لینن کی کتاب”کیا کیا جائے؟“ کیوں پڑھنا ضروری ہے؟

آج لینن کی کتاب ”کیا کیا جائے؟“ پر یہ تحریر ایسے وقت میں لکھی جا رہی ہے جب دنیا دیوہیکل انقلابی تحریکوں کی گرداب میں ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ بیشمار تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ایک ملک کی حکومت کے خاتمے کی خبریں بریکنگ نیوز میں چل رہی ہوتیں ہیں تو دوسرے ملک میں انقلابی تحریک کی خبریں اپنی جگہ تلاش کر رہی ہوتی ہیں۔ اور ان تمام تحریکوں میں کچھ مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ کثیر مماثلت بھی موجود ہیں۔ ان تمام تحریکوں اور حکومتوں کے خاتمے کے بعد ٹی وی پر بیٹھے حکمرانوں کے ماؤتھ پیس بلاشبہ جتنے زور سے چلائیں کہ دیکھو سی آئی اے یا امریکہ یا انڈیا یا فلانے ملک نے حکومت کا خاتمہ کروا دیا، ان میں سے کسی سے یہ امید رکھنا عبث ہے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھ سکیں کہ اصل مسئلہ کہاں ہے۔ کیوں کہ یہ تو بولنے کے پیسے لیتے ہیں، سمجھنے کے نہیں۔

اس نظام سے تنگ لاکھوں کی تعداد میں نوجوان سوال پوچھنے میں بجا ہیں کہ یہ کیسے ہوا؟ کیونکر حکومت کے خاتمے کے باوجود وہاں محنت کش عوام اور نوجوانوں کی قسمت نہیں بدلی؟ کیونکر اسی طبقے کے نئے چہرے دوبارہ براجمان ہو گئے؟ یہاں بائیں بازو کے ان مسخروں کی حالت بھی دیکھنے کے قابل ہے جو ان تحریکوں میں ہونے کے باوجود، ہزاروں اور لاکھوں کی ممبرشپ رکھنے کے باوجود کوئی کردار ادا نہیں کر سکے، نوجوانوں اور محنت کشوں کی ان انقلابی تحریکوں کو ایک سوشلسٹ انقلاب کی لڑائی میں نہیں بدل سکے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر کی بائیں بازو کی پارٹیاں انقلاب دشمن معیشت پسندوں اور اصلاح پسندوں کی پارٹیوں سے آگے کچھ نہیں اور وہ اس نظام کے نہ تو خاتمے کا ارادہ رکھتی ہیں اور نہ انقلاب ان کا کوئی مقصد ہے۔

انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے آغاز پر روس زار شاہی کے جبر تلے ایک نیم جاگیردارانہ مگر تیزی سے صنعتی ہوتے سماج میں بدل رہا تھا۔ فیکٹریوں میں مزدوروں کی ایک نئی پرت جنم لے چکی تھی، جو انتہائی سخت حالات میں طویل اوقات میں کام کرتی تھی، مگر سیاسی طور پر نا بالغ اور بکھری ہوئی تھی۔ دوسری جانب دانشوروں اور سوشلسٹ حلقوں میں بحثیں جاری تھیں کہ مزدور تحریک کس سمت میں جائے گی آگے کا کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے۔ انہی میں سے ایک گروپ اکانومسٹس (معیشت پسندوں) کا تھا، جو سمجھتا تھا کہ مزدوروں کو صرف معاشی مطالبات تک محدود رہنا چاہیے، اور سیاسی جدوجہد میں کودنا قبل از وقت ہے۔ روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی جو ابھی اپنی ابتدائی تشکیل کے مرحلے میں تھی، انہی بحثوں میں بٹی ہوئی تھی۔ ایک طرف اصلاح پسند اور معیشت پسند عناصر تھے، اور دوسری طرف وہ نوجوان انقلابی جو مارکس اور اینگلز کے نظریات کو روسی حالات میں منظم انداز میں برتنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب زار کی خفیہ پولیس انقلابی سرگرمیوں کو سختی سے کچل رہی تھی، اخبارات پر پابندیاں تھیں، اور تنظیمی سرگرمی کو“جرم”سمجھا جاتا تھا۔ ایسے گھٹن بھرے ماحول میں نظریاتی وضاحت اور تنظیمی ڈھانچے کی تعمیر کا سوال ناگزیر ہو چکا تھا۔ اور ایک ایسی تنظیم جو ان تمام حالات میں اپنے آپ کو منظم رکھے اور تمام نظریاتی و سیاسی ابہام سے لڑتے ہوئے، ان کو دور کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کی لڑائی لڑے۔

