| انقلابی کمیونسٹ پارٹی، پنجاب یونیورسٹی برانچ، لاہور |

حالیہ گرمیوں کی تعطیلات کے دوران ہاسٹلوں کی مرمت کی آڑ میں یونیورسٹی انتظامیہ نے ایک کلین اپ آپریشن کیا۔ جس کے تحت تمام ہاسٹلوں کو جبری طور پر خالی کروایا گیا۔ طلبہ پر تشدد کیا گیا اور ان کا سامان باہر پھینک دیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق ہاسٹلوں میں موجود طلبہ کی کتابیں، لیپ ٹاپ، موٹر سائیکلیں اور قیمتی ڈاکومنٹس تاحال واپس نہیں کیے گئے۔ یہ ایک سراسر ڈکیتی اور سینہ زوری کے مترادف ہے۔
اس کے بعد اب فیسوں میں کئی گنا اضافہ کیا گیاہے، یونیورسٹی کے اثاثوں کو بیچا جا رہا ہے اور کئی ڈپارٹمنٹس کو بند کر دیا گیا ہے۔ سیکورٹی بڑھا کر یونیورسٹی کو ایک جیل خانے میں بدل دیا گیا جہاں طلبہ کی مسلسل ہراسمنٹ کی جارہی ہے۔ انقلابی کمیونسٹ پارٹی ان تعلیم دشمن اقدامات کی بھرپور مذمت کرتی ہے۔
ملک بھر میں طلبہ یونین پر کئی دہائیوں سے پابندی عائد ہے اور طلبہ سے منظم ہونے کی آزادی سلب کی گئی ہے۔ اسی پس منظر میں تاحال پنجاب یونیورسٹی میں ان حملوں کے خلاف کوئی بڑے احتجاج تو نہیں ہو پائے لیکن طلبہ میں شدید غم و غصہ موجود ہے۔ لہٰذا کسی بھی وقت طلبہ خود رو طور پر میدان عمل میں آسکتے ہیں۔ یہ پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ کی تاریخی احتجاج ہوں گے۔
اسی دوران یونیورسٹی میں طلبہ پر مسلط کی گئی انتظامیہ کی گماشتہ قیادت کا بھی طلبہ دشمن کردار واضح ہو گیا ہے اور طلبہ میں ان کی حمایت ختم ہو چکی ہے۔ ایسے میں ان کو زندہ رکھنے کے لیے ان کو ایک دفعہ پھر طلبہ پر مسلط کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے تاکہ تحریک اگر ابھرتی ہے تو یہ انتظامیہ کے ٹاؤٹ طلبہ کے نمائندے بن کر سودے بازی کر سکیں اور تحریک کو زائل کرنے کا جرم دہرا سکیں۔ اسی مقصد کے تحت یونیورسٹی میں قائم لسانی و علاقائی کونسلوں اور انتظامیہ کی گماشتہ جمعیت طلبہ کی قیادت کو بھی وقتی طور پر گرفتار کیا گیا ہے۔ کونسلیں اور جمعیت بظاہر دو مختلف رجحان ہیں، لیکن در اصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، جو کہ لمبے عرصے سے خود اسی انتظامیہ کے ہی پالتو اور بی ٹیم کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ نیچے سے عام طلبہ کا جمعیت اور کونسلوں کی قیادتوں پر دباؤ تھا کہ اس صورتحال پر کسی احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جائے لیکن اپنا تاریخی طلبہ دشمن کردار ادا کرتے ہوئے انہوں نے کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا۔ عام طلبہ اور منظم جتھوں میں امتیازی سلوک کرنے پر طلبہ کے احتجاج کے ڈر سے کلین اپ آپریشن میں انتظامیہ نے اپنے تخلیق کردہ مہروں یعنی جمعیت اور کونسلوں کو بھی رگڑا دیا۔ در اصل ان کے پر کاٹے گئے ہیں تاکہ بڑے حملے کو بخوبی سر انجام دیا جا سکے۔ جمعیت تو اپنے طلبہ دشمن کردار کے باعث پہلے ہی حمایت کھو چکی تھی لیکن کونسلوں کی جو تھوڑی بہت حمایت تھی وہ بھی مسلسل گراوٹ کا شکار تھی۔ کونسلوں کی اس حمایت کی وجہ بھی محروم علاقوں سے آئے ہوئے طلبہ کو درپیش نسلی پروفائلنگ، انتظامیہ کے مسلسل حملوں اور ہاسٹلوں کی کمی ہی تھی۔ مگر ان کونسلوں پر بھی انتظامیہ کی آپسی دھڑے بندی حاوی تھی۔
