پنجاب: سیلاب اور ریاستی نا اہلی۔۔۔ کیا کیا جائے؟

اس وقت پنجاب کے مختلف حصوں میں شدید سیلابی کیفیت ہے۔ دریائے چناب، ستلج اور راوی میں مسلسل طغیانی ہے، جس نے ہزاروں دیہاتوں کو متاثر کیا ہے۔ صوبے کے کئی اضلاع میں لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے ہیں اور کھلے آسمان تلے یا ریلیف کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

زرعی رقبے کا ایک بڑا حصہ زیرِ آب آ گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صوبے بھر میں کپاس، چاول اور مکئی کی فصلوں کا بڑا حصہ مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف مقامی کسانوں کے لیے مالی تباہی کا باعث ہے بلکہ آنے والے دنوں میں غذائی اجناس اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا بھی باعث بنے گی۔ پچھلی کئی فصلوں سے مسلسل خسارے کے شکار کسان اپنی موجودہ فصلوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ گھر میں رکھا ہوا سال بھر کا اناج بھی سیلابوں کی نذر ہوچکا ہے۔ سیلاب کے بعد ان لٹے پٹے لوگوں کے لیے ایک اور المیہ اپنی 2200 روپے فی من بیچی گئی گندم کو آڑھتیوں اور کارپوریٹ سیکٹر کے بڑے ذخیرہ اندوزوں سے 3500 سے 4000 روپے فی من میں حاصل کرنا ہے۔

پنجاب حکومت اور دیگر ادارے انتہائی سست انداز میں دکھاوے کی حد تک ریلیف آپریشنز میں مصروف ہیں۔ لاکھوں پھنسے ہوئے خاندانوں میں سے صرف چند ہزار افراد کو کشتیوں اور ریسکیو آپریشنز کے ذریعے محفوظ مقامات تک منتقل کیا گیا ہے۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جلال پور پیر والا کے اطراف میں پھنسے لاکھوں لوگوں کو ریسکیو کرنے کے لیے صرف بیس سے بچیس کشتیاں ہی دی گئی ہیں۔ سیلاب زدگان کے لیے عارضی کیمپ، میڈیکل مراکز اور جانوروں کے لیے ویٹرنری سروسز بھی قائم کی گئی ہیں جہاں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ قائم کیے گئے عارضی کیمپ بھی ایک ڈھکوسلے کے سوا کچھ نہیں ہیں۔

ریاستی مشینری پر اوپر سے نیچے تک بڑی بڑی ڈگریوں والے ”اعلیٰ مرتبت“براجمان ہیں جن کا واحد کام اوپر سے آنے والے بے مغز، زمینی حقائق سے کٹے ہوئے فیصلوں کو میکانکی انداز میں نیچے منتقل کرتے چلے جانا ہے۔ نیچے والوں کا کام صرف فرضی خانہ پوری کر کے سب اچھا کی رپورٹ دینا ہے۔ جیسے کئی سالوں سے ڈینگی کیخلاف پنجاب میں جنگ جاری ہے۔ صوبائی افسر شاہی سے نیچے کی طرف روزانہ آرڈر جاری ہوتا ہے کہ ڈینگی ایکٹویٹی مکمل کریں، یہ آرڈر بیوروکریسی کے تمام ”اعلیٰ مرتبت“ انسان دشمنوں کی ٹیبلوں سے ہوتا ہوا کسی سکول یا ہسپتال کے ملازم تک پہنچتا ہے۔ اس سارے عمل کی لایعنیت نیچے سے لیکر اوپر تک سب کو پتا ہے مگر پھر بھی یہ سلسلہ سالہا سال سے جاری ہے۔

