کتاب: ”مارکسزم عہد حاضر کا واحد سچ“ کے سندھی ایڈیشن کا پیش لفظ

بہار کا نقشہ

رواں برس جدید تاریخ میں غیر معمولی اہمیت حاصل کرچکا ہے۔ گزشتہ برس اپنی سرشت میں انتہائی سفاک ثابت ہوا اور اس نے ورثے میں اس برس کے لیے جہاں ایک طرف شدید معاشی، سیاسی و سماجی عدم استحکام چھوڑ اتھا وہیں دوسری جنگ کے بعد کی سب سے بڑی جان لیوا وباء کورونا بھی اس برس کے آغاز سے قبل ہی جنم لے چکی تھی۔ اوراب جب یہ غیرمعمولی برس اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے تو نہ صرف یہ کہ عالمی وباء کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہو چکا ہے بلکہ اس نے عالمی معاشی، سیاسی و سماجی عدم استحکام کو بھی انسانی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچنے اور انسانی تمدن کے انہدام کے خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ اس معاشی بحران اور عالمی وباء کا ظاہر ہے کہ آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ لیکن حکمران طبقے کے وظیفہ خوار دانشورشعوری طورپر اس تعلق کو سر کے بل کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ساری دنیا کے عوام کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ ان کی حاکمیت اور نظام خوش اسلوبی سے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے مگر اچانک ایک ناگہانی آسمانی آفت نے انہیں دبوچ لیا اور کئی عشروں کی حاصلات کا قلع قمع کر دیا۔ ان سامراجی حکمرانوں کے پالتواخلاقی مبلغین اس سے بھی آگے جا کراس ناگہانی آسمانی آفت کی ذمہ داری بھی عوا م پر ہی ڈال دیتے ہیں کہ یہ یقینا عوام ہی کے کرتوتوں کی سزا ہو گی لہٰذا ہمیں اپنے کرداراور اعمال پر نظر ثانی کرتے ہوئے خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہو گا تاکہ ہم فطرت کے ناراض دیوتا کی خوشنودی حاصل کرسکیں۔ اصل میں کورونا وباء کو تمام تر معاشی بحران کی وجہ قرار دینے سے حکمرانوں کا مقصد یہ ہے کہ وہ اس بحران کے نتیجے میں ہونے والی سماجی بربادی، افراتفری، بے روزگاری، مہنگائی اور غربت سے خود کو بری الذمہ قرار دے سکیں۔ لیکن اس کوشش کے کامیاب ہونے کے امکانات اس لیے محدودہیں کہ عوام جب اس سماجی بربادی کے پل صراط سے گزرتے ہوئے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں تو وہی حکمران طبقہ اور ان کے زرخرید دانشور ان کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ وہ اسی کرۂ ارض پر اس تمام تر سماجی بربادی سے یکسر محفوظ اور لاتعلق کسی صحت افزا مقام پر نہ صرف زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں بلکہ ان سماجی اذیتوں کو بھی اجناس بنا کر ان کی سودے بازی سے اپنی دولت میں دن دوگنا اور رات چوگنا اضافہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس لیے عوام چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی یہ سوال اٹھانے پر مجبور ہیں کہ اگر یہ آفت واقعی آسمانی مان بھی لی جائے تو پھر اس سے نبرد آزما ہونے کے تمام وسائل جوہم نے نسل در نسل کی محنت سے خود تخلیق کیے ہیں، ہماری نجات کے لیے ہماری دسترس سے باہر کیوں ہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ یہ بحرا ن عالمی وباء کی پیداوار نہیں ہے بلکہ عالمی وباء سے حکمران طبقے کی نبردآزما ہونے کی نا اہلیت کا نتیجہ ہے اور یہ نا اہلیت گزشتہ ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے جاری معاشی بحران کا منطقی انت ہے۔ چند خوش فہم معیشت دانوں کے اندازوں اور تجزیوں کے برخلاف عالمی معیشت 2008ء کے معاشی بحران سے مکمل طور پر کبھی نکل ہی نہیں سکی تھی۔ جب بھی قدرے کوئی بہتری نظر آتی تھی توکوئی اور واقعہ دوبارہ پہلے سے بھی بڑے دھچکے کا موجب بن جاتا تھا۔ معاشی جبریت پسندوں اور انتظامی اصلاحات کے وکیلوں کے تما م تخمینے غلط ثابت ہوئے اور انسانی سماج اور اس کے ارتقا کی کلیت کے جدلیاتی فلسفے کی صداقت گزشتہ عشرے میں بار بار خود کو دہراتی رہی جب نہ صرف معیشت کے داخلی تضادات اسے مراجعت میں دھکیلتے رہے بلکہ سیاسی و سماجی تضادات بھی اس کے آگے بڑھنے کے راستے مفقود کرتے چلے گئے۔ یہی وجہ تھی کہ کورونا سے بہت پہلے ہی مشرق وسطیٰ سے لے کر امریکہ اور یورپ سے لے کر جنوبی ایشیا تک ساری دنیا مسلسل انتشار اور ریاستی و سفارتی بحرانوں کا شکار ہو چکی تھی۔ کورونا سے قبل ہی نہ صرف یہ کہ پسماندہ اور نام نہاد ترقی پذیر ممالک بلکہ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ریاستیں بھی قرضوں کے گورکھ دھندے میں پھنس کر سماج کے اجتماعی مفاد یا نجات کے لیے کچھ بھی کرنے کی صلاحیت کھو چکی تھیں۔ اس دوران اگر کہیں کسی بھی خطے میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں زلزلے، سیلاب یا جنگلات میں آگ لگنے کے سانحات رونما ہوئے تو یہ ریاستیں رسمی کاروائیوں سے آگے نہ بڑھ سکیں اور عوام کی بھاری اکثریت کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا۔ بلا مبالغہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ثقافت اور تہذیب کے ملبوس نے پہلے ہی آگ پکڑ لی تھی اور ایسے میں کورونا نے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہوئے نام نہاد فلاحی ریاست کی بنیادوں کو ہلا دیا۔

اس کے ساتھ ساتھ جہاں اس بحران نے قومی ریاستوں کے فروعی پن کو یکسر عریاں کر چھوڑا ہے وہیں نام نہاد عالمی برادری اور بین الاقوامی اداروں کے چہرے سے بھی انسانیت اورمسیحائی کا نقاب نوچ لیا ہے اور ان کے سامراجی کرداراور دم چھلگی کو بھرے بازار میں نیلام کر دیا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات تاریخ کی کبھی نہ دیکھی گئی کشیدگی کے دھماکہ خیز مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ عالمی سفارتکاری کی ڈائن بھوکے اور مفلوک الحال لاکھوں نہیں کروڑوں کی بوٹیاں نوچ لینے کے درپے ہے۔ مختلف معروضی و موضوعی عوامل کے باہمی تال میل نے جہاں تیسری عالمی جنگ کے امکانات کو مسدود کردیا ہے وہیں چھوٹی جنگیں، خانہ جنگیاں، اور پراکسی لڑائیاں آئے روز کئی معصوم جانوں کے ضیاع کا سبب بن رہی ہیں۔ افغانستان میں نام نہاد امن عمل کے متوازی آگ اور خون کا کھیل جاری ہے۔ حال ہی میں چین اور بھارت کی سرحد پر جنگ کے بادل منڈلاتے رہے ہیں جبکہ آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین ایک خونی کھلواڑ کئی ہفتوں سے جاری ہے جس میں اب تک سینکڑوں سویلینزسمیت ہزاروں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ عالمی و علاقائی سامراجی قوتیں اس خونی کھلواڑ میں شامل ہیں جس سے یہ معاملہ تصفیے کی بجائے اور بگڑتا چلا جا رہا ہے۔ ترکی، ایران اور روس سب اپنے اپنے سامراجی مفادات کے نقطۂ نظر سے اس تنازعے میں مداخلت کر رہے ہیں۔ انسانی جانوں کی حرمت کسی کے بھی ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔ یہ صورتحال یونہی جاری رہے گی، اگر یہ تنازعہ تھمے گا تو پھر یہ سامراجی ٹکراؤ کسی اور خطے میں ایک مختلف شکل میں کسی نئے تنازعے کو جنم دے گا۔ اور ساتھ ہی ساتھ آئندہ کئی ماہ یا پھر سال بھر تک یہ وباء بھی مزید انسانی جانوں سے کھلواڑ کرتی رہے گی۔ عین ممکن ہے کہ جب یہ وباء ختم ہو تو کوئی اور ایسی ہی یا اس سے بھی تباہ کن وباء اس سیارے کواپنی لپیٹ میں لے لے۔ ان وباؤں اور نظام کے بحران کا آپس میں ایک جدلیاتی تعلق ہے جس میں سبب اثر اور اثر سبب میں بدلتا رہتا ہے۔ کورونا بحران کی وجہ نہیں تھابلکہ پیداوار تھا لیکن اس نے جوابا بحران کومزیدمشتعل کر دیا ہے۔ اور اسی طرح پھر اس مشتعل بحران نے عالمی وباء کے اس حالیہ دوسرے فیز کی راہ ہموار کی ہے۔ جب تک یہ نظام اور اس کی غیر انسانی اخلاقیات مسلط ہے، بربادی اور تباہی کی یہ داستان ایسے ہی جاری رہے گی۔

