پوری دنیا میں جنگوں اور خانہ جنگیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جس میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بنتے جا رہے ہیں۔ اس قتل عام کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام پر ہے جو پوری دنیا میں زوال پذیر ہے اور تاریخی طور پر متروک ہو چکا ہے۔ یہ نظام سماج کو آگے لے جانے اور ترقی دینے کی بجائے نسل انسان کے رستے کی رکاوٹ بن چکا ہے اور ہر طرف سماج کو بربادی میں دھکیل رہا ہے۔ لیکن اس نظام پر براجمان حکمران اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی بجائے ہر ممکن طریقے سے اس نظام اور اس کے تحت موجود اپنی حکمرانی کا دفاع کر رہے ہیں خواہ اس کے لیے انہیں لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ ہی کیوں نہ اتارنا پڑے۔
فلسطین پر اسرائیل کی جارحیت مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی اور جنگ بندی کے نام نہاد معاہدے کے باوجود اسرائیل فلسطین میں قتل و غارت اور خونریزی جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں یہاں لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اس سے کہیں زیادہ بے گھری اور بھوک کا شکار ہیں لیکن دنیا بھر کے حکمران اس بربریت کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ اسرائیل نے فلسطین کے علاوہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں جنگیں مسلط کر دی ہیں اور وہ مغربی سامراجی طاقتوں کی پشت پناہی سے اپنی بربریت کا دائرہ کار وسیع کرتا جا رہا ہے۔ لبنان، شام، یمن اور ایران کے بعد قطر میں اسرائیلی میزائلوں کے حملے نے واضح کر دیا ہے کہ یہ جنگیں ختم ہونے کی بجائے شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔
روس یوکرائن جنگ میں بھی لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ یوکرائن کی آبادی کا بڑا حصہ تباہی اور بربادی کا شکار ہوا ہے۔ یہ جنگ بھی اب پانچویں سال میں داخل ہونے جا رہی ہے۔ اس جنگ میں روس کو فیصلہ کن طور پر برتری حاصل ہے لیکن اس کے باوجود امن معاہدے اور جنگ کے ختم ہونے کے امکانات ابھی بھی واضح نہیں ہیں۔ اس جنگ کا موجودہ صورتحال میں خاتمہ ہو بھی جاتا ہے تو یورپ بہت سے نئے تنازعات اور لڑائیوں میں داخل ہو گا جس میں مغربی سامراجی ممالک اور روس کے سامراجی ابھار میں تضاد شدت اختیار کرتا چلا جائے گا۔ یورپ کے نیٹو ممالک کے حکمران روس کے اس نئے کردار کو تسلیم کرنے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں اور ہر ممکن طریقے سے اپنے سابقہ اسٹیٹس کو بچانے کی کوشش کریں گے۔ اس کے لیے پہلے ہی دفاعی اخراجات میں بڑے پیمانے پر اضافے کیے جا رہے ہیں جبکہ جرمنی میں بڑے پیمانے پر فوجی بھرتیوں کے عمل کا بھی آغاز ہو گیا ہے۔ یورپ میں اسلحے کی دوڑ کا بھی نیا آغاز ہوا ہے جس میں کمی کے امکانات موجود نہیں۔
اس وقت لاطینی امریکہ میں ایک نئی جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں جس میں امریکی بحری بیڑہ وینزویلا کے گرد گھیرا تنگ کرتا جا رہا ہے اور اس پر ایک جنگ مسلط کی جا رہی ہے۔ امریکی سامراج افغانستان میں ذلت آمیز شکست کھانے کے بعد یوکرائن کی جنگ میں بھی اپنی ساکھ بحال نہیں کر سکا اور اسے روس کے ہاتھوں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹرمپ کی مسلط کردہ تجارتی جنگ میں بھی چین کو شکست نہیں دی جا سکی بلکہ چین پہلے سے کئی گنا زیادہ مضبوط ہو کر ابھرا ہے۔ جاپان کی چین کو دی جانے والی دھمکیوں کو بھی سخت جواب ملا ہے اور تائیوان کے ایشو پر چین کے خلاف جنگ کی تیاریوں میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی کمزوریاں عیاں ہوئی ہیں۔ ایسے میں امریکی سامراج لاطینی امریکہ کے دفاع طور پر ایک کمزور ملک میں اپنی مرضی کی حکومت بنا کر دنیا پر ایک دفعہ پھر اپنی دھاک بٹھانا چاہتا ہے۔ اس حوالے سے ٹرمپ وینزویلا کے صدر ماڈورو پر دباؤ بڑھاتا جا رہا ہے اور اسے معزول کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ماڈورو سرمایہ دارانہ نظام سے بد ترین مصالحت کرنے کے باوجود اقتدار سے ہٹنے کے لیے تیار نہیں اور امریکی سامراج سے ٹکر لینے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایسے میں جہاں کشیدگی بڑھنے کے امکانات ہیں وہاں اس جنگی صورتحال کے مزید شدت اختیار کرنے کے امکانات بھی موجود ہیں جو خطے میں مزید پھیل سکتی ہے۔
