سٹریٹ تھیٹر: عوام تک انقلابی پیغام پہنچانے کا شاندار ذریعہ

تحریر: آدم پال

تھیٹر آرٹ کی ایک اعلیٰ ترین شکل ہے جو اپنے آپ میں بہت سے فنون سموئے ہوا ہے۔زمانہ قدیم سے جاری و ساری آرٹ کی یہ شکل آج بھی دنیا بھر میں ہر روز لاکھوں ناظرین کے ذوق کی تسکین کرتی ہے۔فلم، ٹی وی اور آرٹ کی دیگر شکلوں کی آمد کے باوجود تھیٹر کی اہمیت اور پذیرائی کم نہیں ہوئی بلکہ آج بھی دنیا بھر میں نئے تھیٹر کھل رہے ہیں اور شائقین کی توجہ حاصل کر رہے ہیں۔ فلم اور ٹی وی کی نسبت اس کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں کسی پردے یا سکرین کی بجائے ناظرین کہانی کے کرداروں کو براہ راست بغیر کسی واسطے کے دیکھ سکتے ہیں اور ان کرداروں کے ساتھ ایک انسانی تعلق بنانے کے قریب ترہوتے ہیں۔

جہاں قدیم یونان میں تھیٹر میں دیومالائی کہانیاں اور کردار دیکھنے کے لیے لوگ شوق سے جاتے تھے وہاں اس خطے میں بھی قدیم دور سے میلوں ٹھیلوں اور تقریبات میں ناٹک اور تھیٹر ایک لازمی عنصر کے طور پر موجود رہا ہے۔ گھروں میں بچوں کی گڈے اور گڈی کی شادی سے لے کر رام لیلاکی پرفارمنس تک یہاں بھی ناٹک اور کردار نگاری مقامی زندگی کا حصہ رہی ہے۔ سماجی زندگی کی عکاسی کرتی کہانیوں اور کرداروں کی تخلیق سے لے کر ان کو عام لوگوں کے سامنے پیش کرنے کا عمل جہاں لوگوں کو زندگی کے معنی سمجھنے میں مدد دیتا ہے وہاں ان کے جمالیاتی ذوق کی بھی تسکین کرتا ہے۔

عام طور پر تھیٹر کسی ہال وغیرہ میں پرفارم کیا جاتا ہے جہاں اداکار مخصوص لباس، میک اپ، آلاتِ موسیقی اور روشنی اور آواز کے مناسب انتظام کے ساتھ ناٹک شائقین کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ لیکن سٹریٹ تھیٹر اس عمل میں جدت لایا ہے اور بجائے اس کے کہ شائقین کسی ہال وغیرہ کا رخ کریں ناٹک پیش کرنے والے خود شائقین کے پاس چلے جاتے ہیں۔ کسی بھی چوک یا چوراہے، فیکٹری یا کھیت کھلیان میں ناٹک پیش کرنے والے آدھے یا پونے گھنٹے میں پوری کہانی ڈرامائی انداز میں اپنے گرد جمع ہونے والے لوگوں میں پیش کرتے ہیں، داد وصول کرتے ہیں اور اگلے پڑاؤ کی جانب روانہ ہو جاتے ہیں۔

سٹریٹ تھیٹر میں اداکاروں کے پاس وہ تمام سہولیات اور انتظامات موجود نہیں ہوتے جو کسی بھی باقاعدہ تھیٹر میں عام طور پر دستیاب ہوتے ہیں۔ اس لیے اداکاروں کی صلاحیتیں کئی گنا زیادہ معیاری انداز میں سامنے آتی ہیں۔ انہیں کسی سیٹ ڈیزائیننگ، کاسٹیوم یا روشنی اور آواز کے انتظام کے بغیر ہی وہ کردار پیش کرنا ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ اپنے جسم، آواز اور چہرے کے تاثرات کو ہی استعمال کرتے ہوئے اپنا کردار بخوبی نبھاتے ہیں۔ اس میں ایک اداکار صرف ایک کردار تک محدود نہیں رہتا بلکہ ایک ہی ڈرامے میں کئی قسم کے کردار دا کر دیتا ہے۔

