مظفر گڑھ: کرونا وبا اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال کی حالت زار

|رپورٹ: شگفتہ بلوچ، نمائندہ ریڈ ورکرز فرنٹ |

فائل فوٹو

دنیا بھر میں کرونا کی وبا نے جہاں بہترین طبی سہولیات کے باوجود بڑے بڑے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا اور امریکہ، برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک بھی اس وبا کا خاطر خواہ مقابلہ نہ کر سکے اور بڑے پیمانے پر تباہی دیکھنے میں آئی، وہاں پاکستان جو کہ بنیادی طور پر ایک پسماندہ ملک ہے اور تیسری دنیا کے ممالک میں شمار کیا جاتا ہے، جہاں طبی سہولیات بڑے شہروں کے ہسپتالوں میں بھی صرف برائے نام ہوتی ہیں، وہاں جنوبی پنجاب کے ہسپتالوں کا حال بہت برا ہے کیونکہ یہاں شروع ہی سے حکومتی نمائندوں کی طرف سے کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔

ایسے میں جنوبی پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز میں بھی تشویش ناک صورتحال دیکھنے میں آئی جہاں ایک طرف تو ہیلتھ پروفیشنلز کی طرف سے پیش کی گئی مکمل لاک ڈاؤن کی تجویز کے برعکس حکومتی سطح پر اس حوالے سے کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے بلکہ لاک ڈاؤن ہونے، نہ ہونے یا جزوی طور پر ہونے کے بدلتے ہوئے حکومتی بیانات نے نہ صرف عوام بلکہ خاص طور پر ہیلتھ کے تمام ملازمین کو بھی پریشانی میں مبتلا کیے رکھا کیونکہ اس سارے عمل میں وہ ہمارے فرنٹ لائن ورکرز ہیں۔اور شعبہ صحت کے ورکرز کو نہ ہی معیاری حفاظتی سامان جیسے کہ حفاظتی سوٹ اور N95 ماسک فراہم کیے گئے ہیں اور ان بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث ان کو اپنی جان پر کھیل کر مریضوں کا علاج کرنا پڑ رہا ہے۔

حکومتی نمائندوں کی طرف سے آئے روز جہاں میڈیا پر بلندوبانگ دعوے کیے جاتے ہیں کہ ہسپتالوں میں ہر طرح کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں وہیں ینگ ڈاکٹرز اور ہیلتھ کیئر ورکرز کی آئے روز ہونے والی ہڑتالیں حکومتی اقدامات کی قلعی کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔

خصوصی طور پر اگر ہم ڈی ایچ کیو مظفر گڑھ کی بات کریں تو یہاں پر بھی وبا کے اوائل سے ہی سہولیات کا فقدان دیکھنے میں آیا۔ ایک ڈاکٹر سے جب ہم نے حکومتی کارکردگی کے متعلق پوچھا تو انھوں نے اپنی شناخت چھپانے کی شرط پر بتایا کہ ہسپتال میں نہ تو کوئی سکریننگ کا سسٹم متعارف کروایا گیا ہے جس کے ذریعے کم از کم ہیلتھ ورکرز کا ہی کرونا ٹیسٹ یقینی بنایا جاتا کیونکہ اس وائرس کی زد میں آنے والے اور سب سے زیادہ متاثر ہونے والے افراد میں شعبہ صحت کے ملازمین پہلے نمبر پر ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جہاں دنیاکے دیگر ممالک میں وبا کی روک تھام کے لئے ٹیلی میڈیسن اور نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے گھر بیٹھے لوگوں کا علاج کیا جا رہا ہے وہاں ہمارے ہاں بنیادی طبی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں جس کی وجہ سے وبا سے لڑنے میں پیش عمل ہمارے یہ فرنٹ لائن ورکرز شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔

اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ حکومت عوام کو اس وبا سے متعلق صحیح طور پر آگاہ کرنے میں بھی ناکام نظر آئی ہے۔ شروع میں ہی اگر آگاہی مہم چلا کر لوگوں کو اس مرض کی سنگینی سے آگاہ کر دیا جاتا تو بڑے پیمانے پر یہ تباہی دیکھنے میں نہ آتی۔ ایسے میں اگر کسی بھی ہیلتھ ورکر کو کرونا کی بیماری لاحق ہو جاتی ہے تو حکومت کی جانب سے کوئی مالی و اخلاقی سپورٹ بھی فراہم نہیں کی جارہی نہ ہی ان کی فیملی کی کوئی ذمہ داری لی جاتی ہے اور اس صورتحال میں اس متاثرہ مریض کو خود ہی اپنے آپ کو چودہ دنوں کے لیے آ ئسولیٹ کرنا ہوتا ہے جو کہ ایک تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے جبکہ حکومت کی طرف سے کوئی ٹیسٹنگ کٹس بھی فراہم نہیں کیے گئے۔

اس صورتحال میں حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد تیزی سے بڑھنے کا خدشہ ہے جس کے لیے کوئی تیاری موجود نہیں۔ ایسے میں ہزاروں افراد کی جان خطرے میں ہے جس کا ذمہ دار پاکستان کا حکمران طبقہ اور ریاستی اشرافیہ ہوگی۔

Comments are closed.