انقلابِ روس؛ تاریخ کا درخشاں باب

|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: ولید خان|

یہ سال اکتوبر انقلاب کے صد سالہ جشن کا سال ہے۔ سرمایہ داری کی جی حضور ی کرنے والے اور محنت کش تحریک میں ان کے پٹھو اپنے آپ کو تسلیاں دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سوویت یونین کے انہدام کا مطلب سوشلزم کی ناکامی ہے۔ لیکن روس میں سوشلزم نہیں اس کی مضحکہ خیز بگڑی ہوئی شکل تھی۔ بار بار دہرائے جانے والے سنگین الزامات کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سٹالن کی آمریت، 1917ء میں بالشویکوں کی قائم کردہ جمہوری حکومت کا مکروہ الٹ تھی۔ 

’’اس سے قطع نظر کہ بالشویزم کے بارے میں کوئی کیا سوچتا ہے، یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ روسی انقلاب انسانی تاریخ کے عظیم ترین واقعات میں سے ایک ہے اور بالشویکوں کا اقتدار عالمی اہمیت کا حامل مظہر ہے۔‘‘ (جان ریڈ۔۔دنیا کو جھنجھوڑ دینے والے دس دن)

سرمایہ داری کے وفاداروں نے سوویت یونین کے انہدام کو ’’آزاد منڈی کی معیشت‘‘ کی ’’کمیونزم‘‘ پر فیصلہ کن فتح قرار دیا تھا۔ ربع صدی قبل اس واقعے نے بورژوازی اور اس کے دم چھلوں میں احساس راحت بھر دیا تھا۔ انہوں نے سوشلزم کے خاتمے کی بات کی، کمیونزم کے خاتمے کی بات کی، یہاں تک کہ تاریخ کے خاتمے کا بھی اعلان کر دیا اور اس وقت سے اب تک ہم مارکسزم کے نظریات پر بے نظیر عالمگیر حملوں کا مشاہدہ کر تے آ رہے ہیں۔ اس غیر منطقی پرجوش کیفیت کی کوئی حد نہیں تھی۔ اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے امریکی سامراج کے زیر سایہ ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کا فاتحانہ اعلان کیاتھا۔ مارٹن میکاؤلے نے لکھا۔’’سوویت یونین اب ختم ہو چکا ہے۔ عظیم تجربہ ناکام ہو چکا ہے۔۔۔عملی طور پر مارکسزم ہر جگہ ناکام ہو چکا ہے۔ کوئی ایسا مارکسی معاشی ماڈل موجود نہیں جو سرمایہ داری کا مقابلہ کر سکے۔‘‘(ایم میکاؤلے، سوویت یونین 1917-1991ء، صفحات XV اور 378)’’ہم جیت گئے!‘‘ دی وال سٹریٹ جرنل خوشی کے مارے چلا اٹھا(24/5/1989)۔ یہ وہ موقع تھا جب فرانسیس فوکویاما نے بدنام زمانہ پیشن گوئی کی تھی:’’بعد از تاریخ کا عہد طلوع ہو چکا ہے۔۔۔لبرل جمہوریت کی فتح ہو چکی ہے اور انسانیت دانائی کے نکتہ عروج تک پہنچ چکی ہے۔ تاریخ کا اختتام ہو چکا ہے۔‘‘ 

پچیس سال بعد ،آج وقت کی کسوٹی پر ان احمقانہ پرفریب دعووں میں سے کوئی ایک بھی بچ نہیں پایا۔ 1929ء کے عظیم اقتصادی بحران کے بعد آج سرمایہ داری اپنی تاریخ کے خوفناک ترین بحران میں پھنس چکی ہے۔ کروڑوں کا مستقبل بے روزگاری، غربت، کٹوتیاں اور جبری کفایت شعاری ہے۔جنگوں اور تنازعوں نے ایک ایسے سیارے کو تاراج کر کے رکھ دیا ہے جو پہلے ہی بے قابو سرمایہ داری کے ہاتھوں برباد ہو رہا ہے۔ ان سرد مہر تاریک راتوں میں یہ فاتحانہ اعلانات حواس پر طعن و طنز کی برسات ہیں۔ سرمایہ داری کے عالمی بحران اور اس کے تباہ کن اثرات نے تمام پر اعتماد پیشن گوئیوں کے پرخچے اڑا کر رکھ دئیے ہیں۔ مغربی لیڈروں کی طرف سے سوویت یونین کے انہدام کے بعد دودھ اور شہد کی نہروں کے بلند و بانگ دعوے، سب ہوا ہو چکے ہیں۔

عالمی تسلط کے امریکی خواب حلب کے زمین بوس کھنڈرات میں دفن ہو چکے ہیں۔ بورژوازی کے حکمت سازوں کے فاتحانہ اعلانات جھوٹ ثابت ہو چکے ہیں۔ تاریخ شدت سے اپنا انتقام لینے پر اتر آئی ہے۔ مغرب کے وہ مبصرین، جو سوویت یونین کے ہر نقص کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے تھے، آج آزاد منڈی کی مکمل ناکامی کو بیان کرنے میں بری طرح ناکام ہو رہے ہیں۔ آج چاروں اطراف معاشی گراوٹ، سیاسی عدم استحکام، ابہام، جنگیں اور سیاسی و سماجی تنازعات موجود ہیں۔ سابقہ پر مسرت جذبات اب بھیانک نا امیدی میں تبدیل ہو چکے ہیں۔

یہ وہ تمام وجوہات ہیں جن کی وجہ سے روسی انقلاب کی صد سالہ سالگرہ کے موقع پر، ناگزیر طور پر کمیونزم کے خلاف فاسق اور گھٹیا مہم اور زیادہ شدت اختیار کرے گی۔ اس کی وجہ جاننا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ سرمایہ داری کے عالمی بحران نے ناگزیر طور پر ’’منڈی کی معیشت‘‘ پر کڑے سوالات کو جنم دیا ہے۔ مارکسی نظریات کا دوبارہ سے احیا ہو رہا ہے جس کی وجہ سے بورژوازی پریشان ہے۔ بہتانوں کی نئی مہم اعتماد کے بجائے خوف کی نشاندہی کر رہی ہے۔

انقلاب کا خوف

تاریخ گواہ ہے کہ حکمران طبقے کیلئے کسی بھی انقلاب کو شکست فاش دینا کافی نہیں بلکہ یہ ضروری ہے کہ اسے بہتانوں اور جھوٹ میں ڈبو دیا جائے، اس کی قیادت کی کردار کشی کی جائے اور اس کو جھوٹ اور ریاکاری میں ایسے جکڑ دیا جائے کہ آنے والی نسلوں کیلئے اس کی کوئی یاد بھی امید کی کرن نہ بن پائے۔یہ سب کچھ نیا نہیں ہے۔ انیسویں صدی میں جب مورخ تھامس کارلائل نے اولیور کرامویل کے متعلق کتاب لکھنا چاہی تو بقول اس کے، پہلے اسے مردہ کتوں کے پہاڑ تلے کرامویل کی دبی ہوئی لاش کو باہر نکالنا پڑا۔ 1660ء میں بادشاہت کی بحالی کے بعد کرامویل اور انگریز بورژو ا انقلاب کی تمام یادداشت کو حذف کر دیا گیا۔ چارلس دوئم نے اپنی بادشاہت کے آغاز کی تاریخ چارلس اول کے قتل کے دن 30جنوری 1649ء رکھوائی اور ریپبلک اور اس کے انقلابی کارناموں کے تمام نشانات کو مٹا دیا گیا۔ نودولتیا چارلس دوئم بغض، نفرت اور بدلہ لینے کے جذبات میں اتنا زیادہ بہہ گیا کہ اس نے اولیور کرامویل کی قبر سے لاش نکلوا کر ٹائبرن کے مقام پر سر عام پھانسی پر چڑھا دی۔

خوف کی بنیاد یہی وہ بغض اور کینہ پروری ہے ،جس کی وجہ سے آج کوششیں کی جا رہی ہیں کہ روسی انقلاب کی انقلابی اہمیت اور اس کی حاصلات کو رد کیا جا ئے اور اس کی قیادت کی کردار کشی کی جا ئے ۔بورژوازی کی طرف سے منظم انداز میں تاریخ کو مسخ کرنے کی یہ کوشش اگرچہ انگریز شاہ پسندوں کی شر انگیزی سے زیادہ مکار اور تیکھی ضرور ہے لیکن اخلاقیات میں برابر ہی ہے۔حتمی تجزئیے میں یہ سابقہ کوششوں کی طرح کار آمد ثابت نہیں ہو گی۔ انسانی ترقی کا انجن سچائی ہے، جھوٹ نہیں اور سچائی کو ہمیشہ کیلئے کبھی بھی دفن نہیں کیا جا سکتا۔