آقاؤں کی جانب سے ان کی کان کھنچائی کے خلاف کونسلوں نے اپنے مشترکہ پلیٹ فارم پی یو ایس ایف کے تحت کچھ مزاحمت کرنے کی کوشش کی، پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنا دیا اور اس کے بعد یونیورسٹی کے گیٹ کے باہر کئی دن سراپا احتجاج رہے۔ لیکن طلبہ کی اکثریت ان کی بدمعاشیوں سے پہلے ہی بیزار تھی لہٰذا ان اقدامات کے باوجود بھی طلبہ میں ان کی حمایت بحال نہیں ہو پائی۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے اب یونیورسٹی کے تمام داخلی دروازوں پر سیکورٹی سخت کر دی ہے۔ ہر ہاسٹل کے باہر بھی سیکورٹی اہلکار تعینات کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی کی سڑکوں، کینٹینوں اور ڈپارٹمنٹس پر ”کویک ریسپانس فورس“ کے نام سے مسلح سیکورٹی اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات کر لی ہے جو ہر سمت دندناتی پھر رہی ہے۔ کسی بھی طالبعلم کو کسی بھی وقت ڈانٹ ڈپٹ اور زدوکوب کے مکمل اختیارات رکھتی ہے۔ اس طرح یونیورسٹی ایک تعلیمی ادارا کم اور جیل خانہ زیادہ لگنا شروع ہو گئی ہے۔
یونیورسٹی انتظامیہ کے بقول جمعیت اور کونسلیں یونیورسٹی کا امن خراب کرنے کا باعث تھیں لہٰذا اب ان کا صفایا کر کے لڑائی جھگڑوں کا ہمیشہ کے لیے سدباب کیا جائے گا۔ یونیورسٹی میں پڑھنے والا ہر طالبعلم اور کام کرنے والا ہر ملازم یہ بخوبی جانتا ہے کہ ان جتھوں کو انتظامیہ کے ہی دھڑوں کی آشیرواد حاصل تھی۔
اس طرح یونیورسٹی میں ہر سو خوف و ہراس کے بادل چھا رہے ہیں۔ کیا یہ سب انتظام محض جمعیت اور کونسلوں کو کنٹرول کرنے کے کیا گیا ہے؟ نہیں بالکل بھی نہیں۔
ان کا وجود انتظامیہ کے ہی مرہون منت تھا۔ کیونکہ یونیورسٹی میں ہاسٹلز کم ہیں اور ان جتھوں کی قیادت کو ہی کئی کمروں پر قبضے کروائے گئے تھے اور عام طلبہ کو ان کا ماتحت بنایا جاتا تھا۔ جمعیت اور کونسلوں کو ہی کمرے اور ہاسٹل کی سیٹیں فراہم کی جاتی تھیں۔ تاکہ دور دراز علاقوں سے آئے طلبہ انہیں کے دست سایہ رہیں۔ طلبہ کو ڈرانے دھمکانے اور یونیورسٹی کے طلبہ خود سے منظم ہو کر ہاسٹلوں کی کمی کے خلاف مزاحمت نہ کر سکیں اس لیے ان دھڑوں کی برسوں پرورش کی جاتی رہی ہے اور تاحال ان کی ضرورت یونیورسٹی انتظامیہ کو درکار ہے اس لیے ان کا مکمل صفایا نہیں کیا جائے گا۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ضیائی آمریت کے عہد سے یعنی گزشتہ چالیس سالوں سے زائد کے عرصے سے طلبہ یونینز پر عائد پابندی کا فی الفور خاتمہ کیا جائے تاکہ انتظامیہ کے مسلط کردہ غنڈوں کی بجائے طلبہ کے حقیقی نمائندے منتخب ہو کر سامنے آ سکیں۔ منظم ہونا طلبہ کا آئینی اور جمہوری حق ہے جسے کئی دہائیوں سے مسلسل سلب کیا جا رہا ہے۔
انتظامیہ اور میڈیا کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ یونیورسٹی کا امن بحال کرنے اور تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کی غرض سے یہ سب اقدامات کیے جارہے ہیں یہ لفاظی در اصل ایک دھوکے اور فریب کے سوا کچھ نہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کے تحت آئی ایم ایف کی ایما پر پاکستان کے حکمران عوامی اداروں کی نجکاری کرنے کے مشن پر برق رفتاری سے گامزن ہیں۔ ہسپتالوں، واپڈا، ریلوے، پی آئی اے، پاکستان پوسٹ، سٹیل ملز، یوٹیلیٹی سٹورز اور دیگر سینکڑوں عوامی اداروں کو اونے پونے داموں سرمایہ داروں کو بیچنے کے درپے ہیں۔ ان میں کئی اداروں کو تو ہڑپ کر چکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں علاج، تعلیم، بجلی و سفری اور دیگر سہولیات کی سستی فراہمی قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ مزید حملے کر کے محنت کش اور غریب عوام کا گودا نچوڑا جارہا ہے۔
ان حملوں میں ملک کی تمام مروجہ سیاسی پارٹیاں بشمول پیپلز پارٹی، ن لیگ، تحریک انصاف، جماعت اسلامی و دیگر قوم پرست و مذہبی جماعتیں اپنا حصہ بٹورنے کی دوڑ میں ہیں۔ تمام ریاستی ادرے بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ لہٰذا تعلیمی نظام کی بہتری کی لفاظی اور پروپیگنڈے کو خاطر میں لانے سے گریز کریں یہ ایک چال ہے؛ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا!
