|تحریر: آفتاب اشرف|

عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے گہرے ہوتے بحران کے تحت حالیہ عرصے میں پوری دنیا میں ہمیں ایک طرف جنگیں، مختلف ریاستوں کے مابین بڑھتے مسلح تنازعات جبکہ دوسری طرف تجارتی لڑائیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ان سب عوامل نے قومی ریاست کو ایک بار پھر موضوع بحث بنا دیا ہے اور ہمیں دنیا بھر کے حکمران طبقات ”اقتصادی قومی پرستی“ سے لے کر جنگ پرستی اورقومی شاؤنزم کا پرچار کرتے نظر آ رہے ہیں۔ لامحالہ طور پر ان تمام رجعتی نظریات کا انت قومی ریاست کی پوجا کرنے پر ہی ہوتا ہے اور سرمایہ دار حکمران طبقات یہی چاہتے ہیں۔ انگریز ادیب سیموئیل جونسن کے مشہور قول، جو لینن کو بھی بہت پسند تھا،کے مطابق”حب الوطنی چوروں کی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے“۔آج بھی دنیا بھر کے حکمران طبقات اپنے ظلم و استحصال، منافعوں کی ہوس، لوٹ مار اور اقتدار پر قبضے کو نام نہاد حب الوطنی کی آڑ میں چھپانا چاہتے اور محنت کش طبقے سے ڈیمانڈ کر رہے ہیں کہ وہ اپنے طبقاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر چپ چاپ حب الوطنی کے نام پر قومی ریاست کی اطاعت کرے۔ ایسے میں کمیونسٹوں کا فریضہ ہے کہ وہ حکمران طبقات کی اس نظریاتی و سیاسی یلغار کا مقابلہ کریں اور محنت کشوں کے طبقاتی شعور کو اس پراگندگی سے بچانے میں اپنا انقلابی کردار ادا کریں۔ اس ضمن میں مارکس،اینگلز،لینن اور ٹراٹسکی جیسے عظیم کمیونسٹ اساتذہ کی بے شمار تصانیف موجود ہیں جو تاریخی مادیت کی روشنی میں قومی ریاست کے جنم، اس کی طبقاتی نوعیت، اس کے ارتقا ء، اس کی تاریخی متروکیت اور حتمی انجام کا احاطہ کرتی ہیں۔ یہ تحاریر ہر کمیونسٹ کیڈر اور شعور یافتہ محنت کش کی نظریاتی تربیت کا لازمی حصہ ہیں لیکن یہاں ہمارے پاس اتنی جگہ نہیں ہے کہ ہم اس تمام نظریاتی بحث کی تفصیل میں جا سکیں۔ اس آرٹیکل کا بنیادی مقصد سائنس و ٹیکنالوجی کی مزید ترقی اور وسائل کے سماج دوست منطقی استعمال کے حوالے سے قومی ریاست کے لایعنی پن، عدم تعقل، جکڑ بندی اور ضیاع کو سامنے لانا ہے تاکہ قومی ریاست کی تاریخی متروکیت کو مزید بہتر انداز میں سمجھا جا سکے۔
تاریخی مادیت اور قومی ریاست
سرمایہ داری کے گماشتہ دانشور ہمیشہ اسے ایک ازلی اور ابدی نظام کے طور پر پیش کرتے ہیں حالانکہ یہ ایک انتہائی غیر منطقی، غیر سائنسی اور غیر تاریخی دعویٰ ہے۔ اسی طرح وہ سرمایہ دارانہ نظام کے ہر ادارے بشمول قومی ریاست کے بارے میں بھی یہی نقطہ نظر رکھتے ہیں اور کبھی توان اداروں کو تقدس کا لبادہ اوڑھا کر ان کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی انہیں نام نہاد انسانی فطرت کے عین مطابق قرار دیتے ہیں۔ لیکن تاریخی مادیت کا سائنسی علم ہمیں بتاتا ہے کہ نوع انسان کی کوئی مجرد، ساکت و جامد اورازلی و ابدی فطرت نہیں ہے۔ انسان اپنی محنت کے بلبوتے پر اپنے ارد گرد موجود فطری ماحول کو اپنی ضروریات و خواہشات کے مطابق تبدیل کرتا آیا ہے اور بدلے میں خود بھی تبدیل ہوتا گیا ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں ایک طرف ہر عہد کے مادی حالات وتقاضوں کی حدود وقیود اور دوسری طرف ان پر قابو پانے اور انہیں تبدیل کرنے کی جستجو میں انسان کی”فطرت“ بھی تبدیل ہوتی رہی ہے۔ اسی طرح اپنے تاریخی ارتقا میں انسانی سماج مختلف مرحلوں سے گزرا ہے جس میں قدیم کمیونزم سے لے کر ایشیائی طرز پیداوار،غلام داری، جاگیر داری اور موجودہ سرمایہ داری تک سب شامل ہیں۔ غیر طبقاتی قدیم کمیونزم کے علاوہ باقی تمام مراحل میں سماج میں رائج الوقت پیداواری نظام سے مطابقت رکھنے والا بالائی ڈھانچہ یعنی ریاست، سیاسی ادارے، قوانین، مذہبی ادارے وغیرہ بھی تشکیل پایا جس کا مقصد متعلقہ نظام پیداوار میں نجی ملکیت رکھنے والے طبقات کے سماجی، معاشی اور سیاسی مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔ لیکن جب کوئی بھی طرز پیداوار اپنے داخلی تضادات کے بڑھتے ہوئے بوجھ کے کارن ذرائع پیداوار کو مزید ترقی دینے سے قاصر ہو جاتا ہے یعنی تاریخی متروکیت کا شکار ہو جاتا ہے تو اس کے خلاف محروم طبقات کی بغاوتیں اور انقلابات جنم لینے لگتے ہیں جن کے نتیجے میں آخر کار اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ مگر جب ایک پرانا طرز پیداوار ختم ہوتا ہے تو صرف ملکیتی و پیداواری رشتے ہی نہیں بدلتے بلکہ اس طرز پیداوار کا پورا بالائی ڈھانچہ بھی مسمار ہو جاتا ہے اوراس کی جگہ لینے والا نیا طرز پیداوار اپنے ملکیتی وپیداواری رشتوں سے مطابقت رکھنے والا نیا بالائی ڈھانچہ پروان چڑھاتا ہے۔ یقینا یہ تمام تاریخی عمل ایک پہلے سے طے شدہ لگی بندھی سیدھی لکیر میں نہیں ہوتا لیکن تاریخی ارتقا کا عمومی خاکہ یہی ہے۔

مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جدید قومی ریاست بھی کوئی ازلی و ابدی ادارہ نہیں بلکہ یہ سرمایہ دارانہ طرز پیداوار کا تشکیل کردہ بالائی ڈھانچہ ہے جس کا حتمی مقصد قومی بورژوازی کے طبقاتی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام سے قبل جدید قومیت کا تصور تک وجود نہیں رکھتا تھا اور لوگوں کی شناخت ان کے قبیلے، پیشے، علاقے، شہر، خاندان وغیرہ کے ساتھ منسوب ہوتی تھی۔قوم، قومی منڈی اور قومی ریاست یہ سب سرمایہ داری کی تخلیقات ہیں۔ تمام تر تضادات اور طبقاتی ظلم و استحصال کے باوجود سرمایہ داری کے ابتدائی ترقی پسندانہ عہد میں جدید قوم اور قومی ریاست کی تشکیل تاریخی اعتبار سے ایک آگے کا قدم تھا جس نے چھوٹی چھوٹی مقامی شناختوں اور بے شمار راجواڑوں کو ملیامیٹ کرتے ہوئے ایک بڑی قومی منڈی، قومی شناخت اور قومی ریاست کو جنم دیا، اور ایک پورے تاریخی عرصے میں قومی ریاست نے ذرائع پیداوار کی ترقی میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ لیکن سرمایہ داری کے تحت ذرائع پیداوار کی ترقی نے جہاں ایک طرف سرمایہ دارانہ پیداواری وملکیتی رشتوں کے پیداواری قوتوں کے ساتھ تضاد کو شدید سے شدید تر کیاوہیں دوسری طرف یہ پیداواری قوتیں قومی منڈی اور قومی ریاست کی حدود و قیود سے بھی ٹکرانے لگیں۔اس کے نتیجے میں سرمایہ داری اپنی جنم بھومی یعنی مغربی یورپ سے باہر نکلی اور قومی ریاست کی حدود کو پھلانگتے ہوئے پوری دنیا پر چھا گئی جس کا سب سے فیصلہ کن اظہار ایک عالمی منڈی اور عالمی تقسیم محنت کی تشکیل میں ہوا۔ درحقیقت عالمی منڈی کا قیام اس امر کی غمازی کرتا تھا کہ سرمایہ داری کے تحت پروان چڑھنے والی پیداواری قوتوں کو قومی ریاست و قومی منڈی کی تنگ حدود میں قید نہیں کیا جا سکتا۔
انیسویں صدی کی اختتامی دہائیوں میں سرمائے کے بڑھتے ہوئے ارتکاز کے تحت”آزادانہ مقابلے بازی“ کے خاتمے اور بین الاقوامی اجارہ داریوں کے قیام، مالیاتی سرمائے کے غلبے اور اس اجارہ دارانہ سرمایہ داری کے ریاستی طاقت کے ساتھ ادغام کے نتیجے میں سامراج کا مظہر جنم لیتا ہے جس کا بنیادی وصف تیار صنعتی اشیاء کی بجائے سرمائے کی برآمدہے۔ آنے والے عرصے میں ان اجارہ داریوں کے ساتھ منسلک دنیا کی بڑی سامراجی طاقتوں کے بیچ منڈیوں پر قبضے اور حلقہ اثر پھیلانے کی کوششوں کے کارن بڑھتے تضادات کا حتمی نتیجہ پہلی عالمی جنگ کی صورت میں نکلتا ہے۔درحقیقت پہلی عالمی جنگ میں داغا گیا پہلا گولہ اس بات کا اعلان تھاکہ پیداواری قوتیں فیصلہ کن انداز میں قومی ریاست و قومی منڈی کی حدود و قیود کے ساتھ ٹکراؤ میں آ چکی ہیں اور قومی ریاست تاریخی متروکیت کا شکار ہو چکی ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے اختتام پر روس میں برپا ہونے والا پیرس کمیون کے بعد دنیا کا پہلا مزدور انقلاب اور دنیا کی پہلی مزدور ریاست کی تخلیق بھی اسی تاریخی لازمیت کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے مختلف وجوہات کے کارن، جن کا احاطہ ہم اپنی دیگر بے شمار تحاریر میں کر چکے ہیں، انقلاب روس عالمی سوشلسٹ انقلاب کی صورت میں آگے نہیں پھیل سکا۔ بعد ازاں ناقابل حل سامراجی تضادات کے نتیجے میں ہونے والی دوسری عالمی جنگ اور پھر بعد از جنگ کے عرصے میں امریکی سامراج کی سرپرستی میں عالمی منڈی، عالمی تقسیم محنت اور ”آزاد تجارت“ کی بنیاد پر لبرل ورلڈ آرڈر کا قیام، یہ سب عوامل ایک بار پھر قومی ریاست کی تاریخی فرسودگی پر مہر ثبت کرتے ہیں۔
تجارتی جنگیں، اقتصادی قوم پرستی اور عالمی منڈی کی طاقت
ایک پورے تاریخی عہد میں ”فری ٹریڈ“ اور ”گلوبلائزیشن“ کی قیادت کرنے والا امریکی سامراج آج اپنے نسبتی زوال اور چینی سامراج کی ابھرتی طاقت سے سخت پریشان ہے۔ ایک طرف بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ ہے تو دوسری طرف زیادہ تر پیداواری صنعت ملک سے باہر منتقل ہو چکی ہے۔ مگر یہ سب کوئی حادثاتی طور پر نہیں ہوا بلکہ یہ پچھلے تمام عرصے میں سستی محنت کا زیادہ سے زیادہ استحصال کرکے اپنی شرح منافع کو بڑھانے کی خاطر امریکی سرمایہ داروں کی جانب سے صنعت کی دیگر ممالک، خاص کر چین میں منتقلی کا منطقی نتیجہ ہے۔ اب امریکی سامراج اور سرمایہ دار طبقے کے ایک مخصوص حصے کا نمائندہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ وقت کے پہیے کو الٹا گھمانا چاہتا ہے اور امریکی صنعت کو پوری دنیا، خاص کر چین سے واپس امریکہ منتقل کرنا چاہتا ہے۔ مزید برآں وہ چین کو گلوبل سپلائی چینز سے باہر نکالنے اور ان سپلائی چینز کو امریکہ اور اس کے چند قابل اعتماد اتحادیوں تک محدود کرنے کی بات بھی کرتا ہے۔ ان تمام مقاصد کے حصول کے لیے وہ پوری دنیا اور خاص کر چین سے آنے والی درآمدات پر عائد محصولات میں بے تحاشہ اضافہ کرتے ہوئے ایک تجارتی جنگ چھیڑ چکا ہے جو پہلے ہی سے بحران زدہ عالمی سرمایہ داری کو دلدل میں مزید دھکیل رہی ہے۔ ان تمام اقدامات کے سیاسی و نظریاتی جواز کے طور پر وہ ”میک امریکہ گریٹ اگین“ کا نعرہ لگا رہا ہے جو اقتصادی قوم پرستی پر مبنی ہے۔ ہم ٹرمپ کے ان اقدامات کی دیگر معاشی، سیاسی وا سٹریٹیجک تفصیلات میں جائے بغیر یہاں یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ کیا آج عالمی منڈی اور عالمی تقسیم محنت کے کسی بھی قومی معیشت،چاہے وہ امریکہ کی ہی کیوں نہ ہو، پر فیصلہ کن غلبے کے عہد میں ایسا کرنا تکنیکی طور پر ممکن بھی ہے؟اس کا جواب ہے نہیں۔

اگر ہم آج بننے والی ایک اوسط کار کی مثال لیں تو اس میں 30 ہزار کے قریب پرزہ جات ہوتے ہیں جو کہ مختلف براعظموں میں موجود درجنوں ممالک سے تعلق رکھنے یا وہاں پیداوار کرنے والے 18 ہزار سے زائد مختلف سپلائیر فراہم کرتے ہیں جو دستیاب سستی محنت کے استحصال، عالمی تقسیم محنت کے تحت پیداوار کی سپیشلائزیشن اور اکانومی آف اسکیل (جتنے بڑے پیمانے پر پیداوار ہو گی اتنی پروڈکٹ سستی پڑے گی) کے تحت پیدوار کرتے ہیں تا کہ انہیں بہترشرح منافع بھی حاصل ہو اور پروڈکٹ بھی سستی رہے۔اول تو عالمی تقسیم محنت سے کٹ کر اس تمام گلوبل سپلائی چین کو امریکہ یا چند دیگر ممالک تک محدود کرنا تکنیکی بنیادوں پر ہی ناممکن ہے لیکن اگر ایسا کر بھی دیا جائے تو ان تما م پرزہ جات کی پیداوار اتنی مہنگی ہو جائے گی کہ ان سے بننے والی کار کی لاگت میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔مزید برآں یہ بھی ذہن میں رہے کہ آج عالمی تقسیم محنت کا یہ عالم ہے کہ کار کے بڑے پرزے (انجن، ٹرانسمیشن وغیرہ) تو ایک طرف رہے، چھوٹے چھوٹے پرزہ جات بھی اپنی حتمی شکل میں آنے سے قبل پروڈکشن کے مختلف مراحل میں سپیشلائیزڈ نوعیت کے کام کے لیے کئی بار دیگر ممالک میں موجود فیکٹریوں میں جاتے اور پھر واپس آتے ہیں۔ اور اگر ہر بار سرحد عبور کرنے پر ان پر تجارتی محصول لگے تو سوچیں کہ لاگت پیداوار میں کتنا اضافہ ہو گا اور حتمی پروڈکٹ یعنی کار کتنی مہنگی پڑے گی اور نتیجتاً اس کی سیل میں کتنی کمی واقع ہو گی۔
یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ عالمی منڈی محض دنیا کی تمام قومی منڈیوں کا حاصل جمع نہیں ہوتی بلکہ یہ بطور کل معیاری طور پر اپنے تمام اجزاء سے برتراور ان پر مکمل طور سے حاوی ہوتی ہے۔ دنیا کی کوئی قومی منڈی اور قومی ریاست،چاہے وہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہی کیوں نہ ہو، عالمی منڈی اور عالمی تقسیم محنت سے کٹ کر نہیں چل سکتی اور نہ ہی عالمی منڈی کی اندھی قوتوں پر اپنے فیصلے مسلط کر سکتی ہے۔اس کا واضح اظہار اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ ٹرمپ کے عائد کردہ تجارتی محصولات کے خلاف عالمی معیشت کا شدید ردعمل سامنے آیا، دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس کریش کر گئیں اور سب سے زیادہ گراوٹ بذات خود امریکی اسٹاک مارکیٹس میں دیکھی گئی جہاں محض دو دن میں 6.6 ٹریلین ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔اسی طرح عمومی توقعات کے برعکس امریکی بانڈ مارکیٹ بھی کریش کر گئی اور امریکہ سمیت دنیا بھر کے سرمایہ کاروں نے ماضی میں انتہائی محفوظ سمجھے جانے والے امریکی بانڈز کو دھڑا دھڑ بیچنا شروع کر دیا۔ عالمی منڈی کی یہی ناراضگی تھی کہ دنیا کے سب سے طاقتور سامراجی ملک اور سب سے بڑی قومی معیشت کے ضدی صدر کو بھی مختلف حیلے بہانوں سے پیچھے ہٹتے ہوئے چین سمیت باقی دنیا پر لگائے جانے والے محصولات کو فی الحال کے لیے معطل یا کم کرنا پڑا ہے۔ مستقبل میں بھی اگر وہ یہ محصولات لاگو کرنے کی دوبارہ کوشش کرتا ہے تو عالمی منڈی کی جانب سے ایسا ہی ردعمل سامنے آئے گا اور اگر ٹرمپ اپنی ضد پر قائم رہا تو یہ صورتحال پہلے ہی سے بحران زدہ عالمی معیشت کو گہری کھائی میں دھکیل سکتی ہے۔
قومی ریاست۔۔۔ ہر ملک اپنا پہیہ خود ایجاد کرے!
ہم نے پہلے دنیا بھر میں پھیلی ہوئی گلوبل سپلائی چینز کی بات کی ہے جن میں تھوڑی سی رکاوٹ بھی پروڈکشن کے عمل میں زبردست رخنہ ڈال دیتی ہے۔ لیکن عالمی منڈی کی تخلیق کردہ اس عالمی تقسیم محنت کے اندر ایک تضاد بھی چھپا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ سپلائی چینز کے عالمی پھیلاؤ کے باوجود کٹنگ ایج سائنسی تحقیق، ٹیکنالوجی اور پیداواری تکنیک پر دنیا کے مٹھی بھر ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ سامراجی ممالک اور ان کی گنی چنی اجارہ دار کمپنیوں کا غلبہ ہے۔ یہ کمپنیاں اور ان ممالک کے سرمایہ دار حکمران طبقات پیداواری عمل کے مختلف مراحل کو دنیا کے دیگر خطوں میں آؤٹ سورس صرف اس لیے کرتے ہیں تاکہ وہ وہاں کی سستی محنت کا استحصال کر کے ایک طرف اپنی شرح منافع بڑھا سکیں اور دوسری طرف پروڈکشن بھی سستی ہو۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ کبھی بھی ٹیکنالوجی ٹرانسفر نہیں کرتے اور اوریجنل ریسرچ و ٹیکنالوجی کو مکمل مالکانہ حقوق کے ساتھ سات پردوں میں چھپا کر رکھتے ہیں تا کہ کوئی ممکنہ مد مقابل اسے”چوری“ نہ کر لے۔ مثال کے طور پر پوری دنیا میں کمرشل و فوجی ہوا بازی میں ٹربو فین جیٹ انجن استعمال ہوتے ہیں۔ ان کی مینوفیکچرنگ کی سپلائی چینز بھی پوری دنیا کے دسیوں ہزاروں مینوفیکچررز سے ہو کر گزرتی ہیں لیکن ان کو ڈیزائن کرنے اور خاص کر ان کے لیے درکار مخصوص کٹنگ ایج میٹالرجی کا تکنیکی علم صرف کوئی درجن بھر کمپنیوں کے پاس ہے جن کا تعلق امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، جاپان اور چین سے ہے۔اسی طرح اگر ہم جدید ترین سیمی کنڈکٹرز یا کمپیوٹر چپس،جن کے بغیر جدید دنیا کا تصور بھی محال ہے، کو بنانے میں استعمال ہونے والی یو وی لیتھو گرافی مشین کی بات کریں تو انہیں صرف ہالینڈ کی ایک کمپنی اے ایس ایم ایل تیار کرتی ہے۔مگر یہ کمپنی خود ان مشینوں کی مینوفیکچرنگ کے لیے پرزہ جات دنیا بھر کے دسیوں ہزاروں سپلائیرز سے سورس کرتی ہے جن کی آخری مرحلے (tier 1) میں تعداد بھی 5 ہزار سے زائد ہے جو کہ عالمی تقسیم محنت کی ایک شاندار عکاسی ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس مشین کے آپٹکس اور لیزر سورس جیسے اہم ترین پرزوں کو تیار کرنے کا علم اور تکنیکی مہارت صرف دو جرمن کمپنیوں کے پاس ہے اور کم و بیش باقی اہم پرزوں کی بھی یہی صورتحال ہے۔یوں ہمیں ایک طرف تو عالمی تقسیم محنت ملتی ہے جبکہ دوسری طرف سائنس، ریسرچ اور پیداواری تکنیک پر چند ترقی یافتہ ممالک کی چند کمپنیوں کا غلبہ نظر آتا ہے۔