اب تک اس وباء سے دنیا بھر میں 11 لاکھ 31 ہزار 290 ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ 4 کروڑ سے زیادہ لوگ اس وائرس کے انفیکشن میں مبتلا ہو چکے ہیں جن میں سے مزید 73 ہزار 800 زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ امریکہ بہادر میں اس وائرس سے ہونے والی ہلاکتیں دو لاکھ اور ایشیا کی قائدانہ معیشت اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت انڈیا میں ایک لاکھ سے بڑھ چکی ہیں۔ یہی حال برازیل سمیت دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں کا ہے۔ نہ صرف یہ کہ کورونا کوکسی بھی قسم کی مزاحمت کے بغیر انسانوں کو ہڑپ کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا ساتھ ہی ساتھ پہلے سے زبوں حال صحت اور غذائیت کے انفراسٹرکچر پر اضافی دباؤ کے باعث دیگر امراض اور ان سے ہونے والی ہلاکتوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ آج کے جدید عہد میں بھی اس بربادی کا جواز گھڑنے کے لیے کچھ غلیظ دانشور مالتھس کے رجعتی نظریہ آبادی کا سہارا بھی لیتے ہیں۔ ان کے خیال میں کورونا سے ہونے والی ہلاکتوں کا زیادہ تر حصہ ذیابطیس اور دل، گردوں اور جگر کے امراض میں مبتلا افراد پر مشتمل ہے۔ گویا ان کے خیال میں یہ لوگ پہلے ہی سماج پربوجھ تھے اور کوئی پیداواری سرگرمی کرنے کے اہل نہیں تھے ٰلہٰذا فطرت نے اپنے داخلی قوانین کے تحت زمین کا بوجھ کم کردیا۔ یہ نری حیوانیت ہے۔ چلو ہم اسے درست مان بھی لیں تو جہاں ذیابطیس اور دل کے پہلے سے موجود مریضوں کو مار کر فطرت نے انسانیت کی خدمت کی ہے تو پھر کم ازکم انہی بیماریوں کے پھیلاؤ کا انسدادتو کر دیتی تاکہ زمین پر دوبارہ مستقبل قریب میں تو یہ بوجھ نہ بڑھتا۔ لیکن رپورٹس سے صاف ظاہر ہے کہ جتنے ان امراض میں مبتلا افراد کورونا کاشکار ہوئے ہیں ان سے زیادہ نئے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ یہی رفتار رہی تو بہت جلد کرۂ ارض پر صحت مند افراد تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔ مالتھس کے مریدین کے مطابق تو پھر یہ سیارہ اب صرف مٹھی بھر سرمایہ دارو ں کو سہار سکنے کا اہل ہی رہ گیا ہے۔

جہاں ایک طرف کورونا مالتھس کا پیغمبر بن کرموت کا کھیل کھیل رہا ہے دوسری طرف بیروزگاری اور مہنگائی نے زندہ لاشوں کا جینا اجیرن کیا ہوا ہے۔ 2018 تک دنیا بھر میں بیروزگاروں کی تعداد 18 کروڑ 60 لاکھ بتائی جا رہی تھی اور تخمینہ لگایا گیاتھا کہ 2023 تک یہ تعداد بڑھ کر بیس کروٖڑ کے لگ بھگ ہو جائے گی۔ لیکن حالیہ بحران نے ان سب اندازوں کو تمسخر بنا دیا ہے۔ امریکہ میں فروری کے مہینے تک بیروزگاری کی شرح 3.5 فیصد تھی مگر اپریل تک یہ 14.7 فیصد سے تجاوز کر چکی تھی۔ امریکی وزارت محنت کے مطابق امریکہ میں مارچ کے اواخر اور اپریل کے آغاز کے ابتدائی دو ہفتوں میں امریکہ میں ایک کروڑ لوگ بیروزگار ہوئے۔ تب سے لے کر اب تک کورونا سے امریکہ میں بیروزگار ہونے والو ں کی تعداد ساڑھے چار کروڑ سے بھی بڑھ چکی ہے۔ دنیا بھر میں چالیس کروڑ سے زائد نوکریاں ختم ہوئی ہیں جبکہ 43 کروڑ چھوٹے کاروبار ڈوب چکے ہیں جس کے باعث غذائی قلت کے شکار لوگوں کی تعداد میں مزیدچھبیس کروڑ افراد کا اضافہ ہو چکا ہے۔ یورپ اور چین سمیت باقی ترقی یافتہ دنیا میں بھی بیروزگاری کا جن بوتل سے نکل آیا ہے۔ چین بڑے پیمانے کی بیرونی سرمایہ کاری اور دنیا بھر میں اپنی شرائط پر انفراسٹرکچر کے دیو ہیکل منصوبوں کے ذریعے بیروزگاری کے اس جن کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے مگر زیادہ سنجیدہ ماہرین جانتے ہیں کہ اس سے بحران کو آگے تو دھکیلا جا سکتا ہے مگر حتمی فرار مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ الٹا ان پالیسیوں سے جہاں چین کا ریاستی قرضہ بے قابو ہوتا جارہا ہے وہیں ساری دنیا میں نئے سفارتی تنازعے جنم لے رہے ہیں جن کی قیمت پھرمتاثرہ ریاستوں کے محنت کش عوام کو ہی چکانی ہو گی۔

اسی کرۂ ارض پر جہاں مذکورہ بالا دوزخ بھڑک رہی ہے، وہیں ایک روحانی طمانیت اور جسمانی استراحت سے آراستہ جنت بھی مہک رہی ہے۔ آکسفیم کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ رواں برس دنیا کی 32 سب سے بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں 109 ارب ڈالر منافع کمائیں گی اور پچاس کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے گر جائیں گے۔ گوگل، ایپل، فیس بک، ایما زون اور مائیکروسافٹ ان پانچ کمپنیوں کو 46 ارب ڈالر کا اضافی منافع ہو گا۔ دنیا کی سات سب سے بڑی دوا ساز کمپنیاں اکیس فیصد زائد یعنی بارہ ارب ڈالر اضافی منافع کمائیں گی۔ اسی سال دنیا کی ایک سو سب سے بڑی کمپنیوں نے اپنی سٹاک مالیت میں تین ٹریلین یعنی تین ہزار ارب ڈالر کا اضافہ کیا ہے۔ دنیا کے امیر ترین شخص ایمازون کے مالک جیف بیزوس نے کورونا کے دوران اپنی دولت میں 92 ارب ڈالربڑھائے ہیں۔ کپڑوں کی ریٹیل کمپنی کوہلز نے اس سال پندرہ کروڑ ڈالر کے آرڈر منسوخ کرنے کے باوجود 10.9 کروڑ ڈالر کے منافعے اپنے سرمایہ کاروں میں تقسیم کیے جبکہ اسی دوران اسی کمپنی سے لاکھوں مزدوروں کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ صرف بنگلہ دیش میں متاثرین کی تعداد بائیس لاکھ بتائی گئی ہے۔ دنیا کی کپڑے کی دس سب سے بڑی کمپنیاں اس سال مجموعی طور پر اپنے شیئر ہولڈرز میں اکیس ارب ڈالرکے منافع بانٹ چکی ہیں۔ تیل کی اجارہ داری شیوران کے منافعوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا ہے مگر دس سے پندرہ فیصد محنت کشوں کو فارغ کیا جا چکا ہے۔ نائیجیریا کی سیمنٹ کی سب سے بڑی کمپنی ڈینگوٹ سیمنٹ نے اس سال ایک سو چھتیس فیصد اضافی منافع تقسیم کرنے ہیں اور اس حدف کے حصول کے لیے تین ہزار مزدوروں کو برطرف کیا جا چکا ہے۔ آکسفیم کی اسی رپورٹ کے مطابق امریکہ کے دس امیر ترین لوگ تمام امریکی کمپنیوں کے حصص کے نواسی فیصد کے مالک ہیں۔ اسی طرح برطانیہ میں مجموعی پینشن فنڈ کا چھیالیس فیصد ملک کے دس امیر ترین لوگوں کی ملکیت ہے اور غریب ترین پچاس فیصد اس فنڈ کے صرف ایک فیصد کے مالک ہیں۔ رواں برس سے قبل کے چار سالوں میں دنیا کی سب سے منافع بخش 59 کمپنیوں نے اپنے سرمایہ کاروں میں دو ٹریلین یعنی دو ہزار ارب ڈالر تقسیم کیے تھے۔

