گلگت بلتستان: سوست بارڈر پر غیر آئینی ٹیکسوں کے خلاف احتجاجی دھرنا! جدوجہد تیز ہو!

پاکستان کو شاہراہِ قراقرم کے ذریعے چین سے ملانے والا سرحدی علاقہ سوست گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے احتجاجی دھرنے کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہ دھرنا تاجران ایکشن کمیٹی کی قیادت میں ریاستی جبر اور بے شمار رکاوٹوں کے باوجود بھرپور انداز میں جاری ہے۔ جولائی کے آخری ہفتے میں شروع ہونے والی یہ تحریک نہ صرف گلگت بلتستان کے تاجروں، بلکہ بارڈر سے وابستہ بیگیج کے محنت کشوں کو بھی بڑی تعداد میں اپنے ساتھ ملا کر چل رہی ہے۔

اس دھرنے میں جہاں سرحدی تجارت سے وابستہ تاجروں کی بڑی تعداد شریک ہے، وہیں سیاسی اور کاروباری تنظیموں کے علاوہ بیگیج سے منسلک محنت کشوں اور نوجوانوں کی بھی بھرپور حمایت حاصل ہے۔

گلگت بلتستان میں صنعتوں کی کمی اور روزگار کے دیگر مواقع کی نایابی کے باعث بیروزگاری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ان حالات میں تاریخی طور پر یہاں کے باشندے ہمسایہ ممالک جیسے افغانستان، تاجکستان (افغان کاریڈور کے ذریعے)، سری نگر (استور کے راستے)، کرگل و لداخ (کھرمنگ کے راستے)، اور چین (سوست کے ذریعے) کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کر کے اپنا روزگار حاصل کرتے تھے۔ تاہم، پاکستان کے انتظامی کنٹرول میں آنے کے بعد ریاست نے ان تمام سرحدی راستوں کو بغیر کسی واضح جواز کے بند کر دیا، جس سے مقامی لوگوں کو ان کے اہم معاشی ذرائع سے محروم کر دیا گیا۔

قراقرم ہائی وے (KKH) کی تعمیر کے بعد 1980ء کی دہائی میں چین کے ساتھ سرحدی تجارت شروع کی گئی۔ 1985ء میں گلگت بلتستان اور چین کے سرحدی شہر کاشغر کے درمیان ایک بارٹر ٹریڈ معاہدہ ہوا، جس کے تحت دونوں طرف کے باشندوں کو مال کے بدلے مال کی تجارت کی اجازت دی گئی۔ تاہم بعد کی حکومتوں نے، غالباً چینی حکومت کے دباؤ پر، گلگت بلتستان سے چین جانے والی اشیاء پر پابندیاں عائد کیں۔ اس پالیسی کے نتیجے میں صرف چینی تاجروں کو فائدہ ہوتا رہا اور سرحدی تجارت رفتہ رفتہ خسارے میں جاتی رہی۔

جب دیگر سرحدی گزرگاہیں بند کر دی گئیں تو چین کے ساتھ تجارت ہی مقامی تاجروں کا واحد ذریعہ معاش بن گئی۔ مگر حالیہ برسوں میں این ایل سی (نیشنل لاجسٹک کارپوریشن)، جو ایک عسکری کمپنی ہے، نے اس تجارت پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ اس قبضے کے باعث چھوٹے مقامی تاجر اس کاروبار سے مکمل طور پر باہر کر دیے گئے ہیں۔

این ایل سی نے گزشتہ دو برسوں میں سوست بارڈر پر کاروباری سرگرمیوں میں مسلسل رکاوٹیں پیدا کیں، اور وفاقی حکومت کی جانب سے مختلف غیر آئینی اور غیر قانونی ٹیکسز کے نفاذ کے باعث یہاں کے نوجوانوں کے لیے سرحدی تجارت جاری رکھنا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے۔

ان مظالم اور ناانصافیوں کے خلاف مقامی تاجر متحد ہو کر سوست بارڈر پر دھرنا دے چکے ہیں اور چین سے آنے والی تمام گاڑیوں کا داخلہ روک دیا گیا ہے۔ یہ دھرنا گزشتہ 45 دنوں سے جاری ہے۔ احتجاج کی حمایت میں انجمن تاجران گلگت بلتستان نے گزشتہ جمعہ کو پورے علاقے میں کامیاب شٹر ڈاؤن ہڑتال کی، جب کہ چیمبر آف کامرس، ہوٹل ایسوسی ایشن، ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن، کنٹریکٹرز ایسوسی ایشن اور دیگر کاروباری تنظیموں نے بھی اپنی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔تحریک کے قائدین کا کہنا ہے کہ چونکہ گلگت بلتستان پاکستان کا آئینی حصہ نہیں ہے، اس لیے یہاں کے باشندوں پر کسٹمز، انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس جیسے ٹیکسز کا نفاذ آئینی اور قانونی طور پر ناجائز ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ گلگت بلتستان کو ان ٹیکسز سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔

عوامی ایکشن کمیٹی نے بھی اس دھرنے کے تمام مطالبات کی حمایت کی ہے، اور اب یہ احتجاج ایک وسیع تر عوامی تحریک کی شکل اختیار کر رہا ہے۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی سوست میں جاری اس دھرنے کے تمام مطالبات کی مکمل حمایت کرتی ہے اور یہ واضح کرتی ہے کہ: سوست بارڈر پر جاری کاروباری سرگرمیوں سے ہزاروں افراد کا روزگار وابستہ ہے، اور ان کے لیے اس کے سوا کوئی دوسرا ذریعہ معاش موجود نہیں۔ پاکستان کے آئین کے مطابق پارلیمنٹ کی طرف سے پاس کردہ ٹیکسز صرف ان علاقوں پر لاگو ہوتے ہیں جو پاکستان کا آئینی حصہ ہوں، جب کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پاکستان کی آئینی حدود سے باہر ہیں۔ لہٰذا انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، کسٹمز ٹیکسز اور سوست بارڈر پر قائم کسٹم چوکی کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا جانا چاہیے۔تمام شہریوں کوروزگار دینا ریاست کی ذمہ داری ہے، یا پھرفی الفور بے روزگاری الاؤنس دیا جائے۔ ہم احتجاجی مظاہریں پر جبر دھمکیوں اور تشدد کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ اور مطالبہ کرتے ہیں کہ فی الفور تمام مطالبات منظور کیے جائیں۔

 ہم گلگت بلتستان کے بیگیج سے وابستہ محنت کشوں اور نوجوانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس ظلم، جبر اور معاشی استحصال کے خلاف متحد ہو کر آواز بلند کریں۔ یہ لڑائی تب تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک یہ تحریک پورے گلگت بلتستان میں ایک منظم عوامی تحریک کی صورت اختیار نہ کرے۔اسی مقصد کے لیے انقلابی کمیونسٹ پارٹی، عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ مل کر کوشش کرے گی کہ بارڈر تاجر اتحاد احتجاج کو پورے گلگت بلتستان کے محنت کش عوام کی معاشی، سماجی اور سیاسی حقوق کی تحریک کا حصہ بنایا جائے۔

 

Comments are closed.