اداریہ ورکرنامہ: طبقاتی سماج میں احتساب کا ناٹک

نوازشریف کی صحت اور ملک سے باہر جانے کے حوالے سے میڈیا پر بہت زیادہ شورشرابہ کیا جا رہا ہے۔ حکمران طبقے کے مختلف دھڑے ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں اور ایک دوسرے کی جان کے دشمن دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان کی آپس کی لڑائی کا محنت کش طبقے کے مفادات سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کی باہمی لڑائی کا مقصد اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنا اور اپنے دھڑے کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ لڑائی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے اور لوٹ مار میں حصہ داری کے لیے ایک دوسرے کے خلاف زیادہ سے زیادہ زہر اگلا جا رہا ہے۔ اس ساری لڑائی میں دونوں دھڑے ایک دوسرے کی حقیقت بھی عوام پر عیاں کرتے جا رہے ہیں اور محنت کش عوام کے سامنے اس حکمران طبقے کا گھناؤنا چہرہ بے نقاب ہوتا جا رہا ہے۔

سب سے پہلے تو موجودہ حکومت کی منافقت اور عوام دشمنی سب کے سامنے عیاں ہورہی ہے۔ یہ حکومت ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ کرکے اقتدار میں آئی تھی۔ اسی طرح آئی ایم ایف سے بھیک نہ مانگنے اور سینکڑوں ارب ڈالر بیرون ملک سے واپس لانے کے بلند و بانگ دعوے کیے گئے تھے۔ لیکن بہت جلد واضح ہوگیا تھا کہ یہ سب ایک کھلا جھوٹ تھا اور اس کا مقصد صرف اقتدار کا حصول تھا تاکہ محنت کش عوام کی پیدا کردہ دولت کو لوٹ کر اپنی جیبیں بھری جا سکیں۔ اس دوران روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کی بجائے بڑے پیمانے پر بیروزگاری پھیلائی گئی ہے اور محنت کش عوام دو وقت کی روٹی سے اب فاقوں تک پہنچ چکے ہیں۔ سرکاری اداروں میں بہت بڑے پیمانے پر نجکاری کی پالیسی مسلط کی گئی ہے جو اس سے پچھلی حکومتوں میں بھی جاری تھی اور اس کے نتیجے میں لاکھوں افراد بیروزگار ہو رہے ہیں۔

اسی طرح معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر صنعتیں بند ہورہی ہیں اور لاکھوں محنت کش روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ لیکن لگتا ہے کہ اس حکومت نے ایک کروڑ سے زائد افراد کو بیروزگار کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے، اس لیے یہ ابھی تک تیزی سے انہی پالیسیوں پر عملدرآمد کر رہی ہے۔

آئی ایم ایف کا پھندا ایک بار پھر عوام کی گردنوں میں ڈال دیا گیا ہے اور اس دفعہ اس کی جکڑ پہلے کی نسبت کہیں زیادہ سخت رکھی گئی ہے۔ موجودہ حکمران آئی ایم ایف جیسے سامراجی ادارے کی تھپکیوں کو اب شاباش سمجھ کر پھولے نہیں سما رہے اور منافقانہ انداز میں انتہائی فخر کے ساتھ سینہ تان کر میڈیا پر بیان دیتے نظر آتے ہیں کہ ہمارے آقا ہم سے اب بہت خوش ہیں اور یہی ہماری اعلیٰ کارکردگی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح سینکڑوں ارب ڈالر باہر سے لانے کا خواب بھی چکنا چور ہو گیا ہے اور اب ایک دفعہ پھر عوام ہی کی کھال کھینچی جا رہی ہے۔ اس تمام عمل میں حکومت میں شامل تمام افراد کی دولت میں دن دگنا اور رات چگنا اضافہ ہورہا ہے اور ان کی اس وقت پانچوں گھی میں ہیں۔