اس ساری دولت کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی اگر انفرادی منافعوں کی ہوس کی بجائے اجتماعی مفاد کے لیے صرف کیا جائے تو دنیا سے بھوک، بیماری، لاعلاجی، زبوں حالی، جنگوں اور افراتفری کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اب یہی سوال اجتماعی شعور کے اسباق کی فہرست میں سب سے اوپر جگہ بنانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ اسی شعوری عمل کی انقلابی جست نے مذکورہ بالا مٹھی بھر طفیلیوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ سوشل میڈیا اور اجتماعی رابطے کی ویب سائیٹس نہیں بلکہ یہی طبقاتی و سماجی تفاوت ہی دنیا بھر میں انقلابی تحریکوں کی حالیہ لہر کو تاز ہ خون فراہم کرتا ہے۔ حکمرا ن طبقہ اپنے مخصوص میکانکی طرز فکر وعمل کے باعث جوہر کی بجائے ظاہر کو ہی دیکھ پاتا ہے، اسی لیے وہ سمجھتے ہیں کہ اگر مخصوص ویب سائٹس اور پروگرام بند کر دیئے جائیں تو تحریکیں اور انقلابات بھی ماند پڑ جائیں گے۔ یہ درست ہے کہ سماجی رابطوں کے پروگرام انقلابی عمل کو مہمیز ضرور دیتے ہیں مگر اصل وجہ دولت اور غربت کی مسلسل بڑھتی ہوئی خلیج ہی ہے جو خود حکمران طبقے کے اپنے تجزیہ نگاروں کے بقول آئندہ برسوں اور عشروں میں مسلسل مزید بڑھتی رہے گی اور اس کے نتیجے میں انقلابی تحریکیں بھی وقفے وقفے سے نسبتی ٹھہراؤ کے بعد بار بار ابھرتی رہیں گی۔ امریکہ میں جارج فلوئیڈ کے قتل کے بعد ابھرنے والی شاندار تحریک بھی وقتی ٹھہراؤ کا شکار تو ہوئی تھی مگر پھر بریونا ٹیلرکے قتل نے اسے دوبارہ بھڑکا دیا۔ اب اگر پھر اس میں وقتی ٹھہراؤ آئے گا تو ریاستی جبر دوبارہ اسے پہلے سے بھی زیادہ شدت سے ابھارنے کی راہ ہموار کرے گا۔ ایسے ہی فرانس میں پیلی جیکٹ والوں کی تحریک بھی ابھی کچھ سستا رہی ہے، یہ تازہ دم ہو کر پھر کسی نئی شکل میں نمودارہو گی۔ گزشتہ سال کے آخری نصف میں لبنان، عراق، چلی، سوڈان، ایکواڈور، ہانگ کانگ وغیرہ کی فقید المثال انقلابی تحریکیں بھی دوبارہ ابھریں گی۔ لبنان اور اب سوڈان میں تو اس کا دوسرا مرحلہ کسی حد تک پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔ اب تھائی لینڈ، فلپائن، انڈونیشیااورنائیجیریا بھی اس طویل فہرست کا حصہ بن چکے ہیں۔ آنے والے سالوں میں جہاں عرب انقلاب ایک دفعہ پھر نئی کروٹ لے گا وہیں جرمنی، آسٹریلیا اور کینیڈا جیسے بظاہر مستحکم نظر آنے والے ممالک بھی دھماکہ خیزتبدیلیوں کے عمل سے گزریں گے۔ چینی اشرافیہ تو بیٹھی ہی بارود کے ڈھیر پر ہے۔

ہم جس خطے میں رہتے ہیں یہ بھی ڈرامائی طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔ انڈیا جو امریکی سامراج کے مخالف بلاک کا اس خطے میں قائد تھا، اب اس خطے میں سامراجی گماشتگی کے اس منصب پر فائز ہو چکا ہے جہاں کبھی شاہ ایران براجمان ہوا کرتے تھے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت تمام امریکی سامراج کی کٹھ پتلیاں انڈیا کے حالیہ وزیر اعظم نریندر مودی کو اس کی امریکی سامراج کے لیے خدمات کے اعزازمیں اپنے اپنے سرکاری اعزازات سے نواز چکی ہیں۔ مگر بدقسمتی سے انڈیا کے طلبہ، محنت کش، کسان، مظلوم خواتین، محکوم اقوام اور اقلیتیں ان سامراجیوں سے اتفاق نہیں کرتے اور وہ ان کے پسندیدہ دم چھلے یعنی نریندر مودی کو کسی اور ہی ’اعزاز‘سے نوازنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں تاریخ ساز جدوجہد دوسرے سال بھی نہ صرف جاری ہے بلکہ انتہائی نامساعد حالات کے باوجود اس نے بھارتی حکمرانوں کے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ ملک کے باقی حصوں میں بھی اس تحریک کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ بالخصوص طلبہ تحریک نے کشمیرکی اس مزاحمت سے بہت شکتی حاصل کی ہے۔ اگرچہ فوری مقاصد کے حصول میں کوئی فیصلہ کن کامیابی حاصل نہیں کی جا سکی مگر بڑے وثوق سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارتی طلبہ کی تحریک اب معیاری طور پر پہلے سے بہت مختلف اور کہیں زیادہ تجربہ کار ہے۔ اب یہ زیادہ عرصہ مسخ شدہ انقلابی نظریات کی لاش اٹھانے کے موڈ میں نہیں ہے اور مارکسزم کی عظیم روایات پر جمی سٹالنزم اورماؤ اسٹ مہم جوئی کی کائی کی صفائی کا کام شروع ہو چکا ہے۔ بھارتی کسان بلا مبالغہ نام نہاد معاشی ابھار میں بھی دوزخ سے بھی بدتر زندگی گزارنے پرمجبور تھے۔ اب ان کے برداشت کا پیمانہ بھی لبریز ہو چکا ہے اور وہ کئی بڑے لانگ مارچ بھی کر چکے ہیں۔ محنت کش طبقہ کئی بار عام ہڑتالوں کے ذریعے اپنے انقلابی پوٹینشل کاا ظہار کر چکا ہے مگر قیادتوں نے اسے ہمیشہ پسپا کیا ہے۔کورونا بحران نے ان طلبہ، کسانوں اور محنت کشوں کی تحریکوں کو جہاں سے معطل کیا تھا یہ تحریکیں پھر اس نام نہاد ٹھہراؤ کے ایام میں ان تحریکوں کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے ایک تازہ دم لڑائی کی صف بندی کر رہی ہیں۔ ایران میں بھی رواں ماہ ہڑتالوں کی ایک نئی لہر نے حکمرانوں کے ایوان لرزا دیئے ہیں۔کورونا سے ہونے والی معاشی بربادی کا تمام تر بوجھ دنیا بھر کی طرح ایران میں بھی پہلے سے سامراجی پابندیوں کا خمیازہ بھگتنے والے مفلوک الحال محنت کشوں پر ڈالا جا رہا ہے اور وہ اس کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ اب کی بار طلبہ اور درمیانے طبقے کے ساتھ ساتھ صنعتی مزدوروں میں بھی بڑے پیمانے کی ہلچل دیکھی جا رہی ہے اور یہ ایران کے سیاسی مستقبل کے لیے ایک انتہائی اہم پیشرفت ہے۔
پاکستانی ریاست عالمی اور علاقائی سیاسی و معاشی اتھل پتھل سے شدید ہلکان ہو کر پہلے سے زیادہ وحشی اور لایعنی ہوتی جا رہی ہے۔ معیشت وینٹی لیٹر پر ہے اور ریاست کے اداروں کا بھی دم گھٹ رہا ہے اور وہ بھی مصنوعی سانسوں کی ہوس میں معیشت سے اس وینٹی لیٹر کو چھین کر اپنی زندگی کو طبعی عمر سے طویل کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ یعنی جب ریاست کے اداروں اور معیشت میں تعلق کی نوعیت یہ ہو جائے کہ دونوں ایک دوسرے کو سہار ادینے کی بجائے ایک دوسرے کے لیے درد سر بن جائیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔ اگر اس بات کو انتہائی سادہ شکل میں پیش کیا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ سرمایہ دارانہ حدود کے اندر معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ فوج، سول افسرشاہی اور سرمایہ دارسب چونکہ کسی پیداوای عمل کا حصہ نہیں ہیں اور ملکی معیشت سے کل پیداوار کا بڑا حصہ ہڑپ کر جاتے ہیں، اپنے اپنے اخراجات اور مراعات کو کم سے کم بھی تین سے چار گنا کم کر دیں۔ بصورت دیگر ملکی خسارہ کسی صورت بھی کم نہیں ہو سکتا۔ چونکہ یہ درحقیقت ایک غلام ریاست ہے لہٰذا سامراجی اداروں یعنی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اور سامراجی کمپنیوں کی لوٹ مار میں تو کمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے آئی ایم ایف کا دباؤ ہے کہ ریاست کسی بھی قیمت پر اپنا مالیاتی خسارہ کم کر کے زر مبادلہ کے ذخائر کو اطمینان بخش سطح پر برقرار رکھے۔ اب سرمایہ دار، فوج اور سول اشرافیہ میں سے ہر کسی کی یہی کوشش ہے کہ اسے اپنی مراعات سے ہاتھ نہ دھونے پڑیں اور وہ دوسرے کو قومی مفاد کے لیے ’ایثار‘کی تبلیغ اور تلقین کر رہے ہیں۔ ریاست کے سات دہائیوں پر مبنی ارتقا کی مخصوصیت کے باعث فوج فیصلہ سازی کے اندر سب سے طاقتور فریق ہے، اس لیے باقی فریقین میں اس کے اثرو رسوخ کی کمی کی خواہش ہونا قدرے منطقی اور عین فطری ہے۔ لیکن ذہن میں رہے کہ اس خواہش کا بنیادی مقصد اپنی اپنی مراعات اور تعیش کا دفاع اور اپنی آئندہ نسلوں کی عیاشیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ ورثے کو محفوظ اور مستحکم بنانا ہے۔ یہی آج کل ملکی سیاست کے سینما پر ’سول ملٹری رسہ کشی‘کے نام سے چلنے والی فلم کا پلاٹ ہے اور ان دنوں ’شاندارنمائش جاری ہے‘کے سائن بورڈ ہر طرف لگے ہوئے ہیں۔