تقریباً تین نسلوں سے سرمایہ داری کے چیلے سوویت یونین پر لعن طعن کر رہے ہیں۔ اکتوبر انقلاب اور اس سے جنم لینے والی قومی منصوبہ بند معیشت کو مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ اس مہم میں سٹالنزم کے جرائم نے بہت ساتھ دیا ہے۔ شاطرانہ چال یہ تھی کہ سوشلزم اور کمیونزم کو ایک پسماندہ ملک میں انقلاب کی تنہائی کی وجہ سے جنم لینے والی افسر شاہانہ آمریت سے منسلک کر دیا جائے۔ سوویت یونین سے ان تمام لوگوں کی نفرت ،جن کے کیریئر، تنخواہیں اور منافعے اس کرائے، سود اور منافعے کے نظام سے منسلک ہیں،سمجھنا زیادہ مشکل نہیں۔ اس کا سٹالنزم کی آمریت سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اپنے مفادات کیلئے یہی ’’جمہوریت کے دوست‘‘ آمریتوں کی تعریفیں کرتے رہے ہیں۔ ہٹلر کے اقتدار پر قبضہ کرنے پر ’’جمہوری‘‘ برطانوی حکمران طبقہ اس وقت تک خوش تھا جب تک اس نے جرمن محنت کشوں کو بوٹ تلے دبا کر اپنی توجہ مشرق کی جانب مرکوز رکھی۔ 1939ء تک ونسٹن چرچل اور برطانوی حکمران طبقے کے دوسرے نمائندے مسولینی اور فرانکو کی گرمجوشی سے مداح سرائی کرتے رہے۔ 1945ء کے بعد کے عہد میں مغربی ’’جمہوریتیں‘‘ جن میں امریکہ پیش پیش تھا، انتہائی فعال انداز میں سوموزا سے لے کر پینوشے تک، ارجنٹائن فوجی آمریت سے لے کرانڈونیشیا کے قصاب سہارتو تک، ہر خونخوار آمر کی حمایت کرتے رہے جو CIA کی مدد سے لاکھوں کروڑوں لوگوں کے گلے کاٹ کر تخت حکمرانی پر بیٹھے تھے۔ مغربی جمہوریتوں کے قائدین سعودی عرب کی خون آشام شاہی آمریت کے سامنے ناک رگڑتے ہیں جو اپنے ہی شہریوں کو تشدد، قتل، کوڑوں اور سنگساری کا نشانہ بناتی ہے۔ ان بربریتوں کی نہ ختم ہونے والی فہرست ہے۔سامراج کی نظر میں ایسی آمریتیں جن کی بنیاد زمین، بینکاری اور بڑی اجارہ داریوں کی نجی ملکیت ہے، نہ صرف قابل قبول ہیں بلکہ منظور نظر بھی ہیں۔ یہ واضح ہے کہ ان کی سوویت یونین سے ابدی نفرت کسی نام نہاد آزادی کی محبت میں نہیں بلکہ ننگے طبقاتی مفادات کی وجہ سے تھی۔ وہ سوویت یونین سے اس کی خامیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے نفرت نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے مثبت اور ترقی پسند پہلوؤں سے نفرت کرتے تھے۔ وہ سٹالنزم کی آمریت سے خائف نہیں تھے (حقیقت میں سٹالنزم کے جرائم کا سب سے بڑا فائدہ مغرب میں سوشلزم کو بدنام کرنے میں تھا) بلکہ ان کی اصل نفرت قومی ملکیت سے تھی جو کہ اکتوبر انقلاب کا واحد حصول رہ گئی تھی۔

تاریخ کو مسخ کرنے کا یہ انداز سٹالنسٹ افسرشاہی کے پرانے طریقہ کار کی یاد تازہ کر دیتا ہے جب اس نے تاریخ کو الٹ کر رکھ دیا ، قائدانہ صلاحیت کے لوگوں کو پس منظر میں رکھا،یا لیون ٹراٹسکی جیسے لوگوں کی کردار کشی کی اور عمومی طور پر کالے کو سفید کہنے کی روش اختیار رکھی۔ آج سوشلزم کے خلاف لکھی جانے والی تحریریں کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ وہ لینن کو بھی اسی نفرت اور کینہ پروری سے نشانہ بناتے ہیں جس طرح سٹالنسٹ ٹراٹسکی کو نشانہ بناتے تھے۔ اس طرح کی غلیظ ترین مثالیں خود روس میں پائی جاتی ہیں۔ یہ دو وجوہات کی بنیاد پر حیران کن نہیں ہے: پہلی تو یہ کہ ان لوگوں کو سٹالنسٹ دھوکے اور ریاکاری میں پروان چڑھایا گیا ہے جس کا ایک ہی اصول ہے کہ ’’سچائی‘‘ اشرافیہ کی خدمت میں ایک موزوں ہتھیار ہے۔ چند ایک قابل ذکر مثالوں کے علاوہ پروفیسر حضرات، ماہر معاشیات اور تاریخ دان رائج الوقت ’’احکامات‘‘ کی پیروی کرتے تھے۔ وہی دانشور جو ٹراٹسکی، سرخ فوج کے بانی اور اکتوبر انقلاب کے قائد، کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے، چند سال بعد بغیر کسی تامل کے ٹراٹسکی کو ہٹلر کا ایجنٹ قرار دے رہے تھے۔ وہی لکھاری جو جوزف سٹالن کی تعریفیں (مہا قائد اور مہا گرو) کرتے نہیں تھکتے تھے ، نیکیٹا خروشیف کے ’’شخصیت پرستی کے مسلک‘‘ کی دریافت کے فوراً بعد چھلانگ مار کر دوسری کشتی پر سوار ہو گئے۔ پرانی عادتیں مشکل سے جاتی ہیں۔ دانشورانہ دلالی کا طریقہ کار ایک ہی ہے۔ بس آقا تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

ایک اور بھی اہم وجہ ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ روس میں موجود آج کے سرمایہ دار اپنی جیبوں میں کمیونسٹ پارٹی کی ممبرشپ کا کارڈ رکھا کرتے تھے اور ’’سوشلزم‘‘ کی مالا جپتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا سوشلزم، کمیونزم یا محنت کش طبقے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ ایک خون آشام حکمران پرت سے تعلق رکھتے تھے جن کی عیاشیوں کی بنیاد سوویت محنت کشوں کا خون، پسینہ اور ہڈیاں تھیں۔ اس طرح کے عناصر کی سرشت میں ہمیشہ موجود بے حیائی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے آج یہ بے غیرت کھلم کھلا سرمایہ داری کی گود میں جا بیٹھے ہیں۔ لیکن اس جادوئی تبدیلی کو اتنی آسانی سے قابل قبول نہیں بنایا جا سکتا۔ ان کی مجبوری ہے کہ یہ کل تک جس نظام کے گن گاتے تھے ،اسے روزانہ لعن طعن کے پہاڑ تلے دبانے کی کوشش کریں۔ اس طرح وہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کراپنے مجروح ضمیر کی مرہم پٹی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔اگر ان کے پاس ضمیر نام کی کوئی چیز رہ گئی ہے۔ ایک غلیظ ترین انسان بھی اپنے اعمال کی توجیہہ تلاش کرتا رہتا ہے۔

انقلاب کی حاصلات

اکتوبر انقلاب کے بعد قائم کردہ حکومت نہ تو آمرانہ تھی اور نہ ہی افسر شاہانہ، بلکہ یہ انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ جمہوری حکومت تھی۔ اکتوبر انقلاب نے ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کا صفایا کر کے رکھ دیا۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ قومی منصوبہ بند معیشت کی افادیت کا صرف خیالی ہی نہیں بلکہ عملی تجربہ کیا گیا۔ کرہ ارض کے 1/6 حصے پرایک بے نظیر دیو ہیکل تجربے نے یہ ثابت کر دیا کہ سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور ساہوکاروں کے بغیر سماج کو احسن طریقے سے چلایا جا سکتا ہے۔ آج کل انسانی تاریخ کے اس منفرد تجربے سے حاصل کئے گئے نتائج کو جھوٹا قرار دینا یا سرے سے فراموش کر دینا فیشن بن چکا ہے۔ لیکن اگر ہم حقیقت کا سطحی تجزیہ ہی کر لیں تو ہم بالکل مختلف نتائج پر پہنچ جاتے ہیں۔ تمام تر مسائل، نقائص اور جرائم کے باوجود (اتفاق کی بات کہ ان تمام سے سرمایہ داری کی تاریخ بھری پڑی ہے)، سوویت یونین میں قومی منصوبہ بند معیشت نے تاریخی طور پر کم ترین وقت میں حیرت انگیز جدت اور ترقی حاصل کی۔ مغربی حکمران طبقے کے ڈر اور نفرت کی اصل وجہ یہی ہے۔ اسی لئے اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی آج وہ ماضی سے متعلق انتہائی شرمناک اور غلیظ ترین جھوٹ بولنے اور بہتان تراشی پر مجبور ہیں(بے شک یہ ہمیشہ شاندار ’’عالمانہ غیرجانبداری‘‘ کے پیرائے میں کی جاتی ہے)۔