پنجاب یونیورسٹی پر نجکاری کے حملے کی بھرپور تیاریاں
حالیہ عرصے میں میڈیا پر پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی کی تعریفوں اور شخصیت کے کمالات کا بہت ذکر کیا جا رہا ہے۔ اس کے تعلیم کے متعلق انقلابی اور جدت پسندانہ نظریات کی جے جے کار ہے۔ ڈاکیومینٹریز بنائی جارہی ہیں، ویب سائٹوں اور اخبارات پر مضامین شایع کیے جارہے ہیں، ٹی وی چینلوں پر اس کے لیے خصوصی نشریات کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ آئیں اس کی تعلیمی خدمات اور انقلابی خیالات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
ایک دن جیو کے ساتھ پروگرام کو وی سی پنجاب یونیورسٹی کے لیے مختص کیا گیاجس میں ڈاکٹر صاحب سے سہیل وڑائچ نے سوال کیاکہ ملک کے ابتر تعلیمی نظام اور تعلیمی بجٹ کی مسلسل کٹوتیوں کا حل کیا سمجھتے ہیں۔ اس پر ڈاکٹر صاحب کے ’انقلابی خیالات‘ یہ تھے کہ ”ہماری جو یونیورسٹیز ہیں، بڑی یونیورسٹیز ہیں۔ ہمارے پاس کچھ ایسے ایسیٹس ہیں، جنکو کمرشلائیز کیا جا سکتا ہے۔ اور اس سے ہمیں بہت مناسب ارننگ ہو سکتی ہے۔ تو گورنمنٹ کو ہمیں اجازت دینا چاہئے کہ ہم اسکو کمرشلائیز کریں اور وہاں سے ارن کر کے سٹوڈنٹس کو سپورٹ کریں“۔جی ہاں یہ ہے راز ان کی تعریفوں کے پل باندھے جانے کا۔ ڈاکٹر صاحب تعلیمی اداروں کی کمرشلائزیشن یا نجکاری کے حق میں ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے مالی خسارے کے متعلق جب سوال کیا گیا تو صاحب کا کہنا تھا کہ ”اگر مجھے اجازت دی جائے کہ ہم اس کی فیس کو بڑھا لیں، تو میں تو اس کو فوری طور پر سرپلس میں لے کے آؤں گا۔ مثال کے طور پر کچھ پرائیویٹ یونیورسٹیاں ہیں جو 8 لاکھ روپے فیس لیتی ہیں“!!! اسی پروگرام میں زوولوجی ڈیپارٹمنٹ کے دورے کی بھی وڈیوز موجود ہیں۔ جس میں ایک نایاب جانور کے مجسمے کے پاس سے گزرتے ہوئے وی سی صاحب بے ساختگی سے کہتے ہیں کہ ”Very Expensive“یعنی بہت ہی مہنگا ہے۔ تو وی سی صاحب جن اثاثوں کو کمرشلائز یا بیچنے کی بات کر رہے تھے ان میں یہ مجسمہ ضرور شامل ہوگا!
