
عالمی سطح پر طاقتوں کے توازن میں تبدیلی کا عمل تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ٹرمپ کی دنیا بھر پر مسلط کردہ تجارتی جنگ کے بعد بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ امریکی سامراج مزید طاقتور ہو جائے گا اور دنیا میں کھوئی ہوئی اپنی اجارہ داری واپس حاصل کر لے گا لیکن اس کے نتیجے میں چین ایک سامراجی طاقت کے طور پر مزید طاقتور ہو کر ابھرا ہے جبکہ امریکی سامراج کھسیانا ہو کر اپنے بہت سے فیصلے واپس لینے پر مجبور ہوا ہے۔
اس سے پہلے جو بائیڈن نے یوکرائن کی جنگ مسلط کر کے امریکی سامراج کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کی تھی۔ ٹرمپ اس فیصلے کو ایک فاش غلطی قرار دیتا ہے لیکن اس غلطی کی بنیاد بھی یہی تھی کہ افغانستان میں ذلت آمیز شکست کے بعد امریکی سامراج کو ایسے محاذ کی تلاش تھی جہاں سے وہ دنیا کو دکھا سکے کہ وہ آج بھی سب سے طاقتور سامراجی طاقت ہے۔ لیکن تین سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد واضح ہو چکا ہے کہ یوکرائن امریکہ اور یورپی ممالک کی تمام تر حمایت کے باوجود اس جنگ میں شکست کھا چکا ہے اور روس اپنے سامراجی عزائم بڑی حد تک حاصل کرنے میں کامیاب ہو اہے اور براعظم کی سب سے بڑی فوجی اور سامراجی طاقت بن چکا ہے۔ اس دوران یورپ کا سامراجی کردار پہلے کی نسبت کہیں زیادہ کم ہوا ہے اور وہ اب امریکی سامراج کے دم چھلا بننے کا کردار بھی کھوتا جا رہا ہے۔
اس دوران چین کی سامراجی طاقت پوری دنیا میں کھل کر سامنے آئی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی میں کئی محاذوں پر امریکہ اور یورپ کو پچھاڑنے کے ساتھ ساتھ اس نے دفاعی اور معاشی محاذوں پر بھی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اسی طرح یوکرائن کی جنگ میں روس اور چین کے باہمی تعلقات بھی مضبوط ہوئے ہیں اور وہ امریکہ اور یورپی سامراجی ممالک کا مل کر مقابلہ کرتے رہے ہیں۔ آنے والے عرصے میں بھی یہ باہمی تعلق کمزور ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا گو کہ امریکہ کی کوشش ہے کہ ان کو ایک دوسرے سے الگ کیا جائے اور اس لڑائی میں اپنی اجارہ داری کو مضبوط کیا جائے۔ لیکن امریکی سامراج کو ابھی تک کامیابی ملتی دکھائی نہیں دیتی۔
درحقیقت ٹرمپ کی پالیسیوں کے بعد امریکہ کے بہت سے روایتی اتحادی اس سے مزید دور ہو چکے ہیں اور ہر ملک کا حکمران طبقہ چین سے بھی بہتر تعلقات استوار کرنے کا خواہشمند ہے۔ یورپی یونین میں تو یہ بحث بھی شروع ہو چکی ہے کہ اب امریکہ ہمارا دشمن بن چکا ہے اور ہمیں اس حوالے سے پالیسیاں ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ ٹرمپ نے بھی یورپی یونین پر تجارتی جنگ کے ذریعے حملے تیز کر دیے ہیں اور نیٹو کو بھی ختم کرنے کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے جس سے یورپ کی دفاعی چھتری منہدم ہو جائے گی اور وہ جنگ کی صورت میں روس یا کسی دوسرے ملک کے مقابلے میں اپنا دفاع نہیں کر سکے گا۔ یہی امکانات نئی صورتحال کو جنم دے رہے ہیں۔
اسی طرح جاپان اور جنوبی کوریا بھی امریکہ کے اہم اتحادی ہیں اورخاص طور پر چین کا محاصرہ کرنے کے حوالے سے امریکہ کے لیے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ لیکن تجارتی جنگ کے بعد وہ بھی متبادل رستے اختیار کر رہے ہیں اور پہلی دفعہ چین کے ساتھ مل کر ایک تجارتی بلاک بنانے کے لیے بھی مذاکرات کر رہے ہیں جو صورتحال میں ایک بہت اہم تبدیلی ہے۔ اسی طرح مشرق وسطیٰ میں بھی ٹرمپ کے اتحادی اس سے نالاں ہیں۔ ایک طرف اس کے خلیجی ممالک کے دورے سے اسرائیل ناراض ہے تودوسری جانب ایران کے ساتھ جاری مذاکرات اور ممکنہ معاہدے سے عرب حکمران خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں بھی چین نے اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑ لیے ہیں۔نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا اور مالدیپ میں چین نے بڑے انفرا اسٹرکچر کے منصوبے بنائے اور اور بندرگاہوں اور سڑکوں سمیت سٹریٹجک نوعیت کے مزید منصوبے زیر تعمیر ہیں۔اس خطے میں انڈیا کا اثر و رسوخ تاریخی طور پر موجود رہا ہے اور انڈیا کا حکمران طبقہ اپنے سامراجی تسلط کو ایک طویل عرصے تک یہاں قائم رکھے آیا ہے۔ لیکن اب انڈیا اور چین کے سامراجی مفادات کا ٹکراؤ یہاں واضح طور پر موجود ہے اور تنازعات بڑھ رہے ہیں۔
