اردن: عوامی تحریک کے نتیجے میں وزیر اعظم مستعفی

|تحریر: فلورین کیلر، ترجمہ: اختر منیر|

4 جون سوموار کے روز اردن کا وزیر اعظم ہانی الملکی کو مستعفی ہونے پر مجبور ہو گیا۔ یہ ابھرتی ہوئی عوامی تحریک کے نتیجے میں ہوا جس نے ملک کو بنیادوں تک ہلا کر رکھ دیا ہے۔

to read this article in English, click here

اس تحریک کا آغاز پچھلے بدھ سے ہوا جب حکومت نے انکم ٹیکس بڑھانے کا اعلان کیا اور کم آمدنی والوں پر بھی ٹیکس لاگو کر دیا۔ یہ تجویز ایسے وقت میں سامنے آئی جب محنت کش، غریب اور یہاں تک کہ درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے بھی بڑھتی ہوئی مہنگائی سے جوج رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اس سال سبسڈی کے خاتمے کے بعد روٹی کی قیمت دگنی ہو گئی اور تیل کی قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ بجلی کی قیمتوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا اور اب جب گرمی بڑھ رہی ہے تو یہ اس سال کے شروع کے مقابلے میں 55 فیصد تک بڑھ چکی ہیں۔

ان مشکل حالات نے آبادی کی ان پرتوں کو بھی بغاوت پر مجبور کر دیا جنہیں پہلے استحکام کا ستون تصور کیا جاتا تھا۔ یونینوں کی ہڑتال کی کال پر ہزاروں لوگ نکل آئے جن میں سرکاری ملازمین، ڈاکٹر، صحافی، استاتذہ، وکیل، فارماسسٹ اور انجینئرز کے علاوہ چھوٹے تاجر اور دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں۔ یہ 2011ء کے بعد ہونے والا سب سے بڑا احتجاج تھا۔ احتجاج کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ احتجاج کے شرکا صرف سرگرم کارکنان ہی نہیں تھے بلکہ ہزاروں عام افراد شامل تھے جو اس سے قبل غیر سیاسی گردانے جاتے تھے، مگر زندگی کے نامساعد حالات اب انہیں سڑکوں پر کھینچ لائے ہیں۔ ان کا بنیادی نعرہ ’’جینا ہے تو لڑنا ہو گا‘‘ تھا مگر کچھ ایسے نعرے بھی تھے جو 2011ء کے عرب انقلاب کی یاد تازہ کرتے ہیں، جیسے ’’لوگوں کی خواہش حکومت گراؤ‘‘۔

حیران کن طور پر حکومت نے اس تحریک کے جواب میں سبسڈیز پر مزید کٹوتیوں کا اعلان کر دیا جو کہ سرا سر اشتعال انگیزی تھی۔ جمعرات کے دن انہوں نے بجلی کی قیمت میں 18 فیصد اور تیل کی قیمت میں 5.5 فیصد اضافے کا اعلان کر دیا جس کا اطلاق اگلے روز سے ہونا تھا۔

یہ اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا ثابت ہوا۔ ہزاروں محنت کش اور طلبہ دوبارہ سڑکوں پر نکل آئے۔ تحریک دارالحکومت عمّان سے نکل کر پورے ملک میں پھیل گئی۔ تمام بڑے شہروں میں مظاہرے ہوئے جن میں سلط، طفیلہ، معان اور زرقاء شامل ہیں۔ ملک کے شمالی حصے اربد اور عجلون میں مظاہرین نے ٹائر جلا کر بڑی سڑکیں بلاک کر دیں۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے کہ ایک عوامی تحریک نے پورے ملک کے بڑے شہروں اور قصبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی دیکھنے میں آئیں۔ جب عمّان میں تقریباً 2ہزار مظاہرین نے وزیراعظم کے دفتر تک جانے کی کوشش کی تو پولیس نے ان پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال کیا۔ حالات واضح طور پر مزید کشیدگی کی طرف جا رہے تھے۔

مظاہرین لوک گیتوں میں سیاسی پیغام شامل کر کے بھی گاتے رہے جیسے کہ یہ والا گیت جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت ’’چوروں کا ٹولہ‘‘ ہے:

