|تحریر: فرحان رشید|

گزشتہ چند روز سے ملتان کی انتہائی پسماندہ تحصیل جلالپور پیروالہ، جو چناب و ستلج کے سنگم پر واقع ہے، مسلسل خبروں کی زینت بنی ہوئی ہے کیونکہ یہ تحصیل سیلاب کی زد میں آ چکی ہے۔ تقریباً چھ لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل اس تحصیل کے 114 مواضعات میں سے 80 سے زائد براہِ راست سیلابی پانی تلے آ چکے ہیں۔ لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہوچکے ہیں جبکہ لاکھ سے زائد اب تک محصور ہیں، اور آنے والے دو دنوں میں ان کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔ اموات کے حوالے سے کوئی حتمی اعداد و شمار دستیاب نہیں مگر وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔
کیا یہ سیلاب اچانک تھا؟
حکومت یہ تاثر دے رہی ہے کہ ملک گیر سیلابی صورتحال دراصل بھارتی آبی جارحیت کا نتیجہ ہے یعنی بھارت نے اچانک زیادہ پانی چھوڑ دیا جس کا مقابلہ ممکن نہیں تھا۔ یہ دعویٰ سراسر جھوٹ اور دھوکہ ہے۔ طویل عرصے سے ایسے وقوعات متوقع تھے اور اس کا سبب کلائمیٹ چینج ہے۔ دنیا کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے گلیشیئرز کے پگھلاؤ میں اضافہ ہوا ہے، بارشوں کے روّیے، دورانیے اور شدت میں تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، اور ان عوامل کی بنا پر اس طرح کی تباہیوں کی پیشین گوئیاں پہلے ہی کی جا چکی تھیں۔
مگر ریاست کی جانب سے اس النوع خطرات کے لیے کوئی تیاری موجود نہ تھی، اور نتیجتاً یہ تباہی عوام کا مقدر بن گئی۔ جہاں تک جلالپور پیروالہ کا تعلق ہے، یہ سیلاب کسی صورت اچانک نہیں تھا؛ اس میں ریاستی نااہلی واضح نظر آتی ہے۔
جلالپور میں سیلابی صورتحال کا آغاز 6 ستمبر کو نہیں ہوا۔ درحقیقت یہاں کی تباہی کا آغاز 22 اگست سے ہوا جب شہر سے تقریباً پانچ کلومیٹر جنوب مشرق میں ستلج کے کنارے واقع موضع جھانبو کا بند ٹوٹا اور پانی کا ریلا متعدد ایکڑ فصلیں تباہ کرتے ہوئے نہر سے آن ملا۔ تب سے عوام خود ہی بند باندھنے اور حفاظت کے انتظامات میں مصروف رہے جبکہ حکومت اور انتظامیہ خوابِ غفلت میں سوتی رہی اور شہر تک پانی کے داخل ہونے تک بے حس رہی۔ چنانچہ چناب کا سیلابی پانی کئی سو میل کا فاصلہ طے کرتے ہوئے ایک ہفتے کے اندر یہاں پہنچا اور انتظامیہ بخوبی باخبر تھی کہ کتنا بڑا حجم پانی جلالپور کی حدود میں داخل ہوگا، مگر انتظامیہ کی بے حسی کے باعث پانی نے شمال مغرب میں موضع میراں ملہہ سے شروع ہو کر کھاکھی پونٹہ، مانک والی، شاہ ہور لماں، بیٹ قیصر، بیٹ کیچ، وچھہ سندیلہ، نڑول، شینی، دراب پور، خان بیلہ تک راستہ بناتے ہوئے تقریباً 20 کلو میٹر دور جلالپور شہر میں داخل ہو کر تباہی مچا دی۔
انتظامیہ کی لوٹ مار اور بے حسی
