فلم ریویو: ون بیٹل آفٹر این آدر (ایک کے بعد دوسری جنگ)

”ہم ناکام ہو چکے، مگر شاید تم کامیاب ہو جاؤ۔ شاید تم اس ظلم و بربریت کی دنیا کو ٹھیک کر دو“

حال ہی میں ریلیز ہونے والی ہالی وُڈ کی فلم One Battle After Another پال تھومسن اینڈرسن کی ایک ایکشن تھرلر سے بھرپور فلم ہے جو کہ حالیہ امریکی سماج کی شاندار عکاسی کرتی ہے۔ جس میں انقلابی جدوجہد کا پسِ منظر، انفرادی دہشت گردی، مہاجرین پر وحشیانہ جبر اور ریاست کے طبقاتی کردار کو نہایت عمدہ انداز میں دکھایا گیا ہے۔

فلم کے اوپننگ سین میں ہمیں French 75 کے نام سے ایک انقلابی گوریلا گروہ نظر آتا ہے جو میکسیکو سے امریکہ ہجرت کے دوران قید ہونے والے مہاجرین کو آزاد کرانے کے لیے ایک حراستی مرکز پر مسلح حملہ کرتا ہے۔ اُس کے بعد بہت سے ایسے مناظر ہیں جن میں ”French 75“ نامی گروہ مختلف کارروائیاں کرتے ہیں جیسے کہ بینک لوٹنا، جہاں امیروں کی دولت موجود ہوتی ہے، اور اُن قانون سازوں کے دفاتر میں بم پھوڑنا جو اسقاطِ حمل کے خلاف ہیں۔

امریکی سماج گزشتہ کچھ سالوں سے تحریکوں سے بھرا پڑا ہے۔ بلیک لائیوز میٹر کی تحریک سے لے کر ٹرمپ کیخلاف ہونے والی لاکھوں افراد کی حالیہ No Kings ریلیاں اور فلسطین کی ساتھ یکجہتی کی شاندار تحریک، امریکی سماج میں حکمران طبقے کے خلاف بڑھتے غم و غصّے کا اظہار ہے۔ اس کے علاوہ انفرادی دہشت گردی کے بے تحاشا واقعات ہو رہے ہیں جیسا کہ ٹرمپ پر حملہ، ایک بڑی انشورنس کمپنی کے مالک کا قتل، ٹرمپ کے حامی سوشل میڈیا سٹار چارلی کرک کا قتل اور دیگر واقعات شامل ہیں۔

اس کے ساتھ ہی سیاسی پولیرائزیشن میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے اور کمیونسٹ نظریات کی حمایت اور مخالفت میں شدت آتی جا رہی ہے۔ ایک طرف نیویارک میں مئیر کے لیے سب سے مضبوط امیدوار سوشلزم کے نعرے لگا رہا ہے جبکہ دوسری طرف ٹرمپ کھل کر کمیونسٹ نظریات کی دشمنی کا اعلان کر چکا ہے۔ اس ساری سماجی صورتحال کا عکس ہمیں فلم میں بھی نظر آتا ہے۔ اس فلم میں جہاں مسلح جدوجہد دکھائی گئی ہے وہاں احتجاجوں کے ذریعے حکمرانوں کے خلاف پر امن مزاحمت کو بھی دکھایا گیا ہے جس پر پولیس بد ترین تشدد کرتی ہے۔

کیا انقلابی مسیحا ہوتے ہیں جنہیں پیدا ہوتے ہی جُرأت و بہادری ان کے جسم میں ودیعت کر دی جاتی ہے، اور وہ سماج کے ہر مسئلے سے بالاتر ہوتے ہیں؟ جی نہیں۔ اس فلم میں ہمیں مختلف کردار دکھائے گئے ہیں جو دو دہائیوں کی جدوجہد کے دوران مختلف مراحل سے گزرتے ہیں۔ اپنے مقصد کے ساتھ جڑے ہونے کے باوجود یہ کردار حقیقی انسانوں کی طرح ہیں اور ان کے جذبات اور احساسات جیتے جاگتے انسانوں کی طرح ہی ہیں لیکن اس تمام عمل میں وہ اپنی جدوجہد کے ساتھ بھی جڑے رہتے ہیں۔ فلم کا مرکزی کردارباب ہے جسے مشہور اداکار Leonardo DiCaprio نے نبھایا ہے۔ یہ شخص فلم کے آغاز میں اپنی سرگرمیوں میں بہت متحرک ہوتا ہے مگر بعد میں ریاستی جبر کے دوران روپوش ہوجاتا ہے لیکن اس دوران بھی وہ اپنے مقصد سے کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتا۔

