گئے ان میں سرمایہ دارانہ نظام کا مکمل خاتمہ شامل تھا اور تمام بینک، صنعتیں اور معیشت کے کلیدی حصے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دے دیئے گئے تھے جبکہ جاگیریں ختم کرتے ہوئے کسانوں میں زمینیں تقسیم کرنے کے عمل کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح سامراجی طاقتوں سے نجات حاصل کرنے اور عالمی جنگ کو ختم کرنے کی پالیسی بنائی گئی تھی۔
یہ تمام اقدامات عوام کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھے اور پھر ان اقدامات کے بعد عوام کی مزید پرتوں کی حمایت بھی ملی تھی جس کے بعد آنے والے عرصے میں یہ مزدور ریاست بہت سے مشکل مراحل طے کرتے ہوئے مسلسل آگے بڑھتی گئی اور دنیا کا یہ ایک پسماندہ اور پچھڑا ہوا ملک دنیا کی دوسری بڑی پاور بن گیا تھا۔
جمہوری مرکزیت
بالشویک پارٹی کی تعمیر کے حوالے سے لینن کا ایک اور اہم اصول جمہوری مرکزیت تھا جس پر وہ ہمیشہ سختی سے کاربند رہا اور تمام تر مخالفت کے باوجود ہر قیمت پر اس کا دفاع کرتا رہا۔ اس اصول کو بالشویک پارٹی کی تعمیر میں کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے اور پارٹی کے جنگوں یا انقلابات میں مسلسل کامیابی سے آگے بڑھنے کی ایک اہم وجہ بھی یہی ہے۔ اس اصول کے تحت پارٹی کے تمام امور پر بحث کرنے اور اپنی رائے دینے کا حق تمام ممبران کے پاس موجود ہوتا ہے اور وہ اداروں کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں لیکن ایک دفعہ جب فیصلہ ہو جائے تو پھر تمام ممبران ان فیصلوں کے پابند ہوتے ہیں اور ان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں۔ اسی مقصد کے لیے وہ اپنی ایک مرکزی قیادت بھی منتخب کرتے ہیں جو ظاہر ہے کہ سب سے بہترین سیاسی اور نظریاتی معیار رکھنے والے افراد پر ہوتی ہے اور وہ قیادت پارٹی کے تمام فیصلوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے پارٹی کے امور کو سر نجام دیتی ہے۔ اس طریقہ کار پر بہت زیادہ تنقید کی جاتی ہے اور لینن ازم کے دشمن اکثر اس طریقہ کار کو سب سے زیادہ ہدف بناتے ہیں۔
ان دشمنوں میں سر فہرست پیٹی بورژوا عناصر ہوتے ہیں جو ہر وقت جمہوریت کا راگ الاپتے رہتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ مرکزیت آمریت کو جنم دیتی ہے اس لیے ہونی ہی نہیں چاہیے اور ہر فرد کو ہر وقت مکمل جمہوری آزادی ہونی چاہیے۔ فرد کی آزادی کی آڑ میں وہ پارٹی کی بنیاد پر ہی حملہ آور ہو جاتے ہیں جس میں پارٹی کے تمام ممبران ایک مقصد اور ایک منزل کی جانب سفر کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور اس کے تحت ایک منتخب مرکزی قیادت کو ذمہ داری دیتے ہوئے ایک رضاکارانہ ڈسپلن خود پر عائد کرنا چاہتے ہیں۔
لینن ازم کے یہ دشمن سٹالنزم کے جرائم کی بنیاد بھی اسی طریقہ کار کو بناتے ہیں اور اکثر یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ لینن ازم ناگزیر طور پر سٹالنزم کو جنم دیتا ہے۔ یہ تمام الزامات جھوٹ کا پلندہ ہیں اور سٹالنزم درحقیقت لینن ازم کا الٹ ہے۔ سٹالنزم کے تحت جمہوریت کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا تھا اور ایک بیوروکریٹک مرکزیت پارٹی پر مسلط کرتے ہوئے پارٹی قیادت پر ہر قسم کی تنقید اور مخالفت کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا۔ جبکہ اس کے بر عکس لینن نے ہمیشہ اختلافات اور تنقید کو خوش آمدید کہا اور ہمیشہ اپنے سیاسی اور نظریاتی دلائل سے مخالفین کو قائل کرتے ہوئے پارٹی میں ہم آہنگی پیدا کی۔ لینن نے ہمیشہ پارٹی کے اداروں کو تعمیر کرنے اور اداروں میں آزادانہ بحث اور مباحثے کے بعد ہی ایک متفقہ رائے استوار کرنے کے عمل پر زور دیا۔ یہی وجہ تھی کہ خواہ جنگ کا زمانہ ہو یا پھر انقلاب کے فیصلہ کن اقدامات میں اقتدار پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی ہو یہ تمام فیصلے کسی فرد واحد یا چند افراد کے نہیں تھے بلکہ پارٹی کے اداروں میں ہی طے کیے گئے تھے اور قیادت نے وہاں موجود دیگر افراد کو قائل کر کے ہی یہ فیصلے کیے تھے۔

