|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، لاہور|

پاکستان میں شعبہ صحت کئی دہائیوں سے شدید مسائل کا شکار ہے جس میں ایک طرف حکمران طبقے کی لوٹ مار مسلسل بڑھتی جا رہی ہے اور دوسری طرف صحت کی سہولیات عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ آئی ایم ایف کے متعدد پروگراموں کی شرائط کے مطابق پاکستان میں عوامی سہولیات کے لیے اخراجات میں مسلسل کٹوتیاں کی جا رہی ہیں جبکہ دوسری جانب ٹیکسوں کی بھرمار، نوکریوں سے جبری برخاستگی اور قومی اداروں کی اونے پونے داموں نجکاری کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں شعبہ صحت خاص طور پر زیر عتاب ہے کیونکہ آئی ایم ایف کے احکامات پر عمل درآمد کرنے کے ساتھ زندگی کی بنیادی ضرورت کا یہ شعبہ انتہائی منافع بخش ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں میں شعبہ صحت کی انتظامیہ، سیاست دانوں، سرمایہ کاروں، افسر شاہی، فوجی اشرافیہ، دوا ساز کمپنیوں اور کالے دھن کی ملی بھگت سے صحت کی سہولیات جتنی عوامی دسترس سے دور ہوتی جا رہی ہیں اتنی ہی ہر گلی محلے میں چھوٹے نجی ہسپتالوں اور کلینکس کی بھرمار ہوتی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے شعبہ صحت کے محنت کشوں کا استحصال بھی مسلسل شدت اختیار کر رہا ہے۔ استحصال کا یہ عمل میڈیکل، نرسنگ اور پیرامیڈیکل کالج سے ہی فیسوں کی لوٹ مار سے شروع ہو جاتا ہے جو آگے چل کر محنت کی منڈی میں بھی جاری رہتا ہے۔
لاہور میں موجود مشہور شیخ زید ہسپتال میں بھی انتظامیہ کی بدعنوانی، لوٹ مار اور عملے کا شدید استحصال جاری ہے۔ ہسپتال کو پچھلے ڈیڑھ سال سے انتظامی معاملات کے لیے حکومت کی جانب سے کوئی بجٹ ہی نہیں دیا جا رہا اور ضرورت مند مریضوں سے گراں قدر فیسیں اور سہولیات کی قیمتیں وصول کر کے ہسپتال چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان حالات میں تمام ہسپتال کے عملے کو ملنے والے ہیلتھ اور رہائش الاؤنسز کو بند کر دیا گیا ہے جبکہ تنخواہوں پر انکم ٹیکس کئی گنا بڑھا دیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں تنخواہوں میں اوسطاً 50 فیصد سے زیادہ کٹوتیاں ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ ہسپتال میں درکار عملہ بھی ضرور ت کے مطابق موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے کام کا سارا بوجھ موجودہ عملے پر آ جاتا ہے اور انہیں دو سے تین گنا زیادہ کا م کرنا پڑتا ہے۔ سرکاری بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہسپتالوں میں جراثیم کش ادویات اور صفائی ستھرائی کے سامان سے لے کر آپریشن کا سامان اور بنیادی ادویات وغیرہ موجود ہی نہیں ہیں جس کی وجہ سے اکثر اوقات نرسز کو اپنی قلیل تنخواہ میں سے، جو کہ مختلف کٹوتیوں کے باعث پہلے ہی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے، خریدنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ سینیٹری ورکرز، وارڈ بوائز اور ہیلپرز کی ایک بڑی تعداد ریٹائر ہو چکی ہے جس کے بعد ایک طویک عرصے سے کوئی نئی بھرتیاں نہیں کی گئی ہیں۔ ایک سٹاف نرس کے مطابق حالات اتنے خراب ہیں کہ ایک وارڈ میں چوبیس گھنٹوں میں صفائی کے لیے صرف ایک ملازم دستیاب ہوتا ہے جو واش روم سے لے کر کمروں اور راہداریوں تک ساری صفائی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ جب یہ ایک ملازم اپنے اوقات کار پورے کر کے واپس چلا جائے تو صفائی کے لیے کوئی ملازم موجود نہیں ہوتا جس کی وجہ سے مریضوں اور ہسپتال کے عملے کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اسی طرح مریضوں کی پٹی کی تبدیلی یا حاجت میں مدد کے لئے کوئی عملہ موجود نہیں ہے جس سے مریضوں کی پریشانی میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ بڑی تعداد میں ڈیلی ویجز ملازمین کو بھی فارغ کیا جا چکا ہے۔ نئی بھرتیوں کے بجائے مزدور دشمن ٹھیکیداروں کو ٹھیکہ دیا جا چکا ہے کہ وہ روزانہ دیہاڑی دار ملازمین رکھیں جن کی کوئی تربیت ہوتی ہے اور نہ شعبے سے کوئی تعلق ہوتا ہے۔ ان حالات سے دلبرداشتہ ہو کر ہنرمند ڈاکٹر، نرسز اور پیرامیڈیکل سٹاف ہسپتال چھوڑ کر نجی شعبے میں یا جسے موقع مل رہا ہے بیرون ملک جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق تقریباً 1 ہزار نرسز ہسپتال چھوڑ چکی ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے قواعد کے مطابق ہر چار سے پانچ مریضوں پر ایک پیشہ ور نرس مختص ہونی چاہیے جبکہ اس وقت ہسپتال میں تقریباً 35 مریضوں پر ایک نرس موجود ہے۔
ایک طویل عرصے سے وفاق اور صوبہ پنجاب میں رسہ کشی چل رہی ہے کہ شیخ زید ہسپتال جو عرب امارات کی مدد سے بنایا گیا تھا اور پہلے وفاقی بجٹ سے چلایا جاتا تھا، درحقیقت اس وقت کس کی ذمہ داری ہے۔ وفاق اور صوبہ دونوں بجٹ بچانے کے لیے اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ہسپتال کا آدھا انتظام اور عملہ وفاقی ہے اور آدھا صوبائی۔ دونوں ہی ہسپتال چلانے کے لیے بجٹ دینے کو تیار نہیں ہیں، جس وجہ سے اخراجات کا تمام تر بوجھ مریضوں پر آ چکا ہے۔ ہسپتال میں تمام ملازمین کی تنخواہوں سے لے کر بجلی کے بل اور علاج تک کا تمام خرچہ مریضوں سے ہی پورا کیا جا رہا ہے۔ اب وفاق اور صوبہ دونوں ہسپتال بیچنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ہسپتال کو بیچنے کے عمل میں یہ تمام مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملازمین کی تنخواہوں میں دیوہیکل کٹوتیاں کی جا رہی ہیں، ان کی پینشن ختم کی جا رہی ہے، ملازمین کی نئی بھرتیاں یا مستقل بنیادوں پر نئی بھرتیاں نہیں کی جا رہیں اور مریضوں کے لیے ادویات اور علاج کے لیے دیگر سہولیات کا فقدان مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ اس تمام صورتحال میں ہسپتال میں موجود یونین کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام ملازمین کو یکجا کرے اور مسائل کے حل کے لیے اقدامات کا آغاز کرے۔ اس وقت مسائل جس نہج پر پہنچ چکے ہیں وہ لڑاکا لڑائی لڑے بغیر حل نہیں کیے جا سکتے۔ پنجاب میں تمام چھوٹے بڑے سرکاری ہسپتالوں کو نجکاری اور بیروزگاری کے حملوں کا سامنا ہے۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی سمجھتی ہے کہ اگر ملازمین ان عوامی سہولیات کو بچاتے ہوئے اپنے روزگار کا تحفظ چاہتے ہیں تو فوری طور پر ہسپتال کے تمام ملازمین کو شعبہ جاتی تقسیم اور آپسی منافرت سے بالا تر ہو کر متحد اور منظم ہو کر اس لڑائی میں اپنا فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔ شیخ زید ہسپتال کی یونین قیادت کو ملازمین کے ساتھ مل کر فوری طور پر ایک وفد بنا کر دیگر ہسپتالوں کے محنت کشوں کے ساتھ رابطہ کاری کو تیز تر کرنا چاہیے اور شعبہ صحت کا ایک متحد پلیٹ فارم بناتے ہوئے نجکاری، نجکاری کی پالیسی اور نجکاری کمیشن کے خاتمے کی جدوجہد کا آغاز کرنا چاہیے۔ نجکاری کا حملہ حکمران طبقے کی جانب سے محنت کش طبقے کے ساتھ جنگ کا اعلان ہے، جسے طبقاتی بنیادوں پر لڑ کر ہی جیتا جا سکتا ہے۔ پی آئی اے، ریلوے، پاکستان پوسٹ، واپڈا وغیرہ سمیت تقریباً تمام عوامی شعبوں کو اس کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے شعبہ صحت کا مجوزہ صوبائی پلیٹ فارم دیگر سیکٹر کے ملازمین سے بھی رابطہ کاری کرتے ہوئے ایک صوبہ گیر ہڑتال کو منظم کرنے کے لیے پیش قدمی کرے۔ انہی حالات کا سامنا پورے ملک کے محنت کشوں کو ہے اور اگر دیگر محنت کش بھی اس تحریک کے ساتھ جڑ کر ایک ملک گیر عام ہڑتال برپاء کرتے ہیں تو پھر حکمران طبقے کی حاکمیت کو ختم کرتے ہوئے نہ صرف ملازمین کے تمام مسائل کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے، بلکہ اس ملک میں ایک حقیقی عوام دوست مزدور ریاست اور عوامی خوشحالی کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