سامراجی طاقتوں کی باہمی کشمکش اور انقلابی سیاست

عالمی و ملکی سطح پر ہونے والے تیز ترین واقعات واضح کرتے جا رہے ہیں کہ پرانا عہد اور پرانا ورلڈ آرڈر تیزی سے ختم ہو رہا ہے اور اس کی جگہ ایک نیا ورلڈ آرڈر اپنے قدم جمانے کی کوششیں تیز کر رہا ہے۔ چین میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ اجلاس نے اس امر کو مزید واضح کر کے رکھ دیا ہے۔ امریکی سامراج کی قیادت میں موجود پرانا ورلڈ آرڈر اپنے بقا کی تگ و دو میں پاگل پن کی حدتک ہاتھ پیر مار کر بچنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن وقت کا دھارا اس کو بہا لے جا رہا ہے۔

چین میں ہونے والے اس اجلاس میں روس اور چین عالمی سطح پر ابھرنے والے نئی سامراجی طاقتوں کے طور پر کھل کر سامنے آئے ہیں اوراس اجلاس کے ذریعے امریکہ اور اس کی اتحادی مغربی سامراجی طاقتوں کے مقابلے میں ایک متوازی عالمی طاقت کے طور پر خود کو پیش کیا ہے۔اس اجلاس میں انڈیا کی بھرپور شرکت انتہائی معنی خیز رہی اور امریکی سامراج اور بالخصوص ٹرمپ کے لیے شدید ہزیمت کا باعث بنی۔ انڈیا کو اس سے پہلے امریکی سامراج کے اتحادی کے طور پر دیکھا جا رہا تھا،خاص طور پر 2014ء میں مودی کے آنے کے بعد امریکہ اور انڈیا کے باہمی تعلقات میں مزید گرمجوشی آئی تھی اور دونوں ممالک جنوبی اور مشرقی ایشیا میں اپنے سامراجی مفادات کے تحفظ کے لیے مل کر ایک بلاک تشکیل دے رہے تھے۔

اس دوران امریکہ اور انڈیا کے دفاعی اور سٹریٹجک تعلقات میں بھی تعاون تیز ہوا تھا اور دونوں ممالک خطے میں چین کے سامراجی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے مل کر حکمت عملی ترتیب دے رہے تھے۔ درحقیقت حالیہ عرصے میں امریکہ نے عالمی سطح پر چین کو ہی اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دے دیا تھا اور اپنی تمام تر خارجہ پالیسی کا محور چین مخالف کاروائی پرہی مرکوز کر دیا تھا۔اس سال ٹرمپ کے دوسرے دور اقتدار میں یہ عمل مزید تیز ہو گیا اور تجارتی جنگ کا پوری شدت کے ساتھ آغاز کیا گیا جس کا حتمی مقصد عالمی سطح پر چین کی بڑھتی تجارت اور سامراجی اثرو رسوخ کو کم کرنا تھا۔ لیکن اس جنگ میں ٹرمپ کو کئی محاذوں پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر چین پر عائد انتہائی بلند شرح کے ٹیکس کو کم کرنا پڑا۔اس کی وجہ جہاں عالمی سطح پر پورے سرمایہ دارانہ نظام کے مالیاتی بحران اور تجارت کے انہدام کا خدشہ تھا وہاں چین نے بھی مختلف کلیدی مصنوعات جیسے کے نایاب دھاتوں پر اجارہ داری کو استعمال کرتے ہوئے ٹرمپ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔

اس دوران ٹرمپ کا زیادہ تر غصہ اپنے اتحادی ممالک پر ہی نکلتا رہا جبکہ وہ روس کے ساتھ بہتر تعلقات بنانے اور یوکرین جنگ ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف رہا۔ اس دوران انڈیا کے ساتھ تجارتی معاہدے پر تعلقات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے اور آخر مودی اور ٹرمپ جیسے دو قریبی دوستوں کی دوستی مخاصمت میں بدل گئی۔ اس صورتحال میں انڈیا اور پاکستان کی چا رروزہ جنگ نے بھی اہم کردار ادا کیا جس کے دوران مودی اور ٹرمپ کے باہمی تعلقات کشیدہ ہو گئے اور ٹرمپ نے مودی کی مخالفت میں پاکستان کے گماشتہ حکمرانوں کو تھپکیاں اور شاباش دینی شروع کر دی۔اس دوران فیلڈ مارشل کو وائٹ ہاؤس میں لنچ بھی کروایا گیا تاکہ مودی کو نیچا دکھایا جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے انڈیا پر تجارتی جنگ کا دوسرا بڑا حملہ کر دیا اور انڈیا پر عائد 25 فیصد ٹیرف کو کم کرنے کی بجائے دگنا کر دیا اور کہا کہ انڈیا روس سے تیل درآمد کر کے یوکرین کی جنگ میں روس کی مدد کر رہا ہے جس سے امریکی مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ٹرمپ کا خیال تھا کہ ان اقدامات کے بعد وہ مودی کے ساتھ مذاکرات کی میز پر دوبارہ تعلقات بہتر کر لے گا اور انڈیا سے امریکہ کے لیے ایک بہتر تجارتی معاہد ہ کر پائے گا۔

درحقیقت تجارتی جنگ کے اعلان کے بعد دنیا کے بہت سے ممالک سے اس نے اسی طرز پر معاہدے کیے ہیں جن میں جاپان اور جنوبی کوریا سے لے کر برطانیہ اور یورپی یونین شامل ہیں۔لیکن انڈیا کے معاملے میں یہ وار کارگر ثابت نہیں ہوا اور انڈیا نے امریکہ کی طرف سے عائد کردہ 50 فیصد ٹیکس میں کمی کے لیے مذاکرات کرنے کی بجائے چین سے تعلقات بہتر کرنے کے عمل کا آغاز کر دیا۔اس عمل میں مودی کا چین کا حالیہ دورہ کلیدی اہمیت کا حامل تھا جس کے دوران چینی اور روسی صدر کے ہمراہ مودی کی تصویر پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ میں کئی دن تک زیر بحث رہی۔

انڈیا اور چین کی باہمی کشیدگی اور مخاصمت کی ایک لمبی تاریخ ہے اور 1962ء میں دونوں کی جنگ بھی ہو چکی ہے۔ لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے دونوں ممالک کے سامراجی مفادات ایک دوسرے سے براہ راست ٹکرا رہے ہیں اور دونوں خطے میں ایک دوسرے کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوششیں کرتے چلے آ رہے ہیں۔ خاص طور پر جنوبی ایشیا میں ان دونوں سامراجی طاقتوں کا ٹکراؤ خطے میں طاقتوں کے توازن کو مسلسل تبدیل کر رہا ہے۔ چین نے گزشتہ دو دہائیوں میں سری لنکا، نیپال، بنگلہ دیش اور مالدیپ میں اپنے اثر ورسوخ میں کئی گنا اضافہ کر لیا ہے اور انڈیا کے سامراجی مفادات کو ان ممالک میں شدید نقصان پہنچا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں سی پیک کے منصوبوں کے تحت چین کی سرمایہ کاری کئی گنا بڑھ چکی ہے جبکہ پاکستان کی دفاعی ضروریات کا 85فیصد سے زائد چین سے درآمد کیا جاتا ہے۔ درحقیقت دنیا میں چین کا اسلحہ خریدنے والا سب سے بڑا ملک پاکستان ہی ہے۔چین پاکستان کو انڈیا کے خلاف ایک سٹریٹجک اتحادی کے طور پر بھی دیکھتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ فوجی اعتبار سے انڈیا کی توجہ پاکستان پر ہی مرکوز رہے تاکہ وہ چین کے ساتھ محاذ آرائی کی جانب نہ بڑھ پائے۔ اس دوران انڈیا اور چین کے سرحدی تنازعوں میں بھی اضافہ ہوا اور 2020ء میں لداخ میں ان دونوں ممالک کے فوجیوں کی ایک چھوٹی سی جھڑپ بھی ہوئی تھی جس میں 24کے قریب فوجیوں کی ہلاکت کی اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں شدید تناؤ پیدا ہو گیا تھا۔ انڈیا میں چین کیخلاف ایک ملک گیر مہم شروع کر دی گئی تھی اور ٹک ٹاک سمیت بہت سی چینی مصنوعات اور سافٹ وئیر پر پابنادی عائد کر دی گئی تھی۔