یہی صورتحال عارضی کیمپوں کے قیام سے لیکر ریسکیو آپریشنز اور دیگر تمام تر سرگرمیوں کی ہے۔ عارضی کیمپوں کے اس ڈھکوسلے کی قلعی صرف اس امر سے کھولی جا سکتی ہے کہ ایک پوری تحصیل کے لیے صرف ایک عارضی کیمپ بنایا گیا ہے یعنی کہ بیسیوں ہزاروں لوگوں کے لیے صرف چند ٹینٹ لگا دیے گئے ہیں اور اسے عارضی کیمپ کا نام دیا گیا ہے۔ ان کیمپوں میں نہ ادویات ہیں،نہ خوراک اور نہ ہی مرد و خواتین حضرات کے لیے واش رومز موجود ہیں۔ ریاستی مشینری کی سرگرمیوں کی اصلیت سے آگاہ غریب عوام نے اسی لیے ان کیمپوں کی بجائے شاہراؤں، دریا کے بندوں اور سڑکوں کی اطراف میں اپنے مال مویشیوں اور کچھ بچے ہوئے گھریلو سامان کے ساتھ اپنے ڈیرے ڈال دیے ہیں۔

جنوبی پنجاب کی حالت باقی صوبے کی نسبت زیادہ سنگین ہے۔ ملتان، مظفرگڑھ، لیہ، بہاولپور اور بہاولنگر جیسے اضلاع میں دریائی پانی نے بڑی تعداد میں آبادیوں کو گھیر لیا ہے۔ مظفرگڑھ اور جلالپور پیروالا کے گردونواح میں درجنوں دیہات مکمل طور پر زیرِ آب آ چکے ہیں۔ شہر کو بچانے والے بند کے ٹوٹنے کا خدشہ ہر وقت منڈلا رہا ہے جس کے باعث وہاں کے لوگ شدید خوف و ہراس میں ہیں۔ جلال پور کے تین اطراف میں مضافاتی علاقے مکمل طور کئی فٹ تک پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور کئی اموات بھی رپورٹ ہو چکی ہیں۔ سیلاب کی بربادی کے حجم کو حکمران اشرافیہ کی نااہلی اور عوام دشمنی نے سینکڑوں گنا بڑھا دیا ہے۔ بڑے شہروں، ریاست کے اہم اداروں، اشرافیہ کی جاگیروں کو بچانے اور بطور حکمران اپنی وراثتی نااہلی کے طفیل سیلاب کو مینیج کرنے میں سنگین غلطیوں /جرائم (جسے بعض حلقے پنجاب کی اشرافیہ کی شعوری لاپرواہی قرار دے رہے ہیں) نے سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے آبادیوں، بستیوں گھروں مویشیوں اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کو کئی سو فیصد بڑھا دیا ہے۔ بروقت فیصلے لیتے ہوئے مسلسل بڑھتے ہوئے پانی کو بر وقت بریچنگ کر کے راستہ دینے کی بجائے پانی کو مختلف بندوں پر غیر ضروری طور پر روک کر پانی کی سطح کو خطرناک حدوں تک بڑھ جانے کا موقع دیا گیا اور یوں اس بند کے مضافاتی علاقوں کو بھی ڈبویا گیا اور جب پانی بند کو توڑ کر آگے گزرا تو اس کی رفتار اور اونچائی کے زیادہ ہونے کی وجہ سے آبادیوں کو نقل مکانی کا موقع تک نہیں ملا اور بہت ساری قیمتی زندگیوں کا بھی نقصان کیا گیا۔

سرکاری رپورٹوں کے مطابق ملتان کے نزدیک ہزاروں افراد کو ریسکیو کر کے محفوظ مقامات پر پہنچایا گیا ہے جب کہ سیلاب سے متاثر ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ کئی علاقے ایسے ہیں جہاں صرف کشتی یا ہیلی کاپٹر کے ذریعے رسائی ممکن ہے اور جہاں کئی روز گزرنے کے باوجود ابھی تک کوئی امداد نہیں پہنچی ہے۔ ملتان شہر پر ابھی تک خوف کے بادل منڈلا رہے ہیں اور انتظامیہ کئی بار شیر شاہ بند اور ہیڈ محمد والا بند توڑنے کے اعلان کے باوجود کوئی قدم نہیں اٹھا رہی اور پیچھے سے آنے والے سیلابی ریلے پانی کی سطح کو مزید بلند کر سکتے ہیں اور ایسی کسی صورت میں بند کا ٹوٹنا یا توڑا جانا زیادہ نقصانات کا باعث بن سکتا ہے۔
بہاولنگر اور بہاولپور میں کپاس کی فصل تقریباً آدھی سے زیادہ تباہ ہو چکی ہے اور یہی صورتحال باقی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں دیگر فصلوں کی ہے۔ کسانوں کو اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے جس کا ازالہ کبھی نہیں ہوگا۔

