|تحریر: حمزہ محمود|

نیا آہنگ ہوتا ہے مرتب لفظی و معنی کا
میرے حق میں ابھی کچھ فیصلہ صادر نہ فرمانا
میں جس دن آؤں گا تازہ لغت ہمراہ لاؤں گا
فلسفے کے میدان میں مارکس کا طرۂ امتیاز یہ تھا کہ اس نے اس کو عمل کے ساتھ جوڑا اور بند کمروں میں محبوس افکار کو اس عملی دنیا کے ساتھ اٹوٹ بندھن میں پیوست کردیا۔ اور اسی کا نتیجہ تھا کہ ہمیں کمیونزم کے فلسفے کی بنیاد پر ہر ملک میں ہی مختلف کمیونسٹ پارٹیوں اور گروہوں کا ظہور دکھائی دیا۔ انہی نظریات کے تحت روس میں سوشلسٹ انقلاب برپا کیا گیا اور سوویت یونین کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے بعد کے عرصے میں دنیا کے ایک بڑے حصے سے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ بھی ہوا۔لینن کی وفات کے بعد سوویت یونین کی قیادت کی زوال پذیری کے دوران کمیونزم کے حقیقی نظریات مسخ کرنے کے عمل کا آغاز ہوا۔
اگرچہ مکمل طور پر ناسہی مگر کافی حد تک یہ بات درست ہے کہ سوویت یونین میں بیوروکریسی کی زوال پذیری کے اظہار اور بعد میں آنے والے انقلابات (چین، کیوبا وغیرہ) کی اسی بیوروکریٹک ماڈل کی پیروی نے جہاں دیگر بہت سارے مسائل کو جنم دیا وہیں تخلیق کاروں اور نابغوں کو”یس مین“ بنانے کی روش نے قحط الرجال کی سی کیفیت کو بھی جنم دیا۔ کمیونزم کے نام پر غیر مارکسی نظریات کو پروان چڑھایا گیا اور مارکسزم کے جدلیاتی طریق کار کو ترک کرتے ہوئے مزدور طبقے کے دشمن نظریات کی راہ ہموار کی گئی۔ شاید اسی لیے لینن نے بہت پہلے لکھا تھا کہ ”انقلابی نظریے کے بغیر کوئی انقلابی تحریک جنم نہیں لے سکتی ہے“۔
اگر پاکستان کے ضمن میں دیکھیں تو یہاں بھی ماضی میں سٹالنزم کے تحت کمیونزم کے مسخ شدہ نظریات کو ہی قبول کر لیا گیا۔یہ کیفیت اس قدر حاوی رہی کہ ڈھونڈنے پر بھی نظریاتی محاذ پر کوئی بڑاکام نظر نہیں آتا جو یہاں کے سماج کادرست سائنسی تجزیہ اور تناظر دے سکے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ماضی میں کمیونسٹ تحریک سے وابستہ کارکنان کی دیانتداری پر شک کیا جائے۔ عمل میں انکی قربانیاں آج بھی اور آئندہ بھی نئی نسلوں کے جذبات کو حدت بخشتی رہیں گی۔ مگر جب نظریات کی بات آتی ہے تو اس جانب سے حوصلہ شکنی پر مبنی ایسے جملے سننے کو ملتے رہے: ”بس باتیں ہی کرتے رہو گے“،”تم پڑھے ہوئے ہو، کڑھے ہوئے نہیں ہو“، ”عام آدمی کا مسئلہ روٹی ہے فلسفہ نہیں“، وغیرہ وغیرہ۔ مگر یہ سب میں کیوں لکھ رہا ہوں؟

ہماری بیگانگی کا یہ عالم ہے کہ ہم برائی کا تو ڈھنڈورا پیٹتے ہیں مگر اچھے کام کی تعریف کرتے ہوئے زبان گنگ ہونے لگتی ہے۔ مگر میں اس روش سے جرأتِ انکار کرتا ہوں۔ اس وقت میرے ہاتھوں میں لال سلام سہ ماہی رسالہ موجود ہے جسے میں نے ابھی پڑھا ہے اور پڑھنے کے بعد جہاں میرے ذہن میں کئی سوال ہیں وہیں پر اس نے مجھے کئی سارے جوابات بھی دئیے ہیں جو ہمیشہ ذہن کی غلام گردشوں میں بھٹکتے رہے ہیں۔ رسالے کے اس ایڈیشن نے مجھے بتایا ہے کہ سرمایہ داری کے خاتمے کے لیے شعوری کاوش کیوں درکار ہے۔ کمیونسٹ انٹرنیشنل کی کانگریسوں کے مباحث کیا تھے۔ خواتین میں انقلابی پارٹی کے کام کی لینن کے نزدیک کیا اہمیت تھی۔ جمالیات کیا ہے اور ادب پر چھائی بوسیدگی کے گول چکر سے منزل کا راستہ کس سمت میں نکل رہا ہے۔ فن کا طبقاتی جدوجہد سے کیا تعلق ہے۔ مگر صرف یہی نہیں ہے۔
میں آغاز سے ہی اس رسالے کا قاری ہوں اور پاکستان میں دائیں اور بائیں بازو کے مختلف رسائل نظر سے گزرتے رہتے ہیں مگر مجھے یہ دعویٰ کرنے میں کوئی عار نہیں کہ شاید پیپر کوالٹی میں نہ سہی مگر اپنے موضوعات کے تنوع، مضامین کی گہرائی اور فلسفیانہ بصیرت میں یہ رسالہ اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ اگر آپ کو اس دعوے پر اعتراض ہے تو دست بستہ گزارش ہے کہ پڑھ کر دیکھیں اور رسالے کے کچھ شمارے پڑھنے کے بعد آپ میرے اس دعوے کی بھی حمایت کریں گے کہ اپنی اشاعت کے تقریباً ایک دہائی میں اس رسالے میں شائع ہونے والا مواد پاکستان کے بائیں بازو کی پوری تاریخ کے شائع کردہ نظریاتی مواد پر واضح سبقت رکھتا ہے۔ مگر یہ سب کہنے کا مقصد دانشورانہ ٹھرک کی تسکین نہیں بلکہ اس امر کی جانب اشارہ ہے کہ یہ واضح فرق اس رسالے کے اشاعت کنندہ یعنی انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی محنت، لگن اور انقلاب پر یقینِ محکم اور عملِ پیہم کی دلیل ہے۔ اور میں یہ گزارش کروں گا کہ آپ بھی یہ رسالہ حاصل کریں، خود کو نظریات سے لیس کریں، عوام میں جائیں اور سوشلسٹ انقلاب کی منزل پر ہی جاکر ڈیرے ڈالیں۔
لال سلام میگزین خریدنے کے لیے اس نمبر پر رابطہ کریں: 03198401917
انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا ممبر بننے کے لیے یہاں کلک کریں