خوشنما تصویروں کے پیچھے خوفناک جبر اور لوٹ: پنجاب حکومت کی عوام دشمنی اور لوٹ مار کے نئے ریکارڈ

آج کل آپ جب اپنے کام پر، روزگار کی تلاش کیلئے یا سکول و کالج کیلئے سڑکوں پر نکلتے ہیں تو ہر طرف مریم نواز کا چہرہ ہی بل بورڈز پر سجا ہوتا ہے۔ یا پھر ہر اخبار پر پنجاب حکومت کی ترقی کے گن گائے جا رہے ہوتے ہیں، یوں معلوم ہوتا ہے گویا راوی سے اب دودھ کی نہر نکلنے والی ہے اور جنتِ ارضی کی بنیاد رکھ دی گئی ہے، اور اب پورے صوبے میں ماحولیات کے مسائل سے لیکر تعلیم، روزگار اور صحت جیسے بنیادی مسائل ختم ہو رہے ہیں۔ لیکن ایسا بالکل بھی نہیں، مریم نواز کی اس تصویر کے پیچھے عوام دشمنی اور لوٹ مار سے اٹا ایک حقیقی چہرہ موجود ہے اور اس چہرے کو آپ میک اپ سے سنوار نہیں سکتے۔

عمران خان کے دورِ حکومت میں پنجاب کے پرائمری سکولوں اور ہسپتالوں کو سستے داموں بیچنے کا عمل شروع ہو چکا تھا اس کے علاوہ ”راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی“ کے تحت راوی کے کنارے زرخیز زمین کی جگہ ہاؤسنگ سوسائیٹز بنانی تھی۔ یہ سارے پراجیکٹ عمران کی حکومت کو بھی ورثے میں ملے تھے اور ان کے پیچھے آئی ایم ایف کی پالیسیاں تھیں جنہیں عمران خان نے بھی دل و جان سے قبول کیا اور اس کے بعد مریم نواز نے انہیں اپنے گلے کا ہار سمجھ کے پہنا۔

اس دوران راوی کے کنارے دریا کی زمین پر بے تحاشا ہاؤسنگ سوسائٹیاں تعمیر کی گئیں اور حالیہ سیلاب میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ علیم خان کی ہاؤسنگ سوسائٹی کو بچانے کے لیے کئی دیہات قربان کر دیے گئے۔ اس سیلاب نے ایک اور تلخ حقیقت بھی اجاگر کی کہ جہاں لوگ بے گھر ہوئے اور اپنا سب کچھ کھو بیٹھے، وہاں ان پر بجلی کے بل بھی مسلط کیے گئے۔ مریم نواز کی ”ہمدردی“ بھی اسی سیلاب میں عیاں ہو گئی ہے۔ اگر واقعی ہمدردی ہوتی تو متاثرینِ سیلاب کو بجلی، تعلیم اور خوراک مفت فراہم کی جاتی۔ لیکن ایسا ممکن نہیں، کیونکہ بجلی کے بلوں کے پیچھے آئی پی پیز کی اجارہ داری ہے اور ان کے پیچھے آئی ایم ایف کے احکامات ہیں۔ اس خطے کا حکمران طبقہ، جس میں مریم نواز بھی شامل ہیں، آئی ایم ایف کے خلاف جانے کو گناہ کبیرہ اور اس کے احکامات پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔

مریم نواز کی ظالمانہ پالیسیوں میں ایک انتہائی بھیانک کردار سی سی ڈی کے نام سے ایک نئی پولیس کا قیام ہے جو بظاہر جرائم کی روک تھام کے لیے بنائی گئی ہے لیکن اس ملک کے تمام شہری جانتے ہیں کہ پولیس خود جرائم پھیلانے اور بھتہ خوری کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس نئی پولیس کے قیام کے ساتھ ہی اس پر ماورائے عدالت قتل وغارت کے الزام لگ چکے ہیں۔ یہ عمل اس سے پہلے شہباز شریف کے دور حکومت میں بھی بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا تھا تاکہ حکمران طبقے کی دہشت عوام پر مسلط کی جائے۔ اس عمل سے اس نظام کی عدالتوں اور انصاف کے اداروں کی حقیقت بے نقاب ہوجاتی ہے جو مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی صلاحیت کب کی کھو چکے ہیں اور اب حکمران طبقہ اپنی دہشت پھیلانے کے لیے یہ حربے استعمال کر رہا ہے۔ اپنے قیام کے کچھ مہینوں بعد تک ہی یہ پولیس سینکڑوں ماورائے عدالت قتل کر چکی ہے، جس میں بے گناہوں کے قتل کے بھی بہت سے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔اس نظام میں جرائم کی روک تھام ممکن نہیں بلکہ سماجی بدحالی اور مالیاتی بحران کے باعث ان میں مزید اضافہ ہوگا۔ جرائم کو ختم کرنے کے لیے ان کی جڑ سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنا ہو گا۔

