پاکستان: سیلاب کی تباہ کاریاں۔۔ایک طبقاتی المیہ!

”آج ماں کا انتقال ہو گیا۔ یا شاید کل، مجھے معلوم نہیں۔ اولڈ ہوم سے ایک تار آیا تھا: ’والدہ فوت ہو گئیں۔ تدفین کل ہوگی۔ مخلص، آپ کا۔‘
اس کا کچھ خاص مطلب نہیں بنتا۔ شاید یہ کل ہوا ہو۔“

ان سطور سے البرٹ کامیو اپنے ناول ’اجنبی‘ کا آغاز کرتا ہے۔ قاری ٹھٹھکتا ہے، ذہن سوچتا ہے، دل پوچھتا ہے کہ کوئی بے حسی کی خندق کے اس قدر گہرے کناروں تک کیسے پہنچ سکتا ہے؟ فکشن ہے، اس لیے ایسا کردار ممکن ہے، اصل زندگی میں تو نہیں ہوسکتا ہے۔ کیا سچ میں نہیں ہوسکتا ہے؟ حتمی فیصلے سے پہلے گزارش ہے کہ ایک عورت کا کردار دیکھ لے کہ جس کا نام ہے مریم نواز شریف۔ محترمہ اس صوبے کی وزیرِ اعلیٰ ہیں کہ جہاں سیلاب اس قدر تباہی پھیلا چکا ہے کہ میڈیا بھی اسکی مکمل تو کجا ادھوری تصویر تک نہیں پیش کرپایا ہے۔ مگر وزیراعلیٰ سمیت پوری صوبائی اور وفاقی حکومت کے لیے سیلاب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ کب آیا تھا؟ شاید کل، یا شاید پرسوں۔ کتنے لوگ مرے؟ شاید سو، شاید ہزار، کون اس غیر اہم شئے کی خبر رکھے۔ مگر ان کے لیے غیر اہم واقعات و حادثات ہمارے لیے انتہائی اہم ہیں کیونکہ انقلابی کمیونسٹ محنت کش طبقے کے انقلاب کی بات کرتے ہیں اور ہمارے طبقے پر ہونے والے ہر جبر کو سمجھنا، آگے سمجھانا اور عوام کو اس کیخلاف جدوجہد کے لئے منظم کرنا ہمارے لیے حیات و ممات جیسا مسئلہ ہے۔

یو این کے ادارے او سی ایچ اے کی 10 اکتوبر کی رپورٹ کے مطابق، پنجاب، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں مون سون بارشوں اور سیلاب کے سبب دو لاکھ انتیس ہزار سات سو ساٹھ گھر مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔ تینتیس لاکھ ایکڑ پر محیط لہلاتی فصلوں کو سیلاب بہا کرلے گیا جس کا بہت بڑا حصہ لگ بھگ انتیس لاکھ پینسٹھ ہزار دو سو چونسٹھ ایکڑ پنجاب میں تھا۔ بائیس ہزار آٹھ سو اکتالیس جانور سیلاب کی نذر ہوگئے۔ ایک تہائی کپاس کی چاندی کسان کی روٹی کا وسیلہ بننے کی بجائے سیلاب کا پیٹ بھرگئی۔ اور صرف زراعت ہی نہیں، انفراسٹرکچر کی بے پناہ تباہی ہوئی ہے۔ سات سو نوے پل تباہ ہوئے اور دو ہزار آٹھ سو گیارہ کلومیٹر سڑکوں کو سیلاب ساتھ لے گیا۔

یہ سب تو آپ گوگل کرکے بھی پڑھ سکتے ہیں، مگر ہم جس سبب آپکو یہ بتانا چاہ رہے ہیں وہ مختلف ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ سیلاب تو فطری ہوتے ہیں۔ حکومت کچھ نہیں کرسکتی ہے۔ آپ پاکستان کی حکومت کی بات کر رہے ہو، امریکہ جیسی ریاست کی حکومت کلاؤڈ برسٹ، سونامی اور وائلڈ فائرز میں بے بس ہوجاتی ہے۔ اس تباہی میں حکومت کیا کرسکتی ہے؟ بس، اللہ کی مرضی سمجھ کر صبر کرو۔ اس میں عجیب بات یہ ہے کہ امیر غریب کے سماج میں اللہ کی مرضی والی تباہی بھی، غریب کا ہی گھر ڈھونڈھتی ہے۔ اللہ کی مرضی وہ لیبل ہے جس کو استعمال کرکے یہ لوگ اصل مجرم کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ بھلا کیسے؟ سوات میں اچانک سے کلاؤڈ برسٹ ہوتا ہے، پوری بستی بہہ جاتی ہے، کچھ نہ کچھ سمجھ آتی ہے۔ (گو کہ جھرنوں کے راستوں پر گھروں کی تعمیر کے اسباب ایک الگ مطالعے کے متقاضی ہیں مگر فی الوقت ہم مان لیتے ہیں)۔ اچانک جنگل میں آگ بھڑکتی ہے، سب کچھ خاکستر ہوجاتا ہے، سمجھ آتا ہے۔ مگر، اگست کے آغاز میں ہی معلوم ہو کہ سیلابی پانی اتنا زیادہ ہے کہ یہ لاکھوں ایکڑ نگل جائے گا اور اسکے باوجود کسی قسم کے اقدامات نہ کرنا، کیا یہ بھی فطری ہے؟ سیلاب نے سب سے زیادہ تباہی پھیلائی جلالپور پیر والہ اور علی پور میں۔