اب اس ساری صورتحال کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دنیا کی دیگر ہر قابل ذکر قومی ریاست اور اس کی بورژوازی دوبارہ سے پہیہ ایجاد کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ مثلاً سرمایہ داری کی طرف واپسی کے بعد چین کی ترقی کی بہت مثال دی جاتی ہے۔ ہم ابھی اس موضوع کی تفصیلات میں نہیں جا سکتے لیکن یہاں ہمارے مطلب کی بات یہ ہے کہ اگر نوع انسان کی بحیثیت مجموعی سائنسی و تکنیکی ترقی کے حوالے سے دیکھا جائے تو سرمایہ دارانہ چین کی ساری ترقی محض مقداری ہے معیاری نہیں۔ یعنی پچھلی چار دہائیوں میں چین میں صنعت کاری توبہت ہوئی ہے اور وہ دنیا کی فیکٹری بن گیا ہے لیکن ابھی بھی چین کٹنگ ایج سائنس و ٹیکنالوجی میں امریکہ اور مغربی یورپی ممالک سے خاصا پیچھے ہے۔چونکہ چینی ریاست اور بورژوازی کو یہ بخوبی معلوم تھا کہ امریکہ و دیگر مغربی ممالک اس کی سستی محنت سے فائدہ اٹھانے کے لیے وہاں اپنی صنعتیں تو ضرور منتقل کر رہے ہیں لیکن وہ کبھی بھی چین کو ٹیکنالوجی منتقل نہیں کریں گے، لہٰذا چین نے اس تمام عرصے میں ہزاروں ارب ڈالر اور اپنی بہترین تعلیم و ہنر یافتہ افرادی قوت سائنسی تحقیق اور ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کرنے میں لگائی ہے۔ اس سب کے نتیجے میں چین نے ان شعبوں میں قابل ذکر ترقی تو ضرور کی ہے مگر یہ ترقی نوع انسان کی مجموعی سائنسی و تکنیکی ترقی کے معیاری حوالے سے بے کار ہے کیونکہ ان سب کوششوں کے بعد چین نے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ابھی تک جو حاصل کیا ہے وہ وہی ہے جس پر ترقی یافتہ مغربی سرمایہ دارانہ ممالک دہائیوں پہلے عبور حاصل کر چکے تھے۔ یعنی دنیا میں پہیہ ایجاد ہو چکا تھا لیکن ایک طرف نجی ملکیت اور دوسری طرف قومی ریاست کی جکڑبندیوں کے باعث چین کو اسے دوبارہ سے ایجاد کرنا پڑا۔ یہی حال دنیا کی کئی دیگر قومی ریاستوں کا بھی ہے جو ان جکڑبندیوں کے کارن اپنا اپنا پہیہ ایجاد کرنے پر مجبور ہیں۔ مثلاً آپ نے پچھلے عرصے میں انڈیا کے چاند پر بھیجے گئے کامیاب خلائی مشن کا بہت چرچا سنا ہو گا۔اس مشن میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار اس کے اسپیس لانچ وہیکل میں نصب کرایوجینک راکٹ انجن نے ادا کیا جس کے بغیر اس مشن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ انجن انڈیا نے خود بنایا ہے اور اسے ایسا کرنے میں دو دہائیاں لگی ہیں اور بے تحاشہ مالی، افرادی و تکنیکی وسائل صرف ہوئے ہیں۔ مگر نوع انسان کے تاریخی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ سب وسائل ضائع ہوئے ہیں کیونکہ یہ ٹیکنالوجی امریکہ اور سوویت یونین 1960ء کی دہائی میں ہی ماسٹر کر چکے تھے۔اسی طرح دنیا کی دیگر بے شمار قومی ریاستوں میں بے شمار شعبوں کے حوالے سے ایسی سینکڑوں مثالیں دی جا سکتی ہیں جہاں ان ریاستوں نے دنیا میں پہلے سے موجود ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کرنے کے لئے بے تحاشہ وسائل صرف کیے کیونکہ نجی ملکیت اور قومی ریاست کی جکڑ بندی کے کارن انہیں یہ ٹیکنالوجی میسر نہیں تھی۔
جب بھی کوئی قومی ریاست اس نوعیت کا کوئی کام سر انجام دیتی ہے تو یقیناً اس کی ریاستی اشرافیہ، بورژوازی اور قوم پرست درمیانے طبقے کو ایک زبردست قومی تفاخر کا احساس ہوتا ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ اگر سائنس و ٹیکنالوجی پر نجی ملکیت اور قومی ریاست کی یہ بیڑیاں نہ ہوں تو یہ تمام وسائل جو پہیے کو باربار دوبارہ سے ایجاد کرنے میں صرف ہورہے ہیں وہ مشترکہ کوششوں کے ذریعے نو ع انسان کو بحیثیت مجموعی سائنسی و تکنیکی ترقی کی موجودہ سطح سے کہیں آگے لے جانے میں صرف ہوں۔
غیر ضروری صنعتکاری اور انفراسٹرکچر کی تعمیر۔۔ریاستی حد بندیوں کے شاخسانے
اگر باقی تمام عوامل سے قطع نظر محض پیداواری کارکردگی کے نقطہ نظر سے بات کی جائے تو کیا دنیا میں چینی اسٹیل کمپنیوں،متل گروپ، جاپان کی نیپون اسٹیل اور انڈیا کی ٹاٹا اسٹیل جیسی دیو ہیکل اسٹیل ساز کمپنیوں،جو ایک طرف اس شعبے میں اعلیٰ ترین تکنیکی مہارت رکھتی ہیں جبکہ دوسری طرف اکانومی آف اسکیل حاصل کر چکی ہیں،کی موجودگی میں دنیا کی ہر دوسری قومی ریاست کو اپنی کمتر درجے کی اور چھوٹی یعنی غیر مؤثر پیداوار کرنے والی قومی اسٹیل انڈسٹری لگانے کی ضرورت ہے؟اس کا جواب ہے نہیں، لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی بے رحم دنیا میں بے شمار قومی ریاستیں ایسا صرف اس لیے کرتی ہیں کہ اسٹیل سازی ایک اسٹریٹیجک صنعت ہے اور وہ اس اہم شعبے میں عالمی منڈی، بڑی غیرملکی اسٹیل ساز کمپنیوں اور ان کی پشت پر موجود بڑی سامراجی طاقتوں کے رحم و کرم پر نہیں رہنا چاہتی۔ مگر ایسے کرنے کی کوشش میں بے شمار مالی و تکنیکی وسائل اور ہنر یافتہ افرادی قوت صرف ہو جاتی ہے جس کا سماجی ضرورت کے دیگر شعبوں میں کہیں بہتر استعمال ہو سکتا ہے۔اور یہ امر محض کوئی اسٹیل سازی تک محدود نہیں بلکہ دیگر بے شمار صنعتوں خاص کر اسٹریٹیجک نوعیت کی حامل صنعتوں اور شعبہ جات کے حوالے سے بھی یہ بات درست ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ، یورپی یونین، روس، چین، انڈیا اور جاپان نے سینکڑوں ارب ڈالر کی لاگت سے علیحدہ علیحدہ گلوبل یا ریجنل نیویگیشن سیٹلائٹ سسٹم کیوں بنا رکھے ہیں جب جدید ٹیکنالوجی کے کارن ایک مشترکہ جی این ایس سسٹم پورے کرۂ ارض کی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔ اس کی وجہ صرف ان ریاستوں کے معاشی و اسٹریٹیجک مفادات کا ٹکراؤ ہے جو وسائل کے اس غیر عقلی ضیاع کا باعث بن رہا ہے۔
ایسی ہی بے شمار مثالیں انفراسٹرکچر منصوبوں کے حوالے سے بھی دی جا سکتی ہیں جہاں محض قومی سرحدوں کا وجود غیر ضروری انفراسٹرکچر کی تعمیر کا باعث بن کر مالی و تکنیکی وسائل کا ضیاع بھی کر رہا ہے بلکہ ماحول کو بھی بے تحاشہ نقصان پہنچا رہا ہے۔مثال کے طور پر پاک ایران سرحد کے آر پار مشرقی اور مغربی بلوچستان کی کل آبادی بمشکل دو کروڑ ہے جس کی سمندری آمدورفت و تجارتی ضروریات کے لیے ایک بندرگاہ کافی ہے لیکن ایک دوسرے سے محض دو سو کلومیٹر کے فاصلے پر گوادر اور چاہ بہار پورٹس کی تعمیر کی وجہ کوئی عوامی ضرورت نہیں بلکہ پاکستان اور ایران کی ریاستوں اور ان کے حکمران طبقات کے جیو اسٹریٹیجک مفادات ہیں۔ ایسے ہی ریاست پاکستان نے بے تحاشہ بھاری سرمایہ کاری کر کے بلوچستان اور سندھ میں گیس فیلڈز تعمیر کیے حالانکہ عالمی سطح پر قدرتی گیس کے یہ ذخائر کسی شمار میں نہیں آتے۔ مزید برآں یہاں سے نکالی جانے والی قدرتی گیس نے مقامی آبادی میں زبردست قومی احساس محرومی کو بھی جنم دیا۔ دوسری طرف پاکستان کی ہمسائیگی میں ایران ہے جو دنیا میں قدرتی گیس کے دوسرے بڑے ذخائر رکھتا ہے اور عقل و منطق کے تمام تقاضوں کے مطابق بہتر یہی تھا کہ پاکستان ایران سے پائپ لائن کے ذریعے سستی ترین گیس لیتا مگر ایک بار پھر قومی ریاست کی حد بندیوں اور عالمی و علاقائی سیاست نے ایسا ہونے نہیں دیا۔ اسی طرح اگر پاکستان اور انڈیا کے مابین ہونے والے سندھ طاس معاہدے کی بات کی جائے تو آپسی دشمنی کے کارن یہ پانی کو نہیں بلکہ پورے دریاؤں کو ہی دونوں ممالک کے درمیان تقسیم کرتا ہے۔ دریاؤں کی اس غیر فطری تقسیم کے نتیجے میں ایک طرف تو انڈیا اور خاص کر پاکستان کو لنک کینالز، بے شمار ہیڈورکس اور بیراجوں سمیت بہت سا انفراسٹرکچر تعمیر کرنا پڑا جو کہ بصورت دیگر غیر ضروری تھا بلکہ ستلج اور راوی کا پاکستان میں بہاؤ بالکل رک جانے کے نتیجے میں زبردست ماحولیاتی نقصان بھی جھیلنا پڑا۔
ہو سکتا ہے کہ ہمارے دلائل پڑھ کر بعض قارئین کو یہ تاثر مل رہا ہو کہ کمیونسٹ تو ترقی مخالف ہیں۔ جی نہیں جناب،ہم کمیونسٹوں سے بڑا ترقی پسند تو اور کوئی نہیں ہے۔ہم تو صرف یہ عرض کر رہے ہیں کہ اگر ذرائع پیداوار پر نجی ملکیت،منافع خوری اورقومی ریاست کی حدود و قیود کی جکڑ بندیاں نہ ہوں تو بار بار نئے سرے سے پہیہ ایجاد کرنے، غیر ضروری اور ماحول دشمن صنعت کاری اور انفراسٹرکچر کی تعمیر میں ضائع ہونے والے بے پناہ وسائل کو سائنس و ٹیکنالوجی میں نئی راہیں کھولنے اور روٹی، کپڑے، تعلیم، علاج، رہائش سمیت سماج کی حقیقی ضروریات کی تکمیل میں لگایا جا سکتا ہے۔
قومی ریاست۔۔نوع انسان کی مشترکہ کاوشوں کے راستے کی رکاوٹ
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ انسان چاند پر تو 1960ء کی دہائی میں پہنچ گیا تھا مگر 6 دہائیاں گزرنے کے بعد بھی اس سے آگے کیوں نہیں جا سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے آگے کا انسانی خلائی سفر کرنے کے لیے جو مالی و تکنیکی وسائل چاہیے ہیں وہ کسی ایک قومی ریاست کی پہنچ سے باہر ہیں چاہے وہ امریکہ ہی کیوں نہ ہو۔اس سے آگے جانے کے لیے نوع انسان کو قومی حد بندیوں سے نکل کر مشترکہ کوشش کرنا ہو گی۔ یہ بات اپالو مشن کے دور سے ہی دنیا کے تمام سنجیدہ خلائی تحقیق کاروں اور انجینئرز کو معلوم تھی۔ جب خلائی دوڑ میں آگے بڑھنے کے لیے امریکہ اور سوویت یونین دونوں نے اپنے اپنے خلائی اسٹیشنز زمین کے مدار میں ڈالے تو پیش آنے والی مشکلات نے عملی طور پر بھی یہ حقیقت ثابت کر دی۔ لیکن سرد جنگ کے ماحول میں امریکہ اور سوویت یونین میں تعاون ممکن نہیں تھا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد1990ء کی دہائی میں جب انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن بنانے کا فیصلہ ہوا تو امریکہ نے اس میں مغربی یورپی ممالک اور جاپان وغیرہ کے ساتھ ساتھ سرمایہ دار انہ روس اور چین کو بھی شامل کیا۔ اسی بین الاقوامی تعاون کی بدولت ہی یہ اسپیس اسٹیشن تعمیر ہو پایا۔ لیکن یہ ذرائع پیداوار پر سرمایہ دارانہ نجی ملکیت اور قومی ریاستوں کی حدود و قیود کے ساتھ بین الاقوامی تکنیکی تعاون کی آخری بڑی مثال تھی۔ یہ وہ آخری حد تھی جہاں تک سرمایہ داری اور قومی ریاست کی جکڑ بندی کے ساتھ جانا ممکن تھا۔ اس کے بعد آنے والی دہائیوں میں عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے گہرے نامیاتی بحران، امریکہ سامراج کے نسبتی زوال کے کارن شکست و ریخت کے شکار لبرل ورلڈ آرڈر اور اس تمام صورتحال میں عالمی و علاقائی سامراجی طاقتوں کے بڑھتے تضادات نے ایسی کسی کوشش کو ناممکن بنا دیا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن اب اپنی ساختیاتی عمر کے آخری حصے میں داخل ہو چکا ہے لیکن ابھی تک اس کا متبادل تعمیر کرنے کا کوئی منصوبہ زیر غور تک نہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ آئندہ کوئی مشترکہ اسپیس اسٹیشن نہیں بنایا جائے گا اور آئی ایس ایس کی جگہ مختلف ممالک اور نجی کمپنیوں کے اسپیس اسٹیشن لیں گے جو کہ یقیناً اپنے حجم اور افادیت میں آئی ایس ایس سے کہیں کمتر ہوں گے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں سرمایہ دارانہ ملکیتی رشتے اور قومی ریاست واضح طور پر نوع انسان کو سائنس و تکنیک کے میدان میں آگے لے جانے کی بجائے پیچھے گھسیٹ رہی ہے۔

ایسی بے شمار مثالوں میں سے ایک خوفناک مثال کورونا وبا کے دوران بھی ملتی ہے۔ کوویڈ19 جس وائرس فیملی سے تعلق رکھتا ہے وہ انسان کے لیے کوئی نئی نہیں تھی اور اس کے اوپر بے شمار ر تحقیق پہلے سے موجود تھی۔ اگر وبا کے دوران مشترکہ کوششیں کی جاتیں تو کورونا وائرس کے خلاف ویکسین بہت جلدی تیار کی جا سکتی تھی اور کئی ملین لوگوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جا سکتا تھالیکن نجی فارماسوٹیکل کمپنیوں اور بڑی سامراجی طاقتوں کے مالی و اسٹریٹیجک مفادات کے ٹکراؤ نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ اسی طرح وبا کے دوران چین اور جرمنی جیسے بڑی مینوفیکچرنگ انڈسٹری رکھنے والے ممالک میں ضرورت سے زائد طبی سازو سامان موجود تھا لیکن دوسری طرف انڈیا اور امریکہ میں اس کی قلت سے لاکھوں لوگوں کی اموات ہو رہی تھیں کیونکہ نجی کمپنیوں اور قومی ریاستوں کے متضاد مالی و اسٹریٹیجک مفادات کی موجودگی وبا کے مقابلے کے لیے کسی قسم کی مشترکہ کاوش کے راستے کی رکاوٹ بنی ہوئی تھی۔