لینن نے جہاں پارٹی میں جمہوری طریقوں اور اظہار رائے پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا وہاں پارٹی میں مرکزیت کے کلیدی کردار کا بھی ہمیشہ دفاع کیا جس پر پیٹی بورژوا عناصر ہمیشہ حملہ آور ہوتے تھے۔ ان پیٹی بورژوا افراد کے نزدیک ہر شخص کو اپنا مؤقف رکھنے کی ہر وقت مکمل آزادی ہونی چاہیے اور بحث ہمیشہ جاری رہنی چاہیے۔ اگر کسی کو پارٹی کی اکثریت سے اختلاف ہے تو اسے یہ اختلاف پارٹی کے اندر اور باہر رکھنے کی ہر وقت آزادی ہونی چاہیے اور اس پر کسی قسم کے ڈسپلن کا اطلاق آمریت ہو گی۔ درحقیقت ان انقلاب دشمن افراد کے نزدیک پارٹی ایک ڈسکشن کلب ہونی چاہیے جہاں وہ ہر وقت اپنی علمیت کا رعب جھاڑ سکیں اور دوسرے لوگوں کو کم علم اور کم عقل ثابت کر سکیں۔ یہ صورتحال درحقیقت انا پرستی کی تسکین کی جانب لے جاتی ہے جہاں ہر کوئی بڑا دانشور بننے کی کوششوں میں مصروف ہوتا ہے تاکہ دوسروں کو نیچا دکھایا جا سکے۔ اس کے برعکس مزدور طبقے کا رویہ پارٹی کی جانب بالکل مختلف ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک پارٹی کو عملی جدوجہد کے لیے نظم و ضبط کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ایک مرکزی قیادت کو منتخب کرتے ہوئے پارٹی کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
ہڑتال اور جمہوری مرکزیت
جمہوری مرکزیت کے اصول کو درحقیقت مزدوروں کی عملی جدوجہد اور ہڑتال کے عمل سے ہی اخذ کیا گیا ہے۔ ایک ہڑتال کے دوران جب بڑی تعداد میں مزدور سرمایہ دار کے خلاف اعلانِ بغاوت کرتے ہیں اور صنعت کا پہیہ رک جاتا ہے تو اس وقت جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے ایک قیادت کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ یہ قیادت سب سے لڑاکا اور باشعور مزدوروں پر مشتمل ہوتی ہے جو سب سے زیادہ قربانی دے سکتے ہیں اور اکثریت کا ان پر مکمل اعتماد ہوتا ہے۔ اس کے بعد قیادت کے فیصلوں کے تحت ہی جدوجہد کو اگلے مراحل کی جانب لے جایا جاتا ہے اور تمام مزدور اس ڈسپلن کی پابندی کرتے ہیں۔ فیصلوں پر تنقید یا اختلاف کی اداروں میں گنجائش موجود ہوتی ہے لیکن ایک دفعہ اکثریتی رائے سے فیصلہ ہو جائے تو پھر اس پر عملدرآمد کے لیے تمام مزدور جان لڑا دیتے ہیں جن میں فیصلوں سے اختلاف کرنے والی اقلیت بھی شامل ہوتی ہے۔

جمہوری مرکزیت بھی اسی اصول پر کاربند رہتی ہے اور پارٹی کی قیادت ممبران کے لیے گئے فیصلوں پر عملی جامہ پہناتی ہے۔ لینن پر مرکزی اخبار کے حوالے سے بھی بہت تنقید کی گئی اور کہا گیا کہ ہر علاقے کے ممبران کو اپنا اخبار نکالنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ لینن نے اس کی سختی سے مخالفت کی اور ایک مضبوط مرکز اور مرکزی اخبار کی اہمیت پر نہ صرف زور دیتا رہا بلکہ اس لڑائی میں ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہو گیا، خواہ اس کے قریب ترین دوست اور استاد بھی اس کے مخالف ہوئے۔ لینن اس پر بھی زور دیتا رہا کہ پارٹی کا مرکز محض ڈاکیے کا کردار ادا نہیں کرے گا کہ اس کا کام صرف اخبار شائع کروانا اور ارسال کرنا ہو بلکہ اس کے بلند سیاسی اور نظریاتی معیار کو بھی یقینی بنائے گا۔ اسی طرح مرکز کا کام صرف پارٹی اجلاسوں اور کانگریسوں کو منعقد کرنا ہی نہیں ہو گا بلکہ سیاسی تناظر کو مسلسل ترویج دینے اور نظریاتی معیار کو بہتر کرنے کی ذمہ داری بھی مرکزی قیادت کی ہی ہو گی اور یہی وجہ ہے کہ یہ قیادت خود کو اس ذمہ داری کا اہل ثابت کرے گی۔ اس کے علاوہ ایک طے شدہ طریقہ کار سے پارٹی قیادت کو تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے لیکن جو بھی قیادت آئے گی اسے یہ ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی۔ بالشویک پارٹی کی تعمیر درحقیقت نیچے سے اوپر کی جانب ہی نہیں ہوتی بلکہ اوپر سے نیچے کی جانب بھی ہوتی ہے بلکہ مخصوص حالات میں مرکزیت ہی فیصلہ کن اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ قیادت درحقیقت پارٹی کے ممبران کے اس وقت موجود شعور کی عکاسی نہیں کر رہی ہوتی بلکہ پارٹی کے سب سے بلند شعور اور سب سے زیادہ قربانیاں دینے والے افراد کی منتخب کردہ ہوتی ہے جو پارٹی کو اس کے حتمی مقصد کی جانب لے جاتے ہیں۔
آج نیو یارک سے لے کر لندن تک ابھرنے والی نئی پارٹیاں اس طریقہ کار کی مخالفت پر زور دیتی ہیں اور نام نہاد جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے لینن ازم کے اس بنیادی جوہر کے خلاف زہر اگلتی ہیں۔ لیکن جمہوریت کے نام لیوا درحقیقت شخصیت پرستی اور مقبول افراد کے گرد پارٹیاں بنانے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور کسی لیڈر کی وقتی مقبولیت کی بنیاد پر عوامی حمایت لیتے ہوئے اقتدار تک پہنچنا چاہتے ہیں جس سے تحریک کی نظریاتی اور سیاسی بنیادوں پر سمجھوتہ کر لیا جاتا ہے۔ دوسری جانب کوربن جیسے کئی اصلاح پسند جمہوریت یا اخلاقی اقدار کے نام پر دائیں بازو کے کھلے دشمنوں کے حق میں رضاکارانہ طور پر دستبردار ہو جاتے ہیں اور عوامی تحریک کو کامیاب کرنے کا نادر موقع اپنے خصی پن کے باعث ضائع کرنے کے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں۔
انقلابیوں کو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کا دشمن نہ صرف تمام ہتھیاروں سے لیس ہے بلکہ اس کے پاس ایک ایسی ریاست کا کنٹرول بھی ہے جو مرکزیت کے اصولوں پر کاربند ہے اور وہ عوامی تحریک کو کچلنے کے لیے کسی جمہوری یا اخلاقی اقدار کی پرواہ نہیں کریں گے۔ یہ صورتحال دنیا میں جمہوریت کے سب سے زیادہ داعی ممالک میں بھی اب دیکھی جا چکی ہے جہاں سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے عوام پر گولی چلانے سے لے کر عدالتی اور قانونی کاروائیوں کے نقاب کے تکلف کو بھی نہیں برتا جاتا اور کھلی بدمعاشی سے تحریکوں کو کچلا جاتا ہے۔ اسی لیے مزدور طبقے کو کامیابی حاصل کرنے کے لیے ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو ان تمام حملوں کا بروقت جواب دے سکے اور اس کے لیے ایک مضبوط مرکز کی ضرورت ہے جس کی لینن نے ہمیشہ وکالت کی تھی۔
اگر ان نظریات اور طریقوں پر آج دنیا کے کسی بھی ملک میں ایک کیڈر پارٹی تعمیر کی جاتی ہے تو آنے والے عرصے میں عوامی تحریکوں میں کمیونسٹ نظریات بھی لے کر جا سکتی ہے اور عوام کی وسیع پرتوں کو جیتتے ہوئے ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب کی جانب بھی بڑھ سکتی ہے۔ اس عہد میں سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنے کے مواقع کئی دفعہ ابھریں گے اور لینن ازم کے نظریات پر ایک انقلابی پارٹی موجود ہوئی تو وہ ان مواقعوں کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے مزدور طبقے کو اس ظلم اور استحصال سے فیصلہ کن انداز میں نجات دلائے گی اور سماج پر چھائی اس کالی رات سے ایک سرخ سویرا دوبارہ طلوع ہو گا۔