اول الذکر تحصیل میں اس وقت دس سے بھی کم کشتیاں تھیں کہ جب سیلابی پانی کئی کلومیٹر سفر کرکے شہر کے دروازے پر دھاڑ رہا تھا اور ان میں سے بھی آدھی خراب تھیں۔ 2025ء میں ہیڈ پنجند کی ری ماڈلنگ مکمل ہوئی اور بتایا گیا کہ اس سے اب آٹھ لاکھ پچاس ہزار کیوسک پانی نکل سکتا ہے، مگر یہ ہیڈ ساڑھے چھ لاکھ کیوسک پانی کا اخراج بھی مشکل سے کرپارہا تھا اور اس نے اپ سٹریم میں ہائی فلڈ کو جنم دیا۔ کیا اسکی اس قدر عوام دشمن ری ماڈلنگ بھی اللہ کی مرضی تھی؟ اگر اس ساری تباہی کو فطری کہا جائے، تو ہمارے اس کرپٹ، عوام دشمن حکمران طبقے کے حق میں اس سے بڑھ کر کوئی دلیل ہو ہی نہیں سکتی ہے۔ آپ چاہے اسے جتنے گہرے دانشورانہ انداز میں کہیں، آپ حکمران طبقے کی کاسہ لیسی کے سوا کچھ نہیں کررہے ہوں گے۔

ایک اور جملہ بھی ہے کہ جس کا کمرشل میڈیا نے تھوک کے حساب سے استعمال کیا ہے، ”بھارت کی آبی جارحیت“۔ یہ کہا جاتا ہے کہ مودی جنگ کا بدلہ لے رہا ہے۔ صرف بھارتی پنجاب میں سیلاب کے سبب لگ بھگ نو لاکھ ایکڑ پر محیط فصلوں کا نقصان ہوا ہے۔ اور دریائے راوی پر بنائے گئے ڈیم کے تو دروازے توڑ دیئے تھے پانی نے۔ یعنی پانی انڈیا میں تباہی کرتے ہوئے پاکستان میں آیا ہے اور ایسا نہیں ہے کہ پانی وہاں سے چپ چاپ پاکستان میں داخل ہوا اور یہاں ایک دم سے اسے یاد آیا کہ مجھے مودی جی نے کہا ہے کہ تباہی بھی کرنی ہے۔ یہ آبی جارحیت والی لغویات بھی درحقیقت ہمارے ہی حکمران طبقے نے اپنی نااہلی چھپانے کے لیے استعمال کی ہے۔ بات برائے بات کرتے ہوئے، اگر آبی جارحیت کی بھی ہے تو اس کا جواب کیا بنتا ہے؟ یہی نا کہ انڈیا جس چیز کو تباہ کرنا چاہتا ہے آپ اس کا تحفظ کرو۔ ریاست کے وسائل کا رخ اس چیز کے تحفظ کی طرف موڑ دو۔ وہ کسان جس کی فصل برباد ہوچکی ہے، اسکو معاشی طور پر سہارا دو۔ وہ خاندان کہ جس کا گھر گر چکا ہے، اور وہ ملیریا، ٹائفائیڈ اور بھوک سے اٹھنے والے پیٹ کے مروڑوں میں دن کو رات کررہا ہے، اس کو گھر بنا کر دو۔ وہ سکول جو گر چکے ہیں انکو دوبارہ تعمیر کرو۔ ججوں، جرنیلوں، وزیروں،سیاسی حکام کی مراعات ختم کرو اور سارا پیسہ ادھر لگاؤ۔ مگر کیا ایسا کچھ ہوا ہے؟ ٹھینگا۔

