خیبر پختونخوا: سکولوں اور کالجوں کی نجکاری کے خلاف طلبہ سراپا احتجاج۔۔۔سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹیاں بنانے کی طرف بڑھو!

خیبر پختونخوا حکومت نے تعلیمی اداروں کی نجکاری کی پالیسی کا آغاز کر دیا ہے، جس کے تحت مختلف پرائمری سکولوں اور کالجوں کو پرائیویٹائز کیا جائے گا۔ اس فیصلے کے خلاف پورے پختونخوا میں طلبہ اور ٹیچنگ سٹاف نے بھر پور احتجاج کیے ہیں۔ طلبہ نے کلاسوں کا بائیکاٹ بھی کیا ہے اور احتجاج کر تے ہوئے تعلیمی اداروں کو بند بھی کیاہے۔

انقلابی کمونسٹ پارٹی حکومت کی اس تعلیم دشمن پالیسی کی بھرپور مخالفت کرتی ہے اور طلبہ کی ساتھ اس جدوجہد میں شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مفت اور معیاری تعلیم ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور یہ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ تمام شہریوں کو مفت اور معیاری تعلیم مہیا کرے۔

اس وقت خیبر پختونخوا کی حکومت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے تعلیمی اداروں کی نجکاری کر رہی ہے۔ اس عمل کو آؤٹ سورسنگ اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا نام دیا جا رہا ہے، جو دراصل ’زہر کو گڑ میں لپیٹنے‘ کے مترادف ہے۔ اس پالیسی کا حقیقی مقصد تعلیمی اداروں کی نجکاری کر کے ٹھیکیداروں یا نجی تعلیمی مافیا کے حوالے کرنا ہے۔

یہ سب ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے کہ جب خیبرپختونخوا میں لاکھوں بچے تعلیمی اداروں سے باہر ہیں اور وہ تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کے اندر کوئی سہولیات موجود نہیں ہیں۔ تعلیمی اداروں کے اندر اساتذہ کی شدید کمی ہے۔ جدید سہولیات موجود نہیں ہیں، کوئی سائنسی لیبارٹریز اور ائی ٹی لیبارٹریز بھی موجود نہیں ہیں۔ لہٰذا اس شعبے میں ہنگامی بنیادوں پراصلاحات کرنے اور تعلیمی بجٹ میں اضافے کی ضرورت ہے۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ حکومت اپنی ناکامی کا اعتراف کرتی ہوئے عوام کو معیاری تعلیم دینے کے لیے اقدامات اٹھانے کی بجائے اب وہ اپنی ذمہ داری سے بھاگنے کی کوشش کر رہی ہے اور تعلیمی اداروں کی نجکاری کی جارہی ہے۔ تعلیم دینا ریاست کی ذمہ داری ہے؛ لہٰذا جو لوگ تعلیمی اداروں کی نجکاری کر رہے ہیں، ان کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں۔

ایک جانب تعلیمی اداروں کے فنڈز میں کٹوتی کی گئی ہے، جس کے باعث پشاور یونیورسٹی سمیت کئی جامعات دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں اور اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے سے قاصر ہیں۔ دوسری جانب ان سرکاری یونیورسٹیوں کی فیسیں اتنی بڑھا دی گئی ہیں کہ ان کا موازنہ نجی یونیورسٹیوں سے کیا جا سکتا ہے۔ نتیجتاً متوسط اور غریب طبقے کے طلبہ کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول ناممکن بنتا جا رہا ہے۔

پچھلی کچھ سالوں کے اندر یونیورسٹیوں میں طلبہ کے داخلوں میں کئی گناکمی دیکھنے میں آئی ہے اور کئی ایسے ڈیپارٹمنٹس ہیں جس میں طلبہ نے بالکل بھی داخلہ نہیں لیا ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ایک طرف غربت مہنگائی اور بیروزگاری ہے اور دوسری طرف تعلیم بہت مہنگی ہو چکی ہے۔ جس کی وجہ سے طلبہ تعلیم حاصل نہیں کر سکتے لیکن جو سرکاری کالجز ہیں اس میں نسبتاً تعلیم سستی ہے جس میں متوسط اور غریب طبقے کے بچے جا کر تعلیم حاصل کرتے ہیں، لیکن حکومت اب یہ سہولت بھی محنت کشطبقے سے چھیننے کی کوشش کر ہی ہے اور اس کو پرائیویٹ کر کے ٹھیکیداروں کو سونپ رہی ہے۔ اس سے تمام سیاسی پارٹیوں بالخصوص تحریک انصاف کہ جس کی خیبر پختونخواہ میں حکومت ہے، کی عوام اور تعلیم دشمنی واضح ہو جاتی ہے۔