ایسے میں عظیم انقلابی رہنما لینن کی کتاب“کیا کیا جائے؟”ان تمام سیاسی و نظریاتی ابہام کا جواب دیتے ہوئے ایک منظم قوت کی تعمیر کے لیے بہت اہم ثابت ہوئی۔ یہ کتاب محض ایک سیاسی پمفلٹ نہیں بلکہ ایک تاریخی و نظریاتی دستاویز ہے، جس نے انقلابی سیاست کی بنیادوں کو ازسرنو متعین کیا۔ لینن نے اسے اُس وقت لکھا جب روس میں مزدور تحریک جنم لے رہی تھی۔ لیکن وہ اپنی لڑائی کو اجرتوں اور اوقات کار کی حد تک محدود رکھے ہوئے تھی۔ ان مطالبات تک تحریک کو محدود رکھنے کے پیچھے اصلاح پسند تھے جن کو لینن نے”اکانومسٹ“کہا یعنی وہ جو مزدور سیاست کو صرف معاشی مطالبات تک محدود رکھتے تھے، اور سرمایہ دارانہ ریاست کو چیلنج کرنے سے گریز کرتے تھے۔ یہ کتاب 1902ء میں شائع ہوئی۔ کتاب کے ابتدائی باب ”اذعانیت اور تنقید کی آزادی“ میں لینن نے واضح کیا کہ کیسے تنقید کی آزادی کے نعروں کے ساتھ سوشل ڈیموکریسی میں موقع پرست رجحان پروان چڑھے جس میں جرمنی میں برنشٹائین قابل ذکر ہے۔

انیسویں صدی کے آواخر سے روس میں مزدوروں کی ایک نئی تحریک جنم لے چکی تھی۔ بڑی فیکٹریوں میں ہڑتالیں عام ہونے لگیں، مزدوروں نے استحصال کے خلاف خود بخود ابھرنے والی ایک زبردست تحریک کو جنم دیا۔ روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی کے پمفلٹ اور پرچے مزدور طبقے کے لیے تحریک بننے لگے، جو کسی فیکٹری میں ہونے والے ظلم یا ناانصافی کو اجاگر کرتے تو مزدور فوراً احتجاج پر آمادہ ہو جاتے۔ یہ ایک خود رو، غیر منظم مگر نہایت اہم آغاز تھا مزدور طبقے کے اجتماعی شعور کے بیدار ہونے کی پہلی کرنیں تھیں۔ مزدور طبقہ اپنے آپ کو ایک طبقہ کے طور پر پہچاننے لگا تھا۔

لیکن لینن اور اسکرا کے انقلابیوں نے واضح طور پر سمجھ لیا تھا کہ محض معاشی مطالبات کی لڑائی کافی نہیں۔ مزدوروں کو یہ شعور حاصل کرنے میں مدد فراہم کرنا ضروری ہے کہ ان کا دشمن صرف فیکٹری کا مالک نہیں بلکہ پورا سرمایہ دار طبقہ، جاگیردار، اور زار شاہی کی پوری مطلق العنان مشینری ہے۔ جب تک مزدور طبقہ اس بات کو نہیں سمجھتا، وہ ایک سیاسی قوت کے طور پر نہیں ابھر سکتا۔