یہ واضح ہو چکا ہے کہ سیلابی صورتحال اچانک نہیں بنی بلکہ انتظامیہ کو کافی وقت ملا تھا۔ اس کے باوجود انتظامیہ نے لوٹ مار کا موقع ضائع نہ کیا۔ انہوں نے شہر کے گرد ایک نیم کارآمد بند تعمیر کروایا مگر کسی بھی جگہ سنجیدہ حفاظتی اقدامات نہ کیے۔ حقیقت یہ ہے کہ شہر کے بند کو جو تعمیر کروائی گئی وہ نہ تو مضبوط تھا اور نہ ہی موثر؛ بلکہ یہ اس تحصیل کا سب سے کمزور مگر سب سے مہنگا بند ثابت ہوا۔ بند کی تعمیر کا کروڑوں روپے کا ٹھیکہ مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے رانا قاسم نون نے اپنے قریبی ٹھیکیدار رانا جمیل کو دلوا دیا، جس نے چند لاکھ کی لاگت سے عاری سروس انجام دی اور پیسہ مل بانٹ کر ڈکارلیا۔
لوٹ مار کا سلسلہ نیا نہیں۔ حالیہ سیلاب میں بھی جلالپور پیروالہ میں پانی کے داخل ہونے کے پیچھے 2010ء کی درندگی یعنی یوسف رضا گیلانی کے دور میں بنائے گئے ناقص معیار کے گیلانی ایکسپریس روڈ کا بڑا حصہ ہے۔ اس روڈ کی تعمیر معیاری نہ تھی؛ یہ روڈ 10 فٹ سے 15 فٹ تک بلند ہے مگراتنا ہی گھٹیا کہ پہلے ہی برسوں میں اس پر دراڑیں پڑ گئیں اور یہ حفاظتی ڈیزائن میں خامی کی وجہ سے بچاؤ کے راستے میں رکاوٹ بن گیا۔ جب سیلاب آیا تو اس روڈ نے پانی کی گزرگاہ روک کر ہزاروں گھر برباد کرائے اور عوامی احتجاج کے بعد ہی اس روڈ میں شگاف ڈالا گیا۔ ستم ظریفی یہ کہ یہاں دریا کی گزرگاہ وہاڑی کا پُل ہی حکمران کھا گئے۔
اسی لوٹ مار اور بے حسی کا اظہار ان سیلاب کے دنوں میں بہت کھل کر ہوا کہ سیلاب کے دوران مریم نوازکے دورے سے قبل نا تو سیلاب متاثرین کے لیے کشتیاں تھیں نا ہی خوراک نا کیمپ، مگر مریم کے دورے کے بعد کسی ’الا دین کے چراغ‘ کے جادو کی مثل یہ سب کچھ یہاں آن پہنچا۔ مریم نوازکے دورے سے قبل جلالپور پیروالہ کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد محصورین کیلیے صرف ڈیڑھ درجن کشیتاں تھیں جن میں سے دو تہائی ناکارہ اور خراب تھیں۔ اتنا ہی نہیں، ریاستی اہلکاروں کی جانب سے ریسکیو کے عوض چالیس سے پچاس ہزار روپے تک معاوضہ وصول کیا گیا، اس قسم کی بے دردی اور رشوت خوری شرمناک ہے۔
حکمرانوں کی تشہیر اور سیاسی نمائش
اس آفت کے دوران حکمرانوں کی تشہیر اور سیاسی نمائش بھی کھل کر سامنے آئی۔ پاکستان جیسی پسماندہ ریاست میں آفات حکومتوں کے لیے ایک منافع بخش ذریعہ بھی بن جاتی ہیں: بیرونی امداد کے ذریعے اربوں روپے آتے ہیں اور سیاستدان سوشل میڈیا پر اپنی تشہیر کر کے سیاسی فوائد حاصل کرتے ہیں۔ اس بار بھی ادارے، افسران اور سیاستدان ریلز اور ٹک ٹاکز پر مصروف رہے، مگر حقیقی امداد اور بروقت حرکت نہیں کی گئی۔
سب سے گھٹیا کمپئین جلالپور کے ایم پی اے نازک کریم لانگ نے کی ہے جو اس وقت شہر کو بچانے اور یہاں مریم نواز اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کے دورے کو بھی اپنی حاصلات گنوا رہا ہے، جبکہ حقیقت یہ کہ یہی خاندان پچھلے 18 سال سے مسلسل اسی شہر کا ایم پی اے ہے، مگر ان سے شہر کا ایک بند تعمیر نہیں ہوا جو اس علاقے کو بچاتا، جب آج یہاں کی عوام نے یہ بند تعمیر کیا یے تو وہ دو فوٹو بنوا کر کریڈٹ لے رہا ہے۔