بورژوازی کو ہر حال میں اکتوبر انقلاب کے نظریات ہمیشہ کیلئے دفن کرنے ہیں۔ نتیجتاً سوویت یونین کے انہدام کے بعد روس اور مشرقی یورپ کی منصوبہ بند معیشتوں کے خلاف پروپیگنڈے کا سیلاب امڈ آیا۔ سرمائے کے جغادریوں کی ’’کمیونزم‘‘ کے خلاف یہ منصوبہ بند نظریاتی جارحیت، انقلاب کی تاریخی حاصلات کو رد کرنے کی سوچی سمجھی سازش ہے۔ ان خواتین و حضرات کیلئے 1917ء سے لے کر آج تک روسی انقلاب ایک تاریخی انحراف ہے۔ ان کیلئے سماج کی صرف ایک ہی ساخت ہو سکتی ہے۔ان کی نظر میں سرمایہ داری ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ رہے گی۔ اس لئے قومی منصوبہ بند معیشت کی حاصلات کے بارے میں کبھی بات نہیں کی جا سکتی۔ سوویت اعداد و شمار یا تو جھوٹے ہیں یا پھر مبالغہ آرائی۔

’’اعداد و شمار جھوٹ نہیں بول سکتے لیکن جھوٹے اعدادوشمار ہو سکتے ہیں۔‘‘ خواندگی، صحت اور سماجی سہولیات میں دیو ہیکل ترقی کو بے پناہ جھوٹ ، مسخ شدہ اعدادوشمار اور غیر منطقی بحثوں تلے دبا کر ماضی کی حقیقی کامیابیوں کو دفنا دیا گیا ہے۔ سوویت زندگی کی تمام کوتاہیوں کو، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کوتاہیاں بے شمار تھیں، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور یہ ’’ثابت‘‘ کیا جاتا ہے کہ سرمایہ داری کا کوئی متبادل نہیں۔ اب کہا جاتا ہے کہ ترقی کے بجائے تنزلی تھی۔ یہ دعوی بھی کیا گیا ہے کہ ’’1980ء کی دہائی میں سوویت یونین امریکہ سے اتنا ہی پیچھے تھا جتنی 1913ء میں روسی سلطنت ،‘‘معاشی مورخ ایلک نوف لکھتا ہے اور ساتھ ہی یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ ’’اعداد و شمار کی ہیرا پھیری نے سوویت حکومت کو ناجائز قرار دینے میں ایک سیاسی کردار ادا کیا ہے۔۔۔‘‘ (ایلک نوف، سویت یونین کی معاشی تاریخ، صفحہ نمبر 438)

یہ ضروری ہے کہ جھوٹوں اور بہتانوں کی اس بے نظیر مہم کے خلاف ہم درست حقائق بیان کرتے ہوئے مسخ شدہ تاریخ کو دوبارہ اس کی اصل حالت میں واپس لے کر آئیں۔ ہم اپنے قارئین کو اعدادوشمار کے پہاڑ تلے دبانا نہیں چاہتے۔ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ منصوبہ بند معیشت کی بے پناہ کامیابی اور افادیت کو کسی بھی شک و شبہے سے بالا تر ثابت کیا جائے۔ افسر شاہی کے خوفناک جرائم کے باوجود، سوویت یونین کی بے نظیر ترقی نہ صرف ایک تاریخی کامیابی ہے بلکہ سب سے بڑھ کر، ہمیں اس تاریخی تجزئیے میں منصوبہ بند معیشت کے دیو ہیکل روشن امکانات کی جھلک بھی دیکھنے کو ملتی ہے، خاص کر اگر اسے جمہوری طریقے سے چلایا جائے۔ یہ جھلک آج عالمی سرمایہ داری میں ذرائع پیداوار کو لاحق بحران کے بالکل الٹ ہے۔

بے نظیر ترقی

1917ء کے اکتوبر انقلاب نے سوویت یونین میں تاریخی اعتبار سے پیداواری قوتوں کو کسی بھی ملک کے مقابلے میں بے نظیر ترقی دی۔ انقلاب سے پہلے زار شاہی روس زیادہ تر ناخواندہ عوام کے ساتھ انتہائی پسماندہ اور نیم جاگیردارانہ ملک تھا۔ پندرہ کروڑ کی آبادی میں سے صرف 40لاکھ صنعتی مزدور تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت کا روس آج کے پاکستان سے بھی کہیں زیادہ پسماندہ تھا۔ خوفناک سماجی، معاشی اور ثقافتی پسماندگی میں لینن اور ٹراٹسکی نے محنت کشوں کی عوامی جمہوریہ قائم کی جس نے منصوبہ بند معیشت کی بنیاد پر روس کو پسماندگی سے باہر گھسیٹ کر لانے کا دیو ہیکل کام شروع کیا۔ معاشی تاریخ میں حاصل کردہ نتائج بے مثال ہیں۔ دو دہائیوں کے قلیل عرصے میں روس نے طاقت ور صنعتی بنیادیں بنا کر صنعت کو ترقی دی، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترویج کرتے ہوئے ناخواندگی کا مکمل خاتمہ کر دیا۔ صحت، تعلیم اور ثقافت کے شعبوں میں حیران کن پیش رفت ہوئی۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا تھا جب مغربی دنیا عظیم اقتصادی بحران کی کثیر بیروزگاری اور معاشی تباہی میں گھری ہوئی تھی۔

نئے پیداواری نظام کا کڑا ترین امتحان 45-1941ء میں ہوا جب دوسری عالمی جنگ کے دوران سوویت یونین پر نازی جرمنی نے یورپ کے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے چڑھائی کر دی۔ 2.7کروڑ جانوں کے نقصان کے باوجود، سوویت یونین نے نہ صرف ہٹلر کو عبرت ناک شکست دی بلکہ 1945ء کے بعد انتہائی قلیل عرصے میں اپنی تباہ حال معیشت کو دوبارہ تعمیر کرتے ہوئے دنیا کی دوسری بڑی قوت بن گیا۔ کسی ملک کے اندر ایسی حیران کن ترقی کو دیکھتے ہوئے ہمیں ایک لمحہ سوچنا ضرور چاہیئے۔ بالشویک انقلاب کے ساتھ ہمدردی یا مخالفت تو کی جا سکتی ہے لیکن انتہائی قلیل عرصے میں ایسی حیران کن تبدیلی کا تقاضا ہے کہ ہر جگہ سوچنے سمجھنے والے لوگ متوجہ ہوں۔