سول اشرافیہ کے پاس سیاسی پارٹیوں اور عدلیہ کے علاوہ اپنے مفادات کے حق میں فیصلہ سازی کے لیے دباؤبڑھانے کے دیگر کوئی اور ادارے یا اوزارنہیں ہیں۔ عدلیہ کے اندر ان بنیادوں پر شدید پھوٹ کی کیفیت اب کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ اسی دباؤ نے فوج کے اپنے اندر مختلف ایجنسیوں کے مابین دفاعی بجٹ، سی پیک کے کمیشنز اور کک بیکس، انفراسٹرکچر کے منصوبوں میں ٹھیکوں کی بندر بانٹ اور عسکری کارپوریشنوں اور رئیل اسٹیٹ میں جاری لوٹ مار پر موجود داخلی تناؤ کو بھی اپنی انتہاؤں پر پہنچا دیا ہے۔ فوج کے اس داخلی تناؤ سے سول سپرمیسی کے نام پر اپنی لوٹ مار کو تحفظ دینے والی قوتیں استفادہ حاصل کر رہی ہیں اور وہ ریاستی ایجنسیوں سے بیک وقت متصادم ہونے کے باوجود نئے قول و قرار کی راہ بھی ہموار کر رہی ہیں اور بدلے میں ضروری مالی و لاجسٹک معاونت بھی حاصل کر رہی ہیں۔ ا س نام نہاد لڑائی کے تمام فریقین کے مابین دو نقاط پر قطعی اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ ایک تو یہ کہ سامراجی ادارو ں کی لوٹ مار بلا روک ٹوک جاری رہنی چاہیے، اور دوم یہ کہ محنت کش طبقے کی ہڈیوں سے جتنا بھی عرق نچوڑا جا سکتا ہے وہ اس نورا کشتی کی آڑ میں جلد از جلد نچوڑ لیا جائے۔ اول الذکر نقطے پر تو پھر بھی امریکی و چینی سامراج سے وابستہ وفاداریوں کی بنیاد پر تھوڑا بہت یا کبھی کبھار معینہ حدود سے متجاوز اختلاف رائے جنم لے بھی سکتا ہے مگر آخرا لذکر نقطے پر نہ کبھی پہلے کوئی اختلاف تھا، نہ اب ہے اور نہ ہی مستقبل میں ہو گا۔ اگر محنت کش طبقے کی تحریک کے دباؤ میں کوئی ایک فریق ایک آدھ اقدام کرنے کاڈرامہ کبھی رچاتا بھی ہے تو اس کا مقصد محنت کشوں کا غصہ ٹھنڈا کرکے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو گا۔

پاکستان جسے مملکت خداداد کہا جاتا ہے، کے لیے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ سابقہ ورلڈ آرڈر کی ٹوٹ پھوٹ ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد بننے والے ورلڈ آرڈر میں سوویت یونین کا راستہ روکنے کے لیے مذہب کے نام پر مصنوعی ہی سہی لیکن بہرحال مملکت خدادا کاسامراج کے لیے ایک کردار اور افادیت موجود تھی۔ نہ صرف یہ کہ امریکہ کو سوویت یونین کے مقا بلے میں بلکہ سعودی عرب کو ایران کے ساتھ طاقتوں کا توازن خطے میں اپنے حق میں رکھنے کے لیے ایک اسلامی ریاست درکار تھی۔ اس لیے وہ دونوں مل کر اس ریاست کو پالتے اور پوستے رہے۔اوپر بیان کی گئی ڈرامائی تبدیلیوں کے باعث امریکہ بہادر نے پاکستان کی معاشی و فوجی امداد بند کر دی ہے،جبکہ دوسری طرف سعودی عرب نے بھی انڈیا سے یارانے لگا لیے ہیں۔ پاکستانی ریاست کی بنیاد ہی بھارت اور اسرائیل دشمنی پر رکھی گئی تھی۔ اب سعودی عرب اور امریکہ پاکستان کو بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ فضائی رابطے بحال کر چکا ہے اور حال ہی میں بحرین نے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کا آغاز کر دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں پاکستان پر بھی اس دباؤ میں اضافہ ہو گا اور یہ سوال پاکستانی ریاست کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہے۔ پاکستانی ریاست کا تشخص کا بحرا ن اسکے بقا کے سوال کو جنم دے رہا ہے۔ اصل میں اب جغرافیائی اور سفارتی حوالے سے اس خطے میں ایک اسلامی ریاست کسی بھی علاقائی و عالمی طاقت کے مفاد میں نہیں ہے۔ پاکستانی ریاست کا انتہائی دایاں بازو اور بالخصوص پاکستانی فوج کے کنزرویٹو حصے جانتے ہیں کہ اگر پاکستانی ریاست کا مذہبی تشخص خطرے میں پڑتا ہے، تو ان کا جواز بھی ختم ہو جائے گا۔ اس لیے وہ اپنی بقا کی جنگ میں تشدد کی ہر حد پار کرنے کے لیے تیار ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگرمذہبی تشخص اور فوج کے کردار کو ختم کرنا ہی ہے تو پھرمتبادل کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ سوال قومی جمہوری انقلاب کا سوال ہے جس کے نتیجے میں ریاست کا مذہبی تشخص ختم کر کے ایک سیکولر ریاست قائم کی جا سکے۔ کیا یہ پاکستان میں ممکن ہے؟

