کمیونسٹ سے پوچھیے! انقلابی پرولتاری پارٹی کے لیے مرکزیت کیوں ضروری ہے؟

مارکسزم لینن ازم یا سائنسی سوشلزم کو طبقاتی جنگ اور محنت کش طبقے کی نجات کے انقلابی نظریے کی بجائے محض ایک اکیڈیمک بحث مباحثہ سمجھنے والے پروفیسر وں اور دیگر ”پڑھے لکھے“ مڈل کلاس خواتین و حضرات کو ہمیشہ سے انقلابی پرولتاری پارٹی کے آہنی ڈسپلن اور مرکزیت پر مبنی ڈھانچے پر شدید اعتراضات رہے ہیں۔ ان کی جانب سے ہمیشہ انقلابی پرولتاری پارٹی کے تنظیمی طریقہ کار پر ”ڈکٹیٹر شپ“ ہونے جیسے بیہودہ الزامات کی بوچھاڑ کی گئی ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ پارٹی کو ایک ڈھیلے ڈھالے”جمہوری“ طریقے سے چلایا جائے، جس میں ہر ممبر اپنی من مانی کرنے کے لیے ”آزاد“ ہو۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نہ تو ان عناصر کا محنت کش طبقے کے انقلابی پوٹینشیل پر کوئی سائنسی یقین ہوتا ہے اور نہ ہی یہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام و ریاست کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ان کی نام نہاد ترقی پسندی اور ریڈیکل ازم کا اصل مدعا سوشلسٹ لفاظی کا استعمال کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام میں محض کچھ اصلاحات کی وکالت کرنا ہوتا ہے تا کہ اسے مبینہ طور پر ”عوام دوست“ بنایا جا سکے۔ طبقاتی جنگ، محنت کش طبقے کی انقلابی تحریک اورمسلح سرکشی، اقتدار پر مسلح محنت کش طبقے کا قبضہ، بزور طاقت سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ ریاست کا خاتمہ، یہ تمام خیالات جو مارکسزم لینن ازم کا انقلابی جوہر ہیں، نہ صرف ان عناصر کے لیے بالکل اجنبی ہوتے ہیں بلکہ یہ دل ہی دل میں ان سے شدید خوف کھاتے ہیں۔

اس کے برعکس طبقاتی شعور یافتہ محنت کش اور کمیونسٹ بخوبی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ تاریخ میں آج تک کبھی بھی کسی حکمران طبقے نے اپنے اقتدار، مراعات اور نجی ملکیت کو رضاکارانہ طور پر نہیں چھوڑا بلکہ مظلوم و محروم طبقات نے ہمیشہ ایک طبقاتی جنگ اور انقلاب کے ذریعے انہیں ان کے اقتدار اور ملکیت سے بے دخل کیا ہے۔ بلکہ یہ سب تو ایک طرف رہ گیا، حکمران طبقے سے تو چھوٹی چھوٹی اصلاحات جیتنے کے لیے بھی مظلوم و محروم طبقات کو ہمیشہ شدید جدوجہد کرنا پڑی ہے۔ دوسری طرف حکمران طبقہ بھی سماج میں موجود طبقاتی تضاد اور ٹکراؤ سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے۔ لہٰذا حکمران طبقہ نہ صرف بذات خود مسلح اور منظم ہوتا ہے بلکہ اس کے پاس محروم طبقات کو بزور طاقت دبائے رکھنے کے لیے ریاست کا مسلح و منظم ادارہ بھی موجود ہوتا ہے جو سماج میں تشدد پر اجارہ داری رکھتا ہے۔ غالباً یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ تشدد ہمیشہ حکمران طبقات کے حق میں اور مظلوم و محروم طبقات کیخلاف کیا جاتا ہے۔ اگر ہم ایک سرمایہ دارانہ ریاست کی بات کریں تو اس کی فوج، پولیس، انٹیلی جنس، جیل خانہ جات، عدلیہ، سول افسر شاہی غرض تمام مسلح، قانونی و انتظامی اداروں کا مقصد سرمایہ دار حکمران طبقے کے اقتدار، نجی ملکیت اور مفادات کا بزور طاقت تحفظ کرنا ہوتا ہے۔ یہ تمام ادارے انتہائی منظم اور پیشہ ور ہوتے ہیں۔لیکن بات صرف یہاں پر ہی نہیں رکتی۔ ان مسلح اداروں کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ ریاست کے پاس اپنے رد انقلابی نظریات اور اخلاقیات کا پراپیگنڈہ کرنے کے لیے تعلیمی اداروں سے لیکر میڈیا انڈسٹری تک ایک پورا سیٹ اپ موجود ہوتا ہے جو بظاہر ”جمہوری“ دکھنے کے باوجود درحقیقت انتہائی آمرانہ اور منظم ہوتا ہے۔ سرکاری طور پر طے شدہ تعلیمی نصاب کی حدود و قیود اور میڈیا کو ریاست و حکمران طبقے سے ملنے والی ”عمومی لائن“ سے یہاں کون واقف نہیں۔