پچاس سال کے عرصے میں سوویت یونین نے اپنی مجموعی پیداوار 9گنا بڑھائی۔ دوسری عالمی جنگ کی ہولناک تباہی کے باوجود 1979-1945ء کے دورانیے میں مجموعی پیداوار 5 گنا بڑھی۔ 1950ء میں سوویت یونین کی مجموعی پیداوار، امریکہ کی مجموعی پیداوار کے 33فیصد کے برابر تھی۔ 1979ء میں یہ 58فیصد تک پہنچ چکی تھی۔ 1970ء کی دہائی کے آخر میں سوویت یونین ایک قوی صنعتی طاقت بن چکا تھا جو بہت سارے کلیدی شعبوں میں باقی دنیا کو پیچھے چھوڑ چکا تھا۔ امریکہ کے بعد، سوویت یونین دنیا کا دوسرا بڑا صنعتی پیداوار کرنے والا ملک تھا اور تیل، سٹیل، سیمنٹ، ایسبیسٹوس، ٹریکٹروں اور بے شمار دوسرے آلات کا دنیا میں سب سے زیادہ پیداوار کرنے والا ملک تھا۔ یہ اعدادوشمار حاصل کی گئی کامیابیوں کی پوری طرح عکاسی نہیں کرتے۔ یہ تمام تر کارنامے بیروزگاری اور افراط زر کے بغیر کئے گئے۔ مغرب میں جس طرح سے بیروزگاری ہوتی ہے، سوویت یونین میں اس کا گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ حقیقت میں یہ ایک جرم تھا (تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ یہ قانون آئین میں آج بھی موجود ہے لیکن اب اس کی کوئی افادیت نہیں)۔ ایسی مثالیں ہو سکتی ہیں کہ کام پر غلطی کرنے یا انتظامیہ کے ساتھ تصادم کے نتیجے میں افراد کو نوکریوں سے برخاست کر دیا گیا ہو۔ لیکن ان واقعات کا قومی منصوبہ بند معیشت سے کوئی تعلق نہیں اور ان واقعات کا ہونا ضروری بھی نہیں تھا۔ ان کا سرمایہ داری کے معاشی اتار چڑھاؤ کے ساتھ، بڑھتی گھٹتی بیروزگاری کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی اس نامیاتی کینسر کے ساتھ جو آج پوری مغربی دنیا میں پھیل کر OECDممالک کے 3.5کروڑ محنت کشوں کو فارغ بیٹھنے پر مجبور کر رہا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ، افراط زر عالمی جنگ کے بعد کے زیادہ تر عرصے میں انتہائی کم یا نہ ہونے کے برابر تھا۔ افسر شاہی نے ٹراٹسکی کے اس قول کو کہ ’’افراط زر منصوبہ بند معیشت کیلئے آتشک ہے،‘‘ پلے باندھ لیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد انہوں نے خاص طور پر افراط زر کو کنٹرول میں رکھنے کا انتظام کیااور بنیادی اشیا ئے ضرورت کے حوالے سے تو اس پر سختی سے عمل کیا گیا۔ پریسٹرائیکا سے پہلے گوشت اور دودھ کی قیمتیں آخری مرتبہ 1962ء میں بڑھی تھیں۔ روٹی، چینی اور زیادہ تر اشیائے خورد ونوش کی قیمتیں آخری مرتبہ 1955ء میں بڑھی تھیں۔ مغرب کے مقابلے میں ،جہاں محنت کشوں کو اپنی تنخواہ کا ایک تہائی کرایوں کی مد میں خرچ کرنا پڑتا تھا، کرائے انتہائی کم تھے۔ صرف آخری عرصے میں، پریسٹرائیکا کی پرانتشار پالیسی کے لاگو ہونے کے بعد ہی یہ تمام نظام ٹوٹ کر بکھر گیا۔ منڈی کی معیشت کی طرف دوڑ میں بیروزگاری اور افراط زر پہلے کبھی نہ دیکھی گئی بلندیوں تک پہنچ گئے۔

سوویت یونین کا بجٹ ہمیشہ متوازن ہوتا تھا بلکہ ہر سال سرپلس میں ہوتا تھا۔یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ پوری دنیا میں ایک مغربی ملک بھی ایساکرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا(جیسا کہ ماستریخت معاہدے میں ثابت ہوتا ہے)،بالکل اسی طرح جس طرح سے وہ مکمل روزگار یا صفر افراط زر کا ہدف حاصل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکے، وہ اہداف جو سوویت یونین میں معمول تھے۔سوویت یونین کے مغربی ناقدین ان معاملات پر بالکل خاموش ہیں،کیونکہ ان حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ سوشلزم تو دور کی بات ہے، ایک عبوری معیشت کے اندرکیا کیا دیو ہیکل امکانات چھپے ہوئے ہیں۔ 1917ء میں ایک پسماندہ، نیم جاگیردارانہ، زیادہ تر ناخواندہ ملک سے سوویت یونین ایک جدید، ترقی یافتہ صنعتی خطہ بن گیا جس میں دنیا کے ایک چوتھائی سائنس دان موجود تھے، ایک ایسے صحت اور تعلیم کے نظام کے ساتھ جس کا مغرب میں کوئی مقابلہ نہیں تھا، جس نے دنیا کا پہلا سیٹلائیٹ اور انسان خلا میں بھیجا۔ 1980ء کی دہائی میں سوویت یونین میں امریکہ، جاپان، برطانیہ اور جرمنی سے مجموعی طور پر زیاددہ سائنس دان تھے۔ حال ہی میں مغرب یہ ماننے پر مجبور ہوا ہے کہ سوویت خلائی پروگرام امریکی پروگرام سے کہیں زیادہ جدید اور ترقی یافتہ تھا۔ اس حقیقت کا اس سے بڑاثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ مغرب کو آج بھی روسی راکٹ استعمال کر کے اپنے خواتین وحضرات کو خلا میں بھیجنا پڑتا ہے۔

خواتین اور اکتوبر انقلاب

عظیم خیالی سوشلسٹ فوریئر کے مطابق کسی بھی سماجی نظام کی صحت کا بہترین اندازہ اس میں موجود خواتین کی سماجی حیثیت سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے روس میں سرمایہ داری کو دوبارہ متعارف کرانے کی کوشش کے ہولناک اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ روسی انقلاب ( جس کی ابتدا ہی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ٹیکسٹائل صنعت کی خواتین کی ہڑتال سے ہوئی تھی)کی خواتین کیلئے حاصلات کو سوچی سمجھی سازش کے تحت ختم کیا جا رہاہے۔ سرمایہ داری کا رجعتی مکروہ چہرہ روس میں اس وقت خواتین کی حیثیت سے ناپا جا سکتا ہے۔

سٹالنسٹ سیاسی رد انقلاب کے دھچکے کے باوجود اس میں کوئی شک نہیں کہ بالشویک انقلاب نے خواتین کی حقیقی آزادی کی وہ بنیاد رکھی تھی جس کی وجہ سے سوویت یونین کی خواتین نے سیاسی و سماجی مساوات کی جدوجہد میں شاندار پیش رفت کی۔ ٹراٹسکی لکھتا ہے کہ، ’’اکتوبر انقلاب نے خواتین کے حوالے سے ایمانداری کے ساتھ اپنے تمام تقاضے پورے کئے۔ نوزا ئیدہ حکومت نے نہ صرف انہیں مردوں کے برابر تمام سیاسی اور قانونی حقوق دئیے بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم، وہ سب کچھ کیا جو آج تک کسی بھی حکومت نے نہیں کیا تھا۔ یعنی کہ عملی طور پر تمام معاشی اور ثقافتی امور تک ان کی رسائی کو یقینی بنایا گیا۔‘‘

خواتین کی آزادی و مساوات کی جدوجہد میں اکتوبر انقلاب کا ایک سنگ میل کا کردار رہا ہے۔ اس سے پہلے زار شاہی روس میں خواتین کی حیثیت گھر کی کسی شے کے مترادف تھی۔ زارشاہی کے قوانین میں ایک مرد کو اپنی بیوی پر تشدد کرنے کی کھلی اجازت تھی۔ اکثر دیہی علاقوں میں خواتین کو زبردستی نقاب پہنایا جاتا تھا اور انہیں پڑھنے لکھنے کی ممانعت تھی۔ 1917-27ء کے دوران متعدد قوانین لاگو کر کے خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دئیے گئے۔1919ء میں کمیونسٹ پارٹی کے پروگرام نے بے باک اعلان کیا:’’پارٹی خواتین کو صرف رسمی برابری کے حقوق دینے پر ہی اکتفا نہیں کرتی بلکہ ارادہ کرتی ہے کہ انہیں فرسودہ گھریلو کام سے اجتماعی گھروں، عوامی کھانے کی جگہوں، عوامی لانڈریوں، نرسریوں وغیرہ کے ذریعے حقیقی آزادی دلائی جائے۔‘‘اب یہ ضروری نہیں رہا تھا کہ خواتین کو اپنے خاوندوں کے ساتھ ہی رہنا ہے یا نوکری کی تبدیلی کی وجہ سے گھر اور جگہ کی تبدیلی کے نتیجے میں ان کے ساتھ جانا ہے۔ انہیں گھر کے سربراہ کے طور پر برابر حقوق دئیے گئے اور برابر کی تنخواہ دی گئی۔ زچگی اور پرورش کے حوالے سے خواتین کے کردار پر خصوصی توجہ دی گئی اور دورانِ زچگی کیلئے خاص قوانین لاگو کئے گئے جن میں کام کے طویل اوقات کار اور رات کو کام ممنوع قرار د یا گیا ۔ بچوں کی پیدائش پر تنخواہ کے ساتھ چھٹی، فیملی الاؤنس اور بچوں کی دیکھ بھال کیلئے سنٹر بنائے گئے۔ 1920ء میں اسقاط حمل کو قانونی حیثیت دی گئی، طلاق کے عمل کو سادہ بنایا گیا اور شادی کی سول رجسٹریشن کا عمل متعارف کرایا گیا۔ ناجائز بچوں کے تصور کو ختم کیا گیا۔ لینن کے الفاظ میں:’’حقیقت میں ہم نے ان قابل نفرت قوانین کی ایک اینٹ بھی نہیں رہنے دی جن کی بنیاد پر خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم تر حیثیت میں رکھا جاتا تھا۔‘‘

