اداریہ ورکرنامہ: مہنگائی اور بیروزگاری کے مزید طوفان!

 

مہنگائی اور بیروزگاری کے طوفان تھمنے کی بجائے بڑھتے جا رہے ہیں اور محنت کش عوام کو کچلتے چلے جارہے ہیں۔ جس وقت حکمرانوں کی جانب سے عوام کو سینٹ میں ووٹنگ کی ڈگڈگی کے پیچھے لگانے کی کوشش کی جارہی تھی اسی دوران پٹرول کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دی گئی۔ حکومت کے اس عوام دشمن اقدام کیخلاف کسی بھی سیاسی پارٹی یا قائد کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا بلکہ پوری کوشش کی گئی کہ سینٹ میں جاری نورا کشتی کو ملک کا اہم ترین مسئلہ بنا کر پیش کیا جائے۔ جس وقت ملک کے تمام ٹی وی چینل اور اخبارات کی شہ سرخیاں اس تحریک عدم اعتماد کا چرچا کر رہی تھیں اسی وقت اس ملک کے کروڑوں لوگوں کی جیبوں پر براہ راست ڈاکہ ڈالا جا رہا تھا۔ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی ہو رہی ہے جبکہ عوام دشمن حکومت اس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کرتی جا رہی ہے اور ملک کے معاشی بحران کا بوجھ سرمایہ داروں اور جاگیر داروں پر ڈالنے کی بجائے غریب عوام پر منتقل کر رہی ہے۔

موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیاں گزشتہ تمام حکومتوں کا ہی تسلسل ہیں جس میں امیر امیرتر اور غریب غریب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ماضی کی تمام جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں کے تسلسل میں نجکاری اور ڈاؤن سائزنگ کی پالیسی بھی جاری رکھی گئی ہے جبکہ عوام پر ٹیکسوں میں کئی گنا اضافہ بھی کیا جارہا ہے جبکہ دوسری جانب امیر ترین افراد کی دولت اور جائیدادوں پر کوئی ٹیکس نہیں لیا جا رہا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت افراطِ زر کی شرح دس فیصد سے زائد ہے جو گزشتہ چھ سالوں میں سب سے زیادہ ہے اور غالب امکان ہے کہ یہ جلد تیرہ فیصد کی بلند سطح پر پہنچ جائے گی۔ اگر ان اعداد و شمار کو ہی درست مان لیا جائے، جو کہ حقیقت سے بہت کم ہیں، تو بھی مہنگائی کی ایک بہت بڑی لہر کی موجودگی کا انکشاف ہوتا ہے۔ یہ افراطِ زر ایک ایسے وقت میں بلندی کی جانب گامزن ہے جب انتہائی سخت مانیٹری پالیسی نافذ کی جا چکی ہے جس میں شرح سود اس وقت 13.25 فیصد کی انتہائی بلند سطح پر لیجایا جا چکا ہے۔ لیکن اس کے باوجود افراط ِزر میں اضافہ ہورہا ہے جو حکومت کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی سامراجی پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے معیشت دان اس صورتحال کو ’Stagflation‘ کی بد ترین کیفیت کا نام دیتے ہیں۔ یہ اصطلاح ’Stagnation‘ اور ’Inflation‘ سے مل کر بنی ہے۔ یعنی ایک جانب معیشت میں شرحِ ترقی جمود کا شکار ہے جبکہ افراطِ زر بھی بڑھ رہا ہے۔ اس کیفیت میں بیروزگاری میں تیز ترین اضافہ ہوتا ہے۔ یہ صورتحال سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