یہی وہ نکتہ تھا جہاں لینن نے معیشت پسندوں (اکانومسٹوں) پر سخت تنقید کی۔ ان کے نزدیک مزدور تحریک کو صرف اجرتوں اور اوقات کار جیسے معاشی مسائل تک محدود رکھنا ہی کافی تھا۔ مگر لینن نے اس نظریے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ مزدور تو خود سب سے بہتر جانتے ہیں کہ وہ معاشی طور پر استحصال کا شکار ہیں مارکسسٹوں کا کام انہیں وہ بتانا نہیں جو وہ پہلے سے جانتے ہیں، بلکہ انہیں اس استحصال کی جڑوں تک پہنچنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ لینن نے ان اکانومسٹوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ مزدوروں کے شعور کو بلند کرنے کے بجائے خود ان کے“اوسط درجے”تک آگئے ہیں، اور پارٹی کارکن کا کردار ایک عام مزدور یونین کے سیکریٹری سے زیادہ کچھ نہیں رہ گیا۔ لینن کے نزدیک یہ ضروری تھا کہ ایک ایسی پارٹی تشکیل دی جائے جو نظریاتی طور پر مضبوط اور منظم ہو ایسی جماعت جس کے ارکان پیشہ ور انقلابی ہوں، جو اپنی زندگی انقلاب کے لیے وقف کر دیں۔

لینن نے کہا کہ پارٹی کا کام صرف اجرتوں یا فیکٹری کے مسائل پر نہیں بلکہ پورے معاشرتی، سیاسی اور ریاستی ڈھانچے کو بے نقاب کرنا ہے۔ دیہی علاقوں میں جاگیرداروں کے مظالم، سرکاری کرپشن، مذہبی جبر، طالب علموں اور سپاہیوں پر تشدد۔ یہ سب سیاسی تحریک کے وہ پہلو ہیں جو عوام کو بیدار کر سکتے ہیں۔ مزدور جب اس سطح پر پہنچ جائے کہ وہ صرف اپنے مالک نہیں بلکہ پورے طبقاتی نظام، ریاستی اداروں اور حکمران طبقے کے مفادات کو پہچاننے لگے، تب ہی وہ سوشلسٹ انقلاب کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔

لینن نے واضح کیا کہ”انقلابی نظریے کے بغیر انقلابی تحریک ممکن نہیں“۔ جب اکانومسٹوں نے مارکس کے جملے”حقیقی تحریک کا ایک قدم درجنوں پروگراموں سے بڑھ کر ہے“کو غلط معنی میں استعمال کیا تو لینن نے انہیں جھنجھوڑتے ہوئے کہا کہ نظریاتی کمزوری کے عہد میں یہ جملہ خوشی نہیں بلکہ غم کے موقع پر مبارکباد دینے کے مترادف ہے۔

یہی وہ بنیادی سبق تھا جو لینن نے دیا کہ مزدور تحریک کی رہنمائی ایک ایسی پارٹی کرے جو جدید ترین نظریے سے مسلح ہو، اور جو انقلابی نظم و ضبط کے تحت متحد ہو۔ اکانومسٹوں کا یہ اعتراض کہ پارٹی میں طلبہ یا دانشور زیادہ ہیں، لینن کے نزدیک بے معنی تھا۔ اس نے کہا کہ کامیاب انقلابی تنظیم کبھی بھی”اتفاقی گروہوں“یا ڈھیلے ڈھالے سٹرکچر سے نہیں بنتی، بلکہ ایک منظم، تربیت یافتہ اور نظریاتی طور پر واضح قیادت سے وجود پاتی ہے۔ ایسی جماعت جو جمہوری مباحث کے بعد عمل میں کامل اتحاد رکھتی ہو، یعنی جمہوری مرکزیت (Democratic Centralism) کے اصول پر قائم ہو۔

یہ اصول کوئی لینن کی ایجاد نہیں تھا بلکہ اس نے اسے مارکس اور اینگلز کی روایات سے اخذ کیا، جن کی مثال اُس وقت جرمن سوشلسٹ پارٹی دیتی تھی۔ یہ اصول مارکسی اساتذہ نے مزدوروں کی تحریکوں میں رہ کر عملی جدوجہد کے ذریعے سیکھا تھا۔ لیکن بعد کے مفاد پرست مؤرخوں نے اسی اصول کو بگاڑ کر”سٹالن ازم“ یا بیوروکریٹک سنٹرلزم سے جوڑ دیا، حالانکہ لینن کی مراد ایک زندہ، متحرک اور منظم جمہوریت رکھنے والی مرکزیت تھی، نہ کہ آمرانہ مرکزیّت۔