سیلاب نے مویشیوں کو بھی بڑے پیمانے پر متاثر کیا ہے۔ ہزاروں جانور یا تو ہلاک ہو چکے ہیں یا ان کے چارے اور پانی کی فراہمی ممکن نہیں رہی۔ سوشل میڈیا پر گائے، بھینسوں و دیگر مویشیوں کی سیلابی پانی میں بہہ جانے کی درجنوں ویڈیوز گردش کر رہی ہیں۔ اس سے آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں دیہی معیشت لمبے عرصے تک کے لیے تباہ ہوئی ہے جس کا ازالہ کسی صورت ممکن نہیں ہے۔

یہ سیلاب لاکھوں محنت کشوں کے لیے مکمل تباہی وہ بربادی لیکر آیا ہے۔ لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے محروم ہو گئے ہیں، بچے تعلیم سے دور ہو گئے ہیں اور خواتین کو خاص طور پر صحت و تحفظ کے مسائل کا سامنا ہے۔ آن کی آن میں لوگوں کا سب کچھ برباد ہوگیا ہے۔ لاکھوں لوگ گھروں کی چھتوں پر بیسیوں فٹ پانی میں کئی دن سے محصور ہیں اور بچائے جانے کے منتظر ہیں۔ جلال پور کے آس پاس درجنوں لاشوں کے پانی میں تیرنے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ اگر بروقت پھنسے ہوئے لوگوں کو ریسکیو نہیں کیا جاتا تو صورتحال انتہائی سنگین انسانی المیے کو جنم دے سکتی ہے۔

کئی مقامات پر لوگ اب بھی امداد کے منتظر ہیں۔ اگرچہ سرکاری اور نجی ادارے سرگرم ہیں، لیکن متاثرین کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ہر ایک تک بروقت مدد پہنچانا ممکن نہیں ہو پا رہا۔

ہم، بطور کمیونسٹ، سمجھتے ہیں کہ متاثرین کی مدد کے لیے ریاستی وسائل کو بڑے پیمانے پر بروئے کار لانے، افرادی قوت کو متحرک کرنے اور ایک مؤثر منصوبہ بندی کے تحت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ چند افراد کی انفرادی رضاکارانہ کوششوں سے مؤثر ریسکیو اور ریلیف کی سرگرمیاں انجام نہیں دی جا سکتیں۔ یہ حقیقت رضاکارانہ طور پر کام کرنے والے کارکنان بھی اب سمجھنے لگے ہیں، اور ریاستی اداروں کی نااہلی اور غیر سنجیدگی ان پر بھی آشکار ہوتی جا رہی ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والی حکمران اشرافیہ پر احتجاجوں اور سوشل میڈیا کیمپیئن کے ذریعے دباؤ ڈالنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ صرف نااہل اور عوام دشمن انتظامیہ کے آسروں پر بیٹھنے کے بجائے، منظم عوامی ریسکیو، ریلیف اور احتجاج کے لیے ”عوامی ایکشن کمیٹیاں“بنانے کی ضرورت ہے۔ ان کمیٹیوں میں متاثرہ علاقوں اور ملک بھر سے رضاکاروں کو منظم کیا جائے، تاکہ ریسکیو، ریلیف اور احتجاج کا کام مؤثر طریقے سے انجام دیا جا سکے۔

ریسکیو، ریلیف سرگرمیوں اور احتجاج کے ذریعے ان کمیٹیوں کو آگے بڑھاتے ہوئے سیلاب زدگان کی بحالی کی تحریک کو منظم کرنا چاہیے، اور یہ تحریک اس وقت تک جاری رکھنی چاہیے جب تک متاثرین کے تمام نقصانات کا مکمل ازالہ نہیں ہو جاتا۔ اس سے بڑھ کر اس ساری تباہ کاری کی بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب قائم کرنے کی جدوجہد کی جائے۔

اس کیمپیئن کا حصہ بننے کے لیے ہم سے رابطہ کریں:

0319-8401917

 

Tags:

Comments are closed.