کشمیر:آزادی کا حصول محنت کش طبقے کی حمایت سے ہی ممکن ہے!

|تحریر: آدم پال|

کشمیر میں ظلم و جبر کی ایک نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے اور اس خطے کے تمام حکمران طبقات سمیت دنیا بھر کی سامراجی طاقتیں اس خونی کھیل میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ بیس روز سے زائد ہو چکے ہیں اور وادی کشمیر میں مکمل طور پر لاک ڈاؤن جاری ہے اور وادی کی اسی لاکھ سے زائد آبادی کو موت کے منہ میں دھکیلا جا رہا ہے۔ سات لاکھ کے قریب فوج آزادی کے جذبے سے سرشار عوام کو کچلنے کی بھرپور کوششوں میں مصروف ہے۔ 5اگست کو مودی کے گھناؤنے فیصلے کے بعد سے اب تک تمام تر علاقے کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو بھی نہیں بخشا گیا اور ہر شخص کے لیے ہر قسم کی نقل و حرکت بند ہے ۔ اشیائے خوردونوش کی شدید قلت ہوتی جارہی ہے جبکہ ادویات کی عدم دستیابی اور علاج کی سہولیات نہ ملنے کے باعث بہت سے افراد موت کے منہ میں دھکیلے جا رہے ہیں۔ عید اور جمعہ کے اجتماعات پر بھی مکمل طور پر پابندی عائد کی جا چکی ہے اور تمام کاروبار زندگی مکمل طور پر بند کیا جا چکا ہے۔ سرکاری دفاتر، سکول ،کالج سمیت ہر قسم کے بنیادی ضرورت کے اداروں پر تالے پڑے ہوئے ہیں اور حکمران طبقات کی خواہش ہے کہ یہاں رہنے والے ہر شخص کی زبان پر بھی تالے لگا دیے جائیں۔لیکن انتہائی سخت ترین جبر کے باوجود کچھ جگہوں پر احتجاج دیکھے گئے ہیں اور وادی کے عوام تمام تر رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اپنے بنیادی انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔ میڈیا کے داخلے پر بڑے پیمانے پر پابندی عائد ہے اور صرف حکومت نواز صحافیوں کو وہاں جانے کی اجازت دی جارہی ہے۔ مقامی میڈیا کو مکمل طور پر خاموش کروا دیا گیا ہے اس لیے وہاں کی صورتحال کی تفصیلات دنیا بھر کے سامنے نہیں آسکتیں۔ لیکن اس کے باوجود کچھ جرات مند صحافیوں کی کاوشوں کے باعث تھوڑی بہت اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔ جن کے مطابق وہاں احتجاج کا سلسلہ کسی نہ کسی حد تک جاری ہے جن پر بھارت کی قابض افواج کی جانب سے فائرنگ بھی کی جارہی ہے جبکہ آنسو گیس اور پیلٹ گن کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔کچھ صحافی حالیہ دنوں میں پیلٹ گن کے متاثرہ افراد کے انٹرویو کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جنہوں نے ظلم و جبر کے قصے سنائے ہیں۔اس کے علاوہ احتجاجوں کی کچھ ویڈیوز بھی سامنے آئی ہیں جس میں ایک احتجاج میں دس ہزار سے زائد افراد کی شرکت کی خبر دی گئی ہے۔ سب سے اہم ترین امر اس احتجاج میں خواتین کی بچوں سمیت بڑے پیمانے پر شرکت تھی جنہوں نے بلند آواز میں آزادی کے نعرے لگائے۔
اس تمام صورتحال میں ہندوستان کے بائیں بازو کی جانب سے شدید رد عمل دیکھنے میں آ رہا ہے جنہوں نے ملک گیر سطح پر احتجاجوں کی کال بھی دی ہے۔اس کے علاوہ ان بائیں بازو کی پارٹیوں سے وابستہ صحافی بھی مختلف ویڈیوز اور انٹرویوز منظر عام پر لا رہے ہیں جن سے وادی کے زمینی حقائق کو منظر عام پر لایا جارہا ہے۔ کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی مگرمچھ کے آنسو بہا رہی ہیں اور انسان دوستی کا ناٹک کر رہی ہیں لیکن ان پارٹیوں اور ان کے قائدین سے کسی کو بھی بہتری کی امید نہیں ہے۔

