|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، ’آزاد‘ کشمیر|

25 جون 2025ء، کو راولاکوٹ کے گرین ویلی ہوٹل میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے زیرِاہتمام انقلابِ روس کے عظیم قائد لیون ٹراٹسکی کی شہرہ آفاق تصنیف ”انقلابِ مسلسل اور نتائج و امکانات“ کے اردو ترجمے کی تقریبِ رونمائی کا انعقاد کیا گیا، جس میں بڑی تعداد میں طلبہ، محنت کشوں اور سیاسی کارکنان نے شرکت کی۔
تقریب میں جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے رہنما ڈاکٹر نجیب، پیپلز نیشنل پارٹی کے جنرل سیکریٹری ایڈووکیٹ واجد علی واجد، سروراجیہ انقلابی پارٹی کے صدر سجاد افضل، طیب ریاض، ڈاکٹر صغیر خان، پروفیسر خالد اکبر، نوجوان سکالر قیصر خان، انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما اجمل رشید، کتاب کے مترجم اور پارٹی کے رہنما یاسر ارشاد، اور مرکزی رہنما آدم پال نے کتاب پر اظہارِ خیال کیا۔
گفتگو کا آغاز اجمل رشید نے کیا، جنہوں نے نظریہ انقلابِ مسلسل کے اہم نکات پر سیرحاصل گفتگو کی۔
تقریب کے اختتام سے قبل کتاب کے مترجم یاسر ارشاد نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نظریہ انقلابِ مسلسل آج بھی اتنا ہی مؤثر ہے جتنا بیسویں صدی میں تھا۔ اگر بالشویک انقلاب کا گہرا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ انقلاب منشویکوں کی”ٹو اسٹیج تھیوری“ یا مرحلہ وار انقلاب کے برعکس ٹراٹسکی کے نظریہ انقلابِ مسلسل کے تحت ہی ممکن ہوا۔ جب روسی بورژوازی اقتدار میں آنے کے باوجود عوام کے کسی ایک مسئلے کو بھی حل نہ کر سکی تو اکتوبر میں محنت کش طبقے نے دوسرا انقلاب برپا کر کے سرمایہ دارطبقے کو اقتدار سے بیدخل کیا اور خود اقتدار پر قابض ہو کر تمام وسائل محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں لے لئے، اس طرح وہ تمام فرائض مکمل کیے جو روسی بورژوازی کبھی ادا نہ کر سکتی تھی۔
یاسر ارشاد نے مزید کہا کہ: بدقسمتی سے انقلاب کے عالمی سطح پر نہ پھیلنے کے باعث سوویت یونین میں پرانی زار شاہی افسر شاہی دوبارہ منظم ہونے لگی، جس کا اظہار جوزف اسٹالن کی شکل میں ہوا۔ اس کے بعد دنیا بھر کی کمیونسٹ پارٹیوں میں ”مرحلہ واریت“ کے نظریے کو فروغ دیا گیا، جس کے نتیجے میں عالمی انقلابی تحریکوں کا گلا گھونٹ دیا گیا۔
آخر میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی رہنما آدم پال نے تمام گفتگو کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ:
نظریہ انقلابِ مسلسل کا اردو ترجمہ اس خطے میں انقلابی تحریک کے لیے ایک اہم سنگِ میل ہے۔ آج پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام آخری سانسیں لے رہا ہے۔ سامراجیت کے اس عہد میں پسماندہ ممالک کی بورژوازی قومی جمہوری انقلاب کا ایک بھی فریضہ ادا کرنے سے قاصر ہے۔ محنت کش طبقے نے جو حاصلات اپنی جدوجہد کے نتیجے میں حاصل کی تھیں، وہ اب ان سے چھینی جا رہی ہیں۔ ایسے میں پسماندہ ممالک کے محنت کشوں کو بھی 1917ء کے روسی محنت کشوں کی طرح اقتدار پر قبضہ کرنا ہوگا، اور منصوبہ بند معیشت کی بنیاد پر ایک انسانی سماج کی تعمیر کرنی ہوگی۔ اس مقصد کے لیے نظریہ انقلابِ مسلسل ہی ہماری رہنمائی کر سکتا ہے۔

تقریب میں لال سلام پبلیکیشنز کا بک سٹال بھی لگایا گیا تھا جو شرکا کی گہری دلچسپی کا مرکز بنا رہا۔

تقریب کے اختتام پر عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان اور انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے رہنمائوں کے حق مٰیں قرارداد بھی منظور کی گئی، ان رہنمائوں کو عوام کے جمہوری حقوق کا مطالبہ کرنے کی پاداش میں ریاستی جبر کا سامنہ کرنا پڑ رہا ہے۔ تاحال وہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ اس قرارداد میں ان تمام اسیران کی فی الفور رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔
یہ کتاب خریدنے کے لئے ہم سے رابطہ کریں03198401917
انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا ممبر بننے کے لیے یہاں کلک کریں