|تحریر: ثاقب اسماعیل|

عرب بہار سے لے کر جنوبی ایشا کی حالیہ انقلابی تحریکوں تک جنریشن زی نے نا صرف اپنے غم و غصے کے اظہار کا آغاز سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے کیا بلکہ احتجاجوں کو منظم کرنے کے لیے بھی ان کا سہارا لیا۔ ہیش ٹیگز، ریلز اور مختلف گروپوں اور چینلوں کے ذریعے اپنی آواز کو کروڑوں لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے اور احتجاجوں اور ریلیوں کے دوران کسی خاص مقام پر اکھٹا ہونے کے لیے بھی سوشل میڈیا کیمپین کی جاتی ہے۔ مگر کیا سوشل میڈیا سے ہی یہ تمام تحریکیں ابھرتی ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔
انتہاء کی معاشی نابرابری، مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر بے تحاشا مسائل،مختصر یہ کہ سماجی و معاشی حالات تحریکوں کے ابھار کی وجہ بنتے ہیں، جس کا اظہار سوشل میڈیا پہ ہو رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ نئی نسل کی بڑی تعداد سوشل میڈیا استعمال کرتی ہے۔ دوسرا سوال جو اِن دنوں بارہادہرایا جا رہا ہے کہ، کیا سوشل میڈیاتحریکوں کو منظم کرنے اور آگے بڑھانے میں کردار ادا کرتا ہے؟ سماج میں کوئی دوسرا متبادل نا ہونے کی صورت میں جس کے ذریعے منظم ہوا جا سکے، وہاں کسی حد تک سوشل میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مگرمنظم ہونے کے لیے بھی سوشل میڈیا واحد اور بنیادی ذریعہ ہرگز نہیں ہوتا۔ حکمران طبقہ ہمیشہ تحریکوں سے پہلے یا تحریکوں کے دوران سوشل میڈیا پر پابندی لگا دیتا ہے۔ مگر تحریکیں نا صرف جاری رہتی ہیں بلکہ آگے بھی بڑھتی رہتی ہیں۔
ابھی حال ہی میں نیپال کی انقلابی تحریک میں بھی ہمیں یہی نظر آیا۔ آزاد کشمیر میں تو حالیہ تحریک سے پہلے ہی موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ کو بند کر دیا گیا تھا مگر اس کے باوجود تحریک کامیاب ہوئی۔ ریاستی میڈیا، جن میں ٹی وی چینلز شامل ہیں، اور پرنٹ میڈیا، جن میں مختلف اخبارات شامل ہیں، دراصل حکمران طبقے کے آلہ کار ہیں۔ حکمران طبقہ ہمیشہ ان ذرائع کو عوامی تحریکوں کے خلاف پروپیگنڈا کے لیے استعمال کرتا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پھر واحد ذریعہ نظر آنے لگ جاتے ہیں۔
مگر یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے جب سوشل میڈیا نہیں بھی تھا انقلابات تب بھی آئے ہیں۔ ان انقلابات میں لوگ مختلف ذرائع استعمال کرتے تھے جیسا کہ انقلابی اخبارات۔ انقلابِ فرانس اور انقلابِ روس میں تو روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں اخبارات چھپتے اور تقسیم ہوتے تھے۔ جو عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتے تھے۔ انقلابی پارٹیوں کی تعمیر میں بھی ان اخبارات کا کردار بنیادی اہمیت کاحامل تھا۔ انہی انقلابی پارٹیوں نے پھر انقلابات کی قیادت کی۔

موجودہ تمام تحریکوں میں جہاں ہم نے یہ اسباق حاصل کیے کہ یہ تمام تحریکیں خود رو تحریکیں تھیں اور سطح پر موجود تمام سیاسی جماعتوں کے خلاف تھیں وہاں ہمیں سطح پر انقلابی پارٹی کی کمی نظر آئی ہے جو انقلابات کو کامیاب کر سکتی تھی۔ انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی تعمیر میں سوشل میڈیا کا استعمال انقلابی پروپیگنڈہ، رابطہ کاری اور ممبر شپ بڑھانے میں بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔لیکن سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، فیکٹریوں اور دیگر کام کی جگہوں پر انقلابی نظریات پہنچانے،نظریاتی تربیت، جڑت بنانے، سٹدی سرکلز کے انعقاد اور یہاں تک کہ انقلابی تحریکوں کے دوران بھی انقلابی اخبار، کمیونسٹ سب سے اہم اور بنیادی کردار رکھتا ہے۔ اس لیے ہمیں ملک کے طول و عرض میں طلبہ، مزدوروں اور کسانوں تک کمیونسٹ اخبار پہنچانے کی اشد ضرورت ہے۔















In defence of Marxism!
Marxist Archives
Progressive Youth Alliance