لیکن اب صورتحال پھر ایک نئی ڈرامائی تبدیلی کا موڑ مڑ چکی ہے اور خطے کی دونوں سامراجی طاقتیں ایک دوسرے کے قریب آ رہی ہیں۔ انڈیا اور چین کی باہمی تجارت کا حجم تمام تر تناؤ اور مخاصمت کے باوجود 118 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ چکا ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے پر تجارتی اور صنعتی حوالے سے بہت زیادہ انحصار بھی کرتے ہیں۔آنے والے عرصے میں اس حجم میں مزید اضافے کا امکان ہے۔

دوسری طرف امریکہ کی جانب سے پابندیوں کے باوجودانڈیا نے روس سے پہلے سے بھی زیادہ خام تیل درآمد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پہلے ہی انڈیا دنیا میں تیل کا ایک بڑا ایکسپورٹر بن چکا ہے اور روس سے امپورٹ کرنے والا خام تیل ریفائن کرنے کے بعد یورپ کو ایکسپورٹ کر کے اربوں ڈالر کما چکا ہے۔یوکرین جنگ کے بعد سے یورپی ممالک پابندیوں کے باعث روس کے سستے تیل سے محروم ہو چکے تھے جس کے بعد انڈیا نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا۔پہلے امریکی صدر بائیڈن نے خود انڈیا کو اس اجازت دی تاکہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں بڑا اضافہ روکا جا سکے لیکن اب یہ عمل امریکی مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے جسے وہ روکنا چاہتے ہیں۔اس دوران انڈیا کے سرمایہ دار، بالخصوص مکیش امبانی اس تجارت سے اربوں ڈالر کما چکے ہیں جب کے عوام معاشی بحران کی دلدل میں مزید دھنس رہے ہیں اور ملک میں غربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہورہا۔ موجودہ صورتحال میں معاشی بحران کے خطرات بڑھ رہے اور انڈیا کی کرنسی کی قدر میں بھی گراوٹ آ رہی ہے۔ مودی کی مقبولیت پہلے ہی کم ہو رہی ہے اور اس کیخلاف نفرت اور غم و غصہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

اس تمام صورتحال کے اثرات پاکستان کی ریاست اور سیاست پر مرتب ہونا ناگزیر ہے۔ پاکستان ایک طرف آئی ایم ایف کے قرضوں اور امریکی سامراج کی جکڑ بندی کا شکار ہے جس کے تحت یہاں کا حکمران طبقہ اپنے سامراجی آقاؤں کے تلوے چاٹنے میں کوئی کمی نہیں آنے دیتا جبکہ دوسری جانب چین کی سامراجی طاقت کا سب سے کھلا اظہار پاکستان میں ہی ہو رہا ہے جہاں مالیاتی جکڑ بندی کے ساتھ دفاع اور سٹریٹجک معاملات میں بھی چینی سامراج کا اثر کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ خاص کر مئی میں ہونے والی چار روزہ جنگ کے بعد چینی سامراج کا پاکستان کے دفاعی معاملات میں اثر و رسوخ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ اسی باعث پاکستان کے حکمران اس چڑھتے سورج کی پوجا کرنے میں بھی کوئی کمی نہیں آنے دے رہے اور ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ عالمی سطح پر ابھرنے والی اس نئی سامراجی طاقت سے بھی ہڈیوں کے ٹکرے انہیں ملتے رہیں خواہ اس کے لیے عوام کو قرضوں کے بوجھ تلے دیوالیہ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔انڈیا اور چین کی باہمی کشیدگی کا بھی پاکستان نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے اور انڈیا کیخلاف اپنی پوزیشن کو مستحکم کیا ہے لیکن اب اس کشیدگی میں کمی خطے پر اثرات مرتب کرے گی۔ دوسری طرف ٹرمپ بھی مودی سے تعلقات بحال کرنے کی کوششیں کر رہا ہے جس کا ملبہ پاکستان کے حکمرانوں پر گرسکتا ہے۔