صحت کے شعبے کی تعمیر پر اگر بات کی جائے تو گزشتہ ماہ پہلے شعبہ صحت کے ملازمین نے ایک ماہ تک پنجاب اسمبلی کے باہر دھرنا دیا جن کا مطالبہ یہ تھا کہ پنجاب کے چھوٹے اضلاع جہاں کوئی بڑا ہسپتال نہیں اور علاج کیلئے بنیادی صحت مراکز اور رورل ہیلتھ یونٹ ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے اور سینکڑوں ملازمین اس شعبے کے ساتھ منسلک ہیں تو ایسی صورتحال میں جہاں مزید بڑے ہسپتالوں کی ضرورت ہے وہاں ان بنیادی صحت کے مراکز کو سستے داموں فروخت کرنا کونسی عوامی ہمدردی ہے اور دوسری طرف لاکھوں کے حساب سے نوجوان ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں وہاں صحت کے 37 ہزار ملازمین کو نوکریوں سے نکال دیا گیا۔

آؤٹ سورس ہونے والے یہ صحت کے مراکز کو مریم نواز ہیلتھ کلینک/سنٹرز کا نام دیا گیا ہے جہاں ٹھیکیدار کی جانب سے پیسے بچانے کیلئے مریضوں کو غیر معیاری و گھٹیا ادویات فراہم کی جارہی ہیں، اور جعلی علاج کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ یہ علاج کرنے والے نہیں، یہ تاجر ہیں، اور مریض ان کیلئے کاروبار ہیں۔ یعنی جیسے ہسپتالوں کے نام ہیں ویسے ہسپتالوں کی صورتحال ہے۔

اب 1132 بنیادی ہیلتھ مراکز کی نجکاری ہو چکی ہے اور رواں مالی سال 2025-26ء تک تمام ہیلتھ مراکز کو سستے داموں ٹھیکداروں کو بیچ دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ بہاول وکٹوریا ہسپتال بہاولپور، ڈیرہ غازی خان ٹیچنگ ہسپتال، شیخ زید ہسپتال رحیم یار خان، ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال، چلڈرن ہسپتال فیصل آباد، جناح ہسپتال لاہورکو بھی آؤٹ سورس کیا جارہا ہے اور اس کے علاوہ ان شعبوں میں جنہیں نجی شعبے کو آؤٹ سورس کیا گیا ہے، انیستھیزیا (anesthesia)، ایمرجنسی، بلڈ ٹرانسفیوژن، بچوں کی ایمرجنسی، اور گردہ (kidney) ڈیپارٹمنٹس شامل ہیں۔

اس سب میں مریم نواز کا حقیقی چہرہ سب کے سامنے ظاہر ہوا ہے جو کہ مزدور دشمن اور ظالم چہرہ ہے۔ جسے اشتہارات کی صورت میں عوام دوست بنانے کی جدوجہد کی جا رہی ہے۔ محنت کش عوام کیلئے علاج جیسی سہولت کو بھی ختم کیا جارہا ہے۔ اور ہزاروں کی تعداد میں ڈاکٹرز، پیرامیڈیکس اور دیگر ملازمین کو نوکریوں سے نکال دیا گیا۔

اس کے علاوہ پرائمری سکولوں کو بھی آؤٹ سورس کیا گیا ہے یعنی مریم نواز کے مطابق یہاں کی محنت کش عوام کے پاس کوئی بھی بنیادی سہولت نہیں ہونی چاہیے۔ ہزاروں اساتذہ کی نوکریاں بھی ختم کر دی گئی ہیں اور بچوں کو تعلیم سے محروم رکھا جا رہا اور مہنگائی کے سبب آج پنجاب میں خاص طور پر صنعتی شعبوں میں بڑی تعداد میں بچے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ مریم نواز کے اس گھناؤنے چہرے کے پیچھے کی سوچ یہ بتاتی ہے یہاں کے بچوں کو تعلیم کی بجائے سرمایہ داروں کی عیاشیوں کا ایندھن بننا چاہیے کیونکہ یہ سب حکمران سرمایہ داروں اور اس منافع کے نظام کے ہی پیروکار ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق پنجاب میں 5 سے 17 سال کے درمیان 6 ملین بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں جس میں گھریلو ملازم سے لیکر صنعتی ملازمت شامل ہے اور ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا یہ آجکل سوشل میڈیا پر آئے روز دیکھنے کو ملتا ہے۔ دوسری جانب بیروزگاری کی وجہ سے 2024-25ء کے دوران 4 لاکھ 4 ہزار 345 افراد نے بیرون ملک ہجرت کی۔