چلیں یہ تو ڈاکٹر صاحب کے مذموم ارادوں کی ایک جھلک تھی۔ آئیں پنجاب یونیورسٹی میں ان کے تعلیم دشمن اقدامات کا جائزہ لیتے ہیں۔ تا حال پنجاب یونیورسٹی سکول آف کیمسٹری کے 7 ’غیر فعال‘ سنٹرز کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سکول آف اکنامکس کے’سنٹر فار اکانومیٹرکس اور کوانٹیٹو میتھڈ‘ کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ہاسٹل فیس کو 26 ہزار سے بڑھا کر 48 ہزار کردی گئی ہے، جو کہ تقریباً ڈبل بنتی ہے۔ اسی طرحٹیوشن فیس میں تقریباً 50 فیصد اضافہ کیا جا چکا ہے۔ بوائز ہاسٹلز کی آمدنی میں 51.5 ملین روپے اضافہ اور گرلز ہاسٹل کی آمدنی میں 30 ملین روپے کا اضافہ حاصل کیا گیا ہے۔ ٹرانسپورٹ اور میس پر بھی سبسڈی کو ختم کر کے اس کی فیس میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ وی سی نے یونیورسٹی کے خسارے کو ختم کرنے کا اعادہ کر لیا ہے، اس کے سامنے کسی بھی رکاوٹ کو پاش پاش کر دیا جائے گا۔ اسی اثنا میں پی سی ڈھابے کا کرایا 90 ہزار سے بڑھا کر 26 لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔ اور ڈپارٹمنٹس اور ہاسٹلز میں موجود چھوٹی کینٹینوں یا سٹیشنری و دیگر ضروریات کی دکانوں کے کرائے کو 17 ہزار سے بڑھا کر 3 لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔
ان آؤٹ لیٹس کے ذریعے ریونیو میں 10 کروڑ روپے کا اضافہ کرنے کا ٹارگٹ تھا، لیکن آدھے سے کم آؤٹ لیٹس سے 8 کروڑ سے زیادہ کا ریونیو جنریٹ کیا جا چکا ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ ان اقدامات سے کھانے اور ضرورت کی اشیا کے معیار میں گراوٹ ہوئی ہے اور ان کی قیمتوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ کیونکہ ’بہترین دام لگانے والے ٹھیکیدار‘ ان آؤٹلیٹس میں طلبہ اور ملازمین کی بھلائی کے لیے نہیں بلکہ منافع بٹورنے کے لیے منڈلاتے ہوئے پہنچے ہیں۔فیسوں میں کمی اور مزید سبسڈی فراہم کرنے کی بجائے طلبہ پر یہ حملے کرنا قابل مذمت ہے۔
یاد رہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں درمیانے یا محنت کش طبقے سے وابستہ خا ندانوں کے بچے زیر تعلیم ہیں، فیس پہلے ناقابل برداشت تھی اور اکثر طلبہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم میں کوئی نوکری بھی کرتے ہیں تاکہ فیس ادا کی جا سکے۔ لیکن حالیہ فیسوں میں اضافے کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنانا ممکن بن گیا ہے۔
اس کے علاوہ یونیورسٹی کی زرعی زمین کو بھی نیلا م کرنے اور نجی مافیا کے حوالے کرنے کے اشتہارات جاری کر دیے گئے ہیں۔
یونیورسٹی میں ہاسٹلز کی شدید قلت ہے۔ ہر ڈیپارٹمنٹ سے ہاسٹل صرف مارننگ کے محض 8 طلبہ کو ملتے ہیں۔ دوپہر، سیلف اور ایوننگ شفٹ کے طلبہ کو ہاسٹل نہیں دیے جاتے ہیں۔ جن کی تعداد ہزاروں میں بنتی ہے۔ یہ طلبہ باہر نجی ہاسٹلز میں مہنگی اور غیر معیاری رہائش لینے پر مجبور ہیں۔ گرلز ہاسٹلز میں جگہ کی شدید کمی ہے نئے ہاسٹل تعمیر کرنا ناگریر بن چکا ہے۔ ایسے میں انتظامیہ نے 2 بوائز ہاسٹلز کو لڑکیوں کے لیے مختص کر دیا ہے۔ مگر ضرورت کے مطابق ہاسٹل تعمیر نہیں کیے۔ جس پر بھی میڈیا پر شور مچایا گیا کہ وی سی صاحب خواتین کو برابری کے حقوق دینے والے عظیم انسان ہیں۔
یونیورسٹی کا کل بجٹ 21 ارب روپے ہے۔ جس میں 3 ارب روپے فیڈرل گورنمنٹ اور 78 کروڑ روپے پنجاب گورنمنٹ دیتی ہے۔ بقایہ تقریباً 17 ارب روپے سے زیادہ پیسے فیسوں اور دیگر ذرائع سے اکٹھے کیے جاتے ہیں۔اب وی سی کا یہ مشن ہے کہ فیڈرل اور پنجاب گورنمنٹ سے لیے جانے والے ساڑھے تین ارب روپے بھی یونیورسٹی خود جنریٹ کرے بلکہ اس سے بڑھ کر اضافی پیسے یا سرپلس بھی پیدا کرے۔ تاکہ ملکی خزانے میں جمع کروایا جاسکے! جی ہاں یہ ہے وہ خفیہ منصوبہ! یہ انتظامیہ یونیورسٹی اور تعلیم کو ایک کاروبار سمجھتی ہے۔ نا کہ عوام کی بنیادی ضرورت!