جی ہاں یہ ممکن ہی نہیں بلکہ ضروری بھی ہے۔ اور ہر انقلابی کا فرض ہے کہ وہ ہر ممکن حد تک اس کارخیر میں اپنا حصہ ڈالے۔ لیکن کیسے؟ ہمارے لبرل اور سابقہ بائیں بازو کے دوست سادہ سا جواب دیتے ہیں۔ وہ دیکھو ملک میں پہلے ہی فوج کوآئینی اختیارات تک محدودکرنے کے لیے ایک تحریک چل رہی ہے جس میں گیارہ پارٹیاں شامل ہیں، جس کا نام ہے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ، آگے بڑھو اور اس میں شامل ہو جاؤ۔اپنی اپنی پارٹیوں کے ناموں، جھنڈوں اور بینرز کے ساتھ اس کا حصہ بن جاؤ۔ ہم اپنے ان بائیں بازو کے دوستوں سے سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ اتحاد واقعی فوج کے سیاست میں کردار کو ختم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے؟ایسا ہرگز نہیں ہے۔فوج اپنے داخلی تضادات کے کا شکارہے۔ اس کا سب سے بڑا مظاہرہ جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کے وقت ہوا تھا۔جب میڈیا کی کچھ رپورٹوں کے مطابق جنرل باجوہ کے سیکنڈ ان کمانڈ جنرل کوخاندان سمیت نظربند کر کے اس سے جبری استعفٰی لیا گیا۔اسی طرح کے ناراض جرنیل آج بھی موجود ہیں، جن کے جمہوریت کے ساتھ ناجائز تعلقات اور معاشقے پوری تاریخ پر محیط ہیں۔ جب بھی جمہوریت ان ناجائز تعلقات کو جائز بنانے کی ضد کرتی ہے تو جرنیل اس ننھی پری کا دل توڑ دیتے ہیں۔حالیہ ناجائز تعلقات بھی جونہی اپنی معینہ حدود سے متجاوز ہوں گے تو ان کا مقدر بھی یہی ہو گا۔جو لوگ یہ اصرار کر رہے ہیں کہ اس دفعہ صورتحال وہ نہیں رہی اور جمہوریت بہت سیانی اور گھاگھ ہو گئی ہے۔ وہ دلیل کے طور پر میاں نواز شریف کی جنرل باجوہ کے خلاف استعمال کی گئی زبان کو پیش کر رہے ہیں۔ ایسے تمام لوگ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ عمران خان ایک نہیں تمام جرنیلوں کو ہی لعن طعن کیا کرتا تھا۔ انہیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ پرویز مشرف کے خلاف چلنے والی عدلیہ ا ور جمہوریت بحالی تحریک خفیہ اداروں کی مالی اور لاجسٹک کمک کے بلبوتے پر ہی چل رہی تھی۔ آئی ایس آئی کا سابقہ قائد جنرل حمید گل خوداس کارواں کے روح رواں تھا۔ عمران خان کی ابتدائی نگہداشت میں موصوف کا کلیدی کردار رہا ہے، جس کے شواہد عمران خان کی سابقہ بیوی ریحام خان کی کتاب میں بھی موجود ہیں۔اصل میں حقیقت اتنی سادہ نہیں ہوتی جتنا کہ یہ ہمارے بائیں بازو کے برائلر انقلابی سمجھتے ہیں۔دنیا کی بہت ساری ایسی تحریکیں جو اپنے جوہر میں امریکہ مخالف تھیں، ان کی قیادت حاصل کرنے کے لیے امریکہ نواز لیڈر خوب امریکہ مخالف نعرے بازی کرتے تھے۔ اس طرح بہت ساری تحریکوں کا گلہ گھونٹ دیا گیا۔پاکستانی فوج اور ایجنسیوں کے اعلیٰ حکام کی ٹریننگ بھی خود حمید گل کے بقول ا مریکی سی آئی اے ہی کرتی رہی ہے، اس لیے یہ بھی اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اس تناظرمیں حالیہ بورژوا قیادتوں سے وابستہ امیدوں کی کوئی سائنسی بنیادیں نہیں ہیں۔حیران کن بات یہ ہے کہ ہمارے یہ بائیں بازو کے دانشور اور سیاست دان اس بورژوا قیادت سے سیکولر ریاست کے قیام کی توقعات لگائے بیٹھے ہیں جنہوں نے بیک ڈور ڈپلومیسی کے راستے کھلے رکھنے کے لیے مولانا فضل الرحمان کی قیادت پر اکتفاکیا ہوا ہے۔مولانا فضل الرحمان فوج کے سیاست میں متجاوز کردار کے اس لیے خلاف نہیں ہے کہ وہ جمہوریت پسند ہے بلکہ اس لیے کہ وہ سب سے گھاگھ سیاستدان ہے اور سمجھتا ہے کہ فوج کی قیادت عالمی قوتوں کے دباؤ میں ریاست کے مذہبی تشخص پر سمجھوتہ کرنے کا سوچ رہی ہے۔دوسرے معنوں میں وہ سیکولرازم کے ممکنہ خطرات کے انسداد کے لیے فوج مخالف نعرے بازی کر رہا ہے اور ہمارے بائیں بازو والے سیکولر ریاست کی تشکیل کے خواب آنکھوں میں سجائے اس کے لیے نگاہ و دل فرش راہ کر رہے ہیں۔اب یہ نوسرباز انقلابی جواب دیں گے کہ سیکولرازم نہ بھی ہو فوج تو کمزور ہو رہی ہے نا، گویا جمہوریت تو مضبوط ہو گی۔یعنی اب یہ سٹالنسٹ تجزیہ نگار اپنے ’قومی، جمہوری‘انقلاب کی مزید مرحلہ واریت کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔پہلے ان کی مرحلہ واریت کی تھیوری میں جمہوریت کے بعد سوشلزم ہوتا تھا جو رفتہ رفتہ غائب ہی ہو گیا۔ اب پہلے مرحلے میں جمہوریت ہو گی اور پھر سیکولرازم۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب جمہوریت کی اس جدوجہد میں فضل الرحمان جیسی مذہبی قوتوں کے ہاتھ بھی خود ہی مضبوط کیے جائیں گے تو کیا وہ اسی فوج کے ساتھ دوبارہ مل کر سیکولرازم کے راستے ہمیشہ کے لیے بند نہیں کر دیں گے؟ یہ سراسر میکانکی طریقہ کارہے۔ فوج کی کمزوری سے ضروری نہیں ہے کہ جمہوریت مضبوط ہو رہی ہو بلکہ بیک وقت دونوں بھی کمزور ہو کر منہدم بھی ہو سکتی ہیں۔ دونوں کی کمزوری روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ان دونوں کی کمزوری سے انتشار پرور رجعتی قوتیں بھی مضبوط ہو سکتی ہیں۔ان رجعتی قوتوں کا راستہ روکنے کی صلاحیت صرف اور صرف محنت کش طبقے کے پاس ہے۔ اور ہمارے یہ برائلر دانشور اس محنت کش طبقے سے اتنی سخت نفرت کرتے ہیں کہ ان کی نفرت میں مولانا فضل الرحمان کو بھی انقلابی کا سرٹیفیکیٹ دینے کے لیے تیار ہیں۔محنت کش طبقہ بھی ان کی نفرت کا جواب بے نیازی سے ہی دیتا ہے۔ وہ اس سارے جمہوری انقلاب سے بے نیاز اپنی بقا کی جدوجہد کے اگلے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔مختصر یہ کہ تین دفعہ وزیراعظم بننے والے کو پاکستان کے محنت کش ان درمیانے طبقے کے دانشوروں کے برخلاف کبھی بھی ’چی گویرا‘تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔یوں جمہوری انقلاب جو کہ نہ صرف ممکن ہے بلکہ سخت ضروری بھی ہے، اس کے لیے انقلابیوں پر فرض ہو جاتا ہے کہ محنت کش طبقے کو منظم کریں تاکہ وہ اقتدار پر قبضہ کر سکیں۔
سرمایہ داری کاچاہے عروج ہو یا زوال وہ کسی بھی سماج پر اس سماج کی تاریخی، ثقافتی، سیاسی وعمرانی تشکیلات کے مطابق ہی اثر انداز ہوتے ہیں۔سماجی تشکیلات کی سب سے زیادہ مشترک قدر ان کا طبقاتی ڈھانچہ ہے۔ سرمایہ داری کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی نظام کا کوئی عروج آتاہے تو اس سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ نظام کا حکمران طبقہ اور اس کے اتحادی طبقات اور سماجی پرتیں ہی مستفید ہوتے ہیں۔ اور اگر وہ عروج کچھ دیرپا ہو تو اگلے مرحلے میں اس کے اثرات سماج کی رگ و پے تک پہنچنا شروع ہوتے ہیں۔ عام طور پر محکوم اور پسے ہوئے طبقات کو سرمایہ داری کے عروج کے ادوار میں بھی اس عروج سے مستفید ہونے کے لیے سیاسی تحریک اور دباؤ کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔اسی طرح جب سرمایہ داری کا زوال یا بحران آتا ہے تو حکمران طبقہ اپنے سیاسی اقتدار اور آئینی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کا سارا بوجھ اپنی محکوم رعایا یعنی غریب عوام پرمنتقل کر دیتے ہیں۔ اگر بحران طوالت اختیار کرے تو پھر جا کر حکمران طبقات کی نچلی پرتیں اس سے متاثر ہوتی ہیں جب کہ اس کی انتہائی بالائی پرت پھربھی اس وقت تک محفوظ رہتی ہے جب تک کہ نظام کاشیرازہ ہی نہیں بکھر جاتا۔ یعنی زیادہ بڑے مگرمچھ چھوٹی مچھلیوں کو کھا کر بحران میں بھی پھلتے پھولتے رہتے ہیں، توایسے میں بعض اوقات ان چھوٹی مچھلیوں کے ساتھ مگر مچھوں کے تضادات بھی بے قابو ہو کر پورے نظا م کے لیے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ حکمران طبقے کی بالائی اور نچلی یا درمیانی پرت کے ان داخلی تضادات کا اظہار ہم برطانیہ میں بریگزٹ کے بحران کی شکل میں دیکھ چکے ہیں۔ جب حکمران طبقے کی بالائی پرت کے بھی آپسی تضادات بے لگام ہونا شروع ہو جائیں تو یہ کسی بھی انقلابی معروض کی پہلی شرط ہوتی ہے۔ہم پاکستان میں اس سے ملتی جلتی صورتحال کو پروان چڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔

طبقاتی تضاد کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ معاشروں میں نسلی، قومی، لسانی، مذہبی، ثقافتی، صنفی اورفرقہ وارانہ تضادات بھی موجود ہوتے ہیں۔ اور سرمایہ داری کے عروج کی صورت میں دولت کی تقسیم حکمران طبقے کی مختلف پرتوں میں انہی سماجی تشکیلات کے تحت ہوتی ہے۔ یعنی پدرشاہی کی وجہ سے جو کہ ایک ٹھوس سماجی حقیقت ہے مرد سماجی دولت میں زیادہ حصہ بٹور لیتے ہیں۔ ایسے ہی امریکہ میں گورے سرمایہ دارو ں کا کل دولت میں حصہ کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ یہ ناہموار ترقی سرمایہ دارانہ طرز ارتقا کا بنیادی قانون ہے جس سے کسی بھی سماج کو استثنا حاصل نہیں ہے۔ بحران کے دنوں میں بھی صورتحال ایسی ہی ہوتی ہے۔ خواتین محنت کشوں اور مظلوم اقوام اور پسماندہ ثقافتی اقلیتوں کو بحران کی زیادہ قیمت چکانی پڑتی ہے۔ اعدادو شمار ثابت کرتے ہیں کہ حالیہ بحران میں بھی بیروزگاری کی ہر لہر میں سیاہ فام محنت کشوں اور خواتین کو زیادہ نوکریوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ ایسے ہی ہر ملک اور خطے میں ریاستی جبر بھی اسی ناہموار قانون کے تحت مظلوم اقوام کے محنت کشوں کو زیادہ بھگتنا پڑتا ہے۔ انڈیا اور پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والا بہیمانہ سلوک ہمارے سامنے ہے۔

