لاہور: حیات بلوچ کے بہیمانہ قتل کے خلاف احتجاج، بڑی تعداد میں نوجوانوں کی شرکت!

|رپورٹ:پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|

حیات بلوچ کے ریاستی قتل کے خلاف بی ایس ای او (بلوچ سٹوڈنٹس ایجوکیشنل آرگنائزیشن) کی ملک گیر احتجاجی کال پر 22 اگست بروز ہفتہ لاہور میں بلوچ یکجتی کمیٹی نے بھی لبرٹی چوک پر احتجاج کیا جس میں مختلف طلبہ تنظیموں سے بڑی تعداد میں نوجوانوں نے شرکت کی۔مظاہرے میں ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔مظاہرین نے مختلف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پہ نعرے درج تھے۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ ریاست اپنی غنڈہ گردی بند کرے اور حیات بلوچ کے قاتلوں کو فی الفور سزا دی جائے۔مظاہرے میں گمشدہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
حیات بلوچ کو کچھ روز قبل بلوچستان کے علاقے تربت میں ایف سی اہلکاروں نے گولیاں مار کر قتل کیا تھا۔بعد ازاں حیات کی جیب سے صرف ایک قلم برآمد ہوا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ریاست کس قدر خونخوار ہو چکی ہے کہ صرف شک کی بِناء پر کبھی بھی بے قصور لوگوں کا خون بہا سکتی ہے، انہیں قتل کر سکتی ہے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔اس سے کچھ روز پہلے چمن میں بھی معصوم لوگوں کے چیتھڑے اڑائے گئے۔برمش کا واقعہ ہوا اور اگر تاریخ اٹھا کے دیکھیں تو ایسے ان گنت واقعات ہو چکے ہیں لیکن آج تک کسی بے گناہ کو انصاف نہیں مل سکا اور قاتل آزاد گھوم رہے ہیں۔


پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنوں نے اس احتجاج میں بھرپور شرکت کی۔ پروگریسو یوتھ الائنس کے کارک  رائے اسد نے احتجاجی مظاہرے کے اندر اپنی تقریر میں کہا کہ جس طرح حیات بلوچ کو اس کے والدین کے سامنے بے دردی سے قتل کیا گیا اسی طرح حیات بلوچ کے قاتلوں کو بھی اس کے والدین کے سامنے چوراہے پر لٹکایا جائے اور حیات بلوچ کو انصاف دیا جائے۔ تمام گمشدہ لوگوں کو فی الفور رہا کیا جائے یا انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ انہوں نے کیا کہ یہاں راؤ انوار اور اس جیسے درندہ صفت لوگ کھلے عام گھومتے ہیں لیکن ریاست اس قدر اندھی ہے کہ نہتے اور بے قصور لوگوں کو اپنے جبر و تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔ یہ ریاست اور اس کے ادارے عوام کے لیے نہیں بنائے گئے بلکہ سرمایہ داروں کی حفاظت کے لیے بنائے گئے ہیں۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ ہمیں  مختلف فرقوں میں بٹنے کی بجائے یکجا ہو کر طبقاتی بنیادوں پر اس لڑائی کو لڑنے کی ضرورت ہے تبھی ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔

Comments are closed.