درحقیقت اس وقت پوری دنیا ہی ملٹی پولر یا کثیر القطبی ورلڈ آرڈر کی جانب بڑھ رہی ہے جس کا اظہار مختلف واقعات کے ذریعے ہو رہا ہے۔ دراصل اس صورتحال کا خاصہ تیز ترین ڈرامائی تبدیلیاں ہیں، جس میں سطح پر موجود صورتحال بالکل الٹ شکل اختیار کر لیتی ہے گوکہ سطح سے نیچے جاری عمل اسی سمت میں آگے بڑھتا رہتا ہے۔ امریکی سامراج واضح طور پر زوال پذیر ہے اورعالمی سطح پر جو اجارہ داری وہ دو دہائی قبل رکھتا تھا آج اس سے بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ اسی کو امریکی سامراج کا نسبتی زوال کہا جارہا ہے۔ امریکہ کے اتحادی یورپی ممالک کی صورتحال اس سے بھی بدتر ہے اور ان کا کردار انتہائی محدود ہو چکا ہے۔

یہ تناظر انقلابی کمیونسٹ آج سے دس سال پہلے پیش کررہے تھے اور اس تبدیلی کے حوالے سے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کر رہے تھے اور اس صورتحال کے تحت ابھرنے والی عوامی تحریکوں میں مداخلت کی تیاری کے لیے نئی سیاسی حکمت عملی ترتیب دے رہے تھے۔ اس وقت کے اکثرمہان دانشور اس تناظر کو یکسر رد کر رہے تھے اور کہا جا رہا تھا کہ امریکی سامراج کے پیچھے ہٹنے کے کوئی امکانات نہیں اور ورلڈآرڈر مضبوطی سے قائم ہے۔ اس کے بالکل الٹ دوسری جانب کچھ لوگ تیسری عالمی جنگ کا تناظر دے رہے تھے جس کو بھی انقلابی کمیونسٹوں نے رد کیا اور کہا کہ بہت سی نئی جنگوں اور خانہ جنگیوں کے امکانات ضرور موجود ہیں لیکن عالمی سطح پر جوہری ہتھیاروں کی موجودگی اور دیگر عوامل کے باعث ایسی کسی بھی جنگ کا کوئی امکان موجود نہیں۔

اسی طرح یہ بھی واضح کیا کہ عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کی زوال پذیری کے باعث چینی سامراج بھی شدید مسائل اور بحرانات کا شکار رہے گا اور اس میں اتنی صلاحیت موجودنہیں کہ وہ مکمل طور پر امریکی سامراج کی جگہ لے سکے اور اپنی اجارہ داری کو امریکہ کی طرح مضبوطی سے مسلط کر سکے۔آج پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ترقی پذیرممالک میں یہ صورتحال واضح ہے جہاں تمام تر مواقع ملنے کے باوجود چینی سامراج معیشت اور ریاست پر مکمل اجارہ داری حاصل نہیں کر سکا اور وہ ممالک آج آئی ایم ایف اور مغربی سامراجی اداروں کی جکڑ بندیوں میں پہلے کی نسبت زیادہ شدت سے موجود ہیں۔ سری لنکا اس کی ایک اور بڑی مثال ہے جو کچھ سال قبل دیوالیہ ہو گیا تھا لیکن چین اس کو مکمل طور پر بیل آؤٹ نہیں کر سکا۔

ان تبدیلیوں کا اظہار سماج کی بد ترین گراوٹ اور سیاسی تبدیلیوں میں بھی ہو رہا ہے۔پاکستان کی معیشت دیوالیہ پن کی حدوں کو چھو چکی ہے اور عالمی سامراجی طاقتیں گدھ کی طرح یہاں کے عوام کی پیدا کردہ دولت کا آخری قطرہ بھی نچوڑ کر لے جا رہی ہیں۔آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ساتھ اب چین کی سامراجی کمپنیاں اور بینک بھی اس ملک کی معیشت کو لوٹ رہے ہیں جبکہ عوام ترقی اور خوشحالی کے دعوے سن رہے ہیں اور بڑے انفرااسٹرکچر کے منصوبوں کو تعمیر ہوتے دیکھ رہے ہیں لیکن ان کے سائے تلے مزید محرومی اور غربت میں دھنستے جا رہے ہیں۔ اس دوران یہاں کے حکمران طبقے کی لوٹ مار بھی اربوں روپے سے کھربوں روپے میں جا چکی ہے اور اس کو بڑھانے کے لیے ہر سال عوام پر نئے ٹیکس لگا دیے جاتے ہیں جبکہ ان پر ہونے والے اخرجات میں بڑے پیمانے پر کٹوتی لگا دی جاتی ہے۔ اسی طرح ملک میں جو تھوڑی بہت جمہوری آزادیاں موجود تھیں ان کا بھی قلع قمع کر دیا گیا ہے اور ریاست کا بد ترین جبر ہر سیاسی اور سماجی کارکن کی گردن تک پہنچ چکا ہے۔