تو کیا ایسی منظم قوت کا مقابلہ کسی ڈھیلے ڈھالے ڈسپلن اور شتر بے مہار ”جمہوریت“ کیساتھ کیا جا سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ کھلی طبقاتی لڑائی اور انقلاب تو ایک طرف، اس سے قبل کے نام نہاد زمانہ امن میں محنت کش طبقے کو تمام مشکلات اور رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے منظم کرنے اور سوشلسٹ نظریات کی ترویج کا کٹھن کام بھی انقلابی پارٹی میں آہنی ڈسپلن اور مرکزیت کے بغیر ناممکن ہے۔ یہاں تک کہ ڈسپلن اور مرکزیت کے بغیر تو ٹریڈ یونین سطح تک کی کوئی لڑائی کامیابی کیساتھ نہیں لڑی جا سکتی اور مڈل کلاس دانشوروں کے برعکس کوئی بھی لڑاکا ٹریڈ یونین ممبر اس حقیقت کو بخوبی سمجھتا ہے۔ اسی طرح ایک پرولتاری انقلابی پارٹی کو مخصوص معروضی و موضوعی صورتحال کی مناسبت سے ہمیشہ حکمران طبقے اور ریاست کی جانب سے حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ حملے ہزار طریقوں اور حیلے بہانوں سے کیے جاتے ہیں، کبھی کھلے عام تو کبھی ڈھکے چھپے انداز میں۔ ان تمام حملوں سے پارٹی کا دفاع بھی سخت گیر ڈسپلن اور مرکزیت کا متقاضی ہوتا ہے اور ان کی عدم موجودگی فیصلہ کن وقت سے کہیں پہلے ہی پارٹی کو عملاً تباہ و برباد کر کے رکھ دے گی۔

تو پھر کیا ایک انقلابی پرولتاری پارٹی میں جمہوریت کی کوئی گنجائش نہیں؟ نہیں، مڈل کلاس دانشوروں کے گھٹیا پراپیگنڈے کے برعکس ایسا ہرگز نہیں۔ انقلابی پارٹی اپنے اداروں میں سیاسی، نظریاتی اور تنظیمی بحث و مباحثے کی بھرپور اجازت دیتی ہے اور ہر ممبر کو متعلقہ ادارے میں اپنی رائے رکھنے کی مکمل آزادی دیتی ہے۔ لیکن ایک مرتبہ جب کسی ادارے میں بھرپور بحث مباحثے کے بعد اکثریتی اتفاق رائے کیساتھ کوئی فیصلہ ہو جائے تو پورے انقلابی ڈسپلن کیساتھ اس کی پابندی ہر ایک پر لازمی ہوتی ہے، ان پر بھی جو بحث کے دوران اس نقطہ نظر سے متفق نہیں تھے۔ اسی طرح جہاں پارٹی کے زیریں ادارے، بالا اداروں کو کسی بھی معاملے پر اپنی رائے سے آگاہ کر سکتے ہیں وہیں زیریں اداروں پر بالا اداروں میں ہونے والے فیصلوں کی پابندی کرنا لازمی ہے۔ یوں اداروں میں بحث مباحثے اور اختلاف رائے کی جمہوری آزادی لیکن عمل میں مرکزیت پسند آہنی وحدت یعنی جمہوری مرکزیت ہی ایک انقلابی پرولتاری یا کمیونسٹ پارٹی کا راہنما تنظیمی اصول ہوتا ہے۔