جوخاندان اپنا پیٹ کاٹ کر اتنی مہنگی تعلیم اپنے بچوں کو دالوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ بھی شدید پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے بچوں کو مناسب نوکری نہیں مل پاتی اور وہ دربدر کے ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے لاکھوں نوجوان جس میں ڈاکٹر،نرسز، انجینیئرز اورمختلف شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان ملک کو چھوڑ کرمعاش کیچکر میں اور روزگار کی تلاش میں باہر ملکوں میں جا رہے ہیں۔ اس طرح خیبر پختونخواہ میں حال ہی میں ایٹا پر چند ہزار اساتذہ کی نوکریاں مشتہر ہوئی ہیں۔ کچھ رپورٹس کے مطابق اس نوکری کے لیے9 لاکھ طلبہ نے اپلائی کیا ہے۔ ان پوسٹوں کے لیے کم سے کم تعلیم کی شرط بی ایس یا ماسٹر کی تعلیم تھی اس کا مطلب یہ ہوا کہ نو لاکھ لوگ جو بیروزگار ہیں،جس میں سینکڑوں پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر اور ایم فل کی ڈگری ہولڈر بھی شامل ہے۔ اسکے علاوہ لاکھوں نوجوان ایسے ہیں جنہوں نے ان پوسٹوں کے لیے اپلائی بھی نہیں کر سکے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بے روزگاری کے شرح کتنی زیادہ ہے۔ ایسے میں ہر سال ہزاروں طلبہ یونیورسٹیوں سے فارغ ہورہے جن کے سامنے ایک تاریک مستقبل ہے۔

حکمران طبقہ اپنی عیاشیوں میں کوئی کمی نہیں کر رہا ہے اور اس کی عیاشیوں میں دن بدن اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس طرح خیبر پختونخواہ میں حکمرانوں اور اشرافیہ نے کرپشن کا ایک بازار گرم کیا ہوا ہے اور ہر ادارے میں اربوں روپے کی کرپشن ہو رہی ہے جو کہ میڈیا اور زبان زدِ عام ہے۔ ہیلتھ کارڈ میں بھی اربوں روپے کی کرپشن کی گئی ہے۔ ہیلتھ کارڈ کی آڑ میں سرکاری ہسپتالوں کو تباہ کیا گیا لیکن صحت کے کاروبار سے منسلک مافیا اور پرائیویٹ ہسپتالوں کے مالکان نے اربوں کمائے۔ حکومت بجائے اس کے کہ اپنی کارکردگی کوبہتر کرے وہ سرکاری تعلیمی اداروں کو اور ہسپتالوں کی نجکاری کر رہی ہے۔

@degreians_25 6 Oct Protest against Privatisation. #SwatProtest #EducationForAll #NoToPrivatization #gdcmingora ♬ original sound – ❤️ MUSHARAF BANGASH OFFICIAL ❤

انقلابی کمیونسٹ پارٹی تعلیمی اور صحت جیسے بنیادی ضرورت کے شعبوں کی نجکاری کی حکومتی پالیسی کی بھرپور مذمت کرتی ہے اور احتجاجی طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتی ہے اور ان کی جدوجہد میں شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے عزم کا اظہار کرتی ہے۔

آج سرمایہ دارانہ نظام عالمی بحران کا شکار ہے، اور اس بحران کا بوجھ محنت کش طبقے پر ڈال دیا گیا ہے۔ سری لنکا، انڈونیشیا، نیپال، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں عوامی بغاوتیں اسی جبر کے خلاف ابھریں۔ جن میں نوجوان صفِ اول میں تھے۔ مگر انقلابی قیادت اور درست نظریے کی کمی کے باعث وہ تحریکیں اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچ سکیں۔آنے والے عرصے میں یہاں بھی ایسی انقلابی تحریکیں ابھریں گی، جس کی حالیہ مثال عوامی ایکشن کمیٹی’آزاد‘کشمیر کی 29 ستمبر کی ہڑتال ہے۔ جس میں لاکھوں لوگوں نے حصہ لیا اور حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ اس تجربے سے ہمیں یہ سیکھنا چاہیے کہ افراد یا چہروں کی تبدیلی نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی کرنی ہے، سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی سرمایہ داری سے نجات ممکن ہے۔سوشلسٹ نظام میں تعلیم، علاج، روزگار اور انسانی ضروریات ریاست کی ذمہ داری ہوں گی۔ بینکوں، کارپوریشنز اور سرمایہ داروں کی دولت عوامی فلاح پر خرچ کی جائے گی۔ صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ان مسائل کا حل ممکن ہے۔

@taosif.khan266 Today protest of degree college charbagh students about privitization of govt colleges and schools etc… #protest #strike #foryoupage #fypシ #viralvideo ♬ original sound – Zawar Afghan🚩

ہم سمجھتے ہیں کہ طلبہ کو الگ الگ احتجاج کرنے کے بجائے پورے صوبے میں ہر کالج کے اندر طلبہ کی جمہوری طور پر منتخب شدہ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹیاں بنانے کی ضرورت ہے۔ اور اس احتجاجی تحریک کو ایک منظم انداز میں آگے بڑھاتے ہوئے تمام کالجوں کے طلبہ کی ایکشن کمیٹیوں کے درمیان ایک مضبوط رابطہ بنانے کے لیے صوبے بھر کی سطح کی ایکشن کمیٹی بنانے کی طرف بڑھنا چاہیے۔ الگ الگ اور چھوٹے چھوٹے احتجاجوں سے ہم حکمرانوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور نہیں کر سکتے ایک منظم تحریک اور منظم جہدوجہد کے تحت ہی ہم حکمرانوں کی ان جابرانہ اور ظالم پالیسیوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

تعلیمی اداروں کی نجکاری نامنظور
نجکاری کا جو یار ہے۔۔غدار ہے غدار ہے!
جمہوری طور پر منتخب شدہ طلبہ کی ایکشن کمیٹیاں بنانے کی طرف بڑھو!

 

Tags:

Comments are closed.