اس تمام عمل میں جہاں ہندوستان کی سرمایہ دارانہ جمہوریت کے چہرے سے نقاب اترا ہے اور اس کا خون آلود حقیقی چہرہ دنیا کو نظر آرہا ہے وہاں پاکستان سمیت دنیا بھر کے حکمران طبقات کا انسان دوستی کا ناٹک بھی عوام پر عیاں ہوا ہے۔ دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت سامراجی طاقتوں کے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بنائے گئے اداروں کا بھی حقیقی کردار سامنے آیا ہے۔اقوام متحدہ کے خصی پن اورسامراجی طاقتوں کی غلامی کی ایک لمبی تاریخ ہے اور خاص طور پر عراق پر امریکی سامراج کی مسلط کردہ جنگ کے موقع پر یہ کھل کر ننگا ہو گیا تھا لیکن آج ایک بار پھر اس عوام دشمن ادارے کا کردار واضح ہوا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں سمیت بہت سے قوم پرستوں کی امیدوں کا مرکز آج بھی یہی ادارہ ہے اور اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کی آج بھی مسلسل کوششیں جاری رہتی ہیں جس کے سبب یہ تمام بیماریاں پھیلی ہیں۔ لیکن اب مکمل طور پر واضح ہو چکا ہے کہ اس ادارے کا مقصد مخصوص طاقتوں کی حکمرانی کو جاری و ساری رکھنا ہے اور حتمی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کا تحفظ کرنا ہے خواہ اس کے لیے لاکھوں انسانوں کے خون کی بلی ہی کیوں نہ چڑھانی پڑے۔ کشمیر کے مسئلے پر اس ادارے نے درحقیقت یہی فیصلہ دیا ہے کہ وہاں موجود انسانوں کے خون کی ہولی سے انہیں کوئی تشویش نہیں اور نہ ہی وہ اسے روکنے کی کوشش کریں گے۔ دراصل یہ ”چوروں کا باورچی خانہ“ بنایا ہی اس لیے گیا تھا تاکہ حکمران طبقات عوام پر اپنے مظالم کو جاری رکھنے کے لیے قواعد و ضوابط کر سکیں۔
امت مسلمہ کا بھانڈا بھی بیچ چوراہے پھوٹ چکا ہے اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے مودی کو اعلیٰ ترین سول اعزاز دینے کی تقریب نے واضح کر دیا ہے کہ حکمران طبقے کا مذہب، قوم، رنگ اور نسل کی بنیاد پر کوئی اختلاف موجود نہیں، یہ چورن صرف عوام کو تقسیم کرنے اور ان پر حکومت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ دیگر اسلامی ممالک بشمول سعودی عرب اور ایران کی جانب سے بھی مودی کی جانب دوستانہ رویے نے اس حقیقت کی قلعی کھول دی ہے اور آج اس ملک میں بسنے والے ہر باشعور شخص کے سامنے یہ واضح ہو چکا ہے کہ اسلامی ممالک کے حکمرانوں سے انسانی ہمدردی کی توقع رکھنا بیوقوفی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ان حکمرانوں نے جہاں اپنے ممالک کے عوام اور وہاں موجود تارکین وطن محنت کشوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں وہاں یمن اور شام سمیت مختلف ممالک میں سامراجی جنگیں بھی جاری رکھی ہوئی ہیں جہاں مذہب یا مسلک کے بندھنوں سے آزاد یہ اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے ہر طاقت سے سودے بازی کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔خواہ اسرائیل کے خون آشام صیہونی حکمران ہوں یا امریکی سامراج کے کوئی دوسرے گماشتے یہ ان کی کاسہ لیسی کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
ہمالیہ سے بلند دوستی والے ملک چین کے حکمران طبقے کا عوام دشمن کردار تو اب پہلے سے بھی زیادہ واضح ہو چکا ہے۔ سی پیک کے منصوبے کے باعث عوام کے ٹیکسوں سے بھرنے والے سرکاری خزانے کی لوٹ مارہو یا مظلوم قومیتوں کو رستے سے ہٹانا ہو، یہ سامراجی طاقت کسی بھی ظلم و جبر سے گریز نہیں کرتی ۔ خود چین کے اندر سنکیانگ میں قومی اور مذہبی جبر میں بد ترین اضافے سے لے کر ہانگ کانگ کے پرامن احتجاجوں پر خوفناک ریاستی جبر تک ان حکمرانوں کے نوکیلے دانت بھی عوام کے خون سے لتھڑے ہوئے ہیں۔ ایسے میں کشمیر کے عوام کے لیے ان سے کسی بھی قسم کی امیدلگانا زہر قاتل کے سوا کچھ بھی نہیں۔ بھارت کے ساتھ آج بھی ان کی سو ارب ڈالر کے قریب سالانہ باہمی تجارت ہو رہی ہے اور امریکہ کے ساتھ جاری تجارتی جنگ کی انتہا کے دوران وہ اس منڈی سے کسی بھی قیمت پر دستبردار نہیں ہوں گے۔ اس لیے مودی کے ساتھ برادرانہ تعلقات ہی چین کے حکمران طبقات کی اولین ترجیح ہے اور ان کے لیے کشمیر میں بسنے والے لاکھوں افراد کی زندگیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔
یورپی یونین، انسانی حقوق کی تنظیموں اور دیگر ایسے ہی اداروں کی منافقت بھی اب کھل کر سامنے آ چکی ہے جس میں کوئی بھی ادارہ اس جبر کی کھل کر مذمت نہیں کر سکااور صرف ہلکا پھلکا رونا دھونا اور مگر مچھ کے آنسو بہانا ہی کافی سمجھا گیا۔ یہ تمام صورتحال ان تمام لبرل اور قوم پرست خواتین و حضرات کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے جو اس سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے تحت بنائے گئے مختلف اداروں کے در پر ہی سجدہ کرنے کے عادی ہیں اور ان ہی اداروں کی عظمت کے گن گاتے نظر آتے ہیں۔ ماضی میں کئی تحریکوں کو ان اداروں کی چوکھٹ پر لا کر زائل کیا گیا ہے اور ان اداروں کی جعلی قراردادوں اور معاہدوں کے ٹرک کی بتی کے پیچھے عوام کو کئی دہائیوں تک لگایا گیا ہے تاکہ وہ اسی ذلت پر مبنی نظام میں زندگی گزارتے ہوئے جھوٹی امیدوں پر تکیہ کیے بیٹھے رہیں۔ آج یہ دنیا بھر میں مختلف واقعات سے واضح ہو چکا ہے کہ یہ ادارے، ان کے قواعد و ضوابط، ان کے طے کردہ اصولوںاور قراردادوں کا مقصد صرف یہی ہے کہ حکمران طبقات کی حاکمیت کو کسی نہ کسی طریقے سے قائم رکھا جائے اور عوامی تحریکوں کا گلا گھونٹ کر انہیں اس عوام دشمن نظام کی حدود میں مقید رکھا جائے۔ لیکن یہ تمام تر نظام اور اس کے ادارے آج اتنے بوسیدہ ہوچکے ہیں کہ عوامی تحریکوں کو اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے جو تھوڑی بہت گنجائش ماضی میں مل جایا کرتی تھی، جس کے باعث ان تحریکوں کے مفاد پرست لیڈر وں کو اپنی لیڈری چمکانے اور ذاتی عیش و عشرت حاصل کرنے کا موقع ملا جاتا تھا، وہ گنجائش بھی اب ختم ہو چکی ہے۔اور اب حکمرانوں کے پاس سوائے ننگے جبر کے اور کوئی رستہ موجود نہیں۔
لبرل اور قوم پرستوں کے علاوہ مذہبی بنیاد پرستوں کے نعروں کا کھوکھلا پن بھی موجودہ صورتحال نے عیاں کر دیا ہے اور وہ اتنے بڑے واقعات میں اپنا موقف دینے سے بھی قاصر ہیں، کوئی عملی اقدام تو بہت دور کی بات ہے۔ان قوتوں کی بنیاد کسی نہ کسی شکل میں ریاستی پشت پناہی ہی رہی ہے اور یہ اپنا آزادانہ کردار استوارکرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اور آج جب ان کے تمام تر نعروں پر عملدرآمد کا وقت آیا تو وہ منظر سے اس طرح غائب ہو چکے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ ان کی سیاسی بنیادیں عوام میں پہلے بھی بڑے پیمانے پر موجود نہیں تھیں لیکن اب ان کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ہو چکا ہے اور ان کے پاس اتنے اہم مسئلے اور اس کی گمبھیر ترین شکل میں اپنے مقتدیوں کے دینے کے لیے کوئی پیغام نہیں جو ان کے دیوالیہ پن کا اظہار کرتا ہے۔
لیکن اس تمام تر عمل میں سب سے زیادہ پاکستان کے حکمران طبقات کا دوغلا پن اور کمزور کردار واضح ہوا ہے جو کسی بھی قسم کی مزاحمت سے قاصر نظر آتے ہیں۔مودی کو بد دعائیں دینے کے علاوہ یہ عملی طور پر کشمیر کے عوام کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکے بلکہ ایک ممکنہ جنگ کے خطرے نے ان کو مزید ہیجان میں مبتلا کر دیا ہے۔پہلے ہی مغربی سرحد پر امریکی سامراج انہیں بھاری ذمہ داریاں سونپ رہا ہے اور امریکی انخلا کے بعد کی صورتحال ان کے یے پریشان کن ہے۔ جبکہ اسی دوران مشرقی سرحد پر اتنے بڑے پیمانے پر ہلچل اور عوامی تحریکیں آنے والے عرصے میں طوفانی واقعات کا پیش خیمہ بن رہی ہیں۔