پاکستانی ریاست بھی حالیہ بحران میں اپنے تاریخی فریضے کی ادائیگی یعنی حکمران طبقات کی جائیدادوں اور منافعوں کوتحفظ فراہم کرنے کے لیے جہاں ایک طرف محنت کشوں پر بالعموم مہنگائی، نجکاری اور سبسڈیز کے خاتموں کی شکل میں شدید معاشی حملے کر رہی ہے، وہیں مظلوم اقوا م کے وسائل کی لوٹ مار میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ کیا جا رہا ہے۔ صوبو ں کے آئینی اختیارات اور برائے نام خود مختاری کوبھی ختم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارویں ترمیم کے اوپر پھر سے بحث کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ حال ہی میں سندھ اور بلوچستان کے جزائر پر قبضہ کرنے کے لیے ایک صدارتی آرڈینینس بھی پاس کیا گیا ہے جس کے اوپر سندھ میں بالخصوص شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ اس بے چینی کے سیاسی اظہار کے لیے سندھ کے عوام کے پاس فی الوقت کوئی ایسا پلیٹ فارم موجود نہیں جس پر وہ کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کر سکیں۔ اس لیے تاحال سوشل میڈیا پر ہی لوگ کھل کر اپنی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی پہلے ہی گزشتہ تیرہ سالوں سے مسلسل صوبے میں اقتدار میں رہنے کے باعث اپنی سماجی حمایت کھو چکی ہے۔ ان تیرہ سالوں میں سندھ کے عوام کا معیار زندگی مسلسل گراوٹ کا شکار رہا ہے۔ وفاق کی طرف سے ہونے والے مذکورہ بالا حملے پیپلزپارٹی کواپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ، اٹھارویں تر میم اور جزیروں کے آرڈینینس کے گرد ہونے والی بحثوں میں سندھ کی مڈل کلاس میں پیپلز پارٹی کا گراف کسی حد تک اوپر جا سکتا ہے۔ مگر محنت کش عوام ابھی تک ان ساری بحثوں کو زیادہ سنجیدہ نہیں لے رہے۔ اس کی بنیادی وجہ وفاقی حکومت کی دیگر عوام دشمن پالیسیوں پر پیپلزپارٹی کی مجرمانہ خاموشی ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ ان میں سے بہت ساری پالیسیاں وہی ہیں جو پیپلزپارٹی نے اپنے وفاقی اقتدار میں بھی جاری رکھی تھیں اور سندھ میں صوبائی سطح پر بھی ان کا اطلاق کیا گیا ہے۔ نجکاری کی پالیسی اس کی سب سے بڑی مثال ہے جو آئی ایم ایف کے پروگرام کی شرائط میں مرکزی حیثیت کی حامل ہے۔محنت کش طبقہ درمیانے طبقے کی طرح جلد باز اور بے صبرا نہیں ہوتا، اس لیے وہ فوری طور پر نہ تو کسی ایک پالیسی سے متاثر ہو کر زندہ باد زندہ باد کھیلنا شروع کرتا ہے اور نہ ہی کسی ایک غلطی پر گالم گلوچ شروع کر دیتا ہے۔اس کے سامنے سوال یہ ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے جب یہ جزیرے بھی صوبے ہی کی ملکیت تھے، جب این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارویں تر میم پر عمل بھی ہو رہا تھا تب بھی ان کے بزرگ لاعلاجی، مائیں غذائی قلت اور بچے جہالت میں سسک اور بلک کیوں رہے تھے، جبکہ اس سارے عرصے میں سندھ میں پیپلز پارٹی کی ہی حکومت تھی۔ چند برس قبل تو صورتحال یہ بھی رہی ہے کہ سندھ کے ساتھ ساتھ بلوچستان، پختونخواہ،وفاق اور کشمیر میں بھی پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور پنجاب کاگورنر بھی پیپلزپارٹی سے تعلق رکھتا تھااورآصف علی زرداری خود ملک کاصدر تھا۔ محنت کشوں کو اس دور کے کیے گئے تابڑ توڑ حملے آج بھی یاد ہیں اور ان سے محنت کشوں نے انتہائی سنجیدہ اسباق بھی اخذ کیے ہیں۔
قوم پرست پارٹیاں بھی نظریات سے زیادہ شخصیات پر انحصار کی وجہ سے پھوٹ در پھوٹ کے باعث موجودہ حالات میں کوئی ترقی پسندانہ کردار ادا کرنے کی اہل نہیں ہیں۔ سچ کہیں تو قوم پرستی کے نظریئے میں ہی اب وہ صلاحیت نہیں رہی کہ وہ سماج کے مسلسل پیچیدہ ہوتے ہوئے مسائل اور تضادات کا درست تجزیہ کر سکے۔ اور جب مرض کی درست تشخیص ہی نہیں کی جائے گی تو اس کے علاج کا ہر تجربہ ناکامی سے ہی دوچار ہو گا۔ قوم پر ستی کی نظریاتی محدودیت کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ قومی محرومی ختم ہو گئی ہے۔ قومی محرومی میں پہلے سے کئی گنا اضافہ ہواہے۔ ہم ٹراٹسکائیٹس پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم قومی سوال کو مانتے ہی نہیں۔ یہ سراسر بہتان ہے۔ہم سمجھتے ہیں قومی سوال نہ صرف موجود ہے بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ریاستی جبر جتنا شدید ہو گا، اسکے خلاف بے چینی اور مزاحمت بھی بڑھے گی۔ ہر انقلابی کا فرض ہے کہ وہ اس جدوجہدمیں نہ صرف حصہ لے بلکہ اس میں کلیدی کردار ادا کرنے کی کوشش کرے لیکن ساتھ ساتھ قوم پرستی کی مخالفت بھی جاری رکھے۔ قوم پرستی کی مخالفت کے بغیر کسی بھی قومی تحریک کو آج کے عہد میں آگے بڑھانا ممکن نہیں رہا۔ قو م پرستی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ قوم پرست چاہے کسی بھی قوم کا ہو، وہ اپنی قوم، نسل، زبان اور ثقافت کو سب سے عظیم سمجھتا ہے اور یوں وہ اپنے آپ کو صرف ظالم قومیت ہی نہیں بلکہ دیگر مظلوم اقوام کے ساتھ بھی تضاد میں دیکھتا ہے۔ہم انقلابیوں کے نزدیک ہماری اپنی زبان سمیت کسی بھی زبان، نسل یا قوم اور ثقافت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسری زبانوں اور ثقافتوں کو اپنے سے کمتر تصور کرے۔ایک وقت میں یہی قوم پرستی ایک جدید اور انقلابی نظریہ تھا۔ مگر اس کو تین صدیا ں بیت چکی ہیں اور ان تین صدیوں میں دنیا یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ سوویت یونین کی موجودگی تک بھی کسی حد تک قوم پرست قیادتیں ترقی پسند خیالات رکھتی تھیں مگر بعد ازاں انہوں نے سامراجی حمایت کو ہی قومی آزادی کے حصول کا واحد ذریعہ سمجھنا شروع کر دیا۔آج کے عہد میں قوم پرستی محض ایک رومانس کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں مارکسزم ایک سائنس ہے۔اور آج کی نوجوان نسل کو اپنے مسائل کے حل کے لیے سائنس اور رومانس میں سے کسی ایک کاانتخاب کرنا ہو گا۔ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ان دونوں کو ساتھ چلانا دو کشتیوں پر سفر کرنے کے مترادف ہے۔اور دو کشتیوں کا مسافر کبھی منزل پر نہیں پہنچ سکتا۔اسی لیے سندھ کے نوجوانوں کے لیے یہ کتاب ان کی اپنی زبان میں شائع کی جا رہی ہے، جس کا نام ہے ’مارکسزم عہدحاضر کا واحد سچ‘۔

آج کل سندھ میں بھی ساری دنیا کی طرح برائلر دانشور کھمبیوں کی طرح اگ آئے ہیں۔سندھ کے ان برائلر دانشوروں میں بھی ان کے ہم عصردیگر دانشوروں کی طرح ’مابعد جدیدیت‘اور’مابعد نوآبادیت‘کے رجحانات کافی حد تک سرایت کر چکے ہیں۔ بہت سے بائیں بازو کے دانشور تو ان رجحانات کے ملغوبے کوہی جدید عہد کا مارکسزم قرار دے چکے ہیں۔ جبکہ کچھ کے خیال میں مارکسزم پرانا ہو چکا ہے، لہٰذا نئے نظریات کی ضرورت ہے وغیرہ وغیرہ۔جب ان سے پوچھا جائے کہ حضور اگر مارکسزم پرانا ہو چکا ہے تو پھر جدید نظریہ کونسا ہے تو وہ مختلف اصطلاحات کا سہارا لے کر دوبارہ قوم پرستی اور لبرلزم کا ہی چورن بیچنا شروع کر دیتے ہیں جو کہ درحقیقت مارکسزم سے بھی پرانے نظریات ہیں۔ اور انہی نظریات پر سائنسی تنقید کرتے ہوئے ہی مارکسزم کے عظیم نظریات تخلیق کیے گئے تھے۔ان برائلر دانشوروں نے چند ایک اصطلاحات حفظ کی ہوتی ہیں جن کو ہر مباحثے میں بار بار دہرا کر یہ اپنی علمیت کا رعب جھاڑتے رہتے ہیں۔جیسے کالا چشمہ لگا کر ایک عام سی شکل کا آدمی بھی ہیرو ہیرو سا لگنے لگتا ہے، ایسے ہی ان اصطلاحات کو یاد کر کے اوسط ذہنیت کا شخص بھی دانشور سا دکھائی دینے لگتا ہے۔ویسے تو ان اصطلاحات کی فہرست بہت طویل ہے لیکن اگر ہم ان میں سے چند ایک سادہ ترین اور قابل فہم اورسب سے زیادہ مستعمل اصطلاحات کا یہاں ذکر کریں تو ان میں ’جدید‘،’مجرد‘اور’بیانیہ‘اہم اصطلاحات ہیں۔مذرکورہ ’جدید‘کے حوالے سے تو ہم پہلے ہی وضاحت کر چکے کہ یہ کتنا قدیم ہے۔کسی بچے یا فرد کا نام نیا رکھ دینے سے وہ تبدیل ہو کر نیا فرد نہیں بن جاتا بلکہ وہ وہی مخصوص شخص ہی رہتا ہے۔ جدلیاتی اعتبار سے دیکھا جائے تو ہر فرد اور ہر شے مسلسل بدلتی رہتی ہے، ان معنوں میں تو ہر شخص ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک نئے شخص میں تبدیل بھی ہو چکا ہوتا ہے مگر ایسی تبدیلی کے باوجود اس کا نام وہی رہتا ہے۔ اگر ہر معمولی تبدیلی کے ساتھ اس کا نام بھی نیا رکھنا ضروری قرار دے دیا جائے تو لغت میں موجود تمام نام شاید ایک ہی شخص کے لیے ہی کم پڑ جائیں۔در حقیقت مکمل طور پر ’جدید‘کچھ بھی نہیں ہوتا۔ جدید پرانے کو صرف رد ہی نہیں کرتا بلکہ اس کا ضروری ورثہ اپنے اندر جذب بھی کر لیتا ہے۔ ایسے میں ایسا کوئی جدید ڈھونڈنامحال ہے، جس میں کچھ بھی پرانا موجود نہ ہو۔ رد و نمو کے اس جدلیاتی چلن کو ایلن وڈز کی زیرنظر کتاب میں سیر حاصل وضاحت سے پیش کیا گیا ہے۔