پاکستان کو بھی چین سٹریٹجک نقطہ نظر سے اہمیت دیتا آیا ہے تاکہ انڈیا کے سامراجی عزائم کے سامنے پاکستان بند باندھ کر رکھے اور اس دوران چین اپنے سامراجی تسلط کو بڑھاتا چلا جائے۔ انڈیا پاکستان کی حالیہ جنگ میں یہ پالیسی مزید واضح ہو کر نظر آئی اور پوری دنیا نے دیکھا کہ چین کی جانب سے پاکستان کو دیے جانے والے اسلحے اور فوجی امداد کا حتمی فائدہ چین کے سامراجی عزائم کو ہی پہنچا ہے اور خطے میں اس کی اجارہ داری مزید مضبوط ہوئی ہے۔اس حوالے سے امریکہ اور دیگر سامراجی طاقتیں بھی اس خطے میں اپنی پالیسی اسی صورتحال کے تحت ترتیب دے رہی ہیں۔
لیکن چین کی سامراجی طاقت کے ابھار میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کی اپنی معیشت کا بحران ہے جو سرمایہ داری کے عالمی بحران کے باعث شدید ہوتا جا رہا ہے۔ آنے والے عرصے میں عالمی معیشت میں ایک recession اور اس سے بھی بڑھ کر ایک depression کے واضح امکانات موجود ہیں جس کے نتیجے میں دنیا کے تمام ممالک کی معیشتیں بد ترین بحرانوں کا شکار ہوں گی جس میں امریکہ اور چین سر فہرست ہیں۔ پہلے ہی چین میں مزدوروں کی ہڑتالوں اور احتجاجی تحریکوں میں اضافہ ہورہا ہے اور آنے والے بحرانوں میں یہ مزید شدت اختیار کریں گی۔ اس دوران طاقتوں کے توازن میں تبدیلی اور عوامی تحریکوں کو کچلنے کے لیے حکمران طبقات نئی جنگیں مسلط کرنے کی جانب بڑھیں گے۔پہلے ہی فلسطین میں جاری خونریزی دو سال گزرنے کے بعد بھی ختم نہیں ہوئی اور بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا سلسلہ جاری ہے۔ انڈیا پاکستان میں ایک جنگ چھڑ چکی ہے اور نئی جنگوں کی بنیادیں استوار ہو چکی ہیں۔ اسی طرح مشرق وسطیٰ کی صورتحال ایک بارود کا ڈھیر بنتی جا رہی ہے۔ ایسے میں یہ نظام جنگوں کو ختم کرنے کی بجائے نئی جنگوں کو مسلط کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے۔

اس دوران عوام پر بیروزگاری اور اجرتوں میں کٹوتیوں کے نئے حملے بھی کیے جائیں گے۔ درحقیقت اس نظام کا زوال پوری دنیا کو تباہی اور بربادی میں دھکیل رہا ہے۔ اگر کسی کو لگتا ہے کہ عالمی سطح پر طاقتوں کا توازن جلد کوئی استحکام حاصل کر لے گا اور نئے معاہدوں کے ذریعے کوئی بھی تنازعہ حل ہوگا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ اس نظام کا زوال جہاں معیشتوں کو برباد کر رہاہے وہاں ہر طرف نئی جنگوں اور خونریزی کی تیاری کر رہا ہے۔ اس دوران سرمایہ دار طبقہ اس بربادی سے منافع بٹورنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اسلحہ ساز کمپنیوں کے منافعے بڑھ رہے ہیں اور دوسرے شعبوں میں مزدور وں کی چھانٹیاں اور جبری برطرفیاں بڑھ رہی ہیں تاکہ سرمایہ داروں کے منافعوں کو تحفظ دیا جا سکے۔
اس سب کا واحد حل یہی ہے کہ ان تمام مسائل کی جڑ اس سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکا جائے جس کی طاقت صرف مزدور طبقے کے پاس موجود ہے۔ اس کا آغاز امریکہ، چین یا دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے ہو سکتا ہے۔ لیکن ایک دفعہ اس کا آغاز ہو گیا تو یہ بہت تیزی سے دنیا کے دوسرے خطوں تک پھیلے گا اور عالمی سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد فیصلہ کن مراحل میں پہنچے گی۔ انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل اسی مقصد کے حصول کے لیے دنیا بھر میں کام کر رہی ہے اور اس کے تحت انقلابی کمیونسٹ پارٹیاں ہر ملک میں اسی منزل کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ انقلاب کی جدوجہد کرنے والے ہر مزدور، کسان اور نوجوان کو اس کا ممبر بننے کی ضرورت ہے تا کہ سرمایہ داری کے عفریت کا خاتمہ کرنے کا عمل تیز کیا جا سکے۔
دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!