وہ مادی بنیادیں فراہم کی گئیں جن کی بنیاد پر خواتین سماجی، معاشی اور سیاسی، تمام شعبوں میں بھرپور اور فعال کردار ادا کر سکیں۔سکولوں میں مفت کھانے کی سہولیات، بچوں کیلئے دودھ، ضرورت مند بچوں کے کھانوں اور کپڑوں کیلئے خصوصی الاؤنس، حمل کے حوالے سے مشاوراتی سینٹرز، زچگی گھر، کام کے اوقات میں نرسریوں اور دوسری سہولیات کی فراہمی۔ یہ درست ہے کہ سٹالنزم کے ابھار کی وجہ سے اصلاحات کے خاتمے سے خواتین کی سماجی حیثیت پر کاری وار ہوئے۔ لیکن سٹالن کی موت اور عالمی جنگ کے بعد کے عرصے میں معاشی صورتحال کی بہتری کے ساتھ ساتھ سماجی حالات بھی بہتر ہوتے گئے: 55سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ، تنخواہوں اور ملازمت کی شرائط میں مساوات ، دوران زچگی ہلکے پھلکے کام پر شفٹ ہو نے کا حق اور بچے کی پیدائش سے 56دن پہلے اور 56دن بعد پوری تنخواہ کے ساتھ چھٹی۔1970ء میں نئی قانون سازی کے بعد خواتین کیلئے رات کا کام اور زیرزمین کام ممنوع قرار دے دیا گیا۔ اعلی تعلیم کے شعبے میں خواتین کی شرح مجموعی طور پر 1927ء میں 28فیصد سے بڑھ کر 1960ء میں 43فیصد اور 1970ء میں 49فیصد تک جا پہنچی۔ دنیا میں صرف تین اور ممالک تھے جہاں اعلی تعلیم میں خواتین کی مجموعی شرح 40فیصد سے زیادہ تھی: فن لینڈ، فرانس اور امریکہ۔

سکول جانے کی عمر سے پہلے بچوں کی نشوونما میں نمایاں بہتری ہوئی: 1960ء میں بچوں کی پرورش کیلئے 500,000 نرسریاں تھیں لیکن 1971ء تک آتے آتے یہ 50 لاکھ تک جا پہنچیں۔ منصوبہ بند معیشت کی دیو ہیکل پیش رفتوں سے صحت کے شعبے میں نمایاں بہتری آئی جس کا ایک اظہار خواتین کی اوسط عمر کا 30سال سے 74سال ہو جانا اور بچوں کی اموات کی شرح میں 90فیصد کمی کا ہونا تھا۔ 1975ء میں تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والی خواتین کی شرح 73فیصد ہو چکی تھی۔ 1959ء میں ایک تہائی خواتین ایسے شعبوں میں کام کر رہی تھیں جہاں خواتین ورکروں کی شرح 70فیصد تھی لیکن 1970ء تک یہ تعداد55فیصد تک پہنچ چکی تھی۔ اس وقت تک نرسنگ میں 98فیصد ، اساتذہ میں 75فیصد، لائبریرینز میں 95فیصد اور ڈاکٹروں میں75 فیصد خواتین تھیں۔ 1950ء میں 600خواتین سائنس میں ڈاکٹریٹ تھیں جبکہ 1984ء تک یہ تعداد 5600 ہو چکی تھی۔

دوبارہ سے سرمایہ داری لاگو ہونے کے بعد، ماضی کی یہ تمام پیش رفت تیزی سے پلٹی ہے جس کی وجہ سے خواتین کو ’’خاندان‘‘ کے دوغلے جھوٹ پر دوبارہ سے غلامی کی طرف دھکیلا گیا ہے۔ سرمایہ دارانہ بحران کا سب سے بھاری بوجھ خواتین کے کندھوں پر ڈالا جا رہا ہے۔

سوویت یونین کا انہدام کیوں ہوا؟

لیکن ان تمام تر حیران کن کامیابیوں کے باوجود سوویت یونین کا انہدام ہو گیا ۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوا۔ سرمایہ داری کے ’’ماہرین‘‘ کی رائے جتنی متوقع ہے اتنی ہی کھوکھلی اور فضول ہے۔ سوشلزم (یا کمیونزم) ناکام ہو گیا۔ کہانی ختم۔ لیکن دائیں اور بائیں بازو کی لیبر قیادت کی وضاحتیں بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں ہیں۔ دائیں بازو کے اصلاح پسند ہمیشہ کی طرح حکمران طبقے کے خیالات کا پرچار کرتے ہیں۔ بائیں بازو کے اصلاح پسندوں کی طرف سے صرف شرمندگی میں ڈوبی مکمل خاموشی ہے۔ مغرب کی کمیونسٹ پارٹیوں کے قائدین جو کل تک سٹالن کے تمام جرائم کی بلا تنقید حمایت کرتے تھے آج ایک جھٹلائی ہوئی آمریت سے قطع تعلق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کے پاس ان محنت کشوں اور نوجوانوں کیلئے کوئی سنجیدہ جواب موجود نہیں جو سنجیدہ وضاحت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

سوویت صنعت، سائنس اور ٹیکنالوجی کی کامیابیوں کی وضاحت کی جا چکی ہے۔ لیکن تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی موجود ہے۔ لینن اور ٹراٹسکی نے جس جمہوری مزدور ریاست کی بنیاد رکھی ، اس کی جگہ مکروہ سٹالنسٹ افسر شاہانہ آمریت نے لے لی۔ یہ ایک بھیانک رجعت تھی جس نے محنت کش طبقے کی سیاسی طاقت کو تحلیل تو کر دیا لیکن اکتوبر انقلاب کی سماجی اور معاشی بنیادیں قائم رہیں۔ منصوبہ بند معیشت کی شکل میں نئے ملکیتی رشتے قائم و دائم رہے۔

1920ء کے عشرے میں ٹراٹسکی نے ایک مختصر کتاب سوشلزم یا سرمایہ داری کی جانب؟ (Towards Socialism or Capitalism?) لکھی۔یہ سوال سوویت یونین کیلئے ہمیشہ کلیدی اہمیت کا حامل تھا۔ ریاستی پروپیگنڈہ یہ تھا کہ سوویت یونین مستعدی سے سوشلزم کی جانب بڑھ رہا ہے۔ 1960ء کی دہائی میں خروشیف نے شیخی ماری کہ سوشلزم کا حصول ہو چکا ہے اور بیس سال کے عرصے میں ایک مکمل کمیونسٹ سماج تعمیر کر لیا جائے گا۔ لیکن حقیقت میں سوویت یونین ایک بالکل مختلف سمت میں بڑھ رہا تھا۔ سوشلزم کی جانب سفر کا مطلب یہ ہے کہ سماجی عدم مساوات میں بتدریج کمی آئے۔ لیکن سوویت یونین میں عدم مساوات مسلسل بڑھ رہی تھی۔ عوام اور لاکھوں بیوروکریٹس، ان کی بیگمات اور بچوں کے درمیان بھڑکیلے کپڑوں، بڑی گاڑیوں، آرام دہ گھروں اور عیاشی کیلئے دیہی حویلیوں کی صورت میں عدم مساوات کی گہری خلیج بنتی گئی۔ یہ تضاد اور بھی زیادہ واضح تھا کیونکہ اس کا سوشلزم اور کمیونزم کے ریاستی پروپیگنڈے سے کوئی تال میل نہیں تھا۔ 

عوامی نقطہ نظر سے معاشی کامیابی کا مطلب بے پناہ سٹیل، سیمنٹ یا بجلی کی فراوانی نہیں۔ معیار زندگی کا دارومدار اچھے معیار، سستی اور باآسانی دستیاب اشیا کی پیداوار پر ہوتا ہے: کپڑے، جوتے، کھانا، کپڑے دھونے کی مشینیں، ٹی وی اور ایسی اور بہت ساری اشیا۔ لیکن ان سب میں سوویت یونین مغرب سے بہت پیچھے تھا۔ یہ اتنا سنجیدہ مسئلہ نہ ہوتا، اگر ایسا نہ ہوتا کہ کچھ لوگ تو ان اشیا تک رسائی کے مزے لوٹ رہے تھے جبکہ عوام کی ایک کثیر آبادی ان سے محروم تھی۔سٹالنزم کے بے پناہ تضادات کی موجودگی کے باوجود اتنا طویل عرصہ قائم رہنے کی وجہ یہ تھی کہ منصوبہ بند معیشت کئی دہائیوں حیرت انگیز ترقی کرتی رہی۔ لیکن افسر شاہی کی گھٹن آمیز آمریت کے نتیجے میں دیو ہیکل کرپشن، بد انتظامی اور ضیاع نے جنم لیا۔ اس کی وجہ سے منصوبہ بند معیشت کی حاصلات برباد ہو گئیں۔ سوویت یونین جتنی زیادہ ترقی کرتا جاتا تھا، افسر شاہی کے منفی اثرات اتنے ہی زیادہ گہرے ہوتے جاتے تھے۔ذرائع پیداوار کی بڑھوتری اور ترقی کے راستے میں افسر شاہی ہمیشہ حائل رہی۔ بھاری صنعت کی تعمیر کا کام قدرے آسان ہے لیکن ایک جدید معیشت، جس میں بھاری اور ہلکی صنعت ،سائنس اور ٹیکنالوجی کے آپسی تعلقات انتہائی پیچیدہ ہوتے ہیں، انہیں ایک افسر شاہی کے ذریعے چلانے کا مطلب انتہائی سنگین تباہی و بربادی ہے۔ سوویت معیشت پر ایک اور بہت بڑا پہاڑ بڑے پیمانے پر عسکری خرچے اور مشرقی یورپ پر اپنی آہنی گرفت قائم رکھنے کی کوشش تھی۔ 