ان سب اعداد و شمار کے مطابق اگر پنجاب حکومت کی کارکردگی اور ترقی پر بات کی جائے تو وہ یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں میں کئی سو گنا اضافہ ہوا ہے جس میں، ایم پی ایز کی ماہانہ تنخواہ 76 ہزار سے 4 لاکھ کی گئی ہے جو کہ تقریباً 426 فیصد اضافہ ہے، اسی طرح وزراء کی تنخواہیں ایک لاکھ سے بڑھا کر 9 لاکھ 60 ہزار کر دی گئی ہے اور یہ 860 فیصد اضافہ بنتا ہے، جبکہ اسپیکر اور ڈپٹی سپیکر کی تنخواہوں میں بالترتیب 9 لاکھ 50 ہزار اور 7 لاکھ 75 ہزار تک اضافہ کیا گیا ہے، اس کے علاوہ پارلیمانی سیکریٹریز کی تنخواہ 4 لاکھ 51 ہزار تک ہو گئی ہیں جو کہ 443 فیصد اضافہ ہے اور خصوصی معاونین اور مشیرین کی تنخواہیں 565 فیصد اضافے کے ساتھ 6 لاکھ 65 ہزار بنتی ہیں۔ اور یہ ترقیاتی کارکردگی یہاں پر رکتی نہیں اور اس ترقی میں مزید اضافی مراعات شامل کی گئی ہیں، جس کے تحت اب یہ عہدیدار سرکاری چھٹی کے دوران بھی مکمل تنخواہ حاصل کرنے کے مستحق ہیں۔ اس سے پہلے چھٹی کے دوران صرف 74 فیصد تنخواہ ملتی تھی، اب یہ 100 فیصد ہو گئی ہے۔

جبکہ مزدور کی تنخواہ صرف 37 ہزار سے بڑھا کے 40 ہزار کی گئی ہے جو چند خوش نصیبوں کو ہی ملتی ہے، سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 10 فیصد اور پنشن میں 5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بجٹ میں صحت کے شعبے میں 3 ارب 90 کروڑ کی کٹوتی کی گئی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں آکسیجن کیلئے گیسز فراہمی کی سکیم پر بھی کٹوتی کی گئی ہے۔

نجکاری کے ایک دوسرے شعبے کی بات کی جائے تو ”لاہور ویسٹ منیجمنٹ کمپنی“ (LWMC) کی آپ جہاں بھی نیوز دیکھیں گے تو تمام میڈیا اداروں میں انہیں خراج تحسین کی پیش کیا جارہا ہے اور مریم نواز کے ”ستھرا پنجاب“ پراجیکٹ اور اس ادارے پر تو بکاؤ صحافی ایسے خوش ہیں جیسے انہوں نے لاہور کی گندگی کو نگل لیا ہے۔ ابھی اگر ہم عید الاضحیٰ کے موقع پر صفائی کی بات کریں تو ڈی سی او اور مریم نواز کو ہر طرف سے سراہا جا رہا تھا، لیکن اس گرمی میں اگر کسی نے صفائی کی ہے تو وہ LWMC میں کام کرنے والے محنت کش تھے جنہوں نے دن رات ایک کر کے گرمی میں ماحول کو صاف رکھا اور دوسری طرف جہاں ان ورکرز کو ہر سال عید پر بونس ملتا تھا انہیں وہ بونس بھی نہیں دیا گیا اور اس صفائی کا سارا کریڈٹ ان نکموں کو دیا گیا جنہوں نے گرمی کا اندازہ تک نہیں ہے۔