اس وقت بنی نوع انسان کی بقا کو سب سے بڑا خطرہ ماحولیاتی آلودگی سے لاحق ہے جو براہ راست طور پر سرمایہ دارانہ منافع خوری کی اندھی ہوس کا نتیجہ ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے حل کو قومی ریاست کی حدود میں قید نہیں کیا جا سکتا کیونکہ سرمائے کی طرح زہریلی ہوائیں اور گرین ہاؤس گیسز بھی کسی سرحد کو نہیں مانتیں۔اس موضوع پر ہم تفصیلی بحث دیگر تحاریر میں کر چکے ہیں اور یہاں صرف اتنا ہی کہیں گے کہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پیدا کردہ قومی حدبندیوں کی موجودگی میں ماحولیاتی تباہی کو روکنا ناممکن ہے اوراس کے ثبوت کے طور پر پیرس ماحولیاتی اکارڈ کا حشر سب کے سامنے ہے حالانکہ یہ ابھی ایک سرمایہ دارانہ و سامراجی منافقت سے بھرپور معاہدہ تھا۔
فوجی اخراجات۔۔قومی ریاست کا پیدائشی اور دائمی مرض
سال 2024ء میں دنیا بھر کی قومی ریاستوں نے کل ملا کر 2700 ارب ڈالر کے فوجی اخراجات کیے ہیں اور اس تخمینے میں ابھی عالمی و علاقائی سامراجی طاقتوں کے خفیہ فوجی پراجیکٹس کے فنڈز اور خفیہ ایجنسیوں کے بجٹ شامل نہیں ہیں۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ دنیا کے کل فوجی اخراجات کا 40 فیصد یعنی تقریباً 1ٹریلین ڈالر صرف امریکہ خرچ کرتا ہے جو دنیا کی سب سے بڑی سامراجی قوت بھی ہے۔ لیکن کیا ان فوجی اخراجات کا مقصد عوام کی ”حفاظت“ کرنا ہوتا ہے جیسا کہ اکثر ریاستی پراپیگنڈے میں بتایا جاتا ہے؟صرف کوئی احمق ہی اس بات پر یقین کر سکتا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام میں نام نہاد قومی مفاد ہمیشہ اس قوم کے سرمایہ دار طبقے کا مفاد ہوتا ہے۔اسی طرح قومی ریاست بھی پوری قوم کی نہیں بلکہ اس قوم کے سرمایہ دار طبقے کی ریاست ہوتی ہے اور اس کے طبقاتی مفادات کی نمائندہ و محافظ ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاستیں کبھی بھی بغیر وجہ کے جنگ وجدل نہیں کرتیں۔ان کی جنگی پالیسیوں کے پیچھے ہمیشہ سرمایہ دار حکمران طبقات اور ریاستی اشرافیہ کے سیاسی،سماجی،اسٹریٹیجک اور سب سے بڑھ کر معاشی مفادات پنہاں ہوتے ہیں۔ لینن نے اسی حقیقت کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ”جنگیں ہولناک ہوتی ہیں مگر یہ ہولناک حد تک منافع بخش بھی ہوتی ہیں“۔ لہٰذا سرمایہ دارانہ ریاستوں کے باہمی جنگ و جدل اور وہ بھی خاص کر آج کے عہد میں جب سرمایہ داری نامیاتی زوال پذیری کا شکار ہے، کا عوامی مفاد کے ساتھ کچھ لینا دینا نہیں ہے اور عوام کوصرف قومی شاؤنسٹ نعروں کے ذریعے ورغلا کر انہیں جنگ کا ایندھن بننے پر راغب کیا جاتا ہے۔ایسی ہر جنگ میں فائدہ ساراسرمایہ دار حکمران طبقات کا ہوتا ہے لیکن خون محنت کش عوام کا بہتا ہے چاہے وہ عام سویلین ہوں یا عام فوجی۔ مزید برآں سرمایہ داری کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ آخری تجزیے میں قومی ریاست کی قومی فوج کا حتمی مقصد محنت کش طبقے کی سرمایہ دارانہ نظام اور نجی ملکیت کے خلاف انقلابی بغاوتوں کو بزور طاقت کچلنا ہوتا ہے اور اس مقصد کے لیے کسی ملک کے سرمایہ دار حکمران طبقے کو مخالف ریاست کے سرمایہ دار حکمرانوں اور فوجی امداد کی ضرورت ہو تو وہ ساری”دشمنیاں“ بھلا کر اسے حاصل کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔

دوسری طرف مختلف تخمینوں کے مطابق محض 320 ارب ڈالر سے پوری دنیا میں بھوک کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔جبکہ محض دو سالوں کے عالمی فوجی اخراجات سے پوری دنیا میں غربت کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ انڈیا اور پاکستان جیسے ممالک جو ہر سال کل ملا کر تقریباً 100 ارب ڈالر فوجی تیاریوں پر خرچتے ہیں اگر یہی رقم جدید سوشل وفزیکل انفراسٹرکچر کی تعمیر پر خرچ کریں تو چند سالوں میں اس حوالے سے جاپان سے بھی آگے نکل جائیں۔ یاد رہے کہ ابھی ہم صرف فوجی اخراجات کی صورت میں ہونے والے وسائل کے بے تحاشہ ضیاع کی بات کر رہے ہیں حالانکہ قومی ریاست کی پوری مسلح، انتظامی و قانونی ریاستی مشینری ہی درحقیقت محنت کش عوام پر ایک بوجھ ہوتی ہے اور اس کا کام محض سرمایہ دار طبقے کی نجی ملکیت اور منافعوں کو تحفظ دینا اور ان کی اقتدار پر گرفت قائم رکھنا ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں داخلی سیکیورٹی (سول پولیس وغیرہ)، فوجداری عدالتی نظام اور جیل خانہ جات کو قائم رکھنے کی مد میں 700 ارب ڈالر سالانہ خرچ کیے جاتے ہیں۔ سول افسر شاہی اور حکومتی مشینری کا بے تحاشہ مالی بوجھ، عیاشیاں، کرپشن اور لوٹ مار ابھی اس کے علاوہ ہے۔ لیکن فوجی اخراجات سمیت وسائل کے اس بے تحاشہ ضیاع سے چھٹکارا پانا سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے ناممکن ہے۔کوئی”امن پسندی“ کا بھاشن اس کا تدارک نہیں کر سکتا اور نہ ہی سرمایہ داری اور قومی ریاست کو مزدور دوست بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن مسئلے کے حل پر بات کرنے سے پہلے ایک اہم وضاحت کرنا ضروری ہے۔
مظلوم اقوام کا حقِ خود ارادیت