اس سب کے خلاف بغاوتیں بھی ابھر رہی ہیں اور اس وقت بھی پاکستان کے بہت سے حصوں میں عوامی تحریکیں موجود ہیں جو اس ظلم کیخلاف بغاوتیں کر رہی ہیں۔ لیکن اس وقت افق پر حاوی سیاست میں اس نئی سماجی وسیاسی صورتحال کے مطابق عوام کی نجات کا کوئی پروگرام موجود نہیں۔عوام کی رگ و پے میں حکمران طبقے کیخلاف شدید نفرت اور غم و غصہ موجود ہے اور جو بھی لیڈر یا فرد حکمران طبقے اور ان کے گماشتوں کیخلاف علم بغاوت بلند کرتا ہے وہ تیزی سے عوام میں مقبولیت حاصل کر لیتا ہے۔ پشتون اور بلوچ عوامی تحریک کی قیادتوں کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف اور عمران خان کی سیاسی افق پر پذیرائی اور حمایت کے پیچھے مشترک وجہ عوام کی یہی نفرت اور غصہ ہے حالانکہ ان تمام تحریکوں کی بنیادیں ایک دوسرے سے الگ بھی ہیں۔


لیکن ان تمام تحریکوں میں ایک دوسرا مشترکہ پہلو ان کی قیادت کے پاس نجات کے پروگرام کی عدم موجودگی ہے۔عمران خان تو پہلے بھی اقتدار میں رہ چکا ہے اور اس کی پارٹی پختونخواہ میں ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے اقتدار میں ہے۔ اس دوران انہوں نے عوام دشمن اقدامات کے نئے ریکارڈ بنائے ہیں اور سامراجی غلامی کی تمام حدیں پار کر دی ہیں۔ اسی طرح ان کے پاس سرمایہ دار طبقے کی لوٹ مار کے خاتمے کا کوئی پروگرام نہیں بلکہ درحقیقت تحریک انصاف اسی طبقے کا آلہ کار ہے اورانہی کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے اقتدار میں آنا چاہتی ہے تاکہ مزدور طبقے کا مزید استحصال کیا جا سکے۔ اگر عمران خان کو دوبارہ اقتدار ملتا ہے تو وہ بھی امریکی اور چینی سامراج کی گماشتگی کرنے کے ساتھ عوام پر مظالم کے نئے پہاڑ توڑے گا۔ دوسری طرف نئی عوامی تحریکوں کی ابھرنے والی قیادت بھی قوم پرستی کے فرسودہ نظریات کے باعث بحران کا شکار ہے اور تحریکوں کو آگے لیجانے کی بجائے ان کے رستے کی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

اس وقت نجات کا رستہ صرف انقلابی کمیونزم کے نظریات ہیں جن کے تحت سرمایہ دار طبقے کیخلاف ایک طبقاتی جنگ کا آغاز کرتے ہوئے اسے فیصلہ کن شکست دی جائے اور مزدور طبقے کی حکمرانی کا آغاز کیا جائے۔ مزدور طبقے کی حکومت کے تحت ہی سامراجی غلامی سے نجات مل سکتی ہے اور یہاں پیدا ہونے والی تمام دولت سامراجی طاقتوں کی لوٹ کی بجائے عوام کی فلاح و بہود پر خرچ ہو گی اور ہر شخص کو روٹی، کپڑا، مکان، علاج اور تعلیم مزدور ریاست کی طرف سے فراہم کیا جائے گا۔ یہ انقلاب برپا کرنے کے لیے انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی تعمیر وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

 

Comments are closed.