’مجرد‘کی اصطلاح بھی برائلر دانشوروں کی مرغوب ترین اصطلاح ہے۔اسے درحقیقت معروضی قوانین کی نفی کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مارکسزم چونکہ سماجی سائنس ہونے کی دعویدارہے اور سائنس کا مطلب ہی یہ ہے کہ سماجمخصوص قوانین کے تحت ہی ترقی کرتے ہیں یا تبدیل ہوتے ہیں۔اب چونکہ مارکسزم کے پیش کیے گئے ترقی کے معروضی قوانین بار بار اپنی صداقت تسلیم کروا چکے ہیں اور ان کو غلط ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سماجی ارتقا کے متبادل قوانین پیش کیے جائیں تو اسکا انتہائی سادہ حل یہ نکالا گیا ہے کہ قوانین کی موجودگی، ضرورت اور افادیت سے ہی یکسر انکار کر دیا جائے۔ ہر قانون کو مجرد فارمولہ کہہ کر رد کر دیا جائے۔ اور ہر معروضی صورتحال چونکہ کسی نہ کسی پہلو سے اپنے جوہر میں نہ سہی اپنے ظاہر میں باقی تمام اقسام کے معروض سے مختلف اور اپنے تئیں بالکل منفرد ہوتی ہے لہٰذا یہ جھوٹ بولا جائے کہ ہرمعروضی کیفیت کے اپنے ہی بالکل الگ قوانین اور منطق ہوتے ہیں۔ یوں کوئی آفاقی یا معروضی قانون نہ ہونے کو ہی قانون کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف لایعنیت ہے بلکہ تمام تر انسانی علمیت کا مضحکہ اڑانے کے مترادف بھی ہے۔ یہ درست ہے کہ ہر تبدیل شدہ کیفیت پر مجرد فارمولے اور کلیے لاگو نہیں کیے جا سکتے مگر ہر مخصوص معروضی کیفیت کا تجزیہ کرنے کے لیے بہرحال کسی نہ کسی مخصوص نقطہ نظر کی ضرورت ہوتی ہے۔ صرف تجزیئے سے نتیجہ نکالنے کے لیے ہی نہیں بلکہ تجزیئے کا آغاز بھی انسانی علم کی حاصلات کے طور پر پہلے سے موجود کچھ کیٹیگریز کے بلبوتے پر ہی ممکن ہے۔ یہ کیٹیگریزکسی دانشور کے ذہن کی اختراع نہیں بلکہ انسانی شعور اور سماج میں جاری ایک تاریخی عمل کے نتیجے میں وجود آئی ہیں۔ محض تجرید سے کسی ٹھوس شے یا عمل کی حقیقت کو نہیں جانا جا سکتا بلکہ ان دونوں کو ایک جدلیاتی کُل میں جوڑتے ہوئے ہی حقیقت کو جانا جا سکتا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ کوئی بھی تجرید خارجی عمل اور حقیقت کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتی اور بہت سی ٹھوس حقیقتیں اور عمل ہی شعور میں تجریدکو ممکن بناتے ہیں۔اسی طرح کسی دانشور کی جانب سے محض کسی فیکٹ کا بیان کر دینا کافی نہیں جب تک یہ وضاحت نہ کی جائے کہ یہ اصل میں ہے کیا اور اس کا تعلق مجموعی صورتحال سے کیسے بنتا ہے۔ اس کی اصلیت کی وضاحت تجریدات کی مدد کے بغیر نا مکمل ہی رہے گی۔ مجرد اپنے آپ میں حقیقی نہیں ہوتا مگر حقیقت تک پہنچنے کا ناگزیر راستہ ہوتا ہے۔ تجرید اور ٹھوس کا آپس میں جدلیاتی تعلق ہوتا ہے اور دونوں بیک وقت ایک دوسرے پر اثر انداز ہورہے ہوتے ہیں۔ اس بحث کو اگر پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال پر لاگو کیا جائے تو بات آسانی سے سمجھ آ سکتی ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم حالیہ سیاسی بحرا ن میں اپوزیشن اور حکومت دونوں کی بیک وقت مخالفت کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ہم ایک مجرد نقطہ نظر پیش کر رہے ہیں جو کہ حقائق سے دور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی موجودہ حکومت اور حال ہی میں گیارہ پارٹیوں کا قائم ہونے والا اتحاد مجرد حقیقتیں نہیں بلکہ ٹھوس عوامل ہیں جنہیں حکمران طبقہ سماج پر مسلط کر رہا ہے۔ اس حکومت اور اپوزیشن کا ایک عوام دشمن ماضی بھی ہے اور ان کے سیاسی نظریات اور مزدور طبقے کی جانب ان کا نفرت انگیز رویہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔سامراجی طاقتوں کی غلامی سے لے کر عوام دشمن رجعتی قوتوں کے ساتھ ان کے یارانے بھی کسی سے پوشیدہ نہیں اور سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے ان کے اقدامات اور بیانات بھی واضح ہیں۔انہی تمام ٹھوس حقیقتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ موجودہ حکومت اور اپوزیشن حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کی ہی نمائندگی کرتے ہیں اور عوام کے حقیقی مسائل اور مفادات سے ان لیڈروں اور پارٹیوں کا دورکا بھی کوئی تعلق نہیں تو بالکل درست ہو گا۔دوسری جانب نام نہاد مفکر اور کرائے کے دانشور ہمیں یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ان لیڈروں اور پارٹیوں کے ماضی کو بالکل فراموش کر دیا جائے، ان کے سیاسی نظریات اور سامراجی کاسہ لیسی کو نظر انداز کیا جائے، سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے ان کے بیانات اور اقدامات کو غیر اہم قرار دے دیا جائے اور مزدور طبقے کی جانب ان کا توہین آمیز رویہ بھی پس پشت ڈال دیا جائے۔ اس طرح اپنے خیال میں ایک ایسی اپوزیشن کا ایک مجردتصور قائم کر لیا جائے جو عوام کے مسائل کو حل کرے گی اور جمہوریت کی بالادستی کو قائم کرے گی۔یہ عوام دشمن دانشور درحقیقت خود ایک جھوٹا اور غیر حقیقی تصور عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں جس کا ٹھوس حقیقت سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اور پھر عوام کو میڈیا کے ذریعے حکمرانوں کی ایما پریہ تصور فروخت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن محنت کش عوام اجتماعی طور پر اپنے تصورات اور خیالات ٹھوس حقائق کے ذریعے مرتب کرتے ہیں اور ان میں ان کے ذاتی تجربات انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔موجودہ حکومت اور اپوزیشن کے بارے میں کوئی کتنی ہی اچھی باتیں اور نیک خواہشات کا اظہار نہ کر لے اور جتنی مرضی قسمیں کھا لے کہ یہ اپوزیشن اقتدار میں آکر تمام مسائل حل کر دے گی لیکن عوام اپنے تجربات سے جانتے ہیں کہ یہ لوگ حکمران طبقے کے ہی افراد ہیں جن کے کتے بھی عوام کی اکثریت سے کئی گنا بہتر زندگی گزارتے ہیں اور ان کا حتمی مقصد حکمران طبقے کے مفادات کا تحفظ ہی ہے۔ ٹھوس حقائق اور محنت کش طبقے کے اجتماعی شعور کے جدلیاتی تعلق سے ابھرنے والے خیالات اور مجردتصورات بھی ساکن نہیں ہوتے بلکہ مسلسل تبدیلی کے عمل میں رہتے ہیں۔ کسی بھی سماج میں انقلابی تبدیلی کے دوران اہم واقعات اور شعور پر ہونے والے ان کے اثرات فیصلہ کن اہمیت کے حامل ہوجاتے ہیں او راسی کے تحت نئے سماج کا جنم ہوتا ہے جو ماضی کے مستحکم اور تسلیم شدہ تصورات کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیتا ہے۔اس عمل کا آغا زہمیں یہاں بھی نظر آتا ہے جہاں دہائیوں سے موجود سیاسی پارٹیاں رد ہو رہی ہیں اور نئے نظریات اور پارٹیوں کے ابھرنے کے امکانات ابھر رہے ہیں۔اگر حکومت اور اپوزیشن کے حوالے سے عمومی صورتحال کا جائزہ لیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ محنت کشوں کو ان سے کسی بھی قسم کی کوئی امید نہیں اور نہ ہی وہ کرائے کے دانشوروں کی خواہشات کے تحت جمہوری حقوق کی جدوجہد کے لیے ان کی قیادت پر ذرہ برابر بھی اعتماد کرتے ہیں۔یہی صورتحال نئی ہنگامہ خیز تبدیلیوں کی بنیاد رکھ رہی ہے جس میں نئی سیاسی تحریکوں کے لیے گنجائش پیدا ہورہی ہے اور ان کے نظریات اور جدوجہد کو عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے مواقع مل رہے ہیں۔
یہی برائلر دانشور اپنے انہی مجرد تصورات کی بنا پرزیر نظر کتا ب کے نام پر بھی سوال اٹھائیں گے،کہ یہ کیسا نام ہوا،مارکسزم عہد حاضر کا واحد سچ۔اس میں سے تو مذہبیت کی بو آ رہی ہے۔ ان کے خیال میں اگرمطلق سچائی نہیں ہوتی تو پھر سچائی ہوتی ہی نہیں ہے صرف ’بیانیہ‘ہوتا ہے۔ اور یہی نہیں ہر کسی کا اپنا اور ہر وقت اور جگہ کا بھی اپنا اپنا بیانیہ ہوتا ہے۔ ہم مارکس وادی بھی مطلق سچائی کے انکاری ہیں۔لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ایک خاص شے اورعمل کو جانا جا سکتا ہے کہ وہ ہے کیا اور جان کر ہی اسے انسانی خواہشات اور ضروریات کے مطابق تبدیل بھی کیا جا سکتا۔ ساری انسانی تاریخ اسی مسلسل مشق پر مشتمل ہے۔ اور جس چیز کو ہم تبدیل کرنے کے لیے جانتے ہیں وہ اس شے یا عمل یا فرد کی سچائی ہوتی ہے۔ اسی طرح سچائی کو جاننے کی کوشش میں مختلف طریقہ کار استعمال ہو سکتے ہیں مگر اس مخصوص شے کی حقیقت تک پہنچنے میں کامیابی کے لیے ایک مخصوص طریقہ کار ہی کار آمد ہو سکتا ہے۔ دیگر طریقے شے یا مظہر کیسطح تک ہی محدود رہتے ہیں۔ اس مخصوص طریقہ کار کو ہی سچا اور سائنسی طریقہ کار قرار دیا جا سکتا ہے۔فلسفہ بھی سچائی تک پہنچنے کا ہی ذریعہ ہے۔ اور مختلف فلسفوں اور نظریوں میں سے کوئی ایک نظریہ ہی ایک مخصوص عہد کے مسائل کا حل پیش کر سکتا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ مارکسزم ہی وہ نظریہ ہے جس کے پاس عہدحاضر کے انسانوں کو درپیش بیروزگاری سے لے کر غربت تک اور دہشت گردی سے لے کر جنگوں تک کے خاتمے کا سنجیدہ، ٹھوس اور سائنسی حل موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ڈیڑھ سو سال بعد بھی کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کی پیشنگوئیاں درست ثابت ہو رہی ہیں۔ آج کارل مارکس کے دشمن اور اس کے ناقدین بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں مارکس کا تجزیہ بالکل درست ثابت ہوا ہے، ہاں البتہ وہ اسکے پیش کیے گئے حل یعنی سوشلزم کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان سے اس کی توقع رکھنا ہی حماقت ہو گی کیونکہ مارکس کے ہی الفا ظ میں تاریخ کا کوئی بھی حکمران طبقہ رضاکارانہ طور پر اپنی مراعات اور ملکیت سے دستبردار نہیں ہوتا۔ اسے ایک انقلاب کے ذریعے بے دخل کرنا پڑتا ہے۔ آج سرمایہ دار طبقہ بین الاقوامی سطح پر اپنی نا اہلی اور خصی پن کا کھل کر اعتراف کرنے کے باوجود اپنے نظام کے دفاع کے لیے ہر حد تک جبر اور وحشت کا سہارا لے رہا ہے۔ اسے ایک انقلاب کے ذریعے ہی شکست فاش دی جا سکتی ہے۔ یہ انقلاب اپنے خمیر میں بین الاقوامی ہو گا، جو ایک ملک سے شروع ہو گا اور سرحدوں کا احترام کیے بغیر پورے کرۂ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے کر سوشلزم سے ہوتا ہوا کمیونزم پر اختتام پذیر ہو گا۔ کمیونزم جو مارکس کے الفاظ میں ’تاریخ کی پہیلی کا واحد حل ہے‘۔