مندرجہ بالا تمام بحث کے نتیجے میں قومی ریاست کی تاریخی متروکیت ایک ثابت شدہ حقیقت کے طور پر سامنے آتی ہے۔ لیکن دوسری طرف آج بھی دنیا کے مختلف خطوں میں فلسطینی، کشمیری، بلوچ، کرد وغیرہ جیسی مظلوم اقوام موجود ہیں جو اپنی قومی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں اور اپنی آزاد قومی ریاست کا حصول چاہتی ہیں۔تو کیا قومی ریاست کی تاریخی متروکیت کے کارن انہیں اپنی قومی آزادی کی جدوجہد ترک کر دینی چاہیے؟ ہم ہرگز نہیں سمجھتے کہ ایسا ہونا چاہیے۔ اگر ایک طرف قومی ریاست کی تاریخی متروکیت ایک حقیقت ہے تو دوسری طرف مظلوم اقوام پر ہونے والا قومی جبر بھی ایک حقیقت ہے اگرچہ یہ بات ہمیشہ واضح رہنی چاہیے کہ قومی جبر کا مجرم ہمیشہ وسائل کی لوٹ مار سے فائدہ اٹھانے والا حاکم قوم کا سرمایہ دار طبقہ ہوتا ہے نہ کہ اس کے محنت کش۔ مزید برآں آج عالمی سرمایہ داری کے نامیاتی زوال اور شدت پکڑتے تضادات کے عہد میں قومی جبر پہلے سے کہیں زیادہ شدید ہوتا جا رہا ہے جس کی ایک واضح مثال اسرائیل کی غزہ پر جاری وحشیانہ فوج کشی ہے۔ لہٰذا قومی ریاست کی تاریخی متروکیت کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ایک مظلوم قوم اپنے بنیادی جمہوری حق یعنی حقِ خود ارادیت (بشمول جابر ریاست سے علیحدگی) سے دستبردار ہو جائے۔ ایسا کہنا مسئلے کے ٹھوس سیاسی پہلو کو نظر انداز کرنا ہو گا۔ اسی لیے ہم کمیونسٹ تمام مظلوم اقوام کے حق خود ارادیت (بشمول جابر ریاست سے علیحدگی) کی حمایت کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ہم مظلوم اقوام کے عوام کو یہ پیغام بھی دیتے ہیں کہ ان پر قومی جبر اور تمام اقوام کے محنت کش طبقے کا طبقاتی استحصال کرنے والا دشمن ایک ہی ہے یعنی سرمایہ دارانہ نظام، سرمایہ دار طبقہ اور اس کی پروردہ ریاست۔ لہٰذا اس مشترکہ دشمن کے خلاف تمام اقوام کے محنت کشوں اور دیگر مظلوم عوامی پرتوں کو متحد ہو کر جدوجہد کرنا ہو گی۔ ایسی انقلابی جدوجہد جس کا انت ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی نمائندہ ریاست کے خاتمے پر ہو۔ محنت کش طبقے کے اقتدار پر انقلابی قبضے کے نتیجے میں سرمایہ داری اور اس کی جابر ریاستی مشینری کے خاتمے کے ساتھ نہ صرف طبقاتی استحصال کا خاتمہ ہو گا بلکہ قومی جبر بھی ختم ہو جائے گا۔ تمام مظلوم اقوام کے عوام آزاد ہوں گے کہ چاہے تو مکمل قومی برابری کی بنیاد پر تخلیق ہونے والی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کا حصہ بن جائیں یا چاہے تو علیحدگی اختیار کر لیں۔ یہی آج کے عہد میں قومی نجات حاصل کرنے کا واحد قابل عمل سائنسی لائحہ عمل ہے۔

ریاست کے ادارے کا تاریخی انجام کیا ہو گا؟
جیسا کہ ہم نے پہلے بتایا کہ ریاست بنیادی طور پر طبقاتی جبر کا آلہ ہے جسے ذرائع پیداوار کا مالک حکمران طبقہ محروم و محکوم طبقات کو دبائے رکھنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یہ ہمیشہ سے موجود نہیں تھی بلکہ اس کا ظہور ایک مخصوص تاریخی مرحلے پر نجی ملکیت کے جنم اور سماج کے طبقات میں بٹ جانے کی وجہ سے ہوا۔عہد وحشت میں طبقات کا کوئی وجود نہیں تھا۔اس عرصے میں انسانی آبادی چھوٹے چھوٹے گروہوں پر مشتمل تھی جو شکار کر کے اور جنگلی پھل وغیرہ اکٹھے کر کے گزر بسر کرتے تھے۔ پتھر کے اوزاروں پر مشتمل نوع انسان کی پیداواری تکنیک نہایت پسماندہ تھی اور زیادہ تر غاروں میں رہنے والے چھوٹے چھوٹے انسانی گروہ اس قابل ہی نہیں تھے کہ اتنی پیداوار کر سکتے کہ آج کی ضرورت پوری کرنے کے بعد بھی پیچھے کچھ بچ جاتا جس پر پھر کوئی نجی ملکیت کادعویٰ کر سکتا۔لہٰذا اس تمام عرصے میں نوع انسان نجی ملکیت کے تصور سے بھی ناآشنا تھی۔جب نجی ملکیت نہیں تھی تو پھر طبقات بھی نہیں تھے اور چونکہ طبقات نہیں تھے لہٰذا طبقاتی جبر کے آلے یعنی ریاست کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ نوع انسان نے اپنی لگ بھگ 25 لاکھ سال کی حیاتیاتی ارتقائی تاریخ میں سے تقریباً چوبیس لاکھ نوے ہزار سال ایسے ہی گزارے ہیں۔
طبقات کے وجود میں آنے کا عمل آج سے بمشکل دس گیارہ ہزار سال پہلے شروع ہوا جب پتھر کے اوزاروں میں آنے والی جدت،زراعت اور گلہ بانی جیسی تکنیکوں کی بدولت پہلی مرتبہ انسان اس قابل ہوا کہ اپنی آج کی ضرورت سے بڑھ کر پیداوار کر سکے۔مگر یہ فالتو پیداوار اتنی افراط میں نہیں تھی کہ سب کے لیے قلت کا خاتمہ کر سکے۔لہٰذا گروہ یا قبیلے کے چند طاقتور جنگجو افراد نے بزور قوت اسے اپنی نجی ملکیت بناتے ہوئے اس کے استعمال کو صرف اپنے تک محدود کر لیا۔ یوں طبقات کا جنم ہوا۔ تکنیکی،معاشی وسماجی ارتقا کے ساتھ جیسے جیسے طبقاتی سماج کی پیچیدگی اور تضادات میں اضافہ ہوا،ملکیتی طبقے کی نجی ملکیت کے حجم میں اضافہ ہوا،نجی ملکیت سے محروم طبقے کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اس کی طرف سے بغاوت کا خطرہ مستقل درپیش رہنے لگا تو بالائی طبقے کی نجی ملکیت کے دفاع اور نجی ملکیت سے محروم ومحکوم طبقات کو بزور جبر دبائے رکھنے کی خاطر ’مسلح افراد کے جتھوں‘ پر مشتمل ریاست کا ادارہ وجود میں آیا۔یہ آج سے محض چھے، سات ہزار سال پہلے کی بات ہے (قدیم مصر،میسوپوٹیمیاوغیرہ)۔
واضح رہے کہ اپنے تمام تر ظلم و استحصال کے باوجود نجی ملکیت کا ظہور،طبقاتی سماج کا قیام اور ریاست کا وجود میں آنا تاریخی اعتبار سے ایک ترقی پسندانہ قدم تھاکیونکہ اس نے پہلی دفعہ انسانوں کی ایک چھوٹی سی اقلیت (حکمران ملکیتی طبقہ) کو بقا کی روز مرہ جدوجہد سے آزاد کر دیا تھا اور نتیجتاً ان افراد کو وہ وقت میسر آیا جوکائنات اور فطرت پر غور وفکر کرنے، علوم و فنون اور تکنیک کاری کی تیز رفتار بڑھوتری کے لیے درکار تھا۔یہی وجہ ہے کہ پچھلے آٹھ دس ہزار سال کے عرصے میں انسانی علم،تکنیک کاری اور ذرائع پیداوار میں تیزی کے ساتھ ترقی ہوئی ہے جبکہ اس سے پہلے کے لاکھوں سال کے عرصے میں انسانی ترقی کی رفتار انتہائی سست تھی۔
لیکن اب ریاست کا ادارہ اپنی تاریخی عمر پوری کر چکا ہے۔ لاکھوں سال کی جدوجہد اور تکنیکی ترقی کا سفر طے کرنے کے بعد آج نوع انسان کے پاس وہ جدید ترین سائنسی علم،ٹیکنالوجی اور بے تحاشہ قوت پیداوار رکھنے والے ذرائع پیداوار موجود ہیں جن کی بنیاد پر پیداواری افراط تخلیق کرتے ہوئے سماج سے عمومی قلت کا مکمل خاتمہ کرنا اور ایک ایسا غیر طبقاتی سماج تعمیر کرنا ممکن ہے جس میں ہر انسان سے اس کی اہلیت کے مطابق کام لیا جاسکے اور اسے اس کی ضرورت کے مطابق دیا جا سکے۔ چونکہ یہ پیداواری افراط رکھنے والا ایک غیر طبقاتی سماج ہو گا لہٰذا اس میں طبقاتی جبر کے آلے یعنی ریاست کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہو گی۔یوں ریاست کا ادارہ اپنے منطقی تاریخی انجام کو پہنچے گا۔