مشرق بعید میں تھائی لینڈ اور کمبوڈیا میں ایک دفعہ پھر جنگ شروع ہو چکی ہے اور دونوں جانب پانچ لاکھ سے زائد افراد سرحدی علاقوں سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ افریقہ کے مختلف ممالک میں جنگیں اور خانہ جنگیاں بڑھ رہی ہیں جن میں سوڈان سر فہرست ہے جہاں خانہ جنگی میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ مغربی سوڈان میں آبادی کا ایک بڑا حصہ قحط سالی اور نقل مکانی کا شکار ہے۔ چند ماہ قبل انڈیا اور پاکستان بھی ایک چار روزہ جنگ کر چکے ہیں جس میں ایک دوسرے پر نیوکلئیر حملے کی انتہائی خطرناک دھمکیاں بھی جاری کی گئیں۔ آنے والے عرصے میں اس تنازعے کے پھر سے بھڑکنے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ پاکستان کے حکمران افغانستان پر بھی فضائی حملے کر چکے ہیں اور سرحدی جھڑپیں بھی وقتاً فوقتا ًجاری ہیں۔ آنے والے عرصے میں اس خطے سمیت دنیا بھر میں ایسی جنگوں کے بڑھنے کے امکانات ہیں گو کہ تیسری عالمی جنگ کے فوری طور پر کوئی امکان نہیں جس کی وجہ عالمی سطح پر طاقتوں کا توازن اور ایٹم بم جیسے ہتھیاروں کی موجودگی ہے۔
ان جنگوں میں درست سیاسی مؤقف اپنانا اور مزدور طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے سیاسی پروگرام کی تشکیل انتہائی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ جنگ کے دوران حکمران طبقہ اپنے تمام تر وسائل استعمال کرتے ہوئے اپنی حمایت کے لیے پراپیگنڈہ تیز کر دیتا ہے۔ رائج الوقت اکثر سیاسی پارٹیاں بھی حکمران طبقے کے مفادات کے تحت اپنے آپسی اختلافات پس پشت ڈال کر دشمن ملک کے خلاف یکجا ہو جاتی ہیں۔ قومی وحدت اور دفاع کا چورن بڑی مقدار میں فروخت کیا جا تا ہے اور ساتھ ہی عوام سے مزید قربانی بھی طلب کی جاتی ہے۔ جنگ کے اخراجات کا بوجھ عوام پر نئے ٹیکسوں کی شکل میں مسلط کیا جاتا ہے اور انہیں مزید غربت اور بربادی میں دھکیلا جاتا ہے۔ دوسری جانب سرمایہ دار طبقے کے منافعے آسمان کو چھوتے نظر آتے ہیں اور جنگی حالات میں منافع خوری، ذخیرہ اندوزی اور دیگر طریقوں سے سرمایہ دار عوام کو بدترین انداز میں لوٹتے ہیں۔ ایسے میں اکثر انقلابی اور مزدور طبقے کے مفادات کے ترجمان بھی اس پراپیگنڈے کا شکار ہو جاتے ہیں اور عبوری مرحلے کے طور پر حکمران طبقے کی خدمت اپنے پر فرض کر لیتے ہیں۔
درحقیقت یہی وہ وقت ہوتا ہے جب حکمران طبقے کے خلاف ایک فیصلہ کن مؤقف اختیار کیا جانا چاہیے اور اس کے عوام دشمن کردار کو بے نقاب کرتے ہوئے طبقاتی جنگ کی تیاری تیز کی جانی چاہیے۔ اکثر اوقات جنگیں انقلابی تحریکوں کو بھی جنم دیتی ہیں اور محنت کش طبقے کو فیصلہ کن بغاوت پر اکساتی ہیں۔ ایسے میں درست سیاسی پروگرام اور مؤقف انقلابی قوتوں کو عوامی حمایت حاصل کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے جبکہ غلط تناظر اور مؤقف انہیں عوام دشمن قوتوں کی صف میں لا کھڑا کرتا ہے۔ انقلابی کمیونسٹ ایسی جنگوں کے دوران کبھی بھی سماج کی طبقاتی تقسیم کو نظر انداز نہیں کرتے بلکہ اسے زیادہ واضح انداز میں سامنے لاتے ہیں اور ایسے نعرے اور سیاسی پروگرام ترتیب دیتے ہیں جن میں ان سامراجی جنگوں کے پس پردہ موجود حکمران طبقے کے عزائم اور ان کے مفادات کو بے نقاب کیا جا سکے۔ ان جنگوں کے دوران سیاسی اور سماجی صورتحال بھی تیزی سے نئے موڑ لیتی ہے اور عوامی رائے عامہ بھی ایک سے دوسری جانب تیزی سے تبدیل ہوتی نظر آتی ہے۔ ایسے میں انقلابی کمیونسٹ حالات کے تھپیڑوں کے رحم و کرم پر رہنے اور واقعات سے پیچھے چلنے کی بجائے مستقبل کی درست پیش بینی کرتے ہیں اور سائنسی بنیادوں پر سماج کا تجزیہ کرتے ہوئے انقلابی قوتوں کی تعمیر کے لیے درست تناظر تخلیق کرتے ہیں۔ آج کے حالات میں انقلابی کمیونسٹوں کے فرائض اس حوالے سے مزید بڑھ چکے ہیں اور جہاں حالیہ سالوں میں ان کے تناظر درست ثابت ہوئے وہاں ان کی ذمہ داری آنے والے عرصے کے لیے مزید بڑھ چکی ہے۔ یہ بات آج پہلے سے بھی زیادہ واضح ہو چکی ہے کہ ان سامراجی جنگوں کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام ہے اور اس کا خاتمہ کیے بغیر ان جنگوں کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ہر خطے اور پھر دنیا بھر میں حقیقی امن قائم کیا جا سکتا ہے جو نسل انسان کو تعمیر و ترقی کے ایک نئے دور کی جانب لے جائے گا۔



















In defence of Marxism!
Marxist Archives
Progressive Youth Alliance