تنظیم کاری کے اسی لینن اسٹ طریقے کے تحت ایک انقلابی پرولتاری پارٹی میں کسی فرد واحد کی اجارہ داری نہیں ہوتی بلکہ ادارہ جاتی مرکزیت اور ڈسپلن لاگو ہوتا ہے۔ اس کے برعکس دن رات انقلابی کمیونسٹوں کو ”ڈکٹیٹر شپ“ کا طعنہ دینے والی نام نہاد شتر بے مہار جمہوریت اور ”فرد کی آزادی“ کی قائل اصلاح پسند اور بورژوا پارٹیوں میں چونکہ کوئی خاص ادارے اور طے شدہ ڈسپلن نہیں ہوتا لہٰذا وہاں نام نہاد آزادی کے پردے میں درحقیقت کسی طاقتور فرد واحد یا خاندان کی آمریت قائم ہوجاتی ہے۔ پاکستان میں رائج الوقت بورژوا سیاسی پارٹیوں سے لیکر یہاں کے نام نہاد بائیں بازو پر ایک سرسری سی نظر ہی اس حقیقت کو آشکار کرنے کے لیے کافی ہے۔

مزید برآں یہ امر بھی ملحوظ خاطر رہے کہ عمومی غلط فہمی کے برعکس مزدور ریاست میں رائج سوویت جمہوریت، جس میں منتخب کرنے والوں کے پاس منتخب شدہ نمائندوں کو کسی بھی وقت واپس بلائے جانے کا اختیار ہوتا ہے، اور اس مزدور ریاست کی تخلیق کے لیے درکار اوزار یعنی انقلابی پرولتاری پارٹی میں رائج جمہوری مرکزیت ایک ہی چیز نہیں ہیں۔ اسی طرح مخالف طبقات پر مکمل طور پر قابو پانے اور پیداواری افراط کے ذریعے قلت کے خاتمے کی طرف بڑھتے ایک غیر طبقاتی سماج میں تحلیل ہوتی ہوئی مزدور ریاست میں رائج لینن اسٹ نعرے ’ایک باورچی وزیر اعظم بن سکتا ہے اور وزیر اعظم باورچی بن سکتا ہے‘ کا اطلاق سرمایہ دارانہ سماج کے انتہائی کٹھن حالات میں چاروں طرف سے طبقاتی دشمنوں میں گھری چومکھی لڑتی انقلابی پرولتاری پارٹی پر نہیں ہوتا اور پارٹی میں کسی بھی سطح پر قیادت میں آنے کا اہل وہی ہوتا ہے جو اپنی سیاسی و نظریاتی اتھارٹی، طویل ثابت قدم جدوجہد، انقلابی ڈسپلن کی سخت گیر پابندی اور ذاتی قربانیوں کیساتھ اپنی اہلیت و قابلیت ثابت کرتا ہے۔

بات کو سمیٹتے ہوئے ہم یہی کہیں گے کہ مارکس، اینگلز،لینن اور ٹراٹسکی کے دور سے لیکر آج تک انقلابی کمیونسٹوں پر درمیانے طبقے کے غیر سنجیدہ عناصر کی جانب سے جمہوری مرکزیت کے حوالے سے مختلف قسم کی الزام تراشی اور بہتان بازی ہوتی رہی ہے لیکن ہمارے نزدیک ان عناصر کی اوقات سرمایہ دار حکمران طبقے اور ریاست کے شعوری یا لاشعوری ایجنٹوں سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ ہم طبقاتی سماج کی دلدل میں ٹراتے ان مینڈکوں پر وقت ضائع کیے بغیر محنت کش طبقے کی حتمی کمیونسٹ فتح پر پختہ سائنسی یقین کیساتھ مضبوطی سے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد میں آگے سے آگے بڑھتے جائیں گے۔


فتح کی سمت متحد۔۔ بڑھے چلو! بڑھے چلو!

 

Comments are closed.