اس سب نے بادشاہ عبداللہ دوم کو مداخلت پر مجبور کیا۔ اس نے سبسڈیز پر اعلان کردہ کٹوتیوں کو ختم کرنے کا حکم دے دیا۔ مگر اس سے تحریک رکی نہیں۔ اس کے برعکس اس سے تحریک کو اپنی طاقت کا ادراک ہوا اور وہ مزید بے باک ہو گئی۔ چنانچہ سوموار کے روز اسے روکنے کی سخت کوشش کرتے ہوئے اس نے انتہائی غیر مقبول وزیراعظم کو بھی برخاست کر دیا۔ اس وقت ان میں سے بہت لوگ جنہوں نے پہلی مرتبہ جدوجہد کا راستہ اختیار کیا ہے، بہت خوشگوار موڈ میں ہیں اور مطلق العنان بادشاہت کے کردار کو لے کر خوش فہمیوں کا بھی شکار ہیں۔ ولی عہد انہی خوش فہمیوں کو مضبوط کرنے کے لیے باہر سڑکوں پر آیا اور پولیس کو ’’مظاہرین اور ان کے اظہارِ رائے کے حق‘‘ کی حفاظت کرنے کو کہا۔ مگر یہ واضح ہے کہ یہ ایک چال سے زیادہ کچھ نہیں جس کا مقصد کچھ لوگوں کی قربانی دیتے ہوئے پوری حکومت کو بچانا ہے۔ مگر یہ آسان نہیں ہوگا۔

نئی حکومت نے یونینوں کو مذاکرات کی دعوت دی ہے جس سے متحرک عوام اس کی کمزوری بھانپ رہے ہیں۔ مڈل ایسٹ آئی کو انٹرویو دیتے ہوئے احتجاج میں شامل ایک نوجوان دیما خرابشہ کی بات سے ان جذبات کا واضح اظہار ہو رہا تھا:

’’حکومت لوگوں نے گرائی ہے۔ اس نے رضاکارانہ طور پر استعفیٰ نہیں دیا۔ صرف چہرے بدلنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ہم ان معاشی پالیسیوں کو بدلنے تک سڑکوں پر ہی رہیں گے جن کی وجہ سے شہری زندگی کی بنیادی ضرویات بھی نہیں خرید سکتے۔‘‘

نئی حکومت کے پاس مراعات دینے کی گنجائش بہت کم ہے۔ انکم ٹیکس کا نیا قانون اور ضروری اشیاء کی سبسڈیز پر مسلسل کٹوتیوں کے حملوں دراصل حکومت کی اپنے قرضوں کو کم کرنے کو کوشش ہے، جو ملک کے جی ڈی پی کا تقریباً 90 فیصد بنتے ہیں۔ یہ اردن کی کنگال حکومت کو قرض دینے کے لیے IMF کی بنیادی شرط ہے۔

ہم غربت کیخلاف نہیں لڑ سکتے اس لیے غریبوں کیخلاف لڑیں گے

ملک معاشی بدحالی کا شکار ہے اور اس کی بنیادی وجہ بیرونی سرمایہ کاری کی کمی ہے اور یہ کمی اتنی شدید ہے کہ یہ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ حکومت نے خود احتجاج کو ہوا دی تاکہ خلیجی ریاستیں اور ان کے بدعنوان مطلق العنان حکمران اپنے ممالک میں بغاوت کے خوف سے ان کی معیشت میں پیسہ پھینکیں۔ اگر یہ سچ ہے تو اردن کا حکمران طبقہ نہ صرف بہت بے چین بلکہ انتہائی احمق بھی ہے۔ البتہ ایک چیز تو بہت واضح ہے: سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے بحران کے رہتے امیر اور طاقتور افراد کے پاس مزید کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔ نیا وزیراعظم عمر الرزاز ورلڈ بینک کا سابق معیشت دان ہے۔ اس کے پاس بھی محنت کشوں، غریبوں اور یہاں تک کہ درمیانے طبقے کے افراد، جو ماضی میں نسبتاً مراعات یافتہ تھے، پر بے دریغ حملے کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔

یہ سب کچھ ان حالات میں ہو رہا ہے جب پورے خطے میں سالوں کی رجعت اور خانہ جنگی کی چھایا کے بعد لوگوں نے عوامی جدوجہد کی طرف لوٹنا شروع کر دیا ہے۔ سالوں سے عوام کو بہتر زندگی کی جدوجہد سے باز رکھنے کے لیے عراق اور شام کی فرقہ وارانہ جنگوں کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مگر اب ایک کے بعد دوسرے ملک، عراق سے ایران، مصر سے فلسطین اور اب اردن میں بھی یہ دلیل اپنی طاقت کھوتی جا رہی ہے اور انقلابی روایات عوام میں پھر سے سر اٹھانے لگی ہیں۔ یہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ حتمی طور پر مشرق وسطیٰ میں مظلوم محنت کشوں، نوجوانوں اور غریبوں کے مسائل صرف اور صرف ایک عوامی انقلابی جدوجہد کے ذریعے اس بدعنوان حکمران طبقے اور پورے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے سے ہی حل ہو سکتے ہیں۔

Comments are closed.