اس دوران سب سے بلند آواز میں لگایا جانے والا نعرہ احتساب کا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ ملک سے کرپشن کا تیس دن میں خاتمہ کر دیا جائے گا اور پھر یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔ لیکن ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود نہ صرف یہ کہ کرپشن کا ریٹ آسمان کو چھو رہا ہے بلکہ کرپٹ افراد ضمانتیں کروا کے بیرون ملک جانے کی تیاری بھی کر رہے ہیں جبکہ ہزاروں بے گناہ اس ملک کی جیلوں میں صرف اس لیے سڑ رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس ضمانت کروانے کے پیسے بھی نہیں ہیں۔ اسی طرح بیماری کے باعث ایک شخص کو عدالتوں نے صرف اس لیے ضمانت دی کیونکہ اس کا شمار ملک کے امیر ترین افراد میں ہوتا ہے اور وہ حکمران طبقے کے ایک دھڑے کا حصہ ہے جبکہ جیلوں میں قید ہزاروں عام افراد صحت کی بنیادی سہولت سے بھی محروم ہیں لیکن عدلیہ کی نظر میں شاید وہ انسان نہیں بلکہ زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑے ہیں اس لیے ان پر انسانوں کے لیے بنائے جانے والے قانون لاگو نہیں ہوتے۔

دوسری جانب، ن لیگ کی جانب سے لگنے والے الزامات بھی اس حکومت اور اس میں موجود وزیروں کے کردار سے پردہ اٹھا رہے ہیں۔ ان کے مطابق جنرل مشرف کو سخت مقدموں کے باوجود ملک سے باہر جانے کی نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ ابھی تک اس کے خلاف کسی بھی قسم کا فیصلہ یا قانونی کاروائی نہیں کی گئی۔ یہ اس ملک کی عدلیہ اور ریاست کے عمومی کردار کے متعلق سب کچھ عیاں کرتا ہے۔ اسی طرح حکومت میں شامل کچھ افراد کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے ایک گھنٹے کے نوٹس پر نکالنے کے حقائق بھی سامنے لائے جا رہے ہیں۔ اس تمام عمل میں عدلیہ، احتساب عدالت اور بالعموم حکمران طبقے کا قانون کی جانب رویہ واضح ہوجاتا ہے۔ ڈھائی ہزار سال قبل یونان کے ایک فلسفی نے کہا تھا کہ قانون کی حیثیت مکڑی کے ایک جالے کی طرح ہے جس میں کمزور پھنس جاتے ہیں جبکہ طاقتور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔ آج اس ملک میں یہ واضح ہوچکا ہے کہ حکمران طبقے کے افراد کے لیے قانون ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں اور ان کا حتمی مقصد محنت کش عوام کی دولت کو لوٹنا اور ان کو نسل در نسل غلام بنائے رکھنا ہی ہے۔

اس ساری صورتحال میں واضح ہے کہ امیر اور غریب کے درمیان طبقاتی تفریق ختم کیے بغیر کوئی بھی آئین اور قانون انصاف فراہم نہیں کر سکتا اور نہ ہی کسی بھی قسم کا احتساب کیا جا سکتا ہے۔ احتساب کے اس عمل کے دوران بھی کئی متنازعہ فیصلے سامنے آئے ہیں جس میں خود نیب کے سربراہ پر جنسی ہراسگی جیسے سنگین الزامات لگ چکے ہیں لیکن اس پر کوئی بھی کاروائی منظر عام پر نہیں آ ئی۔ اسی طرح حکومت میں شامل اہم ترین افرادکس طرح چینی کی قیمتوں سے لے کر کھاد کی قیمتوں میں اضافے سے لوٹ مار کر رہے ہیں اور کسی طرح مختلف شعبوں میں دی جانے والی سبسڈیاں ان کی جیبوں میں جا رہی ہیں۔ لیکن اس کی خبریں بھی میڈیا پر نہیں آ سکتیں۔ اسی طرح ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ مار سے لے کر نجی بینکوں کے ہوشربا منافعوں کے پیچھے چھپے فراڈ بھی کبھی منظر عام پر نہیں آئے۔

یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ حقیقی احتساب کرنے کے لیے سب سے پہلے اس طبقاتی تفریق پر مبنی سماج کو ختم کرنا پڑے گا اور حکمران طبقے کی تمام تر دولت اور جائیدادیں ضبط کرتے ہوئے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دینا ہوں گی۔ اسی طرح سرمایہ دار طبقے اور سامراجی طاقتوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنی اس ریاست کو اکھاڑ کر اس کی جگہ ایک مزدور ریاست تعمیر کرنا ہوگی جس میں معیشت کے تمام کلیدی حصے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں ہوں۔ ایسا صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے جس کے بعد ہی ان مگر مچھوں کا حقیقی احتساب ہو سکتا ہے اور محنت کشوں کو انصاف کی فراہمی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔

Comments are closed.