لینن کے نزدیک انقلابی پارٹی کی تعمیرکوئی خود رو عمل نہیں بلکہ ایک شعوری، منظم اور نظریاتی جدوجہد ہے۔ کیا کیا جائے؟ اسی جدوجہد کا اعلان تھا۔ مزدور تحریک کو ایک باشعور، منظم اور انقلابی قوت میں ڈھالنے کی پکار تھا۔کل روسی اخبار کا مطالبہ کا معیشت پسندوں کے لیے“کتابی”اور غیرعملی تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ انقلاب کا مطلب محض چند ہڑتالیں کرانا، چندہ اکٹھا کرنا اور روزمرہ کے مسائل پر احتجاج کرنا ہے۔ مگر لینن نے نشاندہی کی کہ اصل مسئلہ سرگرمی کی کمی نہیں، بلکہ اس کی ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ روس کے مختلف شہروں اور علاقوں میں مزدور جدوجہدیں چل رہی تھیں مگر ایک دوسرے سے بے خبر، منتشر اور غیر منظم تھیں۔ کہیں ہڑتالیں ہو رہی تھیں، کہیں پولیس کی بربریت جاری تھی، مگر کوئی ایسا ذریعہ نہیں تھا جو پورے ملک کے مزدور طبقے کو ایک نظریاتی و تنظیمی لڑی میں جوڑ سکے۔

یہی وہ ضرورت تھی جسے لینن نے اسکرا کے ذریعے پورا کیا۔ اس کے نزدیک اخبار محض خبر دینے کا ذریعہ نہیں تھا بلکہ ایک نظریاتی، تنظیمی اور انقلابی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا۔ لینن کے نزدیک ایک انقلابی اخبار وہ رہنما لکیر ہے جو ہر کارکن اور ہر تنظیم کو ایک سمت میں جوڑتی ہے۔ اسکرا نے یہی کام کیا مختلف شہروں، فیکٹریوں اور مزدور گروہوں کو ایک دوسرے سے منسلک کیا، رابطوں کا نیٹ ورک بنایا، مالی وسائل کے لیے چندہ جمع کیا، اور پارٹی کے اندر ایک نظریاتی اتحاد پیدا کیا۔ یہی تنظیمی ڈھانچہ بعد میں بالشویک پارٹی اور بالشویک انقلاب کی بنیاد بنا۔

آج بھی جب بعض نام نہاد“بائیں بازو”کے لوگ اخبار کی اہمیت کا مذاق اڑاتے ہیں اور صرف سوشل میڈیا یا ریلز یا ٹک ٹاک یا بلاگز کو کافی سمجھتے ہیں، وہ دراصل لینن کے اس بنیادی نکتے کو بھول جاتے ہیں کہ اخبار محض ایک پرچہ نہیں یہ انقلابی تنظیم کا ایمبارگو ہے، جو نظریے، نظم، اور جدوجہد کو ایک لڑی میں باندھتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر اخبار کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں یا پھر یہ کام ہی نہیں کرنا چاہتے۔ اس طرح تو کتابیں بھی آج صرف پی ڈی ایف تک محدودکر دینی چاہئیں بلکہ یہ تو خود کتابیں چھپوا رہے ہیں (بے شک اپنی ذاتی دھاک بٹھانے کے لیے ہی)اور انہیں مسئلہ صرف اخبار سے ہے۔

لینن کا نقطہ نظر صرف روس تک محدود نہیں تھا۔ اس نے اکانومزم کو ایک عالمی رجحان کے طور پر دیکھا۔ اصلاح پسندی کا وہ زہر جو جرمنی کی سوشلسٹ تحریک میں بھی سرایت کر چکا تھا۔ ایڈورڈ برنشٹائن جیسے رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ سرمایہ داری نے اپنے تضادات پر قابو پا لیا ہے اور اب انقلاب کی ضرورت نہیں رہی۔ آہستہ آہستہ اصلاحات کے ذریعے سماج بدلا جا سکتا ہے۔ لیکن 1914ء کی عالمی جنگ نے ان کی ان تمام خوش فہمیوں کو ختم کر دیا۔