پرفیڈیا (Teyana Taylor) جو ایک جذباتی اور پُرکشش سیاہ فام عورت ہے، بنک پر حملے کے دوران پرفیڈیا کے ہاتھوں ایک سکیورٹی گارڈ قتل ہو جاتا ہے جس کے بعد وہ گرفتار ہو جاتی ہے۔ سلطانی گواہ بن کر وہ اپنے مقصد سے سمجھوتہ کرتی ہے اور اپنے ساتھیوں کا پتا کرنل لاک جا کو بتا دیتی ہے۔ اس غداری کی وجہ سے اس کے بہت سارے ساتھی مارے جاتے ہیں۔ یقیناً مسلح جدوجہد کے غلط طریقہ کار اور مہم جوئیانہ طرز عمل کے سبب تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔

اسی دوران ہمیں باب اور پرفیڈیا کی بیٹی وِلا (Chase Infiniti) کا کردار نظر آتا ہے جو اپنی ماں کی گرفتاری سے کچھ ہفتے پہلے ہی جنم لیتی ہے۔ اس کے جنم کے فوری بعد ہی اس کے والدین اپنی زندگی کے ایک مختلف دور میں داخل ہوتے ہیں اور اس کی پرورش کی ذمہ داری اس کے والد کے کندھوں پر آ جاتی ہے۔ بطور والد وہ اپنی تمام ذمہ داریاں نبھاتا ہے اور بیٹی کی بہترین انداز میں پرورش کرتا ہے لیکن اس سب کے باوجود اپنے مقصد سے سمجھوتا نہیں کرتا۔

فلم میں ریاستی جبر اور حکمران طبقے کی جانب سے اپنائے جانے والے غلیظ ہتھکنڈے کھل کر دکھائے گئے ہیں جن میں تمام سماجی او قانونی اقدار اور اخلاقایت کو روند دیا جاتا ہے اور باغیوں پر ننگا جبر نظر آتا ہے۔ ایک سین میں جب ایک پُرامن احتجاج ہو رہا ہوتا ہے، تو کرنل لاک جا (Sean Penn) اپنے ہی ساتھیوں سے کہتا ہے ان احتجاجوں میں گھس جاؤ اور انہیں پُرتشدد بنا دو تاکہ ہمیں جواز مل جائے کہ ہم ان کو کچل سکیں۔اس سین کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ دکھاتا ہے ریاست کس طرح پُرامن احتجاج کو ناکام بنانے کے لیے اپنے حربے استعمال کرتی ہے۔

ایسا ہی کچھ میں نے لاہور میں PGC کے احتجاج میں دیکھا جہاں کالج کے اسٹوڈنٹس پُرامن مظاہرہ کر رہے تھے، مگر ریاست نے اپنے غنڈے بھیج کر اسے پُرتشدد احتجاج میں بدل دیا اور بے شمار طلبہ کو گرفتار کیا۔

اس کے علاوہ فلم میں امیر ترین افراد کے کرسمس ایڈونچرز کلب کے نام سے سفید فام سپریمیسی پر یقین رکھنے والے ایک انتہائی خفیہ گروپ کو بھی دکھایا گیا ہے جس میں سیاست دان، کاروباری شخصیات، بیوروکریسی اور آرمی افسران شامل ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہر حد پھلانگتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں واضح طریقے سے حکمرانوں طبقے کے نسل پرستانہ اور منافقانہ کردار کو بے نقاب کیا گیا ہے۔

آخر میں جب ولن کو شکست ہوتی ہے اور باپ بیٹی کا رشتہ نئی بنیادوں پر استوار ہوتا ہے تو باب اپنی بیٹی کو اس کی گمشدہ ماں کا خط دیتا ہے جس میں لکھا ہوتا ہے:
”ہم ناکام ہو چکے، مگر شاید تم کامیاب ہو جاؤ۔ شاید تم اس ظلم و بربریت کی دنیا کو ٹھیک کر دو“۔

اور اُس کے بعد وِلابھی اس جدوجہد کا حصہ بن جاتی ہے۔ نئی نسل سے تعلق رکھنے والی ٹین ایجر وِلا کا فیصلہ کہ وہ اپنی شرائط پر اس لڑائی کوجاری رکھے گی جو اس سے پچھلی نسل نے شروع کی تھی، ہمارے دور کے لیے ایک بُلند اور سچا پیغام ہے:

ہمت چُنو، مزاحمت چُنو، اور اس دنیا کو درست کرنے کے لیے اپنا کردار نبھاؤ۔

فلم کی بیک گراؤنڈ موسیقی سے لے کر کیمرہ ورک اور ہدایتکاری انتہائی عمدہ انداز میں یہ کہانی پیش کرتی ہے جبکہ تمام اداکاروں نے بھی تمام کرداروں میں جان ڈال دی ہے۔ انقلابیوں کو یہ فلم ضرور دیکھنی چاہیے۔

 

Comments are closed.