مگر یہ سب کیسے ہو گا؟
تاریخ گواہ ہے کہ حکمران ملکیتی طبقے نے کبھی بھی اپنی نجی ملکیت،مراعات،آسائشوں اور حکمرانی کو رضاکارانہ طور پر نہیں چھوڑا۔ غلام داری نظام کے خاتمے میں غلام بغاوتوں کا ایک کلیدی کردار تھا۔ اسی طرح جاگیر داری نظام کے خاتمے میں کسانوں اور مزارعوں کی بغاوتوں اور انقلابات کا ایک بنیادی کردار تھا۔ ایسے ہی آج سرمایہ دار طبقہ پوری دنیا میں سائنس،ٹیکنالوجی اور ذرائع پیداوار پر قابض ہے اور اپنی منافع خوری کی خاطر نہ صرف کرۂ ارض کے اربوں محنت کشوں کی زندگیوں کو ایک جہنم بنا چکا ہے، نوع انسان کی مزید ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ بن چکا ہے بلکہ اب ماحولیاتی تباہ کاری کے کارن نوع انسان کے وجود کو ہی خطرے میں ڈال رہا ہے۔لیکن پیداواری افراط کے بلبوتے پر ایک غیر طبقاتی سماج کی تعمیر کے لیے لازم ہے کہ ذرائع پیداوار پر سرمایہ دار طبقے کی نجی ملکیت کا خاتمہ کرتے ہوئے انہیں محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت و جمہوری کنٹرول میں لیا جائے اور انہیں سماجی ضروریات کی تکمیل کے لیے ایک منصوبہ بند انداز میں بروئے کار لایا جائے۔مگر ماضی کے حکمران ملکیتی طبقات کی طرح سرمایہ دار طبقہ کبھی بھی اپنی نجی ملکیت اور سیاسی حکمرانی سے رضاکارانہ طور پر دستبردار نہیں ہو گا۔ محنت کش طبقے کو اس سے یہ نجی ملکیت اور حکمرانی ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے چھیننی پڑے گی۔ اس کے لیے محنت کش طبقے کو طبقاتی بنیادوں پر متحد ہوتے ہوئے مارکسزم لینن ازم یا کمیونزم کے نظریات و پروگرام سے مسلح ایک انقلابی پارٹی کی قیادت میں جدوجہد کرنا ہو گی۔
یہاں واضح رہے کہ چونکہ سرمایہ داری ایک عالمی پیداواری نظام ہے لہٰذا پیداواری افراط پر مبنی ایک غیر طبقاتی سماج کی مکمل تعمیر بھی صرف عالمی سطح پر سوشلسٹ انقلاب کی کامیابی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کا آغاز کسی بھی ایک ملک یا چند ممالک سے ہوسکتا ہے لیکن اپنی تکمیل کے لیے اسے آگے بڑھ کر پوری دنیا سے سرمایہ داری کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ اسی لیے کمیونسٹ’دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جاؤ!‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔
اسی طرح کسی بھی ملک میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت و جمہوری کنٹرول میں لیے جانے والے ذرائع پیداوار کو ایک منصوبہ بند معیشت کی شکل میں منظم کرتے ہوئے سماج کی سوشلسٹ بنیادوں پر تعمیر نو کرنے، شکست خوردہ سابقہ سرمایہ دار طبقے اور افسر شاہی کی باقیات کی جانب سے کی جانے والی رد انقلابی کوششوں کو کچلنے اور عالمی سوشلسٹ انقلاب کی تکمیل تک سامراجی قوتوں کے سیاسی،معاشی اور فوجی حملوں سے اپنا دفاع کرنے کی خاطر ایک مزدور ریاست کی بھی ضرورت ہو گی۔ یہ مزدور ریاست بھی طبقاتی جبر کا ایک آلہ ہو گی مگر سابقہ طبقاتی ریاستوں کے برعکس اس مرتبہ یہ اکثریتی محنت کش طبقے کے ہاتھوں میں اقلیتی سابقہ سرمایہ دار طبقے اور افسر شاہی کی باقیات،سامراجی سازشوں اور دیگر رد انقلابی رجحانات کی بیخ کنی کا ایک اوزار ہو گی۔ یہ مزدور ریاست انقلاب کے دوران ابھرنے والی انقلابی پنچائیتوں یا کمیٹیوں کی صورت میں منظم ہو گی جو کہ مکمل طور پر محنت کش عوام (خاص کر محنت کش طبقے) کے منتخب کردہ نمائندوں پر مشتمل ہو ں گی۔ ان نمائندگان کو غیر تسلی بخش کارکردگی کے کارن کسی بھی وقت منتخب کرنے والے محنت کش عوام کی جانب سے واپس بلایا جا سکے گا۔ مزدور ریاست کے کسی بھی اہلکار یا منتخب نمائندے کی تنخواہ اور مراعات ایک ہنر مند مزدور سے زیادہ نہیں ہوں گی۔ مزدور ریاست کی عوام سے کٹی ہوئی کوئی الگ تھلگ فوج نہیں ہو گی۔محنت کش عوام کی تما م بالغ آبادی فوجی تربیت یافتہ ہو گی۔ صنعتی مزدوروں کی اپنی ہتھیار بند مزدور ملیشیا ہو گی جو فیکٹری یونینز اور صنعتی علاقوں کی منتخب کمیٹیوں کے تابع ہو گی۔ محنت کش طبقے کے سب سے بہترین سیاسی شعور یافتہ لڑاکا عناصر پر مشتمل ایک مزدور فوج تشکیل دی جائے گی۔ مزدور فوج میں افسروں اور سپاہیوں کی تنخواہ اور مراعات برابر ہوں گی اور افسروں کا انتخاب سپاہیوں کی کمیٹیوں کے ذریعے کیا جائے گا۔مزید برآں یہ مزدور فوج الگ تھلگ چھاؤنیوں میں نہیں بلکہ محنت کش آبادی کے بیچ، ان کے ساتھ گھل مل کر رہے گی اور باقاعدگی کے ساتھ پیدواری سرگرمیوں میں بھی حصہ لے گی۔

لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ مزدور ریاست ایک مضبوط ہوتی نہیں بلکہ بتدریج ایک تحلیل ہوتی ہوئی ریاست ہو گی۔جیسے جیسے عالمی سوشلسٹ انقلاب آگے بڑھے گا، عالمی سرمایہ دار طبقے اور سامراجی قوتوں کا خاتمہ ہوتا جائے گا اور زیادہ سے زیادہ خطوں کے ذرائع پیداوار اور وسائل عالمی سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کا حصہ بن کر پیداواری افراط کو تخلیق کرتے ہوئے قلت کا مکمل خاتمہ ممکن بناتے جائیں گے، ویسے ویسے مزدور ریاست کی تاریخی ضرورت بھی ختم ہوتی جائے گی اور یہ مرجھاتے ہوئے ایک دن ویسے ہی غیر طبقاتی سماج میں ضم ہو کر ختم ہو جائے گی جیسے برف کا ایک ٹکڑا پانی میں آہستہ آہستہ حل ہو کر ختم ہو جاتا ہے۔ یہ بنی نوع انسان کی ایک عظیم جست ہو گی، جبر کی اقلیم سے آزادی کی اقلیم میں۔