اس کے برعکس روس میں، جہاں زار شاہی کے جبر تلے انقلابیوں کو زیرِ زمین کام کرنا پڑتا تھا، وہاں کی سختیوں نے ان کے نظریات کو اور بھی تیزی کے ساتھ واضح کر دیا۔ وہاں کوئی کیریئر پرست موقع پرست جگہ نہیں پا سکتا تھا۔ صرف وہی لوگ شامل تھے جو واقعی انقلاب کے لیے جینا اور مرنا جانتے تھے۔ کیریئر اسٹوں سے جتنا تنظیم کو پاک کیا جائے اتنا ہی تنظیم کا کام نظریاتی بنیادوں پر آگے بڑھتا ہے۔

 

لینن نے واضح کیا کہ اصلاح پسندی اور انقلابی جدوجہد کے درمیان تقسیم کوئی حادثہ نہیں بلکہ سرمایہ داری کے زوال کی نشانی ہے۔ جب نظام بحران در بحران ڈگمگا رہا ہو، تو آہستہ آہستہ تبدیلی کی تھوڑی بہت گنجائش بھی ختم ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے زمانے میں بھی”ریفارم ازم“ہر بار مزدور طبقے سے غداری پر منتج ہوتا ہے۔ چاہے وہ سائریزا ہو، کوربن کا برطانیہ، یا سینڈرز کی امریکہ میں ناکام”اندر سے تبدیلی“کی کوشش۔ اسی لیے آج کا سب سے اہم فریضہ وہی ہے جو لینن نے سو برس پہلے بتایا تھا کہ مزدور طبقے کو اصلاح پسند قیادتوں کے اثر سے آزاد کر کے ایک ایسی منظم انقلابی پارٹی میں متحد کرنا جو سرمایہ داری کے خاتمے کے لیے لڑے۔ کیوں کہ اقتدار حاصل کرنے سے پہلے، کمیونسٹوں کو مزدور طبقے کو فتح کرنا ہے۔

لینن کی کتاب“کیا کیا جائے؟”آج بھی ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے اور انقلابی کارکنان اور پارٹی کے لیے بیش قیمتی ہے۔دنیا بھر کے اصلاح پسند، موقع پرست اور انارکسٹ آج بھی انہی اکانومسٹوں کے پرانے دلائل دہراتے ہیں۔ کہ مزدور ابھی”اتنے باشعور نہیں“، کہ”ہمیں نظریہ نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے عملی کام کرنے چاہییں“، کہ”پارٹی کی ضرورت نہیں، عوام خود فیصلہ کریں گے“۔ لیکن حقیقت میں یہ سب محض اپنی کمزوریوں کو لفاظی میں چھپانا ہے۔

انقلاب کی کامیابی کا راستہ نظریاتی وضاحت، تنظیمی اتحاد، اور منظم سیاسی جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں۔ اسی نظریاتی لڑائی کی بنیاد پر لینن اور اسکرا کے ساتھیوں نے اکانومزم پر فیصلہ کن سیاسی فتح حاصل کی، جس نے 1903ء میں روسی سوشلسٹ ڈیموکریٹک لیبر پارٹی کی دوسرے کانگریس کی راہ ہموار کی۔ وہی کانگریس جہاں بالشویک اور منشویک کی تاریخی تقسیم ہوئی، جس نے روسی اور عالمی مزدور تحریک کا رخ ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔

ہمارے نزدیک انقلابی پارٹی کی تعمیر ڈھیلے ڈھالے سٹرکچر، نظریاتی و سیاسی تربیت کے بغیر ناممکن ہے اور اس کے لیے ہمارے لیے لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں برپا ہونے والے عظیم اکتوبر انقلاب کی مثال موجود ہے جس میں بالشویک پارٹی کو جمہوری مرکزیت کے اصولوں پر تعمیر کیا گیا اور انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ محنت کش طبقے نے اقتدار ہاتھ میں لیا۔

 

Comments are closed.