یہ پالیسی صرف یونیورسٹی کے وی سی کی نہیں بلکہ آئی ایف کی ایما پر حکمرانوں اور ریاست کی عمومی پالیسی ہے کہ عوامی اداروں کو اونے پونے بیچ ڈالو اور ملکی بجٹ پر ’بوجھ‘ ختم کرو۔ اسی لیے دوسرے عوامی اداروں کی بھی نجکاری کی جارہی ہے۔ یعنی ریاست اب تعلیم دینے کی ذمہ داری سے بھی دستبردار ہو رہی ہے۔
انقلاب روس 1917ء کے قائد لینن نے کہا تھا کہ ”سوشلسٹوں کو سب سے پہلے عوام کو سچ بتانا چاہیے۔ یہی دراصل ساری بات کی جڑ ہے۔ اس سچائی کو سمجھنا، اسے بیان کرنا، اور”چیزوں کو جیسا کہ وہ دراصل ہیں ویسا دکھانا“ یہی سوشلسٹ پالیسی کا بنیادی فریضہ ہے، جو اسے بورژوا پالیسی سے ممتاز کرتا ہے، جس کا اصل مقصد اس سچائی کو چھپانا اور اس پر پردہ ڈالناہوتاہے۔“

لہٰذا’کمرشلائزیشن‘، ’پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ‘،’آؤٹ سورسنگ‘،’خسارے کو کم کرنا‘، ’زیادہ ریونیو جنریٹ کرنا‘، ’بجٹ پر بوجھ ختم کرنا‘ اور ’اداروں کو اپنے پاؤں پر کھڑے کرنا‘ جیسی نت نئی اصطلاحات کا صرف اور صرف ایک ہی معنی ہے، وہ ہے عوامی اداروں کی نجکاری؛ جس کا مطلب ہے سرمایہ داروں کو عوامی ادارے بیچنا۔ ہم ببانگ دہل کہتے ہیں کہ پنجاب یونیورسٹی پر نجکاری کا حملہ کیا جا رہا ہے۔
لہٰذا جو وی سی ریاست کی اس پالیسی کا جبری طور پر نفاذ کرنا چاہ رہا ہے بھلااس کی ’خدمات‘کو کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے۔ ایک اخبار میں شایع کردہ مضمون میں لکھا گیا کہ ”پنجاب یونیورسٹی کی موجودہ حالات پر نظر دوڑائیں تو کہہ سکتے ہیں کہ یونیورسٹی کو میسر قیادت کی وجہ سے خوش قسمتی کا درجہ حاصل ہے“، ایک اور میں لکھا گیا کہ ”اگر ہم ڈاکٹر محمد علی کے یونیورسٹی میں قیام اور کام کا جائزہ لیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کئی برس سے یونیورسٹی کی ترقی و خوشحالی کا منصوبہ کیے ہوئے ہیں۔“ موصوف کو 19سے زیادہ ملکی تمغوں سے نوازا گیا ہے۔ حال ہی میں گورنر پنجاب کی جانب سے اسے’تعلیمی جدت‘ کے لیے مسلسل کوششیں کرنے پر”بیسٹ پرفارمنس اکیڈمک ایکسیلنس ایوارڈ 2025“ بھی دیا گیا ہے۔
اس وی سی کا طرۂ امتیاز یہ بھی ہے کہ اس نے ”پنجاب یونیورسٹی کا پہلا سٹریٹجک پلان تیار“ کیا ہے۔ دراصل یہ پلان اس نے نہیں بلکہ یہاں کی ریاست کا دہائیوں پہلے کا تیار شدہ منصوبہ ہے۔ محنت کش اور غریب عوام سے تعلیم کا حق بھی چھیننے کا۔ حالیہ وی سی کوبس اس منصوبے کو عملی جامع پہنانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
جبکہ اسی وی سی نے جو کہ خسارے کو کم کرنے کا مشن سنبھالے ہوئے ہے، ایک انٹرویو میں حکومت سے اپنی مراعات میں اضافے کی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ”وی سی کا جو کام ہے اس بنیاد پر مراعات بہتر ہو سکتی ہیں۔“!!!