اس دوران نام نہاد آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بسنے والوں کے لیے فیصلہ کن مراحل قریب آتے جا رہے ہیں۔یہاں گزشتہ لمبے عرصے سے نام نہاد آزادی کے ناٹک کے ذریعے قومی جبر جاری رکھا گیا ہے اور اس مسئلے کو بنیاد بنا کر کشمیر کے عوام سمیت پاکستان کے محنت کشوں کے خون اور پسینے کی کمائی حکمرانوں کی تجوریوں میں منتقل ہوتی رہی ہے۔اس ملک کے حکمرانوں کی زندگیاں عیش و عشرت میں گزر رہی ہیں جبکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام سمیت پاکستان کے محنت کش طبقات غربت، ذلت، بیماری اور جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں زندگیاں گزارتے رہے ہیں۔ اگر صرف نام نہادآزاد کشمیر کی بات کی جائے تو یہاں علاج کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اور ہر سال ہزاروں افراد قابل علاج بیماریوں سے مر جاتے ہیں۔روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں اور آبادی کے ایک بڑے حصے کو بیرونی ممالک میں جلاوطنی اختیار کرنی پڑتی ہے اور وہاں انتہائی بد ترین حالات میں مزدوری کر کے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنا پڑتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر افراد خلیجی ممالک میں بر سر روزگار ہیں جہاں نہ کوئی بنیادی انسانی حقوق میسر ہیں اور نہ ہی کسی بھی قسم کے لیبر قوانین موجود ہیں ۔ وہاں مزدوروں کا بد ترین استحصال کیا جاتا ہے اور ان سے انتہائی کم اجرت پر سولہ سولہ گھنٹے سے بھی زیادہ انتہائی سخت مشقت کروائی جاتی ہے۔لیکن اتنی سخت محنت کے باوجود کشمیر میں اِس پاررہنے والوں کی زندگیاں بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہیں۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی ان کی تمام تر جمع پونجی کو نگل جاتی ہے اور اگر کسی گھر میں کوئی فرد بیمار ہو جائے تو باقی کی زندگی بھی گروی رکھنی پڑ جاتی ہے۔گھروں اور انفرااسٹرکچر کی حالت انتہائی مخدوش ہے اور ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر ایک سخت ترین اذیت کے سوا کچھ نہیں۔بارشوں میں یہ عذاب کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور کئی حادثات اور اموات کا باعث بنتا ہے جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تعلیمی اداروں کی حالت پہلے سے بد تر ہو چکی ہے اور سکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک کے لیے حکومت کے پاس کوئی بجٹ نہیں جس کے باعث ناخواندگی میں اضافہ ہورہا ہے۔ خواتین کی حالت سب سے بد تر ہے اور ہر سال ہزاروں خواتین زچگی کے دوران ہلاک ہو جاتی ہیں جبکہ ایک بہت بڑی تعداد خوارک کی کمی کا شکار ہے۔اس کے علاوہ رجعتی رسوم و رواج نے خواتین کی زندگیوں کو مزید جہنم بنایا ہوا ہے اوربنیادی سہولیات کے فقدان کے باعث انہیں آج بھی قدیم طریقوں سے امور خانہ داری انجام دینے پڑتے ہیں۔ کھانا پکانے سے لے کر سخت سردی کا مقابلہ کرنے کے لیے درکار بنیادی سہولیات محنت کشوں کے لیے موجود نہیں اور وہ ایک مسلسل اذیت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ گلگت بلتستان میں یہ مسائل کئی گنا بڑے حجم کے ساتھ موجود ہیں اور وہاں کی آبادی کو بھی یہ سرمایہ دارانہ نظام بہتری دینے کی بجائے مزید ذلت میں دھکیل رہا ہے۔
