لاہور: بالشویک انقلاب کے سو سال پر تقریب کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|

روس میں ہونے والے اکتوبر انقلاب کی صد سالہ تقریبات کے سلسلے کو برقرار رکھتے ہوئے 26نومبر 2017ء بروز ہفتہ کو ’’اکتوبر انقلاب اور آج کا پاکستان‘‘ کے عنوان سے لاہور میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب میں مختلف اداروں کے محنت کش اور یونیورسٹی طلبا شریک تھے۔عدیل زیدی نے تقریب کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ روس کا انقلاب ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے کیونکہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک محکوم طبقے نے حاکم طبقے کو سیاسی شکست دیتے ہوئے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھااور اس کے نتیجے میں دنیا بھر کے محنت کشوں کو وہ ہمت اور حوصلہ حاصل ہوا جس کے نتیجے میں تاریخ کا دھارا ہمیشہ کے لئے تبدیل ہو گیا۔اس کے بعد رائے اسد کی طرف سے ایک انقلابی نظم پیش کی گئی۔

اس اہم موضوع پر مزید بات کرنے کے لئے راشد خالد کو دعوت دی گئی۔ انہوں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اکتوبر انقلاب سے پہلے روس ایک انتہائی پسماندہ ملک تھا۔انسانی تاریخ میں روسی انقلاب سے پہلے جتنی بھی انقلابات ہوئے ،ان میں ایک حکمران نجی ملکیت رکھنے والے طبقے کو ہٹا کر اس کی جگہ ایک دوسرے نجی ملکیت رکھنے والے طبقے نے لی۔لیکن تاریخ میں پہلی مرتبہ صدیوں سے چلتے آرہے طبقاتی نظام اور نجی ملکیت کا خاتمہ کیا گیا اور اجتماعی ملکیتی رشتوں پر استوار نئے سماجی ڈھانچے بنائے گئے۔انقلاب کی قیادت کرنے والی بالشویک پارٹی کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہی وہ قیادت تھی جس نے درست طور پر سماجی، سیاسی و معاشی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے درست لائحہ عمل تیار کیا اور انقلاب کو کامیاب بنایاجبکہ اس وقت موجود باقی تمام سیاسی قیادتیں ٹھوس پروگرام دینے سے قاصر تھیں۔انقلاب کے دوران محنت کش طبقے نے خود رو طریقہ کار سے اپنے آپ کو منظم کرتے ہوئے محنت کش، کسان اور فوجی پنچائیتیں (سویتیں) بنائیں جن میں انقلاب کے شروع کے دنوں میں تمام سیاسی جماعتوں کی اکثریت تھی جبکہ بالشویک اقلیت میں تھے۔اس وقت پہلی جنگِ عظیم کے نتیجے میں ہونے والی تباہی، معاشی ابتری، بے روزگاری، بھوک، زار شاہی استحصال، نیم جاگیردارانہ اور نیم سرمایہ دارانہ سماجی رشتوں سے عوام تنگ آچکے تھے اور اس تما م تر صورتحال کی تبدیلی کا مطالبہ کر رہے تھے۔دوسری سیاسی پارٹیوں نے جنگ ختم کرنے کا دعوہ تو کیا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد سامراجی مقاصد اور حکمران طبقے کے مفادات کے لئے جنگ کو جاری رکھا۔بالشویک پارٹی نے استحصال کا شکار اور پسے ہوئے محنت کش طبقے کی نمائندہ پنچائیتوں میں ایک وسیع تر سیاسی، سماجی اور معاشی سوشلسٹ پروگرام پر اکژیت جیتتے ہوئے اقتدار حاصل کیا اور دیگر اہم اعلانات کے ساتھ جنگ کے خاتمے کا اعلان کیا ۔انقلاب کے فوری بعد تمام سامراجی ممالک، جو عالمی منڈی کی بندر بانٹ میں ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار تھے، اپنے تمام اختلافات کو پس پشت ڈال کر نومولود مزدورر یاست پر چڑھ دوڑے ۔ اس سامراجی جارحیت کے نتیجے میں مزدور ریاست کو جہاں اپنے تمام تر وسائل محنت کش طبقے کی سماجی اور معاشی ضروریات کے لئے وقف کرنے تھے، ریاست کے دفاع میں صرف کرنے پڑ گئے ۔انقلابی جذبات سے سرشار عوام پر منظم سرخ فوج نے عظیم قربانیوں کے ساتھ تمام سامراجی ممالک کو عبرت ناک شکست فاش دی۔اسی دوران سابقہ زار شاہی ریاست کے جرنیلوں، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی جانب سے شروع کی گئی خونریز خانہ جنگی اور افسر شاہی کی کاسہ لیسیوں کو بھی انقلابی شکست دی گئی ۔ان تمام تر نقصانات اور وسائل کے کثیر ضیاع کے باوجود سوویت یونین محض تیس سال کے قلیل عرصے میں دنیا کی دوسری بڑی طاقت کے طور پر ابھری۔عوام کو صحت، تعلیم، روزگار، ٹرانسپورٹ، بنیادی حقوق وغیرہ سمیت بے شمار سہولیات کی مفت فراہمی کو یقینی بنایا گیا۔ صنعت کے شعبے سے لے کر سماجی سہولیات، غرضیکہ ہر شعبے میں حیران کن ترقی کرتے ہوئے سوویت یونین دنیا کے تمام محنت کشوں کیلئے ایک شاندار مثال بن گیا۔ یہاں تک کہ سوویت یونین خلا میں انسان بھیجنے والا پہلا ملک تھا۔لیکن خانہ جنگی، وسائل کی تباہی، تکنیکی کمزوریوں ، بے پناہ سماجی پسماندگی اور انقلاب کے تنہا رہ جانے کی وجہ سے سٹالن کی شکل میں سفاک افسر شاہی کی ایک پرت نے سماج پر اپنے پنجے گاڑھ لئے جس نے سوشلزم کے بنیادی ستون یعنی مزدور جمہوریت کو چھین لیا جس کا انجام 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام پر منتج ہوا۔اس دل سوز تاریخی واقعے کے بعد دنیا بھر کے سرمایہ داروں نے سوشلزم کی ناکامی کا ڈھول پیٹنا شروع کر دیا اور ان کے ٹکڑوں پر پلنے والے گماشتہ دانشوروں نے سوشلزم کے خلاف زہر اگلنا اپنا فرض منصبی بنا لیا۔تاریخ کے خاتمے اور آزاد منڈی کی برتری کے بلند و بانگ دعوے کئے گئے۔لیکن یہ دعوے 2008ء میں رونما ہونے والے سرمایہ داری کے عالمی معاشی بحران نے خاک میں ملا دیئے۔آج پوری دنیا تحریکوں کی لپیٹ میں ہے اور ایک بار پھر لوگ متبادل نظام کی تلاش میں ہیں۔پچھلی ایک دہائی میں دنیا کے بے شمار خطوں میں انقلابی تحریکیں ابھری ہیں لیکن ایک انقلابی قیادت نہ ہونے کی وجہ سے تاحال ناکامی کا شکار ہیں۔یہ صورتحال زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہ سکتی۔