پنجاب یونیورسٹی پر اس نجکاری کے حملے کے خلاف کیسے لڑا جائے؟
اس حملے کو ناکام بنانی کے لیے طلبہ کو خود اپنی طاقت پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ جمعیت، پی ایس ایف (پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن) اور کونسلوں سے کسی بھی طرح کی امید وابستہ کرنا ایک دیوانے کا خواب ہے۔ جماعت اسلامی ملکی سیاست میں نجکاری کی حامی ہے۔ وہ بھی آئی ایم اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی مالیاتی اداروں کی مخالفت نہیں کر رہی۔ بلکہ کئی دہائیوں سے نجکاری کے حق میں اور ملازمین کے احتجاجوں کو سبوتاژ کرنے میں صف اول پر رہی ہے۔ لہٰذا اسی پارٹی کے طلبہ ونگ سے نجکاری مخالف جدوجہد کرنے کا گمان بھی کرنا ایک دھوکہ دہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور اس کے طلبہ ونگ پی ایس ایف کی طلبہ دشمنی اور گماشتگی کی ایک لمبی کہانی ہے۔ اس وقت پیپلز پارٹی کا مقررکردہ گورنر پنجاب یونیورسٹی کا چانسلر ہے اور ان تمام جرائم میں بھی برابر کا شریک ہے۔
پی یو ایس ایف میں شامل کونسلیں جمعیت کے ساتھ مل کر مشترکہ لائحہ عمل بنانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں جوکہ ان کی کھلی تعلیم دشمنی کا واضح ثبوت ہے۔ حالیہ حملوں پر وی سی سے جمعیت اور کونسلوں کی جانب سے رکاوٹ کا پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ ”مزاحمت کوئی خاص نہیں ہوئی!“یقینا ان سیمزاحمت اور طلبہ دوستی ممکن ہی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ خود کو طلبہ کا متبادل پیش کرتے ہیں اور طلبہ کوغیر سیاسی رکھنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں، اور طلبہ اتحاد سے خوفزدہ ہیں۔
لہٰذا ایسے میں طلبہ کوخود منظم ہونا ہوگا۔ ہر کلاس سے طلبہ کے جمہوری طور پر منتخب شدہ نمائندے چن کی پنجاب یونیورسٹی کی سطح کی’سٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی‘ تشکیل دینی ہوگی۔ اور بھرپور مزاحمت کا لائحہ عمل بنانا ہوگا۔ یہ ایک طویل اور صبر آزما لڑائی ہے۔ جو طلبہ پر فرض ہو چکی ہے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ نجکاری سے پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ اور ملازمین کی بھی نوکریاں داؤ پر لگ جائیں گی۔ ملازمین پہلے ہی اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔ اس لیے ’سٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی‘ پنجاب یونیورسٹی کو محنت کشوں سے بھی اتحاد کرنے کی ضرورت ہے۔یہ اقدام ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے طلبہ اور ملازمین کے لیے مشعل راہ ثابت ہو ں گے۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی پنجاب یونیورسٹی برانچ ریاست اور انتظامیہ کے ان تعلیم دشمن اقدامات کی بھرپور مذمت کرتی ہے۔ ہم طلبہ کے ساتھ مل کر’سٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی‘‘کی تعمیر کے لیے کیمپیئن کے آغازکا اعلان کرتے ہیں اور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے موجودہ عوا م اور تعلیم دشمن سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ اس کمپیئن کاحصہ بنیں!
برائے رابطہ:03198401917
جینا ہے تو، لڑنا ہوگا! ایک کا دکھ، سب کا دکھ!
طلبہ کی جمہوری طور پر منتخب شدہ ایکشن کمیٹی بنانے کی طرف بڑھو!
طلبہ مزدور اتحاد زندہ باد!