گزشتہ سال مریم نواز حکومت نے گندم کی امدادی قیمت مقرر نہیں کی، جس کا سب سے بڑا نقصان براہِ راست کسان کو اٹھانا پڑا۔ کسان پہلے ہی بلیک مارکیٹ میں یوریا اور ڈی اے پی جیسی بنیادی کھادیں مہنگے داموں خریدنے پر مجبور تھے۔ دوسری طرف زرعی ادویات اور سپرے کی کوئی مؤثر نگرانی یا ریگولیشن موجود نہ تھی، جس کے نتیجے میں گندم کی فصل کو سنبھالنا اور بھی مشکل ہو گیا۔

ان تمام اخراجات اور مشکلات کے باوجود جب کسان اپنی محنت کی پیداوار منڈی میں لایا تو اسے اپنی لاگت سے کئی گنا کم قیمت پر گندم فروخت کرنا پڑی۔ حکومت کی غیر موجودگی میں آڑھتیوں اور بڑے بیوپاریوں نے کھلی منڈی پر قبضہ کر کے اپنی مرضی کے ریٹ طے کیے اور کسان سے سستی گندم خرید کر اربوں روپے منافع کمایا۔ یوں کسان، جو ملک کی غذائی ضروریات پوری کرتا ہے، ایک بار پھر استحصال کا شکار ہوا اور اس کی محنت کا پھل سرمایہ دار مڈل مین اور حکمران طبقے کی جیبوں میں چلا گیا۔

دوسری طرف سے مریم نواز نے ٹریفک چالان کی مد میں لوٹ کھسوٹ کا نیا طریقہ اپنایا، جس میں 11 ارب 20 کروڑ کے ٹریفک چالان کا ہدف مقرر کیا گیا ہے اور اس میں ای چالان کی مد میں 1.47 ارب روپے کا ہدف الگ سے ہے۔ اب تک 3.33 ارب روپے جمع کیے گئے ہیں جن کے ذریعے تقریباً 5.445 ملین چالان جاری ہوئے ہیں۔ گزشتہ مالی سال 2023-24ء میں یہ ہدف 4.25 ارب روپے کا مقرر کیا گیا تھا اور 5.25 ارب روپے عوام کی جیبوں سے نکالے گئے۔ اس حکومت کا اور مریم نواز کا کام صرف یہاں کے محنت کشوں پر معاشی جبر کو بڑھانا ہے اور آئی ایم ایف کے احکامات کو سختی کیساتھ لاگو کرنا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی کام نہیں۔ جہاں ٹریفک چالان کی مد میں ہدف پیسوں کا رکھا گیا ہو وہاں یہ سوچنا ناممکن ہوتا ہے کہ ٹریفک کے مسائل کا خاتمہ کیسے ہو گا بلکہ یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ٹریفک کی مسائل کو بڑھایا جائے لوگوں کی جانوں کے کیساتھ کھیلا جائے اور اس پر پیسے بٹورے جائیں۔

آج ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ موجودہ صورتحال صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر کے حکمران طبقات کی یہی پالیسی ہے۔ یہ حکمران ایک طرف سوشل میڈیا پر جھوٹ اور پراپیگنڈہ کے ذریعے خود کو عوام دوست بنا کر پیش کرتے ہیں، اور دوسری طرف محنت کش عوام پر معاشی حملے تیز کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہو رہا ہے، جہاں اس نظام کے نامیاتی بحران کا پورا بوجھ محنت کش طبقے پر ڈالا جا رہا ہے، جبکہ حکمران طبقے کی عیاشیاں کم ہونے کی بجائے دن بہ دن بڑھ رہی ہیں۔

یہ حقیقت ہمیں اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ ہم سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے اصولوں کو سمجھتے ہوئے اس کے خاتمے کی جدوجہد کریں۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالوں، یعنی حکمران طبقے کے خلاف منظم لڑائی کے ذریعے ہی ہم اس نظام کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ کمیونسٹ انقلاب کے ذریعے اس نظامِ سرمائے اور اس کی ریاست کو اکھاڑ پھینک کر مزدور ریاست کا قیام ناگزیر ہے، جہاں منافع پر مبنی نظام کی جگہ عوامی ضروریات پر مبنی معیشت قائم ہو۔

اس عمل کے لیے لازمی ہے کہ ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی تعمیر کی جائے۔ اسی مقصد کے لیے ہم پاکستان کے بڑے شہروں میں مسلسل کام کر رہے ہیں اور نوجوانوں، مزدوروں، کسانوں اور طلبہ کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس جدوجہد کا حصہ بنیں، تاکہ ہم مل کر اس ظالمانہ نظام اور اس کے حکمرانوں کا خاتمہ کر سکیں۔

Tags: ×

Comments are closed.