راشد خالد نے پاکستان کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کا انتشار اور کھوکھلا پن واضح طور پر اپنا اظہار کر رہا ہے۔ایک مذہبی جماعت کے حالیہ دھرنے کو میڈیا میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے تاکہ پاکستان میں مذہبی عنصر کو صفِ اول میں رکھ کر دیگر سماجی مسائل سے توجہ ہٹائی جا سکے۔لیکن دوسری طرف عوامی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے ۔ پاکستان کے ہر شعبے کے محنت کش احتجاج کر رہے ہیں ۔ ایک طویل عرصے سے طلبہ سیاست مفقود ہو چکی تھی لیکن اب اس کا بھی نئے سرے سے آغاز ہو چکا ہے۔اس کا اظہار ہمیں مشال خان کے قتل کے خلاف مظاہروں اور قائد آعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی تحریک میں ملتا ہے۔اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں کہ ہر ادارے کے محنت کش اور طلبہ انفرادی طور پر لڑتے رہیں بلکہ آنے والے عرصے میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑت بناتے ہوئے ایک بڑی اجتماعی عوامی تحریک کے ذریعے ہی تمام مسائل کے حل کی طرف بڑھا جا سکتا ہے۔
اس کے بعد کچھ سوالات کئے گئے اور تقریب کے اختتامی کلمات کے لئے آفتاب اشرف کو دعوت دی گئی۔انہوں نے اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آج جب پاکستان میں ریاست کی طرف سے دانستہ طور پر مذہبی انتہا پسندی کو سماج پر مسلط کر کے عوام کو ڈرانے کی کوشش کی جا رہی ہے، تو ایسے وقت میں ہماری تقریب اپنے سیاسی تناظر، معاشی پروگرام اور سماجی ترقی کی کاوش میں معیاری اہمیت کی حامل ہے ۔ نہ صرف لاہور بلکہ پورے پاکستان اور دنیا کے چھتیس سے زائد ممالک میں انقلاب روس کے حوالے سے تقاریب کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ مارکسزم اور سوشلزم کے خاتمے کا دعوہ کرنے والے آج بھی ان کے خلاف لکھ رہے ہیں اور بالشویک انقلاب کی عظیم قیادت کے خلاف زہر اگل رہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں مارکسزم کے نظریات سے شدید خطرہ لاحق ہے اور وہ جانتے ہیں کہ یہی وہ واحد نظریہ ہے جو موجودہ جابر نظام کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ انقلاب روس اور اس کے بعد بننے والی مزدور ریاست کے ذریعے محنت کشوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ ثابت کیا کہ سماج کو حکمرانوں ، سرمایہ داروں، افسر شاہی، فوجی جرنیلوں، ججوں وغیرہ کے بغیر بہترین طریقے سے چلایا جا سکتا ہے اور سماج کی پیدا کردہ دولت مٹھی بھر لوگوں کی جیبیں بھرنے کے بجائے سماج پر خرچ کر کے بے پناہ ترقی اور سماجی آسودگی حاصل کی جا سکتی ہے۔محنت کشوں کے کردار پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکمران اور اداروں کے مالکان مہینوں ملک سے باہر رہتے ہیں لیکن سماج چلتا رہتا ہے۔مگر کسی ادارے کے محنت کش اگر کچھ دنوں کے لئے بھی اپنے ہاتھ روک لیں تو سماج کا پہیہ جام ہو جاتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سماج کو دراصل محنت کش ہی چلاتے ہیں اوراس لئے سماج کی پیدا کردہ دولت بھی محنت کشوں کی اجتمائی ملکیت ہے اور اس پر انہی کا حق ہے۔ ہمیں ماضی کے واقعات سے سیکھتے ہوئے ایک انقلابی پارٹی بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ اس نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک عالمی سوشلسٹ سماج کو اگلی نسلوں کا مقدر بنایا جائے!!!

تقریب کا اختتام انٹرنیشنل ترانے سے کیا گیا اور اس کے بعد پریس کلب کے سامنے نجکاری مخالف پرجوش احتجاج کیا گیا۔

Comments are closed.