اسی طرح اس تھیٹر کے ناظرین کسی ہال میں آرام دہ سیٹوں پر براجمان افراد نہیں ہوتے جو اپنے شوق کی تسکین کے لیے وقت نکال کر آئے ہیں بلکہ سٹریٹ تھیٹر دیکھنے والے وہ لوگ ہیں جو کسی چوک یا چوراہے میں وقتی طور پر جمع ہوئے ہیں اور ان کی مصروفیت کے باوجود تھیٹر کرنے والوں نے انہیں اپنی فنکاری سے اپنی جانب متوجہ کر لیا ہے۔ اسی لیے سٹریٹ تھیٹر کی پرفارمنس جاندار ہونا زیادہ ضروری ہو جاتا ہے۔

سٹریٹ تھیٹر کودرحقیقت انقلابی نظریات رکھنے والے افراد نے ہی پروان چڑھایا ہے اور آرٹ کی یہ شکل ان لوگوں تک پہنچائی ہے جو کسی ہال تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ اسی طرح انقلابی نظریات رکھنے والوں کو عام طور پر ہال یا دیگر سہولتیں دستیاب بھی نہیں ہوتیں۔ اکثر وہ جہاں وسائل کی کمی کا شکار رہتے ہیں وہاں ریاستی جبر بھی انہیں اپنی سرگرمیوں کو محدود رکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ لیکن اس کے باوجو د بھی انہیں اپنے نظریات عوام کی وسیع پرتوں تک پہنچانے ہی ہوتے ہیں۔ اسی طرح اپنے پیغام کو دلچسپ اور خوبصورت بنا کر عوام تک پہنچانے میں بھی اس آرٹ کا اہم کردار ہے جو انقلابی نغموں اور کرداروں کی شکل میں لوگوں کی یادداشت کا حصہ بن جاتا ہے۔

آج اکثر فنکار وسائل کی عدم دستیابی کا گلہ کرتے نظر آتے ہیں یا پھراپنی ناکامی کا ملبہ جدید آلات کی عدم فراہمی یا وسائل کی کمی پر ڈال دیتے ہیں۔اسی طرح فنکاروں کی اکثریت کسی مقصد یا نظریے کے لیے نہیں بلکہ شہرت اور پیسہ کمانے کے لیے سرگرم نظر آتی ہے۔ ان فنکاروں کواپنے یا ناظرین کے جمالیاتی ذوق کی تسکین سے بھی کوئی لینا دینا نہیں بلکہ انہیں مشہور ہونے کے لیے اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں کرنی پڑیں یا ظالم اور جابر حکمرانوں کے قصیدے گانے پڑیں ان کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ لیکن سٹریٹ تھیٹر میں ہمیں ان غلاظتوں سے چھٹکارا نظر آتا ہے جہاں کوئی بڑا اسٹیج یا مال و دولت اور شہرت کا حصول مطمع نظر نہیں بلکہ انقلابی مقصداور پیغام ہی سب کچھ ہے۔

اسی طرح سٹریٹ تھیٹر میں ہمیں نظر آتا ہے کہ آرٹ کی روح جدید آلات یا تکنیکی سامان میں نہیں بلکہ اس میں موجود کہانی اور کرداروں کی سچائی میں ہے۔ اگر اس کہانی میں ادبی سچائی موجود نہیں اور وہ زندگی اور سماجی تضادات کی بھرپور عکاسی نہیں کرتی تو خواہ کتنے ہی جدید آلات اور وسائل موجود ہوں وہ کہانی عوامی پذیرائی حاصل نہیں کر سکتی۔دوسری طرف اگر کہانی اور کردار زندگی کی حقیقتوں کے قریب ہوں اور فنکار کسی سچے نظریے اور مقصد کے ساتھ جڑا ہو تو اس کا فن مہنگی پروڈکشن نہ ہونے کے باوجود بھی عوامی پذیرائی حاصل کرتا ہے اور مقبولیت بھی۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی سٹریٹ تھیٹر کی ترویج کا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ پہلے ”مشین“ کے نام سے ایک ڈرامہ تشکیل دیا گیا تھا جسے لاہور، کراچی اور فیصل آباد میں ہزاروں لوگوں تک درجنوں پرفارمنس کے ذریعے پہنچایا گیا۔ اب ایک نیا ڈرامہ ”جلوس“ تشکیل دیا جا رہا ہے جسے پھر ہزاروں لوگوں تک پہنچایا جائے گا۔ جو لوگ اس سفر میں شامل ہونا چاہتے ہیں وہ ہم سے ضرور رابطہ کریں۔

برائے رابطہ:03198401917

Comments are closed.