ابھی تو صرف دو کی ہی بات ہوئی ہے، اس جھوٹ کے پلندے کا تو دیوان مرتب ہوسکتا ہے۔ پنجاب حکومت کچھ کرے نا کرے مگر اشتہاری مہم زوروں پر چلارہی ہے۔ پنجاب کے ہر شہر کے ہر کھمبے پر’سب دی ماں‘ بیٹھی ہے، اور اس سیلاب میں بھی فوٹو سیشنز پر بہت فوکس کیا گیا ہے۔ ان فوٹو سیشنز کے لیے کہیں عورتوں کو کشتی میں کھڑا کرکے جعلی دعائیں دلوائی گئیں ہیں، کہیں بچوں کو ملوانے کے لیے انہیں پہلے نہلا دھلا کر، پاؤڈر کریم لگا کر’ممی ڈیڈی‘ بنایا گیا ہے تاکہ میڈیا کے لیے اور اشتہار کے لیے انکے چہرے قابلِ قبول بن جائیں اور کہیں مردوں کو سفید کاٹن والے سوٹ اور پگڑی پہنا کر مریم کے سامنے لایا گیا ہے اور ’ماں‘ نے انکے مسائل سنے ہیں۔ اور پھر یہ مکروہ نظارے ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر دکھائے گئے ہیں کہ گویا حکومت سیلاب زدگان کے شانہ بشانہ چل رہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ فوٹو سیشنز کسی اور ہی دنیا کا حصہ ہیں۔ سیلاب زدگان کی اصلی صورت حال یہ ہے کہ راتیں خنک ہوچکی ہیں مگر ان کے مکان نہیں ہیں۔ مچھر ہیں جو ملیریا پھیلا رہے ہیں مگر مچھر دانیاں نہیں ہیں۔ بھوک ہے مگر روٹی کے لیے آٹا نہیں ہے۔ زمین سے پانی خشک ہو چکا ہے مگر نئی فصل کی کاشت کے لیے پیسے نہیں ہیں۔

معاشی بدحالی ایک ایسا پہلو ہے کہ جس پر بہت کم بات کی جارہی ہے۔ 2023 ء سے کسان مسلسل خسارے میں جارہا تھا۔ کوئی بھی ایسی فصل نہیں تھی کہ جو منافع دے رہی ہو، جب کہ کھاد اور ڈیزل روز بروز مہنگا ہورہا تھا جس کے لیے کسان قرضے اٹھا رہا تھا۔ اس سیلاب نے اسکی ٹوٹی ہوئی کمر کے ہر ایک مہرے کو تڑخا دیا ہے۔ لمپی سکن وائرس کے سبب جانوروں کی قیمتیں بہت زیادہ گر چکی ہیں۔ بائیس سو میں اس نے جو گندم بیچی تھی، اب اسے پینتیس سو میں خریدنی پڑ رہی ہے، ڈی اے پی تیرہ ہزار سے بڑھ کر چودہ ہزار پانچ سو پر بک رہی ہے۔ اور اس تمام تر بربادی میں حکومت نے کہا ہے کہ ہم بیس ہزار روپے فی ایکڑ دیں گے۔ بیس ہزار روپے فی ایکڑ لو، اگلی فصل اگاؤ اور اسکی ہارویسٹنگ تک، یعنی مارچ تک زندہ رہ کے دکھاؤ۔ عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے ان حکمرانوں کی بیگانگی کا عالم دیکھیں!

جہاں یہ حکمران طبقہ اپنی خباثت سے لوگوں کے اذہان کو متعفن کرنے کی بھرپور کوشش کررہا ہے وہیں کوئی اور ہے جو ان کی خباثت اور بیگانگی کی قبا کو تار تار کر رہا ہے اور وہ ہے زندگی۔ لوگ اپنی زندگی سے سیکھ رہے ہیں، پنجاب کے ہر چوک، ہر ہوٹل پر مریم نواز کو پڑنے والی گالی اس مظہر کا عیاں ثبوت ہے کہ یہ ساری پروپیگنڈا مشین ناکام ہے۔ اور یہ ناکام کیوں نہ ہو کیونکہ یہ جھوٹ پر قائم ہے۔ پوسٹرز پر دکھائی جانے والی ترقی عام شخص کی زندگی میں کہیں نظر نہیں آتی ہے اور ایک نفرت کو جنم دے رہی ہے۔ خیموں میں بیٹھے لوگ اپنے موبائل فونوں پر کشمیر کی انقلابی تحریک کو دیکھ رہے ہیں اور عوام کے ذہنوں میں بغاوت کے بیج پھوٹ رہے ہیں اور وہ وقت دور نہیں کہ جب یہ ننھی کونپلیں انقلاب کے تناور درخت بنیں گے۔

انقلابی کمیونسٹ اسکی مسلسل آبیاری میں مصروف ہیں۔ ہم نے احتجاجی و ریلیف کیمپئن کا آغاز کیا ہے اور سینکڑوں لوگوں تک جہاں ہم نے ضروریاتِ زندگی کا سامان پہنچایا ہے وہیں ہزاروں لوگوں تک ہم نے اس نظام اور اسکے حکمران طبقے کے خلاف بغاوت اور انقلاب کی نوید پہنچائی ہے۔ اور ہم ان سیلاب زدگان کے شانہ بشانہ رہیں گے، جہاں آج ان کے دکھ میں شریک ہیں وہیں انکی نفرت کو انقلاب کی راہ دکھا رہے ہیں اور کل انکے انتقام کے بھانبھڑ میں اس سارے حکمران طبقے، اسکی ساری بیوروکریسی اور اسکے سارے عوام دشمن پروجیکٹس کو جلا کر خاکستر کریں اور ایسی دنیا کی بنیاد رکھیں گے کہ جس کا بس ایک ہی قانون ہوگا: جیڑھا واہوے اوہی کھاوے!

 

Comments are closed.