اپنے تصرف میں دیو ہیکل وسائل، طاقت ورصنعتی بنیادوں اور اعلی درجے کے سائنس دانوں اور ٹیکنیشنوں کی فوج ہونے کے باوجود افسر شاہی مغرب کا مقابلہ نہ کر سکی۔ پیداوار اور معیار زندگی میں سوویت یونین بہت پیچھے تھا۔ اس کی اہم وجہ افسر شاہی تھی جو سوویت معیشت پر پہاڑ بن کر اسے اپنے بوجھ تلے کچل رہی تھی۔لاکھوں حریص اور کرپٹ افسر محنت کشوں کے کنٹرول کی عدم موجودگی میں سوویت یونین کو چلا رہے تھے۔ 

ان وجوہات کی بنیاد پر سوویت یونین مغرب سے پیچھے رہتا جا رہا تھا۔ جب تک سوویت یونین میں پیداواری قوتیں ترقی کرتی رہیں، سرمایہ دارانہ رجحانات کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ لیکن 1960ء کے درمیانی عرصے تک آتے آتے منصوبہ بند معیشت کی افسر شاہانہ گھٹن اپنی حدود کو پہنچ چکی تھی۔ اس کی وضاحت شرح نمو کے گراف سے ہوتی ہے جو 1970ء کی دہائی میں مستقل گرتا رہا ، یہاں تک کہ برینیف کے آنے تک یہ صفر پر پہنچ گیا۔ جب حالات یہ ہو گئے کہ سوویت یونین سرمایہ داری سے بہتر نتائج حاصل نہیں کر سکتا تھا تو اسی لمحے اس کی قسمت کا فیصلہ ہو گیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ٹیڈ گرانٹ نے 1972ء میں یہ شاندار نتیجہ اخذ کیا کہ سٹالنسٹ افسر شاہی کا انہدام نا گزیر ہے۔ مارکسی نقطہ نظر سے یہ تناظر ناگزیر تھا۔ مارکسی نظریات تفصیلاً وضاحت کرتے ہیں کہ حتمی تجزئیے میں ایک سماجی و معاشی نظام کی افادیت اس وقت تک ہوتی ہے جب تک وہ پیداواری قوتوں کو ترقی دینے کے قابل ہے۔ 1965ء کے بعد سوویت یونین کی شرح نمو گرنا شروع ہو گئی تھی۔ 1970-1965ء کے دوران شرح نمو 5.4فیصد تھی۔ 1978-1971ء کے سات سالوں میں یہ گر کر اوسطاً 3.7فیصد رہی۔OECD کے ترقی یافتہ ممالک کی اوسط شرح نمو 3.5فیصد تھی۔ ا س کا مطلب یہ تھا کہ اب سوویت یونین کی شرح نموسرمایہ داری کی شرح نمو سے زیادہ نہیں رہی تھی جو کہ ایک تباہ کن صورت حال تھی۔ اس کی وجہ سے پوری دنیا کی پیداوار میں سوویت یونین کا حصہ 1960ء میں 12.5فیصد سے گر کر 1979ء میں 12.3فیصد پر آ گیا۔ اسی دوران جاپان کا مجموعی حصہ 4.7فیصد سے بڑھ کر 9.2فیصد پر آ گیا۔ خروشیف کی امریکہ کے برابر پہنچنے اور پھر اس کو مات دینے کی تمام شیخی ہوا ہو گئی۔ اس وقت سے لے کر برزینیف کے دور حکومت کے ختم ہونے تک، سوویت یونین کی شرح نمو مسلسل گرتی رہی(گورباچوف کے مطابق ’’جمود کا دور‘‘) اور با لآخر صفر پر جا پہنچی۔اس مقام پر پہنچنے کے بعد افسر شاہی نے جو تھوڑا بہت کبھی کسی زمانے میں ایک ترقی پسند کردار ادا کیا تھا، وہ بھی ختم ہو گیا۔ یہ وہ وجہ تھی جس کی بنیاد پر سوویت یونین بحران کا شکار ہو گیا۔ ٹیڈ گرانٹ وہ واحد مارکس وادی تھا جس نے اس تمام صورتحال سے درست نتائج اخذ کئے۔اس نے تفصیلی طور پر بیان کیا کہ ایک مرتبہ سوویت یونین سرمایہ داری سے بہتر نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہ گیا تو اس کے بعد اس کی بربادی ناگزیر ہے۔ اس کے برعکس، دوسرا ہر رجحان، بورژوازی سے لے کر سٹالنسٹ تک، یہ تناظر پیش کر رہے تھے کہ روس، چین اور مشرقی یورپ کی بظاہر دیو ہیکل آمریتیں سدا بہار رہیں گی۔ سٹالنسٹ افسر شاہانہ رد انقلاب نے مزدور جمہوریت کا مکمل خاتمہ تو کر دیا تھا لیکن اکتوبر انقلاب کے نتیجے میں بننے والے نئے ملکیتی رشتوں کو نہیں چھیڑا تھا۔ آمر افسر شاہی نے اپنی بنیاد قومی منصوبہ بند معیشت کو ہی بنایا اور پیداواری قوتوں کی ترقی میں کچھ نہ کچھ ترقی پسند کردار ادا کیا۔ لیکن بے پناہ ضیاع، کرپشن اور بد انتظامی کی وجہ سے اس ترقی کی قیمت سرمایہ داری کے مقابلے میں تین گنا زیادہ چکانی پڑی۔ اس پہلو پر ٹراٹسکی نے دوسری عالمی جنگ سے بھی پہلے تفصیلی بحث کی جب سوویت یونین کی شرح نمو 20فیصد سالانہ تھی۔

لیکن اپنی تمام تر کامیابیوں کے باوجود سٹالنزم سماج کے مسائل نہیں حل کر سکا۔ حقیقت میں یہ ایک بھیانک تاریخی بگاڑ تھا جو مخصوص تاریخی حالات کی پیداوار تھا۔ سٹالن کے زیر تسلط سوویت یونین بنیادی تضادات کا حامل تھا۔ قومی منصوبہ بند معیشت اور افسر شاہانہ آمریت کا آپسی تضاد تھا۔ یہاں تک کہ پہلے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے سے ہی افسر شاہی بے پناہ ضیاع کا موجب بن گئی تھی۔ یہ تضاد معیشت کی بڑھوتری کے ساتھ کم نہیں ہوا بلکہ اور زیادہ ناقابل برداشت ہوتا گیا، یہاں تک کہ بالآخر نظام مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ 
یہ تمام صورتحال اب واضح ہے۔ لیکن کسی واقعہ کے رونما ہو جانے کے بعد اس کا تجزیہ کر کے دانائی کا پرچار کرنا بہت آسان ہے۔ پہلے سے تاریخی عوامل کی پیشن گوئی کرنا آسان کام نہیں ہے لیکن ٹیڈ گرانٹ نے روس پر اپنے شاندار تجزیات میں یہ تاریخی کارنامہ سر انجام دیتے ہوئے درست طور پر سٹالنزم کے انجام کی پیشن گوئی کی۔ افسر شاہانہ آمریت پر یہ واحد تفصیلی اور درست تجزیہ ہے جبکہ آج بھی سابقہ سوویت یونین کے حالات ایک ایسی ممنوعہ کتاب ہیں جو ہزاروں پردوں میں چھپائی گئی ہے۔