بند بنوانا، شہریوں کا ریسکیو اور متاثرین کو ریلیف دینا ریاست اور حکومت کی بنیادی ذمہ داری تھی۔ تاہم ریاست نے یہ ذمہ داری پوری نہ کی۔ اب جب عوامی دباؤ کے بعد کچھ این جی اوز اور سرکاری عملہ چند روٹیوں یا ایک دو شاپر چاول کے ذریعے ریلیف فراہم کر رہے ہیں، تو اس عمل میں بھی عوام کی توہین جاری ہے۔ ایک شاپر چاول دے کر فوراً تصویریں بنا کر میڈیا پر دکھانا متاثرہ عوام کی تذلیل کے سوا کچھ نہیں۔
کیا کیا جائے؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ سیلابی کیفیت اس حکمران ٹولے اور ریاست کی نااہلی کا ایک کھلا ثبوت ہے۔ ریاست اپنی کسی بھی بنیادی ذمہ داری کو پورا کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ روٹی، کپڑا، مکان تو دور کی بات صرف جان کا تحفظ بھی ندارد۔
جہاں کہیں عوام کو ریسکیو کیا گیا اس کی وجہ سوشل میڈیا کے ذریعے بننے والا عوامی دباؤ تھا، نہ کہ ریاست کی پیشگی منصوبہ بندی۔ ریاست کی ذمہ داری محض چند نوالے روٹی دینے تک محدود نہیں ہونی؛ ریاست کو مستقل اور مؤثر حفاظتی اقدامات کرنے ہوں گے۔ اسی طرح ریاست کو تمام تر مشینری کے باوجود چند ہزار کو ریسکیو کرنے کے بجائے جوابدہ ہونا ہوگا ان سینکڑوں عوام کی جانوں کا جن کو اس نے اپنی غفلت سے مارا ہے۔ لہٰذا ریاست اور حکمران ذمہ دار ہیں اس سب جانی و مالی بربادی کے جس سے آج نا صرف جلالپور پیروالہ بلکہ پورا پاکستان گزر رہا ہے۔
ہر انقلابی جانتا ہے کہ سرمایہ دارانہ ریاست امیروں کی ریاست ہوتی ہے جس کا مقصد محنت کش عوام کا استحصال ہے۔ اس لیے حکومتی فریادوں سے امید وابستہ کرنا قطعاً مناسب نہیں؛ ہمیں اپنی حالت خود بدلنی ہو گی۔ ریاست سے عرضیوں یا فریادوں کی بجائے جدوجہد کے ذریعے حقوق چھینے جائیں گے، یہی واحد راستہ ہے۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے مطالبات ہیں کہ:
1) تمام سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو فی الفور آفت زدہ کرار دیا جائے ہر قسم کے ٹیکسوں یا بلات کی وصولی پر پابندی لگائی جائے۔
2) سیلاب میں پھنسے لوگوں کو ہنگامی بنیادوں پر ریسکیو کیا جائے۔
3) زرعی ایمرجنسی کا نفاذ کرتے ہوئے تمام کسانوں کو نا صرف زمینیں تیار کرکے دی جائیں بلکہ بیج، کھاد، پانی اور زرعی ادویات بالکل مفت فراہم کی جائیں۔
4) سیلاب سے بے گھر ہونے والے افراد کو گھر تعمیر کر کے دیے جائے۔
5) سیلاب زدہ علاقوں کے طلبہ کی فیسوں کا مکمل خاتمہ کیا جائے نیز تعلیمی اداروں میں مفت ہاسٹل اور میس فراہم کیے جائیں۔
6) زرعی کنیکشنز پر بجلی مفت کی جائے اور سابقہ بل معاف کیے جائیں۔
7) تمام افراد کیلیے خوراک اور رہائش کا فی الفور انتظام کیا جائے۔
8) سیلاب کے پانی کے اترنے کے بعد اُبھرنے والی وباؤں سے نمٹنے کیلیے ابھی سے عملی اقدامات کا آغاز کیا جائے۔