اگیگا احتجاج خیبرپختونخوا: آگے کیسے لڑا جائے؟

28 جولائی کو آل گورنمنٹ ایمپلائیز گرینڈ الائنس (اگیگا) خیبرپختونخوا کی جانب سے پشاور میں صوبائی اسمبلی ہال کے سامنے احتجاجی دھرنا شروع کیا گیا، جو 31 جولائی تک جاری رہا۔ احتجاج میں شامل سرکاری ملازمین کے بنیادی مطالبات میں وفاقی حکومت کی طرز پر صوبائی ملازمین کو 30 فیصد ڈسپیریٹی ریڈکشن الاؤنس کی فراہمی، سرکاری اداروں کی نجکاری کا خاتمہ، اور دیگر مسائل کا حل شامل تھا۔

31 جولائی کو اُس وقت ریاستی طاقت کا استعمال کیا گیا جب احتجاجی ملازمین صوبائی اسمبلی ہال کی جانب مارچ کر رہے تھے۔ پولیس کی جانب سے مظاہرین پر شدید آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی، لاٹھی چارج کیا گیا، اور درجنوں ملازمین کو گرفتار کر لیا گیا۔

اس واقعے کے بعد اگیگا کی قیادت نے اسٹیج سے اچانک اور جلد بازی میں احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیا، حالانکہ نیچے موجود ملازمین کی اکثریت احتجاج ختم کرنے کے حق میں نہیں تھی۔ اس اعلان پر کارکنان میں شدید اشتعال پیدا ہوا، اور بعض افراد کی جانب سے اگیگا کی قیادت پر جوتے اور بوتلیں بھی پھینکی گئیں۔ اگیگا قیادت کا مؤقف تھا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات ہو چکے ہیں اور 7 اگست کو اس حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی ریاستی جبر کی شدید مذمت کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ ملازمین کے تمام مطالبات کو فی الفور تسلیم کیا جائے۔

ہمیں اگیگا (آل گورنمنٹ ایمپلائیز گرینڈ الائنس) کے قیام اور گزشتہ 6 سے7 سالوں میں سرکاری ملازمین کی مختلف تحریکوں کا سنجیدہ جائزہ لینا ہوگا تاکہ یہ بہتر طور پر سمجھا جا سکے کہ ریاستی جبر کا مقابلہ کیسے کیا جائے اور اپنے مطالبات منوانے کے لیے آئندہ کیا حکمت عملی اپنائی جائے۔

10 فروری 2021ء کو اگیگا نے اسلام آباد میں ملک گیر احتجاج کی کال دی، جس میں ملک بھر سے ہزاروں ملازمین نے بھرپور شرکت کی۔ اس وقت کی حکومت نے اس پر بدترین جبر کیا، مگر اس کے باوجود احتجاجوں کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ وقتاً فوقتاً اگیگا کے تحت اور دیگر تنظیموں کی جانب سے بھی سرکاری ملازمین اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر آتے رہے۔

خیبرپختونخوا میں ایپٹا (آل پرائمری اسکول ٹیچرز ایسوسی ایشن) کی جانب سے اپ گریڈیشن کے مطالبے پر بڑے پیمانے پر احتجاج اور دھرنے دیے گئے۔ ہر بار ریاست نے طاقت کے استعمال سے جواب دیا۔ جب بھی دھرنا فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوتا، قیادت حکومت سے مذاکرات کر کے احتجاج ختم کرنے کا اعلان کر دیتی۔ حکومت کی جانب سے بارہا مسائل کے حل کے لیے کمیٹیاں بنانے کا وعدہ کیا گیا، لیکن ہر بار یہ وعدے وفا نہ ہو سکے۔

اس پس منظر میں، جب ملازمین حالیہ دھرنے کے لیے 28 جولائی کو پشاور پہنچے، تو وہ اس عزم کے ساتھ آئے کہ اپنے مطالبات کی منظوری کے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ پشاور کی شدید گرمی اور سخت حالات کے باوجود ملازمین نے مسلسل چار دن تک جرات مندانہ دھرنا دیا۔ اس لیے جب قیادت نے بغیر کسی ٹھوس نتیجے کے اچانک دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا، تو ملازمین نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔

پچھلے عرصے میں محنت کشوں نے اتحاد کی طاقت کے بلبوتے پرحکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور بھی کیا، لیکن کچھ حاصلات کے باوجود محنت کشوں پر حملے اتنے ہوئے ہیں کہ وہ ایک کاری ضرب لگانے کی طرف مائل ہورہے ہیں۔ایسے میں اگیگا کی قیادت بد قسمتی سے درکارجرات اور درست لائح عمل سے عاری نظر آئی ہے۔ لہٰذا اگیگا کی قیادت اور عام محنت کشوں کے لڑاکا پن میں ایک بڑی خلیج موجود ہے۔

اسی دوران ہم نے دیکھا کہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی شاندار احتجاجی تحریکیں جاری رہیں۔ پنجاب میں گرینڈ ہیلتھ الائنس نے کام بند کر کے بھرپور احتجاج کیا، جو کئی دن جاری رہا۔ بلوچستان میں بھی جون کے مہینے میں بلوچستان گرینڈ الائنس کی قیادت میں مؤثر مظاہرے ہوئے۔ سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نرسنگ تنظیموں اور ایسوسی ایشنز نے احتجاجی سرگرمیاں کیں، جبکہ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کی جانب سے بھی وقتاً فوقتاً مظاہرے ہوتے رہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز کے ملازمین نے بھی اپنے مطالبات کے لیے بڑے پیمانے پر احتجاج کیے۔

علاوہ ازیں، طلبہ، بے روزگار نوجوان، اور عوام مہنگائی، لوڈشیڈنگ، نجکاری اور دیگر مسائل کے خلاف سڑکوں پر نظر آئے۔ یہ تمام مظاہرے اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ مسئلہ صرف خیبرپختونخوا یا کسی ایک شعبے تک محدود نہیں رہا، بلکہ پورے ملک میں سرکاری ملازمین اور عوامی اداروں کے محنت کش سراپا احتجاج ہیں۔

کبھی الاؤنسز اور تنخواہوں میں اضافے نہ ہونے پر ہڑتالیں کی جا رہی ہیں، تو کبھی بجٹ کٹوتیوں اور نجکاری کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ مہنگائی الاؤنس، مستقل ملازمتوں کی بحالی اور دیگر بنیادی مطالبات ہر جگہ اٹھائے جا رہے ہیں۔

ہم نے آزاد کشمیر میں ایک مؤثر اور کامیاب عوامی تحریک دیکھی، جس میں محنت کش عوام نے عوامی ایکشن کمیٹیوں کے ذریعے آٹے اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کروائی، اور یہ تحریک ابھی دیگر مطالبات کے لیے جاری ہے۔ گلگت بلتستان میں بھی ایسی ہی تحریک وجود میں آ چکی ہے۔ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی اور فوجی آپریشنوں کے خلاف لاکھوں محنت کش عوام سراپا احتجاج ہیں، جبکہ بلوچستان میں ریاستی جبر اور لاپتہ افراد کے مسئلے پر مسلسل تحریک جاری ہے۔ سندھ میں بھی دریائے سندھ پر نئی نہریں بنانے اور کارپوریٹ فارمنگ کے خلاف سیاسی بیداری اورشاندار عوامی ردعمل سامنے آیا ہے۔

یہ تمام تحریکیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ملک گیر سطح پر ایک طرف محنت کش طبقہ بجٹ کٹوتیوں، نجکاری اور معاشی حملوں کا شکار ہے، جو عالمی مالیاتی اداروں اور مقامی سرمایہ داروں کی پالیسیوں کے تحت نافذ کیے جا رہے ہیں، جبکہ دوسری طرف دہشت گردی، مہنگائی اور دیگر مسائل کے حوالے سے بھی تحریکیں موجود ہیں۔لہٰذاان تمام مظاہر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ موجودہ حالات کسی ایک صوبے یا مسئلے تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک ملک گیر بحران کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ تمام ملازمین اور محنت کش عوام متحد ہو کر مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں، جس میں ریاستی جبر کا منظم مقابلہ بھی شامل ہو اور مطالبات کی منظوری کے لیے فیصلہ کن اقدامات بھی۔

اس وقت عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام ایک شدید اور گہرے بحران کا شکار ہے۔ یہ بحران، خصوصاً پاکستان جیسے ملکوں پر نہایت تباہ کن انداز میں اثر انداز ہو رہا ہے۔ پاکستان کی معیشت مسلسل زوال کا شکار ہے، اور حکمران طبقے کے تمام ”استحکام“ کے دعوے جھوٹ اور فریب پر مبنی ثابت ہو چکے ہیں۔