شرحِ سود میں اتنے بڑے پیمانے پر اضافے اور حکومت کی جانب سے ترقیاتی اخراجات میں بڑے پیمانے پر کٹوتیوں کے باعث یہاں بھی بیروزگاری میں تاریخی اضافہ ہوچکا ہے۔ ملک میں صنعت کا پہیہ چلانے اور روزگار مہیا کرنے میں حکومت کے ترقیاتی اخراجات کلیدی کردار ادا کرتے ہیں جن میں بڑے پیمانے پر کٹوتی لگا دی گئی ہے جبکہ دوسری جانب شرحِ سود میں تاریخی اضافے سے شرحِ ترقی بھی بڑھنے کی بجائے تیزی سے کم ہورہی ہے جس کے باعث بیروزگاری پھیل رہی ہے۔ اس صورتحال کے دوران معمول کے ادوار میں افراط زر کم ہوتی ہے اور مہنگائی میں بھی کمی آتی ہے لیکن اتنے بڑے پیمانے پر بیروزگاری پھیلنے، صنعتیں بند ہونے اور قوت خرید میں شدید کمی آنے کے باوجود مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے انتہائی اشد ضرورت کی اشیاء بھی عوام کی اکثریت کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق اس ملک کی آبادی کے نصف خاندان دن میں صرف ایک وقت ہی کھانا کھا رہے ہیں اور ان میں اتنی قوت خرید نہیں کہ وہ دو وقت کا کھانا خرید سکیں۔ اس کے نتیجے میں ملک کے چالیس فیصد سے زائد بچے غذا کی کمی کا شکار ہیں اور ان کی نشوونما نا مکمل ہو رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس غذا کی کمی کی ایک بڑی وجہ ماؤں میں غذا کی بڑے پیمانے پر قلت ہے جس کی وجہ سے بچے کمزور پیدا ہوتے ہیں اور پھر مسلسل غذا کی کمی کا شکار رہتے ہیں۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ اس وقت محنت کش عوام کی اکثریت کس صورتحال سے دوچار ہے۔

لیکن اس کے باوجود حکمران طبقے کی زندگیاں بھرپور انداز میں گزر رہی ہیں۔ ان کے جسموں پر مہنگے ترین لباس موجود ہیں اور دنیا کی مہنگی ترین لگژری گاڑیاں ان کے زیر استعمال ہیں۔ اس غریب ملک کے حکمرانوں کے محل دیکھ کر بہت سے امرا بھی شرما جاتے ہیں۔ ان کی زندگیوں میں روشنی ہے، قہقہے ہیں، خوشیاں ہیں اور ہر طرف شادمانی کے گیت بج رہے ہیں جبکہ دوسری جانب محنت کش عوام کی زندگیوں میں تاریکی ہے، بد بودار غلاظت سے اٹی گلیاں اور بازارہیں، بغیر علاج کے مرنے والوں کی آہیں اورسسکیاں ہیں، ان کی موت پر ماتم کرنے والوں کے آنسو ہیں اور آنگن میں ہر طرف دکھ اور دردبکھرا پڑاہے۔ ایک ہی ملک میں دو دنیائیں آباد ہیں جن کے درمیان خلیج بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ حکمران طبقہ ہی معاشی پالیسیاں طے کرتا ہے جس کے تحت اس کی اپنی دولت، جائیداد اور پر تعیش زندگیاں محفوظ رہتی ہیں جبکہ محنت کش عوام پر ہر روز نئے ٹیکس لگا کر اس کی خون اور پسینے کی کمائی لوٹ لی جاتی ہے۔ یہ لوٹی ہوئی دولت جہاں سامراجی مالیاتی اداروں کی تجوریوں میں بھر دی جاتی ہے وہاں اس ملک کے حکمران بھی اپنا کمیشن وصول کر کے اپنی حکمرانی جاری رکھنے کا بندو بست کرتے ہیں۔ امیروں پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا جاتا جس کے باعث ان کے منافع بڑھتے چلے جاتے ہیں جبکہ محنت کشوں کی اجرتوں میں کمی آتی جا رہی ہے اور ان کے زیر استعمال بجلی، گیس، پٹرول، ادویات سمیت ہر شے پر ٹیکسوں کا سیلاب مسلط کیا جا چکا ہے۔

لیکن یہ صورتحال زیادہ لمبا عرصہ جاری نہیں رہ سکتی اور عوام کا یہ غم و غصہ اور حکمرانوں سے نفرت جلد اپنا اظہار کرے گی۔ ایک عوامی بغاوت اس سماج کی تہوں میں سلگ رہی ہے۔ کوئی بھی ایک چنگاری اس انقلاب کو سطح پر ابھار سکتی ہے جو ظلم اور نا انصافی پر مبنی اس طبقاتی سماج کو ختم کرنے کی جانب بڑھے گی اور محنت کش طبقے کی قیادت میں ایک سوشلسٹ انقلاب کی راہ ہموار کرے گی۔ یہی انقلاب یہاں موجود سرمایہ دارانہ نظام کا مکمل خاتمہ کرے گا اور امیر اور غریب کی یہ طبقاتی تقسیم اپنے انجام کو پہنچے گی۔

Comments are closed.