پاکستان کا محنت کش طبقہ بھی قنوطی دانشوروں کی یاسیت کے برخلاف تاریخ کے افق پر پوری آب وتاب کے ساتھ پھر نمودار ہو گا۔ ملک بھر میں ایک مزدور تحریک دوبارہ انگڑائیاں لے رہی ہے۔ حال ہی میں ملکی دارلحکومت میں محنت کشوں کے بڑے احتجاجی دھرنے دیکھنے میں آئے ہیں۔اس کے علاوہ تما م چھوٹے بڑے شہروں میں روزانہ کی بنیاد پر درجنوں احتجاج کیے جا رہے ہیں۔ محنت کشوں کے ان احتجاجوں کی شدت اور تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ طلبہ بھی فیسوں میں ہوشربا اضافوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ کسانوں نے بھی مستقبل قریب میں احتجاج کے اعلانات کیے ہوئے ہیں۔ یہ عمل سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھے گا مگر اب اس کارکنا بھی ناممکن ہے۔ حکمران طبقے کے داخلی تضادات بھی اس عمل کو مزید مہمیز دے رہے ہیں۔پاکستان ایک انقلابی صورتحال کی طرف بڑھ رہا ہے۔مگر بورژوازی کا کوئی ایک بھی دھڑایا حصہ اس انقلاب کی قیادت کی صلاحیت نہیں رکھتا۔محنت کش طبقہ ہی واحد انقلابی طبقہ ہے مگر اسے ایک انقلابی قیادت درکار ہے۔ اگر اسے ایک منظم پارٹی کی شکل میں وہ قیادت میسر آ گئی تو پھر وہ جس انقلاب کی قیادت کرے گا وہ جمہوری یا بورژوا نہیں بلکہ سوشلسٹ ہو گا اور اگر قیادت نہ ہوئی تو پھر ایک رد انقلاب ناگزیر ہے جو صرف اس نسل کے لیے ہی نہیں تہذیب کے لیے خطرہ ہو گا۔لیکن ہمیں انسانیت کے سوشلسٹ مستقبل پر کامل یقین ہے۔جو روس میں ایک سو تین سال پہلے ہوا تھا وہ ایک دفعہ پھر بلند پیمانے پر دوہرایا جا سکتا ہے۔ یہ کتا ب روس کے عظیم بالشویک انقلاب کی سالگرہ کے موقع پر شائع کی جا رہی ہے۔ اس انقلاب کو ایلن وڈز کی اس کتا ب سے بڑھ کر اور کوئی خراج عقیدت دیا ہی نہیں جا سکتا۔ اس کتاب کا ترجمہ کر کے کامریڈ امر فیاض نے سندھی نوجوانوں کو ایک انمول تحفہ دیا ہے۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ یہ کتاب سندھ کے نوجوانوں کی انقلابی قیادت کی تعمیر میں ایک اہم اور کلیدی کردار ادا کرے گی۔جو لوگ طوطے کی طرح بس ایک بات دوہراتے رہتے ہیں کہ سوویت یونین میں مارکسزم اور سوشلزم ناکام ہو چکے ہیں یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ایلن ووڈز کا شاندار جواب ہے۔ہم آخر میں ان لوگوں کو بس یہی پیغام دینا چاہیں گے کہ آنکھیں کھولو اورحقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کر لو۔سوویت یونین کے انہدا م کو تین دہائیاں بیت چکی ہیں۔ یہ ایک بالکل مختلف عہد ہے، سوویت یونین کے ملبے سے انقلاب کے پرچم نئی نسل نے تھام لیے، یہ نئی نسل سوویت یونین سے سیکھے گئے اسباق کی روشنی میں ان غلطیوں کو دوہرائے گی نہیں بلکہ ٹراٹسکی کے سائنسی نظریات کی رہنمائی میں ایک نئی تاریخ رقم کرے گی۔
ملبے سے ایک نقشہ ملا ہے بہار کا
دنیا! ہمارا کوئی بھی نقصاں نہیں ہوا

پارس جان
کراچی
23 اکتوبر 2020ء

Comments are closed.