آئی ایم ایف اور عالمی سامراجی مالیاتی اداروں کی ایماء پراس بحران کا سارا بوجھ محنت کش طبقے پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ تنخواہوں میں کٹوتیوں، پنشن کے خاتمے، مستقل روزگار کے امکانات کے خاتمے، بیروزگاری میں اضافہ، سرکاری اداروں کی تیزی سے نجکاری، اور ملک کی قیمتی معدنیات کو سامراجی کمپنیوں کے ہاتھوں کوڑیوں کے مول فروخت کرنے کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ حملے مزید شدید ہوں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ محنت کش طبقہ ان حملوں کے خلاف منظم اور مربوط تیاری کرے۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی ملک بھر کے محنت کشوں، سرکاری ملازمین، مزدور تنظیموں اور عوامی تحریکوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ ریاستی جبر اور معاشی حملوں کے خلاف متحد ہو کر جدوجہد کریں۔ اس جدوجہد کو مؤثر بنانے کے لیے فوری طور پر ملک گیر سطح پر کوارڈینیشن کمیٹیاں تشکیل دی جائیں، جو تمام ٹریڈ یونینز، محنت کشوں کی تنظیموں اور مزاحمتی تحریکوں کے درمیان رابطے کا فریضہ انجام دیں۔

مطالبات کو محدود رکھنے کی بجائے تمام محنت کش طبقے کے مسائل اور مطالبات کو شامل کیا جائے، اور ایک منظم، مربوط اور فیصلہ کن ملک گیر عام ہڑتال کی تیاری کی جائے۔

پاکستان کے تمام ادارے، صنعتیں اور سروسز محنت کشوں کی محنت سے چلتی ہیں۔ اگر محنت کش طبقہ متحد ہو کر ایک دن پورے ملک میں تمام ادارے بند کر دے، واپڈا کے ملازمین بجلی کی فراہمی روک دیں، ٹرانسپورٹ کے محنت کش مال برداری سے انکار کر دیں، ریلوے ملازمین ریل کا پہیہ روک دیں، فیکٹری ورکرز پیداواری عمل بند کر دیں، اور طبی عملہ کام چھوڑ دے، تو حکمران طبقہ مفلوج ہو کر رہ جائے گا۔

ایسے میں ریاست اور حکمران طبقہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ جب ملازمین اداروں کو بند کر دیتے ہیں تو سارا حکمران طبقہ مل کر بھی ان اداروں کو نہیں چلا سکتا۔جب ادارے بند ہو جاتے ہیں تو ریاست، اپنے تمام وسائل کے باوجود، انہیں نہیں چلا سکتی۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب محنت کش طبقہ صرف معاشی مطالبات پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ سیاسی مطالبات اور حکمرانی کے حق پر سوال اٹھانا شروع کرتا ہے۔

اگر اس ملک کو چلانے والا طبقہ محنت کش ہے، تو پھر حکمرانی کا حق بھی محنت کش طبقے کا ہونا چاہیے۔ نہ کہ ان سرمایہ داروں، جاگیرداروں، سیاستدانوں،بیوریکریٹوں،ججوں اور جرنیلوں کا جن کی عیاشیاں اور اللے تللے مسلسل بڑھتے جارہے ہیں، مفت سہولیات، اور کرپشن کے ذریعے اربوں روپے ہڑپ کرتے ہیں، مگر جب مزدور کی بات آتی ہے تو ”خزانہ خالی“ کا راگ الاپتے ہیں۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی ایک بار پھر تمام محنت کشوں، ملازمین، طلبہ، بیروزگار نوجوانوں، خواتین، اور مظلوم قومیتوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ اس استحصالی ریاست اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف مشترکہ اور منظم جدوجہد کریں۔ ہمارا مؤقف واضح ہے:

فیصلہ کن انقلابی جدوجہد کے بغیر، اس نظام سے نجات ممکن نہیں۔

وقت آ چکا ہے کہ ہم ایک ملک گیر انقلابی مزدور تحریک کی بنیاد رکھیں، جو نہ صرف معاشی انصاف کا تقاضا کرے بلکہ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کا خاتمہ کر کے مزدور راج قائم کرے۔

یہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے خیبرپختونخوا، بلوچستان، سندھ، پنجاب، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور پورے ملک کے محنت کشوں کو انصاف، وقار اور ان کے حقوق دلائے جا سکتے ہیں۔ اور صرف یہیں نہیں، بلکہ دنیا بھر کے محنت کش عوام کے لیے ایک انقلابی مثال قائم کی جا سکتی ہے۔

 

Comments are closed.