|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، خیبر پختونخوا|

گزشتہ ہفتے ملاکنڈ یونیورسٹی میں تین روزہ ایکسپو کا انعقاد نہ صرف طلبہ کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع دینے کے لیے کیا گیا، بلکہ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم تھا جہاں طلبہ مختلف سٹالز، سائنسی و سماجی نمائشوں، مباحثوں، تخلیقی سرگرمیوں اور ثقافتی پروگراموں کے ذریعے اپنی علمی و فکری استعداد کو سامنے لا سکے۔ اس دوران ایک ایسا لمحہ بھی آیا جب پختون معاشرے کے روایتی رقص اَتن کا اظہار کیا گیا، جس میں ایک پروفیسر نے طلبہ کے ساتھ شرکت کی۔ یہ ایک صحت مند، ثقافتی اور غیر سیاسی سرگرمی تھی جو کسی بھی تعلیمی ادارے میں ہونی چاہیے۔
لیکن مذہبی انتہا پسند اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے اس سرگرمی کو بنیاد بنا کر غلیظ پروپیگنڈا شروع کر دیا، یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر کفر کے فتوے، گمراہ کن ویڈیوز، اور منظم کردار کشی کی مہم چلائی گئی۔ یہ کوئی نیا عمل ہے اور نہ ہی اچانک سامنے آیا ہے، یہ اس طرزِ سیاست کا حصہ ہے جو نوجوانوں کی خوشی، آزادی، اظہار اور سماجی ترقی سے خوفزدہ ہے۔

تعلیمی اداروں کی بربادی: سیکورٹی، کنٹرول اور ذہنی دباؤ کے آلات
ایک طرف یہ مذہبی قوتیں ثقافتی سرگرمیوں کے خلاف محاذ کھولتی ہیں، جبکہ دوسری طرف ریاست اور یونیورسٹی انتظامیہ نے تعلیمی اداروں کو پہلے ہی سیکورٹی کے نام پر نیم فوجی چھاؤنیوں میں بدل دیا ہے۔یونیورسٹی کے ہر دروازے پر مسلح گارڈ، طلبہ کی غیر ضروری چیکنگ، آزادی اظہار اور تنظیم سازی پر پابندیاں، ”اچھے“ اور ”برے“ طلبہ کی درجہ بندی، سخت حاضری، بے مقصد اسائنمنٹس اور نمبروں کی دوڑ وغیرہ وغیرہ اس ماحول نے طلبہ کو شدید ذہنی دباؤ، بے چینی اور معاشرتی تنہائی کا شکار بنایا ہے۔ ایسے میں ثقافتی سرگرمیاں یہ دباؤ کم کرنے اور طلبہ کی سماجی و ذہنی نشوونما کے لیے بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ لیکن انتہا پسند گروہ اس صحت مند سرگرمی کو بھی ”فحاشی“ بنا کر پیش کرتے ہے۔
درحقیقت یہ اس ریاست اور اس پر براجمان حکمران طبقے کی پالیسی ہے کہ تخلیقی سرگرمیوں کو کچلا جائے اور طلبہ کو صرف غلامانہ طرز زندگی گزارنے کی تربیت دی جائے۔ طلبہ کو غلام رکھنے کے لیے ہی ہر کیمپس میں مذہبی بنیاد پرست جتھوں کو انتظامیہ کی پشت پناہی میں مسلط کیا جا تا ہے جبکہ جمہوری سیاسی سرگرمیوں اور تخلیقی اور ثقافتی سوچ پر قدغنیں لگائی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں تعلیم کا معیار پست تر ہوتا جا رہا ہے اور پورا سماج اندھی کھائی میں گر رہا ہے۔
Down with religious extremism in Malakand!!!
— Khadija (@KhadijaA1917) December 5, 2025
Beautiful Attan by Prof Sajid Khan at the University of Malakand ❤️
Down with all the bickering Mullahs!!! pic.twitter.com/q2t7UdjoBK
رقص، موسیقی، شاعری، تہوار یہ سب انسانی تاریخ میں اجتماعی bonding، اظہارِ وجود، اجتماعی شناخت اور سماجی یکجہتی کے آلات رہے ہیں۔ اَتن محض رقص نہیں بلکہ اجتماعی اظہار کا طریقہ ہے۔ یہ خوشی، جشن اور اجتماعی یکجہتی کی علامت ہے۔ تاریخی طور پر یہ استعماری جبر کے خلاف پشتون مزاحمتی تہذیب کا حصہ بھی ہے۔لہٰذا اتن فحاشی نہیں، بلکہ ایک علامتی اظہار ہے جس کے ذریعے ایک قوم اپنی تاریخ، اپنی مزاحمت اور اپنی شناخت کو زندہ رکھتی ہے اور سب سے بڑھ کر لوگ اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
اسے فحاشی کہنا دراصل وہی moral policing ہے جسے Antonio Gramsci ”ثقافتی بالادستی“ کے نظریے میں بیان کرتے ہیں یعنی سماج پر ایک خاص گروہ کی اخلاقیات زبردستی تھونپنا۔
مذہبی انتہا پسندی دراصل طلبہ کی آزادی سے خوفزدہ سیاست کی عکاسی ہے۔ ان انتہا پسند گروہوں کے پاس نہ تعلیم کا کوئی پروگرام ہے نہ طلبہ کے حقوق کا کوئی ایجنڈ ا نہ معاشی اصلاحات اور نہ ہی بے روزگاری یا مہنگائی کے خلاف جدوجہد کا کوئی واضح اور ٹھوس راستہ ان کی سیاست کنٹرول، خوف، پابندی اور فتویٰ پر چلتی ہے۔
یہ ہر اس کلچر، رقص، موسیقی، کتاب، فلسفے اور سوچ سے دشمنی رکھتے ہیں جو نوجوانوں کو questioning اور آزادی کی طرف لے جاتی ہے۔
اصل مسئلہ اتن نہیں بلکہ وہ معاشی و سماجی جبر ہے جس کا شکار ہمارے طلبہ ہیں جیسا کہ فیسوں میں بے تحاشا اضافہ، مہنگی تعلیم اور صحت، بے روزگاری، کیمپس میں عسکری ماحول، طلبہ یونین پر پابندی، انتہا پسندی اور خوف کی سیاست۔
لہٰذا طلبہ کو چاہیے کہ:
1۔ یونیورسٹیوں کو جیلوں میں بدلنے کے خلاف منظم ہوں
2۔ فیسوں میں اضافے کے خلاف اجتماعی جدوجہد کریں
3۔ طلبہ یونین کی بحالی کے لیے مضبوط اور واضح پروگرام اپنائیں
4۔ مذہبی انتہا پسندوں کے پروپیگنڈے کو نظریاتی اور سیاسی سطح پر جواب دیں
5۔ اپنی ثقافتی آزادی، علمی آزادی اور سماجی حقوق کے لیے جدوجہد تیز کریں
6۔ سرمایہ دارانہ نظام کی پیدا کردہ بے روزگاری، مہنگائی، ناانصافی اور جبر کے خلاف متحد ہوں کر انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے پرچم تلے سرمایہ درانہ نظام کا خاتمے کی جدو جہد تیزکرے جو کہ ان تمام مسائل کی جڑ ہے۔















In defence of Marxism!
Marxist Archives
Progressive Youth Alliance