ٹراٹسکی کا تجزیہ

موجودہ تحریر کی بنیاد لیون ٹراٹسکی کی 1936ء کی شاہکار ’’انقلاب سے غداری‘‘(The Revolution Betrayed)ہے جو آج بھی اپنی پوری افادیت کے ساتھ سوویت یونین کے حوالے سے ایک اہم مشعل راہ ہے۔ کوئی بھی شخص اگر یہ جاننا چاہتا ہے کہ روس میں کیا ہوا تھا تو اس کیلئے اس عظیم مارکسی تجزیئے کو پڑھنا اور سمجھناناگزیر ہے۔ لیکن ٹراٹسکی نے قابل فہم وجوہات کی وجہ سے سوویت ریاست کا حتمی اور مکمل تجزیہ کرنے کے بجائے اس سوال کو آنے والی نسلوں کیلئے چھوڑ دیا کہ بالآ خر سوویت یونین کا انجام کیا ہو گا۔عظیم مارکسی استاد یہ بات بخوبی سمجھتا تھا کہ سوویت یونین کا حتمی فیصلہ زندہ قوتوں کے درمیان جدوجہد پر ہو گا جو کہ پھر ناگزیر طور پر عالمی صورتحال سے جڑی ہوئی تھیں:اس صورتحال کی پہلے سے پیشن گوئی کرنا ناممکن ہے۔ درحقیقت، جس طرح سے دوسری عالمی جنگ آگے بڑھی اور اس کے بعد جو دنیا تشکیل پائی اس نے سوویت یونین کے انجام پر ناقابل فراموش اثرات ڈالے جن کا کوئی بھی شخص قبل از وقت تجزیہ نہیں کر سکتا تھا۔ ٹراٹسکی نے لکھا تھا:

’’اس وقت یہ کہنا نا ممکن ہے کہ معاشی تضادات اور سماجی خلفشارسوویت یونین کو اگلے تین، پانچ یا دس سالوں میں کہاں لے جائیں گے۔ حتمی نتیجے کا انحصارزندہ سماجی قوتوں کی جدوجہد پر ہے۔۔قومی سطح پر نہیں بلکہ عالمی سطح پر۔ اسی لئے ہر نئے مرحلے پر حقیقی رشتوں اور رجحانات کے باہمی اور مستقل تعلقات کا ٹھوس تجزیہ ناگزیر ہے۔‘‘

ٹراٹسکی نے احتیاط سے سوویت یونین کے سوال کو آنے والی نسلوں کیلئے چھوڑ دیا۔ اس کی یہ پیشین گوئی کہ سٹالنسٹ افسر شاہی کو اپنی مراعات کو قائم ودائم رکھنے کیلئے ’’ناگزیر طور پر مستقبل میں (سرمایہ دارانہ)ملکیتی رشتوں پر انحصار کرنا پڑے گا،‘‘ آج درست ثابت ہو چکی ہے۔ جس مکروہ اور گھٹیا انداز میں کمیونسٹ پارٹی کی قیادت، منیجروں اور افسروں نے اپنے پارٹی کارڈ پھاڑ کر کھلے عام اپنے آپ کو ’’کاروباریوں‘‘ میں تبدیل کر دیا، ایسے جیسے کوئی شخص ٹرین میں اپنی نشست تبدیل کرتا ہے، یہ دکھانے کیلئے کافی ہے کہ سٹالنسٹ آمریت حقیقی سوشلزم سے کتنی دور تھی۔ٹراٹسکی کو امید نہیں تھی کہ سٹالنسٹ آمریت اتنا طویل عرصہ قائم رہ جائے گی۔ یہ سچ ہے کہ اپنے آخری شاہکار ’’سٹالن‘‘ میں اس نے کہا تھا کہ ہو سکتا ہے یہ آمریت کئی دہائیاں قائم رہ جائے لیکن اس کے قتل تک یہ کتاب نامکمل تھی اور وہ اس خیال کو مزید نکھارنہیں پایا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین انتہائی طاقت ور بن کر ابھرا۔ سٹالنسٹ آمریت جو ٹراٹسکی کے مطابق ایک تاریخی بگاڑ تھی، کئی دہائیاں قائم رہی۔ ان حالات کا ہر عمل پر بے پناہ اثر پڑا، خاص طور پر عوام اور بذات خود افسر شاہی پر۔ 

ٹراٹسکی کو امید تھی کہ سٹالنسٹ آمریت محنت کشوں کے سیاسی انقلاب کے نتیجے میں ختم ہو جائے گی۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو اس نے اس امکان کو رد نہیں کیا کہ ایک مخصوص مرحلے پر افسر شاہانہ رد انقلاب ،اکتوبر انقلاب کے وضع کئے گئے ملکیتی رشتوں کو اکھاڑ پھینکے گا:

’’رد انقلاب اس وقت رونما ہوتا ہے جب ترقی پسند سماجی فتوحات کا شیرازہ بکھرنا شروع ہو جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ٹوٹ پھوٹ کا عمل کبھی ختم نہیں ہو گا۔ لیکن انقلاب کی فتوحات کی کچھ باقیات ہمیشہ زندہ رہ جاتی ہیں۔ اسی لئے ، افسر شاہی کے خوفناک مسخ شدہ اثرات کے باوجود، سوویت یونین کی طبقاتی بنیاد پرولتاریہ ہی ہے۔لیکن یہ بات ہمارے ذہن میں ہونی چاہیئے کہ شیرازہ بکھرنے کا عمل مکمل نہیں ہوا اور اگلی چند دہائیوں میں یورپ اور باقی دنیا کے مستقبل کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روسی تھرمیڈور (رد انقلاب) سے بورژوا حکمرانی کا ایک نیا باب شروع ہو جاتا اگر یہ حکمرانی باقی ساری دنیا میں متروک نہ ہو چکی ہوتی۔ بہرحال،یہ (ردانقلاب) مساوات کے خلاف جدوجہد اور انتہائی گہری سماجی تفریق کو قائم کرنے کی کوشش سے فی الحال عوامی ذہنوں سے سوشلسٹ شعور یا ذرائع پیداوار اور زمین کی قومی ملکیت کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے جو کہ انقلاب کی بنیادی سوشلسٹ حاصلات تھیں۔ اگرچہ افسر شاہی ان کامیابیوں کو رسوا کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ابھی تک انہوں نے ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کی بحالی کی ہمت نہیں کی۔‘‘

روس میں سرمایہ داری کی بحالی اور اس کے مضر اثرات پر ٹراٹسکی نے 1936ء میں حیرت انگیز درستگی کے ساتھ پیشین گوئی کی:

’’سوویت آمریت کے انہدام کا ناگزیر نتیجہ منصوبہ بند معیشت کا انہدام ہو گا اور اس کے ساتھ ہی ناگزیر طور پر ریاستی ملکیت منہدم ہو جائے گی۔ اس میں موجود ٹرسٹوں اور فیکٹریوں کے درمیان آپسی مجبوریاں ختم ہو جائیں گی۔ زیادہ کامیاب ادارے آزاد اور فعال ہوکر آگے بڑھنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اسٹاک کمپنیوں میں تبدیل کر دیں یا پھر کوئی عبوری شکل اختیار کر لیں۔مثال کے طور پر ایک ایسا ادارہ جس میں ملازمین منافعوں میں حصے دار ہوں۔ ساتھ ہی ساتھ اشتراکی زرعی اراضی کا بھی زیادہ آسانی سے شیرازہ بکھر جائے گا۔ یعنی موجودہ افسر شاہانہ آمریت کے ختم ہونے کے بعد اگر کوئی نئی سوشلسٹ طاقت اقتدار میں نہیں آتی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ سرمایہ دارانہ ملکیتی رشتے دوبارہ بحال ہو جائیں گے، جس کے صنعت اور ثقافت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘

ٹراٹسکی کے تمام تر تجزئیے میں جو بات نمایاں ہے، وہ یہ ہے کہ کس شاندار انداز میں اس نے روس میں رونما ہونے والے حقیقی واقعات کے عمومی دھاروں کی نشاندہی کی۔ ٹراٹسکی کے ٹھوس اور واضح تجزئیے کے برعکس ہم نام نہاد ’’ریاستی سرمایہ داری‘‘ کے نظریے کی تھیوری کو عملی طور پر دیوالیہ ہوتے دیکھتے ہیں جو اپنی مختلف اشکال میں کئی دہائیاں مختلف انتہائی بائیں بازو کے فرقوں کے دماغوں پر چھائی رہی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ٹیڈ گرانٹ نے ٹراٹسکی کے پرولتاری بوناپارٹزم کے تجزئیے کو مزید نکھارتے ہوئے آگے بڑھایا، خاص طور پر ’’ریاست کا مارکسی تجزیہ‘‘(The Marxist Theory of State)میں، جس میں اس نے روس میں ریاستی سرمایہ داری کے نظریے کو مکمل طور پر غلط ثابت کیا۔ 