ایسی صورتحال میں ان محنت کش عوام کے لیے بھی قومی جبر کے ساتھ ساتھ معاشی نا ہمواری کیخلاف ابھرنے والے جذبات آزادی کے نعرے میں اپنا اظہار کرتے ہیں۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں حالیہ ریاستی جبر اور وحشت کے بعد یہاں بھی حقیقی آزادی کی جدوجہد نے ایک نیا آغاز کیا ہے اور اس کے لیے دوبارہ سرگرمی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 26اگست کو ہونے والے آزاد کشمیر کے ہر ضلع میں احتجاجی مظاہرے اس نئی تحریک کا محض چھوٹا سا آغاز ہے اور آنے والے عرصے میں یہ تحریک عوام کے موجودہ نظام اور ریاستی جبر کیخلاف غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے مختلف اتار چڑھاؤ کے ساتھ پھیلتی چلی جائے گی۔لیکن ضروت ہے کہ اس تحریک کو درست نظریاتی بنیادوں پر استوار کیا جائے اور ایک انقلابی لائحہ عمل وضع کرتے ہوئے اسے درست بنیادوں پر آگے بڑھایا جائے۔

اس تحریک میں جہاں قومی جبر کیخلاف پوری شدت کے ساتھ میدان میں اترنے کی ضرورت ہے وہاں ہر موقع پر حکمران طبقے کے گٹھ جوڑ اور ان کے عوام دشمن کردار کی تفصیل سے وضاحت کرنا بھی ضرور ی ہے۔ جہاں مودی کے جبر کیخلاف ہندوستان کے محنت کش طبقے کی جدوجہد آج واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے اور ان کی  گزشتہ سالوں کی ملک گیر ہڑتالوں کی طاقت کو محسوس کیا جا سکتا ہے وہاں پاکستان کے حکمران طبقے کے مظالم کیخلاف یہاں کے محنت کشوں سے اپیل کرنا انتہائی کلیدی نکتہ ہے۔جہاں دنیا بھر کے حکمران اپنے نظام اور اقتدار کے تحفظ کے لیے اکٹھے ہیں وہاں محنت کشوں کو بھی اپنے طبقے کے مفادات کے لیے متحد ہونا ہو گا۔ نام نہاد آزاد کشمیر میں احتجاج کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے ٹریڈ یونینز کو شامل کرتے ہوئے ایک کامیاب عام ہڑتال کی جانب بڑھنا ہو گا اور پھر اس میں گلگت بلتستان کے عوام کو بھی شامل کرنے کی جدوجہد کرنا ہو گی۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ پاکستان اور ہندوستان کے محنت کش طبقے سے بھی لازمی اپیل کرنی ہو گی تا کہ وہ بھی ایک عام ہڑتال کے ذریعے اپنے اپنے حکمران طبقے کے ان سامراجی اقدامات کی مذمت کریں اور انہیں اکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد کا آغاز کریں۔ ہندوستان کے محنت کش طبقے کی مودی کیخلاف عام ہڑتال کشمیر کی آزادی کے لیے اہم ترین سنگ میل ثابت ہو گی اور یہی اثرات سرحد کے اِس جانب ہونے والی عام ہڑتال مرتب کرے گی۔ آنے والے عرصے میں اگر دونوں ممالک کے حکمران طبقات حالات کو ایک جنگ کی جانب لے کر بڑھیں تو بھی محنت کشوں کو اس عام ہڑتال کے پروگرام سے پیچھے نہیں ہٹنا ہوگا بلکہ ان سامراجی جنگوں کو ختم کرنے اور اس پورے خطے کو آگ اور خون میں دھکیلنے کی کوششوں کیخلاف سب سے موثر ہتھیار اس خطے کے محنت کشوں کی ایک مشترکہ عام ہڑتال ہی بنے گی۔یہاں کے محنت کشوں کی اس جدوجہد کو دنیا بھر کے محنت کشوں سے لازمی حمایت ملے گی جو درحقیقت اس پوری دنیا کو رواں دواں رکھنے میں اپنا خون اور پسینہ بہاتا ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کے حکمران طبقات سے حمایت لینے کی بجائے  دنیا بھر کے محنت کشوں کی حمایت ہی کشمیر کی آزادی کے خواب کو حقیقت میں تبدیل کرے گی ۔ یہی حمایت اس عام ہڑتال کو بھی کامیابی کی جانب لے کر جائے گی۔
یہ عام ہڑتال درحقیقت اس سرمایہ دارانہ نظام کیخلاف فیصلہ کن جدوجہد کا نقطہ آغاز ہو گی اور یہاں ایک سوشلسٹ انقلاب کی بنیاد بنے گی۔ صرف جنوبی ایشیا کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن میں ہی تمام مظلوم قومیتوں کو حقیقی آزادی مل سکتی ہے اور ہر قسم کے قومی اور طبقاتی جبر کا مکمل خاتمہ ہو سکتا ہے۔یہ حقیقت آج پہلے کی نسبت کئی گنا زیادہ واضح انداز میں خطے کے محنت کشوں کے سامنے واضح ہو چکی ہے۔

Comments are closed.