اس’’ تھیوری‘‘ کے مطابق، سوویت یونین میں بہت عرصہ پہلے ہی سرمایہ دار ی آچکی تھی۔ پھر کیوں محنت کش، ریاستی ملکیت (ریاستی سرمایہ داری)کی پرانی شکلوں کی نووارد بورژوازی کے خلاف حفاظت کریں جبکہ دونوں میں کوئی فرق موجود نہیں ہے؟ بحث کی اس طرز نے محنت کشوں کو در پیش سرمایہ دارانہ رد انقلاب کے سامنے مکمل طور پر غیر مسلح کر دینا تھا جو ایک واضح مثال ہے کہ کس طرح ایک غلط تھیوری حتمی طور پر عمل کے میدان میں تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔سٹالنزم کے بحران کا سرمایہ داری کے بحران(یا’’ریاستی سرمایہ داری کے بحران‘‘) سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ سرمایہ داری کا بحران منڈی کے انتشار اور نجی ملکیت کا نتیجہ ہے۔ لیکن سوویت یونین میں زائد پیداوار کا بحران تو تھا ہی نہیں کیونکہ وہ قومی منصوبہ بند معیشت پر استوار تھا حالانکہ اسے افسر شاہی، کرپشن اور بد انتظامی کا گھن لگا ہوا تھا۔یہاں پر یہ بات کرنا بھی ضروری ہے کہ قومی ریاست کا کردار کتنا محدود ہو کر رہ گیا ہے جو اپنی افادیت کھو کر اب پیداواری قوتوں کے پیروں میں دیو ہیکل زنجیر بن چکی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر ملک ،چاہے وہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہی کیوں نہ ہو، عالمی منڈی میں حصہ داری پر مجبور ہے۔ اس کی مارکس نے پہلے ہی پیشن گوئی کر دی تھی۔ اور یہی وہ وجہ ہے کہ ایک ملک میں سوشلزم کا خیال صرف ایک رجعتی یوٹوپیا ہے۔

سوشلزم کی مکروہ شکل

روس میں جو ناکام ہوا وہ مارکس یا لینن کا وضع کردہ سوشلزم یا کمیونزم نہیں تھا بلکہ اس کی ایک بگڑی ہوئی مکروہ افسر شاہانہ شکل تھی۔ لینن نے تفصیلی بیان کیا ہے کہ سوشلزم کی جانب بڑھنے کیلئے ضروری ہے کہ صنعت، سماج اور ریاست کا جمہوری کنٹرول پرولتاریہ کے ہاتھوں میں ہو۔ حقیقی سوشلزم مراعات یافتہ افسر شاہی کی عین ضد ہے جس کے ساتھ ناگزیر طور پر دیو ہیکل کرپشن، اقربا پروری، بد انتظامی، ضیاع اور انتشار جڑا ہوا ہے۔سوویت یونین اور مشرقی یورپ نے قومی منصوبہ بند معیشتوں کے تحت صنعت، سائنس، صحت اور تعلیم میں حیران کن ترقی کی۔لیکن ٹراٹسکی نے 1936ء میں ہی پیشین گوئی کر دی تھی کہ افسر شاہانہ آمریت قومی منصوبہ بند معیشت کو برباد کرتے ہوئے اوراس کے انہدام کا باعث بنتے ہوئے سرمایہ داری کی بحالی کی راہیں ہموار کرے گی۔

اکتوبر انقلاب اور اس کے بعد انسانی تاریخ کے سب سے بڑے اور پہلے منصوبہ بند معیشت کے تجربے کاکیا حساب کتاب ہے؟ اس حساب کتاب کے انسان کے مستقبل پر کیا اثرات ہیں؟ اور ان سب سے کیا نتائج اخذ کرنے چاہئیں؟ پہلا نتیجہ تو بذات خود واضح ہونا چاہیئے۔ آپ اکتوبر انقلاب کے حامی ہیں یا مخالف،اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس ایک واقعے نے عالمی تاریخ کا دھارا ہمیشہ کیلئے بدل کر رکھ دیا۔ پوری بیسویں صدی اس کے نتائج کے زیر اثر رہی۔ اس حقیقت کا اعتراف سب سے رجعتی تجزیہ نگار اور اکتوبر انقلاب کے دائمی مخالفین بھی کرتے ہیں۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ راقم اکتوبر انقلاب کا اٹل محافظ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ تھا۔ میں ایسا کیوں کہتا ہوں؟ کیونکہ تاریخ میں پہلی مرتبہ، اگر ہم شاندار لیکن عارضی پیرس کمیون کے واقعے کو چھوڑ دیں، کروڑوں عام مردوں اور عورتوں نے استحصالی طبقے کو اکھاڑ پھینکا، اپنی قسمت کے فیصلے اپنے ہاتھوں میں لے لئے اور کم از کم سماج کو تبدیل کرنے کے کام کا آغاز کیا۔ یہ کام اگر مخصوص حالات کے جبر میں ایسے راستے پر چل نکلا جو انقلاب کے قائدین کے تصور میں بھی نہیں تھا تو اس سے اکتوبر انقلاب کے نظریات باطل نہیں ہو جاتے اور نہ ہی سوویت یونین کی 70سالہ حاصلات کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔

سوشلزم کے دشمن نخوت سے جواب دیتے ہیں کہ یہ تجربہ ناکام ہو گیا۔ ہم عظیم فلسفی سپائنوزا کے الفاظ میں جواب دیتے ہیں کہ ہمارا کام رونا یا ہنسنا نہیں بلکہ سمجھنا ہے۔ لیکن سوویت یونین میں آخر ہوا کیا تھا، یہ جاننے کیلئے سوشلزم کے تمام بورژوا دشمنوں کی تحریروں کو کنگھالنا بے سود اور وقت کا ضیاع ہے۔ ان کے نام نہاد تجزیات سائنسی بنیادوں سے عاری ہیں کیونکہ ان کا محرک وہ اندھی نفرت ہے جو ان کے طبقاتی مفادات کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ فرسودہ روسی بورژوازی نہیں تھی ،جو اکتوبر 1917ء کے انقلاب میں تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دی گئی تھی، بلکہ قومی منصوبہ بند معیشت تھی جو روس کو جدید دور میں کھینچ کرلائی،فیکٹریوں، سڑکوں اور سکولوں کی تعمیر کی، مردوں اور عورتوں کو لکھایا پڑھایا، ذہین سائنس دان پیدا کئے، وہ فوج بنائی جس نے ہٹلر کو شکست فاش دی اور پہلا انسان خلا میں بھیجا۔

افسر شاہی کے جرائم کے باوجود سوویت یونین تیزی کے ساتھ ایک پسماندہ، نیم جاگیردارانہ معیشت سے ایک جدید ترقی یافتہ ریاست میں تبدیل ہو گیا۔ حتمی طور پر افسر شاہی کی سوویت ریاست کی بے پناہ لوٹ مار سے حاصل کی گئی دیو ہیکل دولت اور مراعات سے تسلی نہیں ہوئی۔ جیسا کہ ٹراٹسکی نے پیشن گوئی کی تھی، وہ سرمایہ داری کی بحالی کی طرف گئے اور اپنے آپ کو ایک طفیلی حکمران طبقے میں تبدیل کر لیا۔سرمایہ داری کی طرف واپسی کا مطلب روس اور سوویت یونین کے سابقہ ممالک کی عوام کیلئے ایک بہت بڑی شکست ہے۔ سماج پچھڑ گیا اور اسے سرمایہ دارانہ تہذیب کی نعمتوں سے متعارف ہونا پڑا: مذہب، جسم فروشی، منشیات اور سرمایہ داری کی دیگر ’’نعمتیں۔‘‘ فی الحال پیوٹن کی آمریت نے اپنے آپ کو مستحکم کر لیا ہے۔ لیکن طاقت کا دکھاوا ایک دھوکہ ہے۔ روسی سرمایہ داری، روسی پریوں کی کہانیوں میں ایک جھونپڑی کی طرح، مرغی کی ٹانگوں پر کھڑی ہے۔ روسی سرمایہ داری کا کمزور پہلو یہ ہے کہ اب وہ ایک اٹوٹ زنجیر کے ساتھ عالمی سرمایہ داری کی قسمت سے جڑی ہوئی ہے۔اس پر ایک ایسے نظام کے تمام طوفانوں اور دباؤ کے اثرات ہیں جو خود دائمی بحران میں مبتلا ہے۔ اس کے روس پر گہرے سیاسی اور معاشی اثرات مرتب ہوں گے۔ جلد یا بدیر، روسی محنت کش طبقہ اس اعصاب شکن شکست کے صدمے سے باہر آئے گا اورمتحرک ہو گا۔ جب وہ ایسا کرے گا تو وہ فوراً سے پہلے اکتوبر انقلاب اور حقیقی بالشویزم کے نظریات سے روشناس ہو گا۔ یہی وہ واحد راستہ ہے جو روس اور پوری دنیا کے محنت کشوں کے سامنے پوری آب و تاب کے ساتھ کھلا ہے۔

Comments are closed.